بنگلہ دیش ان خوش نصیب ممالک میں سے ایک ہے جہاں احمدیت کا آغاز حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں ہی ہوگیا تھا اور آج احمدیت کی ایک مضبوط شاخ اس ملک میں موجود ہے۔ اس مضمون میں بنگلہ دیش کے ابتدائی احمدیوں میں سے تین بزرگان کا تذکرہ کیا جا رہا ہے، اتفاق سے یہ تینوں احمدی بزرگ ملازمت کے سلسلے میں برطانوی ہندوستان کے علاقہ برما (موجودہ میانمار) میں تھے جہاں احمدیت کا تعارف ہوا اور پھر اس کو قبول کرنے کی توفیق ملی۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ برما میں تبلیغ احمدیت کے حوالے سے حضرت ملک نور الدین صاحب رضی اللہ عنہ آف ہجکہ ضلع سرگودھا (وفات: 1926ء) کو خاص خدمت کی توفیق ملی بلکہ آپ کے بارے میں لکھا ہے : ’’برہما میں احمدیت کا بیج بونے والے یہی صاحب تھے۔‘‘ (الفضل 3؍دسمبر 1926ء صفحہ 7) بنگلہ دیش کے ان تین اصحاب میں سے ایک نے آپ کا ذکر بھی کیا ہے کہ آپ کے ذریعے حلقہ احمدیت میں داخل ہوا۔ بہر کیف ان تینوں اصحاب کا مختصر احوال ذیل میں درج کیا جاتا ہے۔
حضرت مولوی رئیس الدین صاحب رضی اللہ عنہ
حضرت مولوی رئیس الدین صاحب رضی اللہ عنہ ساکن ناگر گاؤں ضلع میمن سنگھ نہایت مخلص احمدی تھے۔ آپ نے 1921ء میں وفات پائی، آپ کی وفات پر بنگلہ دیش کے مخلص بزرگ محترم چودھری ابو الھاشم خان صاحب (بیعت: 1914ء۔ وفات: 17؍جون 1946ء) نے لکھا:
’’مولوی رئیس الدین صاحب ساکن ناگر گاؤں ضلع میمن سنگھ رحلت فرما گئے، انا للہ و انا الیہ راجعون ….. مرحوم احمدی سلسلہ کے اولیاء اللہ میں سے تھے۔ حضور اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے دست مبارک پر بیعت کرنے والوں میں شامل تھے۔ اپنے احمدی ہونے کا واقعہ جو مرحوم نے مجھے سنایا تھا، مختصرًا یوں ہے کہ آپ برہما کے ایک گاؤں میں پوسٹ ماسٹر تھے اور اس گاؤں کی مسجد کے متولی بھی۔ اتفاقًا دو پنجابی سپاہی احمدی اس مسجد میں نماز کے لیے پہنچ گئے۔ بعد نماز ان احمدی سپاہیوں نے امام مسجد اور متولی یعنی مرحوم مولوی رئیس الدین صاحب کو تبلیغ شروع کی۔ متولی صاحب کو غصہ آیا اور احمدی سپاہیوں کو دھکے دے کر مسجد سے نکال دیا۔ دوسرے روز دونوں احمدی سپاہی متولی صاحب کے پاس پہنچے اور بڑے ادب سے عرض کیا کہ جناب نے کل ہم کو بغیر ہماری بات سنے مسجد سے نکال دیا، ذرہ یہ چند رسالے تو ملاحظہ فرمائیں۔ متولی صاحب اور امام مسجد جو ایک وہابی مولوی تھے، دونوں نے جب وہ رسالے دیکھے تو دلائل سے بہت متاثر ہوئے۔ متولی صاحب مولوی صاحب مذکور سے دلائل اور حوالجات کے متعلق پوچھتے جاتے تھے اور مولوی صاحب ان کی صحت کا اقرار کرتے جاتے تھے۔ اس پر شوق بڑھا پھر اور کتابیں منگائیں اور مولوی صاحب کی مدد سے ملاحظہ کرتے رہے۔ آخر مولوی صاحب تو کہیں بھاگ گئے مگر متولی صاحب یعنی مرحوم مولوی رئیس الدین لبیک کناں دربار مسیح موعودؑ میں قادیان حاضر ہوگئے اور پندرہ دن قیام کر کے اور حضور مسیح موعود کے دست مبارک پر شرف بیعت حاصل کر کے واپس وطن پہنچے اور ایک زمانہ تنہا اور خاموش رہے کہ اچانک مولانا سید عبدالواحد صاحب نے برہمن بڑیہ میں کھڑے ہوکر بشارت مسیح موعود کی صدا بلند کی۔ ملک میں ایک شور پڑ گیا۔ مرحوم مولوی رئیس الدین نے بھی تبلیغ شروع کی اور خدا کے فضل سے اپنے گاؤں اور اس کے نواح میں ایک اچھی جماعت قائم کر لی۔
ان واقعات میں خدا کی قدرت کا ایک عجیب نظارہ ہے کہ کس طرح دور دراز ملک کے ایک گاؤں میں خدا تعالیٰ نے ایک سعید روح کو اپنے پیارے مامور کے قدموں میں پہنچایا، پھر بہادر احمدی سپاہیوں کی طرز تبلیغ بھی قابل ملاحظہ ہے جو آخر اپنا رنگ دکھلا کر رہی ….‘‘
(الفضل 10؍اکتوبر 1921ء صفحہ6کالم 3)
حضرت بابو نور الدین صاحب
حضرت بابو نور الدین صاحبؓ کا تعلق بھی ضلع میمن سنگھ (Mymensingh) سے تھا۔ آپ برما کے شہر مگوے (Magway) میں پوسٹ ماسٹر تھےجہاں حضرت ملک نور الدین صاحب رضی اللہ عنہ آف ہجکہ کے ذریعے احمدیت کی حقیقت کا علم ہوا جو قبولیت پر منتج ہوا، آپ خود اپنے ایک خط میں لکھتے ہیں:
’’السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ۔ بعد از عجز و انکسار بے پایاں عرض پرداز ہوں کہ میں ملک بنگالہ ضلع میمن سنگھ کا رہنے والا ہوں اور اس وقت ضلع مگوے ملک برہما میں پوسٹ ماسٹر ہوں۔ افسوس کہ بہ سبب دوری کے مدت دراز کے بعد امام اقدس کی پہچان کی توفیق ملی، افسوس پر افسوس یہ ہے کہ سابقین میں داخل نہ ہوسکا تس پر بھی ہزار ہزار شکر پروردگار عالم کا بجا لاتا ہوں کہ اب بھی اُس نے اپنے فضل اور کرم سے مجھے بے نصیب نہ چھوڑا اور امام بر حق کی پہچان کی ہدایت کی اور گروہ نا ہنجار سے نکال کر کنار عافیت میں لایا۔ اور کنار عافیت پر پہنچنے کی وجہ یہ ہے کہ مولوی ثناء اللہ امرتسری کی اخبار اہل حدیث جو کہ مولوی محمد عثمان صاحب حال وارد مگوے کے پاس آتی ہے، مجھے دیکھنے کو ملی، اس میں جس قدر گندے مضمون مخالفت کے پڑھے تو دل میں یہ خیال آیا کہ اس کا جواب بھی دیکھا جائے، تس پر حوالدار نور الدین ملازم ملٹری پولیس سے الحکم لے کر مقابلہ کیا اور ہر وقت یہی شغل رکھا اور بہت سے پرانے الحکم اور چند کتابیں نور الدین مذکور سے ملیں۔ اس کوشش میں خدا کے فضل سے جھوٹے کا منہ کالا نظر آگیا اور امام بر حق کا حق پر ہونا ثابت ہوگیا ، اس واسطے مدعا نگار ہوں کہ از راہ کرم اس عاجز کو بھی سلک خدام میں جگہ دے کر سرفراز فرماویں کیونکہ زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں۔‘‘
(بدر 25؍ جولائی 1907ء صفحہ3 کالم 3)
حضرت احمد کبیر نور محمد احمدی صاحب
حضرت احمد کبیر نور محمد احمدی صاحب بھی بنگلہ دیش کے ابتدائی مخلصین میں سے ایک تھے۔ آپ بھی پوسٹ آفس میں ملازم تھے اور ملازمت کے حوالے سے بنگلہ دیش اور برما دونوں علاقوں کے ساتھ آپ کا ذکر ملتا ہے۔ قبول احمدیت کے بعد اس کی تبلیغ میں کوشاں رہے، ایک مرتبہ آپ نے حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں درج ذیل عریضہ بھجوایا:
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم نحمدہٗ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم
حضرت اقدس مسیح موعود و مہدی مسعود علیہ الصلوٰۃ و السلام مد فیضہٗ
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ
التجا یہ ہے کہ گذشتہ 13؍رمضان المبارک یعنی 22؍اکتوبر بمقام کرشن کانت باٹھ موضع بندر تھانہ انوارا ضلع چاٹگام (پورب بینگال) حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی موت کے مسئلہ پر ایک جلسہ بحث کا قرار پایا تھا۔ حضور فیض گنجور کی جانب سے یہ عاجز مباحث تھا، فریق ثانی کی طرف سے مباحث مولوی اشرف علی مدرس مدرسہ محسنیہ چاٹگام مقرر ہوا تھا جہاں مولوی معین الدین و مولوی منور علی ، مولوی افاض اللہ، مولوی عبدالسبحان، مولوی تراب الدین، مولوی نور الدین، مولوی خادم علی، مولوی احسن اللہ، مولوی ولی احمد مولوی افاض اللہ ثانی حاضر تھے۔ علاوہ اس کے قریبًا پانچ ہزار آدمیوں کے جمع تھے۔ اخیر بحث میں فریق ثانی شرمندہ ہوئے یعنی مسیح ناصری کے بجسدہ عنصری آسمان پر جانے کی سچی کوئی ثبوت پیش نہ کر سکے۔ بعد ازاں ان مولویوں نے اس عاجز کے نام پر تکفیر فتویٰ لکھ کر کئی سو مولویوں کی مہر کروا کر جگہ جگہ منادی کر دی ہے کہ عاجز کافر و مرتد و ملحد و دجّال ہے۔
یا حضرت عاجز کے لیے دعا فرماویں آج کے روز خاص چاٹگام پر ایک بحث کا جلسہ قرار پایا ہے۔ عاجز بحث کے واسطے جاتا ہے حضور کے دعاوی کے اثبات پر۔ دعا فرماویں۔
حضور کا خادم
احمد کبیر نور محمد احمدی مقام بٹلی پوسٹ آفس انوار ضلع چاٹگام
(بدر 5؍دسمبر 1907ء صفحہ 10 کالم 2)
اسی طرح اخبار الحکم 30؍نومبر 1907ء صفحہ 9 پر آپ کی ایک فارسی نظم بھی چھپی ہوئی ہے جس کے 21 اشعار ہیں، اس نظم کے ساتھ آپ کا ایڈریس 138 Montgomery St. Rangoon لکھا ہے۔ نظم کے چند اشعار اور ان کا ترجمہ ذیل میں دیا جاتا ہے:
ابتدا سازم بنام پاک رب العالمین
مبتلا ماند زبان در وصف ختم المرسلین
حبذا طالع بدنیا یافتم دارالامان
ہاتف غیبی دہد مژدہ جنان القادیان
مہدی دین محمد جلوہ فرما بر زمین
نوبتے آمد کہ از حالات عتق المسلمین
دولت دارین برما شد عیاں از مستتر
مدتے دیریں پسے از پیش گوئی معتبر
یا الٰہی دہ مرا توفیق قبل انھدام
پاک کن چشمم بدیدار مشرف و السلام
ترجمہ:
ابتدا کرتا ہوں رب العالمین کے پاک نام کے ساتھ۔ زبان ختم المرسلین کے وصف میں مشغول ہے۔
کیا ہی خوش قسمت ہوں کہ دنیا میں ہی دار الامان مجھے حاصل ہوگیا ہے اور ہاتف غیبی جنتِ قادیان کی بشارت دے رہا ہے۔
دینِ محمدؐ کا مہدی زمین پر جلوہ فرما ہوگیا ہے اور مسلمانوں کی مصائب حالات سے رہائی کی گھڑی آ گئی ہے۔
دونوں جہاں کی دولت غیب سے ہم پر عیاں ہوگئی ہے، دیر کے بعد معتبر پیشگوئی کے مطابق ایسا ہوا ہے۔
اے میرے خدا! مرنے سے قبل مجھے توفیق دے، میری آنکھ کو بلند مرتبہ دیدار سے پاک کر دے۔
(مرسلہ: غلام مصباح بلوچ)