• 18 جولائی, 2025

جلسہ سالانہ دعاؤں کا خزانہ

حضرت مسیح موعود علیہ الصٰلوۃ والسلام نے جلسہ سالانہ کا آغاز 27 دسمبر 1891ء کو فرمایا اور باقاعدہ جلسہ سالانہ منعقد کرنے کے بارہ میں جو پہلا اشتہار دیا اس میں تحریر فرمایا:
’’…… قرین مصلحت معلوم ہوتا ہے کہ سال میں تین روز ایسے جلسہ کے لئے مقرر کئے جائیں جس میں تمام مخلصین اگر خدا تعالیٰ چاہے بشرط صحت و فرصت و عدم موانع قویہ تاریخ مقررہ پر حاضر ہو سکیں …… حتی الوسع تمام دوستوں کو محض للہ ربانی باتوں کے سننے کے لئے اور دعا میں شریک ہونے کے لئے اس تاریخ پر آجانا چاہئے ……………..‘‘

(مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ302-303)

1892ء کے جلسہ سالانہ کے اشتہار
کو اس دعا پر ختم کیا

’’ہر یک صاحب جو اس للہی جلسہ کے لئے سفر اختیار کریں خدا تعالیٰ ان کے ساتھ ہو اور ان کو اجر عظیم بخشے اور ان پر رحم کرے اور ان کی مشکلات اور اضطراب کے حالات ان پرآسان کر دیوے اور ان کے ہم و غم دور فرماوے اور ان کو ہر یک تکلیف سے مخلصی عنایت کرے اور ان کی مرادات کی راہیں ان پر کھول دیوے اور روز آخرت میں اپنے ان بندوں کے ساتھ ان کو اٹھاوے جن پر اس کا فضل و رحم ہے اور تا اختتام سفر ان کے بعد ان کا خلیفہ ہو ۔اے خدا! اے ڈوالمجد والعطاء اور رحیم اور مشکل کشا یہ تمام دعائیں قبول کر اور ہمیں ہمارے مخالفوں پر روشن نشانوں کے ساتھ غلبہ عطا فرما کہ ہر یک قوت اور طاقت تجھی کو ہے آمین ثم آمین‘‘ … 7 دسمبر 1892ء‘‘

(مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ342)

ان دعاؤں کا دائمی اثر

خلیفہ وقت حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے ایک موقع پر فرمایا ’’.. حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وہ دعائیں تھیں جو آج سے سو سال سے زائد عرصہ پہلے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جلسہ پر آنے والے شاملین کے لئے کیں، قادیان کے جلسہ سالانہ میں شامل ہونے والوں کے لئےکی گئی وہ دعائیں آج دنیائے احمدیت کے ہر ملک میں جہاں جہاں جماعت احمدیہ کے جلسے منعقد ہوتے ہیں اور ہم ان جلسو‌ں کو دیکھتے ہیں تو ان دعاؤں کے اثر بھی اپنے اوپر دیکھتے ہیں۔‘‘

(خطبات مسرور جلد سوم صفحہ530)

اپنی خلافت کے پہلے سال جلسہ سالانہ کے لئے یہی ہدایت دی فرمایا:
’’سب سے اہم دعاہے دعاؤں پر زور دیں جلسہ پر آتے بھی اور جاتے بھی _ دعاؤں سے سفر شروع کریں اور سفر کے دوران بھی دعائیں کرتے رہیں۔‘‘

(خطبہ جمعہ 18 جولائی 2003ء)

حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ

حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ کا یہ طریق تھا کہ اپنے افتتاحی خطاب کو پبلک دعاؤں کے لئے مخصوص رکھتے تھے اسی طرح آپ کے خطبات اور اجتماعات کے خطابات بھی طرح طرح کی دعاؤں سے آراستہ ہوتے تھے

چند مثالیں درج ذیل ہیں:

جلسہ سالانہ 1979ء

’’ہم دعاؤں کے ساتھ اس جلسہ کو شروع کرتے ہیں ہم دعائیں کرتے ہوئےاس جلسےکے ایام کو گزارتے ہیں اور دعاؤں پر اس جلسہ کو ختم کرتے ہیںکچھ دعائیں ہیں جو میں شروع میں کروایا کرتا ہوں

سب سے بڑی اور اہم دعا جیسا کہ میں نے ابھی بتایا ہے ہماری ذمہ واری کے لحاظ سے وہ یہ ہے کہ نوع انسانی کے لئے دعا کریں بھٹک گیا انسان، اپنے پیدا کرنے والے رب کریم سے دور چلا گیا انسان، اسے بھول چکا انسان، جس مقصد کے لئے انسان کو پیدا کیا گیا تھا وہ مقصد بھی اسے یاد نہیں رہا ۔دعائیں کریں کہ انسان جس مقصد کے لئے پیدا کیا گیا تھا اس مقصد کو سمجھنے لگے اور اپنے پیدا کرنے والے رب کی طرف واپس آئے ایسی راہوں کو اختیار نہ کرے کہ دور سے دور ہوتا چلا جائے ایسی راہوں کو اختیار کرے کہ جو اس دوری کو قرب میں بدلنے والی ہوں جو خدا کے غضب کو اس کے پیار میں تبدیل کرنے والی ہوں ان راہوں کو وہ اختیار کرے‘‘

(خطابات ناصر جلد دوم صفحہ 388)

جلسہ سالانہ 1976ء

’’.. پس ہماری یہ دعاہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصٰلوۃ والسلام نے اس جلسہ کے متعلق جو دعائیں کی ہیں اپنی جماعت کے اس حصہ کے لئے جو یہاں آنے والے ہیں یا نہیں آنے والے اللہ تعالیٰ ہم سب کے حق میں وہ ساری ہی دعائیں قبول فرمائے اور ان کا ہمیں وارث بنائے اور آسمان سے فرشتوں کے نزول کے ساتھ ہماری نصرت اور مدد فرمائے اور اسلام کا یہ قافلہ زیادہ تیزی کے ساتھ شاہراہ غلبہ اسلام پر آگے ہی آگے بڑھتا چلا جائے اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کے ہم وارث ہوں ہماری عقلوں میں پہلے سے زیادہ جلا پیدا ہو ان میں نور پیدا ہوں اس کائنات کو سمجھنے کی پہلے سے زیادہ ہمیں توفیق ملے اور کائنات کے سمجھنے کے بعد ہر دو جہان کو معلوم کر لینے کے بعد اس کی ماہیت اور کیفیت اور حقیقت کیا ہے اور رب العالمین کے بے شمار فضلوں کو اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ لینے کے بعد ہمارے دلوں میں جس قدر محبت اور پیار پیدا ہونا چاہیئے ہمارے پیدا کرنے والے رب کے لئے اس سے کم نہ پیدا ہو کسی صورت میں اور ہماری ہر روح اور ہمارا ہر دل اور ہمارا ہر فرد اپنی اپنی طاقت اور استعداد کے مطابق خدا تعالیٰ کے محبت سے بھر جائے اور overflow کر جائے ااور خدا تعالیٰ کی رحمتیں اس کثرت سے نازل ہوں کہ آپ کو اپنے وجود کا بھی احساس باقی نہ رہے اور آپ کی روح اور آپ کے ذہن اور آپ کے تخیل میں خدا ہی خدا ہو اور باقی ہر چیز لا شئ محض اور نیستی محض ہو خدا کرے کہ ہم خدا تعالیٰ کے پیار کو اس رنگ میں اور اس کی رحمتوں کو اس طور پر حاصل کرنے والے ہوں کہ وہ ہم سے راضی ہو جائے…‘‘

(خطابات ناصر جلد دوم صفحہ166-167)

(ابن ایف آر بسمل)

پچھلا پڑھیں

نمازجنازہ حاضر و غائب

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 24 دسمبر 2021