• 24 اپریل, 2024

وفات مسیح کی حقیقت اور جناب مودودی کی توجیہات

وفات و حیات مسیح ایک ایسا مسئلہ ہے جو احمدی مسلمانوں اور غیر احمدی مسلمانوں کے درمیان وجہ اختلاف ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے دعویٰ مسیح موعود و مہدی ہونے کی بنیاد حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے فوت شدہ ہونے کی دلیل پر رکھی ہوئی ہے۔ چنانچہ آپ علیہ السلام اپنی تصنیف تحفہ گولڑویہ میں فرماتے ہیں:
’’یاد رہے کہ ہمارے اور ہمارے مخالفوں کے صدق و کذب آزمانے کے لئے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات حیات ہے۔ اگر حضرت عیسیٰ در حقیقت زندہ ہیں تو ہمارے سب دعوے جھوٹے اور سب دلائل ہیچ ہیں اور اگر درحقیقت قرآن مجید کی رو سے فوت شدہ ہیں تو ہمارے مخالف باطل پر ہیں۔ اب قرآن مجید درمیان میں ہے اس کو سوچو۔‘‘

(روحانی خزائن جلد17 صفحہ264 حاشیہ)

چونکہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی نے قرآن مجید سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو فوت شدہ ثابت کرنے کا دعویٰ کیا ہے تو ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی علیہ السلام کے مخالفین بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو قرآن مجید سے زندہ آسمان پر ثابت کریں۔ لیکن میں دعویٰ سے کہہ سکتا ہوں کہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی، مسیح موعود و مہدی موعود علیہ السلام کے مخالفین حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو قرآن مجید کی رو سے زندہ آسمان پر کبھی ثابت نہیں کر سکتے۔ جہاں تک میں نے مسلم جماعت احمدیہ کے مخالف علمائے کرام کے دلائل حیات مسیح کا مطالعہ کیا ہے تو ان کے دعویٰ کی بنیاد صرف احادیث اور انسانی روایات پر ہے نہ کہ قرآن کریم پر۔ مسلمانوں کے ہاتھ میں اسلامی تعلیم اور اسلام کی ہدایتوں پر قائم ہونے اور قائم رہنے کے لئے تین ذرائع ہیں جو درج ذیل ہیں:

1: قرآن شریف جو کتاب اللہ ہے جس سے بڑھ کر ہمارے ہاتھ میں کوئی کلام قطعی اور یقینی نہیں۔ وہ ہر قسم کے شک اور ظنّ کی آلائشوں سے پاک ہے۔

2: سنّت رسول ﷺ جو آنحضرت ﷺ کی فعلی روش ہے اور اپنے اندر تواتر رکھتی ہے اور ابتداء سے قرآن کے ساتھ ظاہر ہوئی اور ہمیشہ ساتھ ہی رہے گی۔ دوسرے الفاظ میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ قرآن کریم خدا تعالیٰ کا قول ہے اور سنّت رسول اللہ ﷺ کا فعل اور قدیم سے اللہ تعالیٰ کا یہی دستور ہے کہ انبیاء خدا کا قول لوگوں کی ہدایت کے لئے لاتے ہیں اور اپنے عمل سے اس قول کی تفسیر کر کے دکھاتے ہیں اور اس قول پر خود بھی عمل کرتے ہیں اور ایمان لانے والوں سے بھی اس پر عمل کراتے ہیں۔

3: تیسرا ذریعہ ہدایت کا حدیث ہے جو آنحضرت ﷺ کی وفات کے تقریباً 150 سال بعد مختلف راویوں سے سن سنا کر جمع کی گئیں۔ پس سنّت اور حدیث میں یہ فرق ہے کہ سنّت ایک عملی طریق ہے جو آنحضرت ﷺ نے اپنے عملی نمونہ سے جاری کیا جو اپنے ساتھ ایک تواتر رکھتا ہے اور یقین محکم میں قرآن کریم سے دوسرے درجہ پر ہے۔ جس طرح آنحضرت ﷺ قرآن کریم کی اشاعت کے لئے مامور تھے ایسا ہی آپ ﷺ سنّت کی اقامت کے لئے بھی مامور تھے۔ احادیث چونکہ طویل وقت گزرنے کے بعد جمع کی گئی تھیں اس لئے کہا جا سکتا ہے کہ وہ قیاس اور ظن کے مرتبہ پر ہیں اس لئے احادیث کو قرآن اور سنّت پر حکم اور قاضی نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔

جماعت احمدیہ کے مخالف علماء نے یہی طریق اختیار کیا ہے کہ جہاں وہ قرآن کریم سے کوئی دلیل پیش نہیں کر سکتے وہ احادیث کا سہارا لینے کی کوشش کرتے ہیں چاہے وہ قرآن کریم کے منشا کے خلاف ہی کیوں نہ ہوں۔ مودودی صاحب نے بھی حیات مسیح کو ثابت کرنے کے لئے احادیث کا ہی سہارا لیا ہے اور قرآن کریم کی وہ آیات جو واضح طور پر وفات مسیح پر دلالت کرتی ہیں ان کو پسِ پشت ڈال کر احادیث کو ان آیات پر قاضی اور حکم ٹھہرایا۔ حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی، مسیح موعود و مہدی موعود علیہ السلام نے قرآن کریم سے 30 ایسی آیات مخالف علماء کے سامنے پیش کیں جن سے وفات مسیح ثابت ہوتی ہے لیکن مخالف علمائے کرام نے ان کو ماننے سے صاف انکار کر دیا۔

مودودی صاحب کی لکھی ہوئی تفسیر تفہیم القرآن نہ صرف برصغیر پاک و ہند بلکہ پوری اسلامی دنیا میں کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ لیکن جہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات کا ذکر پایا جاتا ہے وہاں مودودی صاحب لفظ تَوَفّٰی کے معنوی اور لغوی تحریف کئے بغیر نہ رہ سکے اور اپنے موقف حیات مسیح کو ثابت کرنے کے لئے قرآن کریم سے ایک بھی آیت پیش نہیں کی جو ان کے استدلال کو درست ثابت کر سکے۔ اس مضمون میں خاکسار قرآن کریم سے ہی وہ آیات پیش کرے گا جو مودودی صاحب کے موقف کو غلط ثابت کرتی ہیں اور وہ ترجمہ اور تفسیر بھی مودودی صاحب کی تصنیف ’’تفہیم القرآن‘‘ سے ہی پیش کروں۔

سب سے پہلے قرآن کریم کی وہ دو آیات درج کرتا ہوں جو واضح طور پر وفات مسیح پر دلالت کرتی ہیں لیکن مودودی صاحب تسلیم نہیں کرتے:

اِذۡ قَالَ اللّٰہُ یٰعِیۡسٰۤی اِنِّیۡ مُتَوَفِّیۡکَ وَرَافِعُکَ اِلَیَّ

(اٰل عمران: 56)

وَکُنۡتُ عَلَیۡہِمۡ شَہِیۡدًا مَّا دُمۡتُ فِیۡہِمۡ ۚ فَلَمَّا تَوَفَّیۡتَنِیۡ کُنۡتَ اَنۡتَ الرَّقِیۡبَ عَلَیۡہِمۡ ؕ وَاَنۡتَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ شَہِیۡدٌ ﴿۱۱۸﴾

(المائدہ: 118)

درج بالا دونوں آیات میں ایک لفظ تَوَفَّی مشترک ہے یعنی مُتَوَفِّیْکَ اور تَوَفَّیْتَنِیْ۔ قرآن کریم میں جہاں بھی یہ لفظ استعمال ہوا ہے اس کے دو ہی معنیٰ بیان کئے گئے ہیں ایک روح قبض کرنا، وفات دینا اور دوسرے معنیٰ پورا پورا دینا یا لینا۔ اس کے علاوہ لفظ تَوَفَّی کے اور معنیٰ ہیں ہی نہیں۔ جماعت احمدیہ کے مخالف علماء نے ’’پورا پورا لینا‘‘ سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو زندہ بجسد عنصری آسمان پر اٹھانا مراد لیا ہے جبکہ درج بالا دونوں آیات میں آسمان کا لفظ موجود ہی نہیں۔ آسمان کا لفظ جماعت احمدیہ کے مخالف علما نے اپنی طرف سے شامل کیا جو کہ لغوی اور معنوی تحریف کر کے کیا جاتا ہے۔ اس مضمون میں جماعت اسلامی کے بانی اور مصنف تفسیر ’’تفہیم القرآن‘‘ جناب ابو الاعلیٰ مودودی صاحب کا ترجمہ و تشریح لفظ مُتَوَفِّیْکَ بیان کرنا ہے اور ان کے استدلال حیات مسیح کا رد ا ن کے ہی ترجمہ و تشریح کی روشنی میں پیش کرنا مقصود ہے تا کہ عام فہم غیر احمدی مسلمانوں کو معلوم ہو کہ سچ کیا ہے اور جھوٹ کیا ہے اور وہ یہ جان سکیں کہ قرآن کی روشنی میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ ہیں یا فوت ہو چکے ہیں اور ان کو معلوم ہو کہ مسلم جماعت احمدیہ وفات مسیح کے مسئلہ پر حق پر ہیں یا ان کے مخالف علماء جو ان کو بتاتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ زندہ ہیں وہ حق پر ہیں۔ فیصلہ قرآن کریم کی روشنی میں کرنا ہے۔ سورة اٰل عمران آیت 56 میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

اِذۡ قَالَ اللّٰہُ یٰعِیۡسٰۤی اِنِّیۡ مُتَوَفِّیۡکَ وَرَافِعُکَ اِلَیَّ۔ ترجمہ مع تفسیر بیان کردہ سیّد ابو الاعلیٰ مودودی صاحب:
جب اس نے کہا ’’اے عیسیٰ! اب میں تجھے واپس لے لوں گا اور تجھ کو اپنی طرف اٹھا لوں گا اور جنہوں نے تیرا انکار کیا ہے ان سے (یعنی ان کی معیّت سے ان کے گندے ماحول میں ان کے ساتھ رہنے سے) تجھے پاک کر دوں گا اور تیری پیروی کرنے والوں کو قیامت تک ان لوگوں پر بالا دستی رکھوں گا جنہوں نے تیرا انکار کیا ہے پھر تم سب کو آخرکار میرے پاس آنا ہے۔‘‘

(تفہیم القرآن جلد اول صفحہ257۔ 259)

تفسیر بیان کردہ سیّد ابو الاعلیٰ مودودی صاحب

’’اصل میں لفظ مُتَوَفّیْکَ استعمال ہوا ہے۔ تَوَفّی کے اصل معنیٰ لینے اور وصول کرنے کے ہیں۔ ’’روح قبض کرنا‘‘ اس لفظ کا مجازی استعمال ہے نہ کہ اصل لغوی معنیٰ۔ یہاں یہ لفظ (To recall) کے معنیٰ میں مستعمل ہوا ہے، یعنی کسی عہدہ دار کو اس کے منصب سے واپس بلا لینا۔ چونکہ بنی اسرائیل صدیوں سے مسلسل نافرمانیاں کر رہے تھے، بار بار کی تنبیہوں اور فہمائشوں کے باوجود ان کی قومی روش بگڑتی ہی چلی جا رہی تھی، پے در پے کئی انبیاء کو قتل کر چکے تھے اور ہر اس بندۂِ صالح کے خون کے پیاسے ہو جاتے تھے جو نیکی اور راستی کی طرف انہیں دعوت دیتا تھا، اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان پر حجت تمام کرنے اور انہیں ایک آخری موقع دینے کے لئے حضرت عیسیٰ اور حضرت یحییٰ علیہما السلام جیسے دو جلیل القدر پیغمبروں کو بیک وقت مبعوث کیا جن کے ساتھ مامور مِنَ اللہ ہونے کی ایسی کھلی کھلی نشانیاں تھیں کہ ان سے انکار صرف وہی لوگ کر سکتے تھے جو حق و صداقت سے انتہا درجہ کا عناد رکھتے ہوں اور حق کے مقابلہ میں جن کی جسارت و بےباکی حد کو پہنچ چکی ہومگر بنی اسرائیل نے اس آخری موقع کو بھی ہاتھ سے کھو دیا اور صرف اتنا ہی نہ کیا کہ ان دونوں پیغمبروں کی دعوت رد کر دی، بلکہ ان کے ایک رئیس نے علی الاعلان حضرت یحییٰؑ جیسے بلند پایہ انسان کا سر ایک رقاصہ کی فرمائش پر سر قلم کر دیا اور ان کے علماء و فقہا نے سازش کر کے حضرت عیسیٰ ؑکو رومی سلطنت سے سزائے موت دلوانے کی کوشش کی۔ اس کے بعد بنی اسرائیل کی فہمائش پر مزید وقت اور قوت صرف کرنا بالکل فضول تھا اس لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر کو واپس بلا لیا اور قیامت تک کے لئے بنی اسرائیل پر ذلت کی زندگی کا فیصلہ لکھ دیا (مودودی صاحب کی اس دلیل کو سورة الفجر کی آیات5 تا 13رد کرتی ہیں کہ قوم کو تو بدیاں کرنے کے لئے آزاد چھوڑ دیا اور نبی کو واپس زندہ آسمان پر بلا لیا۔ ناقل) یہاں یہ بات اور سمجھ لینی چاہئے کہ قرآن یہ پوری تقریر دراصل عیسائیوں کے عقیدۂ الوہیتِ مسیح کی تردید و اصلاح کے لئے ہے اور عیسائیوں میں اس عقیدہ کے پیدا ہونے کے اہم ترین اسباب تین ہیں:

(1) حضرت مسیح کی اعجازی ولادت۔
(2) ان کے صریح محسوس ہونے والے معجزات۔
(3) ان کا آسمان کی طرف اٹھایا جانا جس کا ذکر صاف الفاظ میں ان کی کتابوں میں پایا جاتا ہے۔

قرآن نے پہلی بات کی تصدیق کی اور فرمایا کہ مسیح کا بےباپ پیدا ہونا محض اللہ کی قدرت کا کرشمہ تھا۔ اللہ جس کو جس طرح چاہتا ہے پیدا کرتا ہے۔ یہ غیر معمولی پیدائش ہرگز اس بات کی دلیل نہیں کہ مسیح خدا تھا یا خدائی میں کچھ بھی حِصّہ رکھتا تھا۔ دوسری بات کی بھی قرآن نے تصدیق کی اور خود مسیح کے معجزات ایک ایک کر کے گنائے، مگر بتا دیا کہ یہ سارے کام اس نے اللہ کے اذن سے کئے تھے، با اختیار خود کچھ بھی نہیں کیا اس لئے ان میں سے کوئی بھی بات ایسی نہیں ہے جس سے تم یہ نتیجہ نکالنے میں کچھ بھی حق بجانب ہو کہ مسیح کا خدائی میں کوئی حصہ تھا۔ اب تیسری بات کے متعلق اگر عیسائیوں کی روایت سرے سے بالکل ہی غلط ہوتی تب تو ان کے عقیدہ الوہیت مسیح کی تردید کے لئے ضروری تھا کہ صاف صاف کہہ دیا جاتا کہ جسے تم الٰہ اور ابن اللہ بنا رہے ہو وہ مر کر مٹی میں مل چکا ہے، مزید اطمنان چاہتے ہو تو فلاں مقام پر جا کر اس کی قبر دیکھ لو لیکن ایسا کرنے کی بجائے قرآن نے صرف یہی نہیں کہ ان کی موت کی تصریح نہیں کرتا اور صرف یہی نہیں کہ ایسے الفاظ استعمال کرتا ہے جو زندہ اٹھائے جانے کے مفہوم کا کم از کم احتمال تو رکھتے ہی ہیں، (مودودی صاحب یہاں عیسائیوں کے عقیدہ الوہیت کی تائید اور تصدیق کرتے ہوئے صاف نظر آتے ہیں۔ ناقل) بلکہ عیسائیوں کو الٹا یہ بتا دیتا ہے کہ مسیح سرے سے صلیب پر چڑھا ئے ہی نہیں گئے، یعنی وہ جس نے آخری وقت میں ’’ایلی ایلی لماسبقتانی‘‘ کہا تھا اور وہ جس کی صلیب پر چڑھی ہوئی حالت کی تصویر تم لئے پھرتے ہو وہ مسیح نہ تھا۔ مسیح کو تو اس سے پہلے ہی خدا نے اٹھا لیا تھا۔ اس کے بعد جو لوگ قرآن کی آیات سے مسیح کی وفات کا مفہوم نکالنے کی کوشش کرتے ہیں وہ دراصل یہ ثابت کرتے ہیں کہ اللہ میاں کو صاف سلجھی ہوئی عبارت میں اپنا مطلب ظاہر کرنے تک کا سلیقہ نہیں ہے انکار کرنے والوں سے مراد یہودی ہیں جن کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے ایمان لانے کی دعوت دی اور انہوں نے اسے رد کر دیا۔ بخلاف اس کے پیروی کرنے والوں سے مراد اگر صحیح پیروی کرنے والے ہوں تو وہ صرف مسلمان ہیں اور اگر اس سے مراد فی الجملہ آنجناب کے ماننے والے ہوں تو ان سے عیسائی اور مسلمان دونوں شامل ہیں۔‘‘

(تفہیم القرآن جلد اول صفحہ257۔ 259)

قارئین! سورة اٰل عمران کی آیت 56 اِذۡ قَالَ اللّٰہُ یٰعِیۡسٰۤی اِنِّیۡ مُتَوَفِّیۡکَ وفات مسیح پر پہلی دلیل ہے لیکن مودودی صاحب نے اس میں معنوی اور لغوی تحریف کر کے وہ مثال قائم کی ہے جو اسلام کا کوئی مخالف بھی نہیں کر سکتا اور آیت کے حقیقی مفہوم کو کج بحثی اور بے مقصد تاویلیں پیش کر کے حقیقی معنیٰ پر پردہ ڈالنے کی ناکام کوشش کی ہے۔ مثلاً مودودی صاحب لفظ مُتَوَفّیْکَ کی تفسیر یہ بیان کرتے ہیں:
’’اصل میں لفظ مُتَوَفّیْکَ استعمال ہوا ہے۔ تَوَفَّی کے اصل معنیٰ لینے اور وصول کرنے کے ہیں ’’روح قبض کرنا‘‘ اس لفظ کا مجازی استعمال ہے نہ کہ اصل لغوی معنیٰ۔ یہاں یہ لفظ (To recall) کے معنیٰ میں مستعمل ہوا ہے، یعنی کسی عہدیدار کو اس کے منصب سے واپس بلا لینا۔‘‘

مودودی صاحب نے دوسرے کئی مقامات پر اسی لفظ تَوَفّی کے حقیقی معنیٰ ’’مر جائیں، وفات پائیں ہی کئے ہیں۔ لیکن جہاں یہی لفظ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے لئے بولا گیا وہاں معنوی تحریف کر کے ترجمہ بدل دیا اور تَوَفّی کے حقیقی معنیٰ پر پردہ ڈال دیا گیا۔ اسے کہتے ہیں کلام الٰہی میں کج بحثی کرنا اور حق بات میں تلبیس کرنا جس کے بارے میں قرآن کریم میں سختی سے منع کیا گیا ہے۔ سورة اٰل عمران آیت 72 میں اللہ تعالیٰ اہل کتاب کو مخاطب کر کے فرماتا ہے یٰۤاَہۡلَ الۡکِتٰبِ لِمَ تَلۡبِسُوۡنَ الۡحَقَّ بِالۡبَاطِلِ وَتَکۡتُمُوۡنَ الۡحَقَّ وَاَنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ ﴿۷۲﴾ اے اہل کتاب! تم حق کو باطل کے ساتھ کیوں مشتبہ کرتے ہو اور تم حق کو چھپاتے ہو حالانکہ تم جانتے ہو (کہ حق کیا ہے اور باطل کیا ہے) اسی طرح سورة البقرۃ آیت 43 میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَلَا تَلۡبِسُوا الۡحَقَّ بِالۡبَاطِلِ وَتَکۡتُمُوا الۡحَقَّ وَاَنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ ﴿۴۳﴾ اور حق کو باطل سے خلط ملط نہ کرو اور حق کو نہ چھپاؤ جبکہ تم جانتے ہو (حق کیا ہے اور باطل کیا ہے) مودودی صاحب جانتے ہیں کہ لفظ تَوَفّی کے حقیقی معنیٰ کیا ہیں لیکن حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی، مسیح موعود و مہدی موعود علیہ السلام کی مخالفت اور تکذیب ہر صورت کرنی ہے اس لئے حق کو چھپانا یعنی وَلَا تَلۡبِسُوا الۡحَقَّ بِالۡبَاطِلِ ان علماء اور مشائخ کی مجبوری ہے۔ آیئے اب ذرا مودودی صاحب کی بیان کردہ تفسیر کے دوسرے نکات پر غور کرتے ہیں:

(1) مودودی صاحب نے لفظ تَوَفّی کے اصل معنیٰ ’’وصول کرنے کے‘‘ بیان کئے ہیں تو دوسری طرف ’’کسی عہدیدار کو اس کے منصب سے واپس بلا لینا‘‘ بیان کئے ہیں۔ ان دونوں باتوں سے ایک جلیل القدر نبی کی توہین کا پہلو نکلتا وہ اس لئے کہ ایک دنیاوی عہدیدار کو تو اس لئے Recall کیا جا سکتا ہے کہ اس عہدیدار کا کام جہاں اس کو بھیجا گیا تھا وہاں اس کا کام ختم ہو گیا یا پھر اب اس کی وہاں ضرورت نہیں رہی اس لئے اس کو واپس اسی مقام پر واپس بلا لیا جاتا ہے جہاں سے اسے بھیجا گیا تھا۔ سوال یہ ہے کہ کیا کسی نبی کو جو اس کا روحانی منصب (عہدہ) ہے اور وہ منصب اس کو مستقل طور پر عطا کیا گیا تھا، اس کے اِس منصب سے واپس بلایا جا سکتا ہے؟ کیا حضرت عیسیٰ کا کام جس کے لئے ان کو دنیا میں بھیجا گیا تھا ختم ہو گیا تھا؟ اگر وہ کام جس کے لئے ان کو بھیجا گیا تھا ختم نہیں ہوا تھا تو پھر ان کو Recall کرنا یقیناً مودودی صاحب کا بےمعنیٰ ، خلاف اسلام اور باطل استدلال ہے۔

(2) دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا حضرت عیسیٰ علیہ السلام دنیا میں اِسی کیفیت میں نازل ہوئے تھے جس کیفیت میں ان کو Recall کیا گیا؟ جیسا کہ مودودی صاحب کا عقیدہ ہے۔ اگر مودودی صاحب کا دعویٰ یا استدلال درست ہے تو پھر یقیناً عیسائیوں کا عقیدہ الوہیت مسیح بھی درست ہے کیونکہ ان کے عقیدہ کے مطابق مسیح خدا کا بیٹا ہے اور اللہ نے اپنے بیٹے کو روئے زمین پر رہنے والے انسانوں کے گناہوں کا کفّارہ ادا کرنے کے لئے آسمان سے زمین پر بھیجا تھا اور کفّارہ ادا کرنے کے بعد واپس آسمان پر اٹھا لیا یعنی Recall کر لیا۔ یہ ہے عیسائیوں کے عقیدہ الوہیت مسیح کی بنیاد۔ اگر بقول مودودی صاحب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو زندہ بجسد عنصری Recall کیا گیا تو پھر عیسائی حضرات اپنے عقیدہ الوہیت مسیح میں حق پر ہیں کیونکہ جس کیفیت میں وہ زمین پر بھیجے گئے تھے اسی کیفیت میں بقول مودودی صاحب Recall بھی کئے گئے۔

(3) عیسائی علماء الو ہیت مسیح کی صداقت میں انجیل سے جو دلیل پیش کرتے ہیں وہ بھی یہاں درج کرتا ہوں:

ابنِ خدا کی فضیلت

’’گزرے ہوئے زمانہ میں خدا نے ہمارے آباؤ اجداد سے کئی موقعوں پر مختلف طریقوں سے نبیوں کی معرفت کلام کر کے ان آخری دنوں میں ہم سے اپنے بیٹے کی معرفت کلام کیا، جسے اس نے سب چیزوں کا وارث مقرر کیا اور جس کے وسیلہ سے اس نے کون و مکان پیدا کیا۔‘‘

(عبرانیوں باب 1 آیت 1۔ 2)

’’وہ ہمیں گناہوں سے پاک کر دینے کے بعد آسمان پر خدا کے دائیں طرف جا بیٹھا اور فرشتوں سے اتنا ہی بزرگ تر ہوا جتنا افضل نام خدا نے اسے میراث کے طور پر دیا تھا کیونکہ فرشتوں میں سے اس نے کب کسی سے کہا تو میرا بیٹا ہے۔

(عبرانیوں باب 1 آیت 3۔ 5)

’’تو انہیں چادر کی طرح لپیٹے گا اور وہ پوشاک کی طرح بدل دیئے جائیں گے، لیکن تو نہیں بدلتا اور تیری زندگی کبھی ختم نہ ہوگی لیکن خدا نے فرشتوں میں سے کسی کے بارے میں کب کہا ہے کہ تو میری دائیں طرف بیٹھ۔‘‘

(عبرانیوں باب 1 آیت 12۔ 13)

میرے مسلمان بھائیو! یہ ہے عیسائیوں کے عقیدہ الو ہیت کی بنیاد۔ اگر مودودی صاحب کے بیان کردہ معنیٰ کا موازنہ انجیل سے کیا جاوے تو کوئی فرق نظر نہیں آئے گا۔ مودودی صاحب کے ترجمہ اور تفسیر سے انجیل کے دعویٰ الو ہیت مسیح کو ہی تقویت اور مکمل تائید حاصل ہوتی ہے کیونکہ جو انجیل دعویٰ کرتی ہے وہی مودودی صاحب کا بھی دعویٰ اور مؤقف ہے۔ پس قرآن کریم کی کسی آیت کی تحریف کر کے ایسی تفسیر کرنا جو شرک کی تائید کرے سراسر خلاف اسلام اور خلاف قرآن ہے۔ حقیقی ترجمہ اور تشریح وہی درست ہوگی جو شرک کی تائید نہ کرتی ہو۔ یٰعِیْسٰٓی اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ کا حقیقی ترجمہ اور معنیٰ یہی ہے کہ ’’اے عیسیٰ! میں ہی تجھے وفات دینے والا ہوں‘‘ سورة المائدہ آیت 118 میں اس کا اقرار خود حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے کیا ہے جیسے کہ قرآن کریم میں لکھا ہے: فَلَمَّا تَوَفَّیۡتَنِیۡ کُنۡتَ اَنۡتَ الرَّقِیۡبَ عَلَیۡہِمۡ یعنی جب تو نے مجھے وفات دے دی تو پھر تو ہی ان پر نگہبان تھا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بنی اسرائیل کے لئے ایک نشان بنایا اور منصب نبوت عطا کر کے بنی اسرائیل کے لئے رحمت کا ایک اور موقع فراہم کر دیا لیکن بدقسمتی سے یہودیوں نے اسے قبول نہ کیا اور رحمت کا یہ آخری موقع بھی گنوا دیا وَلِنَجۡعَلَہٗۤ اٰیَۃً لِّلنَّاسِ وَرَحۡمَۃً مِّنَّا (مریم: 22)۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰؑ کو Recall کر کے اپنی رحمت سے لوگوں کو محروم کر دیا؟ یہ تو اللہ تعالیٰ کی شان کے ہی خلاف ہے کہ وہ اپنی رحمت سے کسی قوم کو محروم کر دے۔ ہاں اگر کوئی قوم خود اللہ کی رحمت سے فیض یاب نہیں ہوتی تو یہ اس قوم کا اپنا قصور ہے۔ کیا قرآن کریم میں کوئی ایسی مثال ہے کہ کسی قوم نے اپنے نبی پر ایمان لانے کی بجائے اس سے لگا تار بد سلوکی اور ظلم و ستم کیا ہو تو اللہ نے نبی کو Recall یعنی واپس بلا لیا ہو اور قوم کو اس کے حال پر چھوڑ دیا ہو؟ البتہ قرآن کریم میں یہ مثالیں ضرور موجود ہیں کہ ایک قوم نے نبیوں کے ساتھ ظلم اور زیادتی کی اور بداعمالیوں میں بڑھتے ہی رہے اور توبہ نہ کی تو اس قوم کے نبی نے اللہ کے اذن سے وہاں سے ہجرت کی اور اللہ نے اس قوم کو ملیامیٹ کر دیا جیسے قوم نوح، قوم لوط، قوم عاد و ثمود وغیرہ۔ مودودی صاحب نے لکھا ہے ’’مُتَوَفّیْکَ‘‘ To Recall کے معنیٰ میں مستعمل ہوا ہے یعنی کسی عہدیدار کو اس کے منصب سے واپس بلا لینا۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ جو کام اس عہدیدار کے سپرد کیا گیا تھا وہ کام ختم ہو گیا۔ عامتہ الناس یہ بات ذہن میں رکھیں کہ دنیا داری میں تو ایسا ہو سکتا ہے لیکن روحانی دنیا میں اور اسلامی نکتہ نظر سے یہ نظریہ جائز ہی نہیں۔ قرآن کریم کی سورة العصر اور سورة البلد آیت 5 میرے نکتہ نظر کی تائید کرتی ہے اور مودودی صاحب کے مؤقف اور استدلال حیات مسیح کی نفی کرتی ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَالۡعَصۡرِ ۙ﴿۲﴾ اِنَّ الۡاِنۡسَانَ لَفِیۡ خُسۡرٍ ۙ﴿۳﴾ اِلَّا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَتَوَاصَوۡا بِالۡحَقِّ ۬ۙ وَتَوَاصَوۡا بِالصَّبۡرِ ﴿۴﴾

(سورۃ العصر)

درج بالا سورة العصر کا ترجمہ و تفسیربھی مودودی صاحب کی بیان کردہ ہی پیش کرتا ہوں:
ترجمہ: ’’زمانے کی قسم، انسان در حقیقت بڑے خسارے میں ہے سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک اعمال کرتے رہے اور ایک دوسرے کو حق کی نصیحت اور صبر کی تلقین کرتے رہے۔‘‘

تفسیر حواشی بیان کردہ از مودودی صاحب

’’اس سورة میں زمانے کی قسم اس بات پر کھائی ہے کہ انسان بڑے خسارے میں ہے (حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی یقیناً ایک بشر انسان ہی تھے۔ ناقل) اور اس خسارے سے صرف وہی لوگ بچے ہیں جن کے اندر چار صفتیں پائی جاتی ہیں:(1) ایمان (2) عملِ صالح (3) ایک دوسرے کو حق کی نصیحت کرنا (4) ایک دوسرے کو صبر کی تلقین کرنا۔ اب اس کے ایک ایک جز پر غور کرنا چاہئے تا کہ اس ارشاد کا پورا مطلب واضح ہو جائے۔

(تفہیم القرآن جلد6 صفحہ944)

دو صفات جو ایک فرد میں ہونی چاہئیں وہ تفسیر کے صفحہ 154 تا 354 میں مودودی صاحب نے بیان کی ہوئی ہیں۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام میں ان صفات کا پایا جانا کسی شک و شبہ سے پاک ہے۔ اس کے علاوہ جو دو صفات ایک فرد میں ہونی ضروری ہیں وہ صفت نمبر (3) اور صفت نمبر (4) ہیں یعنی:
صفت نمبر (3) ایک دوسرے کو حق کی نصیحت کرنا۔ صفت نمبر (4) ایک دوسرے کو صبر کی تلقین کرنا۔

اب صفات کی ان دونوں جزعات پر ایک ایک کر کے غور کرتے ہیں کیونکہ یہ دونوں صفات ایمان کا جز ہیں جو خسارے سے بچنے کے لئے پہلے دو جزوں کی طرح ضروری ہیں اور مودودی صاحب نے خود اس بات کو تسلیم کیا ہے جیسا کہ وہ جز نمبر 3 کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’مذکورہ بالا دو صفتیں (صفت 1 اور صفت 2۔ ناقل) تو وہ ہیں جو ایک فرد میں ہونی چاہئیں۔ اس کے بعد یہ سورۃ دو مزید صفتیں بیان کرتی ہیں جو خسارے سے بچنے کے لئے ضروری ہیں، اور وہ یہ ہیں کہ ایمان لانے اور عمل صالح کرنے والے لوگ ایک دوسرے کو حق کی نصیحت اور صبر کی تلقین کریں۔ اس کے معنیٰ یہ ہیں اول تو ایمان لانے اور نیک عمل کرنے والوں کو فرد فرد بن کر نہیں رہنا چاہئے بلکہ ان کے اجتماع سے ایک مومن اور صالح معاشرہ وجود میں آنا چاہئے۔ دوسرے اس معاشرہ کے ہر فرد کو اپنی یہ ذمہ داری محسوس کرنی چاہئے کہ وہ معاشرہ کو بگڑنے نہ دے، اس لئے اس کے تمام افراد پر فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ ایک دوسرے کو حق اور صبر کی تلقین کریں۔‘‘

(تفہیم القرآن جلد6 صفحہ453)

اگر مودودی صاحب کی سورۃ العصر کی درج بالا تفسیر کا موازنہ مودودی صاحب کے اس استدلال سے کریں جو انہوں نے حیات مسیح کو ثابت کرنے کے لئے پیش کئے ہیں کہ بنی اسرائیل کی صدیوں سے مسلسل نافرمانیوں اور فہمائشوں، بگڑتی ہوئی قومی روش کی وجہ سے اللہ نے حضرت عیسیٰ کو Recall کر لیا تو یہ استدلال سورۃ العصر کے بالکل برعکس اور ایک نبی کی شان کے بھی خلاف ہے اور اس کی ذات پر بہت بڑا بہتان ہے کیونکہ وَتَوَاصَوۡا بِالۡحَقِّ ۬ۙ وَتَوَاصَوۡا بِالصَّبۡرِ کا حکم ہر اس انسان پر فرض ہے جو زندہ ہے اور ہر زندہ انسان معاشرے کا فرد ہوتا ہے۔ پس حیات مسیح کا کوئی دعویدار مسلمان عالم دین یہ ثابت کرے کہ:

(1) حضرت عیسیٰ علیہ السلام اس وقت اگر وہ زندہ ہیں تو وَتَوَاصَوۡا بِالۡحَقِّ ۬ۙ وَتَوَاصَوۡا بِالصَّبۡرِ کا فرض ادا کر رہے ہیں جس قوم کی طرف ان کو بھیجا گیا تھا۔

(2) ’’ایمان لانے اور نیک عمل کرنے والوں کو فرد فرد بن کر نہیں رہنا چاہئے بلکہ ان کے اجتماع سے ایک مومن صالح معاشرہ وجود میں آنا چاہیے۔‘‘ مودودی صاحب نے خود اس بات کو تسلیم کیا ہے۔ مودودی صاحب یا ان کے ہمنوا علماء یہ بتا سکتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنا فرض منصبی چھوڑ کر اللہ کے کس حکم سے معاشرہ سے الگ تھلگ ہو کر آسمان پر گوشہ نشین ہو کر بیٹھے ہوئے ہیں اور کیا قرآن اس طرزِ عمل کی کسی کو اجازت دیتا ہے؟

قرآن کریم کی سورة الانشقاق آیت 7 بھی مودودی صاحب کے حیات مسیح کے استدلال کورد کرتی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے یٰۤاَیُّہَا الۡاِنۡسَانُ اِنَّکَ کَادِحٌ اِلٰی رَبِّکَ کَدۡحًا فَمُلٰقِیۡہِ یعنی اے آدمی! تجھ کو تکلیف اٹھانی ہے اپنے رب تک پہنچنے میں سہہ سہہ کر پھر اس سے ملنا ہے۔

(ترجمہ منقول از قرآن مجید فی لوحِ محفوظ شائع کردہ دارالتصنیف لمیٹڈ،
مجاہد آباد حب ریور روڈ کراچی مترجم محمود حسن صاحب مرحوم، شاگرد خاص بانی دیو بند حضرت قاسم صاحب نانوتویؒ صفحہ768)

کدح سخت محنت کرنے کو کہتے ہیں۔ مودودی صاحب یا ان کے ہمنوا حیات مسیح کے دعویدار یہ بتا سکتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ اگر زندہ ہیں تو کیا وہ جس کام کے لئے نبی بنا کر بھیجے گئے تھے اس کام کی تکمیل کے لئے کسی قسم کی محنت اس وقت کر رہے ہیں؟

اسلام میں رہبانیت بھی جائز ہی نہیں۔ سورة الحدید آیت 28 میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَرَہۡبَانِیَّۃَ ۣابۡتَدَعُوۡہَا مَا کَتَبۡنٰہَا عَلَیۡہِمۡ اور رہبانیت انہوں نے خود ایجاد کر لی۔ ہم نے اسے ان پر فرض نہیں کیا تھا۔ تفہیم القرآن جلد 5 صفحہ 324 پر مودودی صاحب اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں ’’ہم نے ان پر رہبانیت کو فرض نہیں کیا تھا بلکہ جو چیز ان پر فرض کی تھی وہ اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے کوشش کریں اور دوسرا مطلب یہ کہ یہ رہبانیت ہماری فرض کی ہوئی نہ تھی بلکہ اللہ کی خوشنودی کی طلب میں انہوں نے اسے خود اپنے اوپر فرض کر لیا تھا۔ دونوں صورتوں میں یہ آیت اس بات کی صراحت کرتی ہے کہ رہبانیت ایک غیر اسلامی چیز ہے اور یہ کبھی دین حق میں شامل نہیں رہی ہے۔‘‘ یہ آیت بھی مودودی صاحب کے اس استدلال اور مؤقف کو رد کرتی ہے جو انہوں نے اِذۡ قَالَ اللّٰہُ یٰعِیۡسٰۤی اِنِّیۡ مُتَوَفِّیۡکَ میں حیات مسیح کو ثابت کرنے کے لئے اختیار کیا ہے۔ کج بحث اور دین سے بے بہرہ ملاں یہ کہہ دیتے ہیں کہ اللہ جو چاہے کرتا ہے لیکن یہ علماء حضرت مرزا غلام احمد قادیانی، مسیح موعود و مہدی موعود علیہ السلام کی عداوت اور مخالفت میں اللہ کے اس ارشاد کو بھی بھول جاتے ہیں جس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَلَا تَجِدُ لِسُنَّتِنَا تَحۡوِیۡلًا ﴿۷۸﴾ (سورة بنی اسرائیل: 78) یعنی تو ہماری سنت میں کوئی تبدیلی نہیں پائے گا۔ اسی طرح سورة الفتح آیت 24 میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَلَنۡ تَجِدَ لِسُنَّۃِ اللّٰہِ تَبۡدِیۡلًا ﴿۶۳﴾ اور تو اللہ کی سنّت میں ہرگز کوئی تبدیلی نہیں پائے گا۔‘‘

اللہ تعالیٰ کے کلام میں تو کج بحثی جائز ہی نہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ سورة حٰم سجدہ آیت 41 میں فرماتا ہے اِنَّ الَّذِیۡنَ یُلۡحِدُوۡنَ فِیۡۤ اٰیٰتِنَا لَا یَخۡفَوۡنَ عَلَیۡنَا ؕ اَفَمَنۡ یُّلۡقٰی فِی النَّارِ خَیۡرٌ اَمۡ مَّنۡ یَّاۡتِیۡۤ اٰمِنًا یَّوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ بیشک جو لوگ ہماری آیتوں میں کج روی سے کام لیتے ہیں وہ ہم سے مخفی نہیں۔ پس کیا وہ جو آگ میں ڈالا جائے گا وہ اچھا ہے یا وہ جو امن و امان کے ساتھ قیامت کے دن آئے گا۔ اس آیت میں واضح کر دیا گیا ہے کہ جو اپنے غلط عقائد اور نظریات کے اثبات کے لئے آیات الٰہی میں کج بحثی سے کام لیتے ہوئے معنوی تحریف اور دجل و تلبیس سے کام لیتے ہیں یقیناً ان کا ٹھکانا جہنم ہے۔ پس مودودی صاحب کی حیات مسیح کی یہ دلیل کہ مُتَوَفّیْکَ To Recall کے معنیٰ میں استعمال ہوا ہے، ایک باطل اور بےبنیاد دلیل ہے جس کی قرآن نفی کرتا ہے۔ مودودی صاحب کے مقلدین سورة العصر کی روشنی میں حیات مسیح کے عقیدہ اور دعویٰ پر غور کریں کہ کیا حضرت عیسیٰ ان لوگوں کی صف میں تو شامل نہیں جو اِنَّ الۡاِنۡسَانَ لَفِیۡ خُسۡرٍ ۙ﴿۳﴾ کے زمرے میں آتے ہیں کیونکہ وہ بھی ایک انسان ہیں اور قرآن کریم کے کسی حکم کا ان پر بھی اسی طرح اطلاق ہوتا ہے جس طرح دوسرے انسانوں پر۔ مودودی صاحب نے لفظ مُتَوَفّیْکَ کے ایک معنیٰ ’’اب میں تجھے واپس لے لوں گا‘‘ کئے ہیں۔ عامۃ الناس یہ بات بھی ذہن میں رکھیں کہ جو اس دنیا میں آتا ہے وہ واپس اسی دنیا میں لوٹ جاتا ہے جہاں سے وہ آیا تھا جیسا کہ سورة السجدہ آیت 12 میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے قُلۡ یَتَوَفّٰٮکُمۡ مَّلَکُ الۡمَوۡتِ الَّذِیۡ وُکِّلَ بِکُمۡ ثُمَّ اِلٰی رَبِّکُمۡ تُرۡجَعُوۡنَ ﴿۱۲﴾ ان سے کہو موت کا وہ فرشتہ جو تم پر مقرر کیا گیا ہے تم کو پورا پورا اپنے قبضے میں لے لے گا اور پھر تم اپنے رب کی طرف پلٹا لائے جاؤ گے۔‘‘

(تفہیم القرآن جلد4 صفحہ41)

جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے خود تسلیم کر لیا کہ جب مجھے واپس پلٹا لیا گیا تو پھر تو ہی میری قوم پر نگہبان تھا۔ فَلَمَّا تَوَفَّیۡتَنِیۡ کُنۡتَ اَنۡتَ الرَّقِیۡبَ عَلَیۡہِمۡ (المائدہ: 118) یعنی جب آپ نے (یعنی اللہ نے۔ ناقل) مجھے واپس بلا لیا تو آپ ان پر نگراں تھے۔‘‘ (تفہیم القرآن جلد1 صفحہ516)۔ حضرت عیسیٰ کے اس اقرار کے بعد ان کی وفات پر شک کرنا یقیناً سلب ایمان کا موجب ہے۔ مودودی صاحب نے حیات مسیح کے اثبات میں بہت سحر انگیز باتیں لکھی ہیں لیکن اس کی تائید میں قرآن کریم سے کوئی ایک آیت بھی پیش نہیں کی۔ جس بات میں کوئی دلیل نہ ہو ایسی باتوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے وَمَا یَتَّبِعُ الَّذِیۡنَ یَدۡعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ شُرَکَآءَ ؕ اِنۡ یَّـتَّبِعُوۡنَ اِلَّا الظَّنَّ وَاِنۡ ہُمۡ اِلَّا یَخۡرُصُوۡنَ (سورة یونس: 67) یعنی جو لوگ اللہ کو چھوڑ کر دوسرے شرکا کی عبادت کرتے ہیں وہ کس چیز کی عبادت کرتے ہیں۔ محض بے سند خیال کی اتباع کر رہے ہیں اور محض اٹکل پچو لگا رہے ہیں۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ مشرکین جو شرک کر رہے ہیں وہ کسی دلیل کی بنیاد پر نہیں بلکہ یہ محض ظن، تخمین اور قیاس آرائی اور اٹکل پچو پر مبنی باتیں ہیں۔ اسی طرح مودودی صاحب کا استدلال حیات مسیح To Recall بھی کسی دلیل پر مبنی نہیں اور اس پر یقین کرنا یقیناً ایک شرک ہے اور مسلمانوں کو اس شرک سے بچنے کی اس زمانے میں سخت ضرورت ہے۔

(خواجہ عبدالغفار ہموسانی)

پچھلا پڑھیں

برکینا فاسو سے جلسہ قادیان کا آنکھوں دیکھا حال

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 25 جنوری 2023