یہ اللہ تعالیٰ کا خاص فضل ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں ہی جرمنی میں احمدیت کا چرچا شروع ہو گیا تھا۔ جرمنی کے شہر Leipzig میں اکتوبر 1906ء میں ایک کتاب شائع ہوئی جس میں مذاہب شرقیہ کے عنوان سے ایک باب شامل ہے جس کے مضمون نگار MR. Ignaz Goldziher نے جماعت احمدیہ کا ایک نئی اسلامی تحریک کے طور پر تفصیلی ذکر کیا ہے۔ پھر اخبار البدر 14؍مارچ 1907ء کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ سر زمین جرمنی سے مسز کیرولائن نامی خاتون نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خط لکھ کر احمدیت سے سب سے پہلے رابطہ کا ذریعہ بنیں۔ البتہ جرمنی میں تبلیغ اسلام کے لئے سب سے پہلے مبلغ حضرت مولوی مبارک علی صاحب آف بنگال ستمبر 1922ء میں انگلستان سے جرمنی بھجوائے گئے۔ آپ کی کوششوں کو خدا تعالیٰ کے فضل سے ابتداء میں ہی اس قدر پھل لگا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے جرمنی میں فوری طور پر مسجد تعمیر کرنے کا اعلان کر دیا۔ حضور نے مسجد برلن کی تعمیر کے لئے چندہ کی تحریک کرتے ہوئے جماعت کے نام پیغام بھی ارسال فرمایا۔ چنانچہ دو ایکڑ زمین خرید کر 6؍اگست 1923ء کو مسجد کا سنگ بنیاد بھی رکھ دیا گیا۔
جس کا نقشہ حضرت مولوی یعقوب علی عرفانیؓ نے اپنے رسالہ ماہنامہ تادیب النساء کے اپریل 1923ء کے شمارہ میں شائع بھی کر دیا۔ لیکن پہلی عالمی جنگ کے بعد خراب معاشی حالات کی وجہ سے جرمن مشن بند کرنا پڑا۔
جنگ کے اثرات سے نکلنے کے بعد جب یورپ کے دیگر شہروں میں مبلغین بھجوائے گئے تو جرمنی میں بھی از سر نو مشن کا آغاز ہوا اور مکرم شیخ ناصر احمد صاحب 11؍جون 1948ء کو زیورخ سے بذریعہ ٹرین ہیمبرگ پہنچے۔ ہمبرگ کے بعد دوسری جماعت فروری 1952ء میں نورن برگ میں قائم ہوئی اور جب 1955ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ دورہ یورپ کے دوران جرمنی تشریف لائے تو اس وقت نورن برگ میں جرمن احمدیوں کی تعداد 15 بتائی جاتی ہے۔ ان احمدیوں نے حضور کے نورن برگ میں قیام کے ایام میں یہاں مسجد کی تعمیر کی خواہش کا اظہار حضور سے کیا۔ حضور نے اس تجویز کو پسند فرمایا اور نورن برگ میں مسجد کی تعمیر کا ابتدائی تخمینہ وغیرہ بھی لگایا گیا لیکن قدرت کو شائد یہی منظور تھا کہ جرمنی میں پہلی احمدیہ مسجد ہیمبرگ میں تعمیر ہو۔ اس کے لئے وکالت مال ثانی نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کو تجویز کیا کہ مسجد کی تعمیر پر ڈیڑھ لاکھ روپیہ خرچ ہو گا۔جو دوست کم از کم ایک سو پچاس روپے کا عطیہ عنایت فرمائیں گے ان کے اسماء گرامی متعلقہ مسجد میں کسی موزوں جگہ پر کندہ کروائے جائیں گے۔ حضور نے اس تجویز کو منظور فرمایا۔
(روزنامہ الفضل 5؍اگست 1956ء)
مسجد فضل عمر کا سنگ بنیاد
مسجد کا سنگ بنیاد 22؍فروری 1957ء بروز جمعۃ المبارک مکرم ملک عبدالرحمان صاحب نے رکھا۔ اس مبارک اور مقدس تقریب میں جرمنی کے جملہ احمدی احباب کے علاوہ اعلیٰ سرکاری حکام، ممتاز شخصیات اور پریس کے نمائندے شامل ہوئے۔ اس موقع پر مبلغ جرمنی مکرم چوہدری عبداللطیف نے اپنی تقریر میں اس دن کی اہمیت پر روشنی ڈالی اور دعا کی کہ اللہ تعالیٰ اس مسجد کو جرمنی میں ہمیشہ ہمیش کے لئے ہدایت کا منبع اور اشاعت اسلام کا ایک حقیقی ذریعہ بنائے۔آمین
(روزنامہ الفضل 27؍فروری 1957ء)
مسجد کا افتتاح
مسجد فضل عمر کا افتتاح 22؍جون 1957ء بروز ہفتہ حضرت چوہدری سر محمد ظفراللہ خان صاحب کے ہاتھوں عمل میں آیا۔ اس بابرکت موقع پر مکرم صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب وکیل التبشیر نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کا خصوصی پیغام پڑھ کر سنایا اورحاضرین سے مخاطب ہوئے۔ مسجد کی افتتاحی تقریب 3 بجے سہ پہر شروع ہوئی مسجد کا وسیع باغ حاضرین سے پر تھا۔ مکرم حافظ قدرت اللہ صاحب نے تلاوتِ قرآن کریم کی۔ بعد ازاں چوہدری عبد اللطیف صاحب نے مختصر تقریر کی۔ محترم صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب نے حضور کا پیغام انگریزی میں سنا یا۔ جس کا جرمن ترجمہ مبلغ جرمنی چوہدری عبدالطیف صاحب نے پیش کیا۔
اردو ترجمہ پیغام حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ
برادران اہل جرمنی! السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ و برکاتہ
میں ہیمبرگ کی مسجد کے افتتاح کی تقریب میں شمولیت کے لئے اپنے بیٹے مرزا مبارک احمد کو بھجوا رہا ہوں۔افتتاح کی تقریب تو ان شاء اللّٰہ عزیزم چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب ادا کریں گے۔ مگر مرزا مبارک احمد میرے نمائندہ کے طور پر اس میں شامل ہوں گے۔ میرا ارادہ ہے کہ اللہ تعالیٰ مدد کرے تو یکے بعد دیگرے جرمنی کے بعض اور شہروں میں بھی مساجد کا افتتاح کیا جائے۔ امید ہے کہ مرزا مبارک احمد، مولوی عبدالطیف صاحب سے مل کر ضروری سکیمیں اس کے لئے بنا کر لائیں گے۔ تا کہ جلدی مساجد بنائی جا سکیں۔
خدا کرے کہ جرمن قوم جلد اسلام قبول کرے اور اپنی اندرونی طاقتوں کے مطابق جس طرح وہ یورپ میں مادیات کے لیڈر ہیں، روحانی طور پر بھی لیڈر بن جائیں۔ فی الحال اتنی بات تو ہے کہ ایک جرمن نو مسلم زندگی وقف کر کے امریکہ میں تبلیغِ اسلام کر رہا ہے۔ مگر ہم ایک مبلغ یا درجنوں نو مسلموں پر مطمئن نہیں بلکہ چاہتے ہیں کہ ہزاروں لاکھوں مبلغ جرمنی سے پیدا ہوں اور کروڑوں جرمن باشندے اسلام کو قبول کریں تا اسلام کی اشاعت کے کام میں یورپ کی لیڈری جرمن قوم کے ہاتھ میں ہو۔ اللّٰھم آمین
خاکسار
(دستخط) مرزا محمود احمد
(الفضل 26؍جون 1957ء)
اس کے بعد صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب نے بھی تقریر کی جس کا جرمن ترجمہ چوہدری عبداللطیف صاحب نے کیا۔ مکرم چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب نے اپنی تقریرمیں اسلام کےاس نمایاں پہلو کی طرف حاضرین کو متوجہ کیاکہ اسلام کی بناء اللہ تعالیٰ کی توحید پر ہےجو کائنات کا خالق، پالنے والا اور محافظ ہےاور جو اپنے اور اپنی مخلوق کے درمیان دائمی تعلق قائم رکھتا ہے۔ خدا اور اسکی مخلوق کے درمیان جس میں انسان بھی شامل ہے یہ تعلق دائمی فعال اور بلا واسطہ ہوتا ہے۔توحیدِ باری تعالیٰ کے تصور سے تمام انسانوں کی اخوت اورمساوات کی طرف براہِ راست راہنمائی ہوتی ہے۔اسلام کا پیغام عالم گیر ہے۔یہ ہر انسان کو دعوت دیتا ہےاور ہر انسان کا خیر مقدم کرتا ہےتا کہ انسان بلا امتیاز اس دنیا اور آخرت دونوں کی فلاح حاصل کرے۔ہم سب دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے ہیمبرگ کی اس پہلی مسجد کو اور جیسا کہ ہمیں یقین ہے اس کے بعد بھی جو مساجد تعمیر ہوں انہیں اپنے اس حقیقی نور کا مرکز بنائے۔ (الفضل 28؍جولائی 1957ء) چوہدری صاحب نے انگریزی زبان میں تقریر کی جس کا جرمن ترجمہ مکرم عبد الکریم صاحب ڈنکر صاحب نے کیا۔بعد ازاں محترم چوہدری صاحب نے اجتماعی دعا کروائی اور مسجد کے دروازے پر تشریف لے جا کر دروازہ کھولا۔اس ساری کاروائی کے بعد حاضرین کو چائے پیش کی گئی اور چوہدری عبد اللطیف صاحب نے ظہر اور عصر کی نمازیں جمع کر کے پڑھائیں۔ اس طرح یہ مبارک اہم اور تاریخی اجتماع اختتام پذیر ہوا۔ اس مبارک تقریب میں یورپ کے مبلغین میں سے مکرم حافظ قدرت اللہ ہالینڈ سے، مکرم شیخ ناصر احمد صاحب سویٹزرلینڈ سے، مکرم محمود احمد خان صاحب انگلستان سے اور مکرم سید کمال یوسف صاحب سویڈن سے تشریف لائے۔ اعلیٰ لوکل حکام انڈیا،لبنان اور ہالینڈ کے کونسل جرنل پروفیسر صاحبان، شہر کے معززین، پریس اور ٹیلی ویژن کے نمائندےاس تقریب میں موجود تھے۔بیرونی مشنوں میں سے فلسطین، مصر، ماریشس، ڈچ گی آنا، سنگا پور اور انڈونیشیا نےمبارک باد کے پیغامات بذریعہ تار بھجوائے۔
21؍جون کو شام 8 بجے ہیمبرگ ریڈیو پر چوہدری عبد اللطیف صاحب کا انٹرویو نشر ہوا۔جس میں مسجد کا سنگِ بنیاد اور افتتاح کی تفصیل بیان کی گئی۔ اسی طرح 24 جون کو ٹیلی ویژن پرافتتاحی تقریب کے مناظر دکھائے گئےاور اگلے روز کے مقامی اخبارات میں مسجد کے افتتاح اور چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب جج عالمی عدالت انصاف کی آمد کے حوالہ سے خبریں شائع کیں۔ پاکستان میں جرمن سفیر نے ایک خط لکھ کر اپنے آبائی شہر ہیمبرگ میں مسجد کی تعمیر پر خوشی کا اظہار کیا۔انہوں نے کہا کہ میری دلی خواہش اور دعا ہے کہ مسجد کی تعمیر اسلامی اور جرمن کلچر میں رابطہ بہ اتحاد پیدا کرنے کا موجب ہو۔
خوشی کے اس موقع پر جماعت احمدیہ کراچی نے تحفہ کے طور پر دو کارپٹ 9×20 فٹ مسجد فضل عمر ہیمبرگ کے لئے ارسال کیے۔
(الفضل 16؍جولائی 1957ء)
(عرفان احمد خان۔ جرمنی)