• 23 جولائی, 2025

ختم نبوت (قسط 3)

تبرکات حضرت میر محمد اسحاق

اب دیکھو لو کہ کوئی نبی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کے بغیر نبی ثابت نہیں ہو سکتا۔ ہم آدم سے لے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تک بہت سے انسانوں کو بلاتکلف نبی مان رہے ہیں لیکن اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ قرآن نہ آیا ہوتا تو کیا ہم ان کو نبی کہہ سکتے تھے۔ ہرگز نہیں۔ کیا حضرت نوحؑ، حضرت موسٰیؑ، حضرت عیسٰیؑ وغیرہ انبیاء کی طرف جو کتابیں منسوب کی جاتی ہیں ان کو پڑھ کر ہم انہیں نبی مان سکتے ہیں۔ نہیں۔ بلکہ قرآن کریم کہتا ہے کہ وہ نبی ہیں اس لئے ہم انہیں نبی مانتے ہیں۔ پس صاف طور پر یہ ثابت ہو گیا کہ کوئی نبی نبی نہیںمانا جا سکتا جب تک کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس کی تصدیق نہ کریں۔ پس خَاتَم النبیین کے یہ معنی ہوئے کہ کوئی نبی ثابت نہیں ہو سکتا مگر وہی جس کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تصدیق کریں۔

اب دیکھئے یہ معنی اپنی جگہ پر چسپاں ہوتے ہیں یا نہیں۔ اعتراض یہ پڑتا تھا کہ محمدؐ (صلی اللہ علیہ وسلم) باپ نہیں رہا۔ اس لئے کہ اس کی نبوت باطل ہو گئی۔ فرمایا رَسُوْلَ اللّٰہِ۔ یہ تو اللہ کا رسول ہے۔ اس سے آپؐ کی رسالت کا اثبات کیا اور آگے فرمایا اور یہ تو خَاتَمَ النَّبِیِّیْن ہے یعنی اس کی رسالت کا یہ ثبوت ہے کہ کسی ایک نبی کی بھی رسالت کا کوئی ثبوت نہیں ہے جب تک یہ نہ کہہ دے کہ فلاں نبی ہے۔ یہ معنی کس عمدگی کے ساتھ یہاں چسپاں ہوتے ہیں۔

غور کیجئے کیا کوئی انسان کہہ سکتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جس کو نبی نہیں کہا میں اس کو نبی ماننے کے لئے تیار ہوں۔ ہرگز نہیں۔ دور جانے کی ضرورت نہیں۔ قریب ہی کے نبی حضرت عیسٰیؑ ہیں۔ کیا اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کی نبوت کی تصدیق نہ کرتے تو وہ نبی مانے جا سکتے تھے۔؟ ہرگز نہیں۔

تو اس آیت میں خداتعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کیسا اعلیٰ درجہ بیان فرمایا ہے۔

مخالفین پر حجت

ان معنوں کو جو لوگ تسلیم نہیں کرتے وہ دو قسم کے ہیں۔ ایک تو وہ جو کہتے ہیں کہ حضرت مرزا صاحب اپنے دعاوی میں راستباز نہیں۔ اور دوسرے وہ جو آپ کو مجدد تو مانتے ہیں مگر اس آیت کے معنی وہی کرتے ہیں جو حضرت مرزا صاحب کو جھوٹا کہنے والے کرتے ہیں۔ اس لئے میں ان معنوں کی تصدیق میں دو قول پیش کروں گا۔ ایک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اور دوسرا حضرت مرزا صاحب کا تاکہ جو لوگ حضرت مرزا صاحب کو سچا ماننے والے ہیں ان پر آپ کا قول حجت ہو اور جو نہیں مانتے ان کے نزدیک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سچے ہیں۔ ان پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا قول حجت ہو۔

خاتم النبیین کے معنی آنحضرتؐ نے کیا سمجھے

دیکھئے اگر اس آیت کے یہ معنی کئے جائیں کہ آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبی آنے بند ہو گئے ہیں تو یہ ضروری اور لازمی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اس کا علم ہو۔ لیکن احادیث سے ثابت ہے کہ آپ یہ نہ سمجھتے تھے کہ میں نبوت کے دروازہ کو قفل لگانے آیا ہوں۔ 4ھ میں یہ آیت نازل ہوئی ہے اور بقول ان لوگوں کے جو کہتے ہیں کہ آنحضرتؐ کے بعد نبی آنے بند ہو گئے۔ اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کہا گیا کہ تم نبیوں کو بند کرنے والے ہو۔ اب چاہئے تھا کہ آپؐ اس کے بعد کوئی ایسا اشارہ یا لفظ نہ فرماتے جس سے یہ نکلتا کہ آپ کے بعد بھی کوئی نبی ہو سکتا ہے۔ لیکن ثابت اس کے برخلاف ہوتا ہے۔ چنانچہ حضرت ماریہ قبطیہؓ کے بطن سے جو آنحضرتؐ کے ہاں لڑکا پیدا ہوا جس کا نام ابراہیم رکھا گیا ستر دن کے بعد فوت ہو گیا۔ (سیرۃ النبیؐ از شبلی نعمانی تخریج شدہ ایڈیشن حصہ دوم ص717) تو آپؐ نے اس کا جنازہ پڑھا اور فرمایا۔ لَوْ عَاشَ لَکَانَ صِدِّیْقًا نَبِیًّا (سنن ابن ماجہ کتاب الجنائز) کہ اگر ابراہیم زندہ رہتا تو نبی ہوتا۔ لیکن اگر آپ سمجھتے کہ میرے بعد نبی ہونا بند ہو گئے ہیں تو پھر یہ کبھی نہ کہتے بلکہ یوں فرماتے کہ باوجود اس کے کہ ابراہیم معصوم تھا اور میرا لخت جگر تھا اور اس کی بڑی شان تھی۔ لیکن اگر زندہ رہتا تو بھی نبی نہ ہوتا کیونکہ اب کوئی نبی نہیں ہو سکتا۔ مگر آپؐ فرماتے ہیں کہ اگر ابراہیم زندہ رہتا تو نبی ہوتا۔ اگر نبی ہونا بند ہو گیا تھا تو کیا نعوذ باللہ آپؐ نے جھوٹ کہا۔ مگر نہیں آ پؐ کی شان اس سے بہت اعلیٰ و ارفع ہے۔ آپؐ نے بالکل سچ کہا۔ پس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابراہیم کے متعلق در صورتِ زندگی امکانِ نبوت بتا کر ثابت کر دیا کہ نبوت کا دروازہ کھلا ہے۔

لفظ لَوْ کی بحث

اس حدیث کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہاں لَوْ کا لفظ ہے اور یہ ناممکن بات کے لئے آیا کرتا ہے۔ مگر یہ کہنا عربی زبان سے محض ناواقف ہونے کی وجہ سے ہے کیونکہ عربی میں لَوْ پہلے جملہ کے ناممکن ہونے کے لئے آیا کرتا ہے جیسے خداتعالیٰ فرماتا ہے لَوْکَانَ فِیْھِمَآ اٰلِھَۃٌ اِلَّا اللّٰہُ لَفَسَدَتَا (الانبیاء:23) کہ اگر دو خدا ہوتے اللہ کے سوا تو ضرور فساد ہو جاتا۔ اب یہ ناممکن ہے کہ ایک سے زیادہ خدا ہوں۔ ہاں یہ ممکن ہی نہیں بلکہ ضروری ہے کہ دو خداؤں کے ہونے کی صورت میں فساد ہو جائے۔ اسی طرح اس حدیث میں پہلا جملہ یہ ہے اگر ’’ابراہیم زندہ رہتا‘‘ یہ ناممکن ہے کیونکہ وہ وفات پا چکا تھا اور دوسرا جملہ یہ ہے ’’تو ضرور نبی ہوتا‘‘ یہ ممکن ہے اور ضرور وہ نبی ہوتا اگر زندہ رہتا۔ تو ہمارا استدلال پہلے جملہ سے نہیں بلکہ دوسرے سے ہے اور دوسرا ناممکن نہیں بلکہ واجب ہے۔
پس اس سے معلوم ہو گیا کہ ابراہیم کے نبی ہونے میں اس کی موت روک ہو گئی نہ کہ آیت خاتم النبیین۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسا کہ ایک سکول ہے اس میں تعلیم پانے والا لڑکا بیمار ہو گیا۔ اس کے بیمار ہونے کی حالت میں گورنمنٹ اس سکول کو بند کر دیتی ہے اور وہ لڑکا مر جاتا ہے۔ کیا ایسی حالت میں کوئی کہہ سکتا ہے کہ اگر فلاں لڑکا زندہ رہتا تو اس سکول میں پڑھتا۔ ہرگز نہیں۔ کیونکہ جب سکول ہی بند ہو گیا تو وہ کہاں پڑھ سکتا تھا۔ اسی طرح اگر آیت خاتم النبیین نبی بننے میں ایسی روک تھی جو کبھی ہٹ نہیں سکتی تھی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کیوں فرمایا کہ اگر ابراہیم زندہ رہتا تو نبی ہوتا۔ فرض کرو کہ اگر ابراہیم زندہ ہی رہتا ۔ تو پھر کیا بنتا۔ کیا وہ نبی نہ ہوتا۔ تو نعوذ باللہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جھوٹ کہا۔ لیکن یہ بات ہی غلط ہے کہ آیت خاتم النبیین کسی کے نبی بننے میں روک ہے۔

پس وہ لوگ جو سلسلہ احمدیہ میں داخل نہیں ہیں ان پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ قول حجت ہے۔ انہیں غور کرنا چاہئے اور دیکھنا چاہئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت کے متعلق کیسا صاف فیصلہ فرما دیا ہے۔

خاتم النبیین کے معنی حضرت مرزا صاحب کے نزدیک

باقی رہے وہ لوگ جو حضرت مرزا صاحب کو راستباز تو مانتے ہیں لیکن اس آیت کے وہی معنی کرتے ہیں جو آپ کو جھوٹا کہنے والے کرتے ہیں۔ ان کے سامنے میں حضرت مرزا صاحب کا یہ حوالہ رکھتا ہوں۔ آپؑ خطبہ الہامیہ میں تحریر فرماتے ہیں:۔
’’وَ اَنَا خَاتَمُ الْاَوْلِیَاءِ۔ لَاوَلِیَّ بَعْدِیْ اِلَّا الَّذِیْ ھُوَ مِنِّیْ وَ عَلٰی عَھْدِیْ (خطبہ الہامیہ۔ روحانی خزائن جلد 16صفحہ10) (یعنی) میں خاتم الاولیاء ہوں میرے بعد کوئی ولی نہیں۔ مگر وہ جو مجھ سے ہو گا اور میرے عہد پر ہو گا‘‘۔

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 23 دسمبر 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 24 دسمبر 2020