• 26 اپریل, 2024

حضرت سید احمد حسین صاحب رضی اللہ عنہ

تعارف صحابہ کرام ؓ
حضرت سید احمد حسین صاحب رضی اللہ عنہ۔ سونگھڑہ ضلع کٹک

حضرت سید احمد حسین صاحبؓ ولد مکرم سید قربان علی صاحب بھارتی صوبہ اڈیشہ کے شہر سونگھڑہ ضلع کٹک (Cuttack) کے رہنے والے تھے۔ اس علاقے میں سب سے پہلے حضرت مولانا سید عبدالرحیم صاحب رضی اللہ عنہ (وفات: 12؍جنوری 1916ء) نے قبول احمدیت کی توفیق پائی جس کے بعد انھی کی تبلیغ سے ایک کثیر تعداد حلقہ احمدیت میں داخل ہوگئی چنانچہ حضرت مولانا صاحبؓ نے 5؍جنوری 1900ء کو ایک عریضہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں بھیجا جس کے ساتھ چار سو سے زائد مبائعین کے اسماء بھی ارسال کیے، یہ عریضہ اور اسماء مبائعین اخبار الحکم 31؍جنوری 1900ء میں شائع شدہ ہیں۔

بائعین کی اس فہرست میں گیارہویں نمبر پر حضرت سید احمد حسین صاحب اور بارہویں نمبر پر آپ کی اہلیہ محترمہ کا نام ہے۔بیعت کرنے کے اگلے ہی سال آپ حضرت مولوی سید عبدالرحیم صاحبؓ کی قیادت میں دوہزار کلو میٹر سے زائد کا فاصلہ طے کر کے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے، اخبار الحکم لکھتا ہے: ’’کٹک سے مولانا مولوی سید عبدالرحیم صاحب مصنف الدلیل المحکم مع اور چند رفقاء کے تشریف لائے ہیں۔‘‘

(الحکم 24؍جنوری 1901ء صفحہ 12)

مکرم سید محمد زکریا صاحب سابق صدر جماعت احمدیہ بھدرک کے مطابق اس قافلہ میں آپ سمیت کل سات افراد شامل تھے۔

(بدر قادیان 8؍اپریل 1971ء صفحہ 7)

حضرت اقدس علیہ السلام کی زیارت اور صحبت کے شوق میں اکتوبر 1902ء میں پھر قادیان حاضر ہوئے، اس مرتبہ آپ اپنے بھانجے حضرت سید اختر الدین احمد صاحب (وفات: 13؍ فروری 1948ء) کی معیت میں قادیان حاضر ہوئے۔ حضرت سیّد اختر الدین احمد صاحبؓ بیان کرتے ہیں:
’’حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ….. کی پاک صحبت …. آخر 1902ء سے لے کر آخر 1903ء تک قریباً ایک سال میسر آئی تھی اور اس وقت میری عمر چوبیس سال کی تھی۔ اُن دنوں خاکساراور خاکسار کے ماموں مولوی سیّد احمد حسین مرحوم صرف دو کٹکی مہمان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے تھے۔ ہم دونوں کے لئے کئی ماہ تک چاول کے مکلف کھانے آتے رہے اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام میاں نجم الدین مرحوم کو اچھی طرح مہمان نوازی کی تاکید فرمایا کرتے۔ جس طرح کہ مرحوم نجم الدین ہم دونوں سے بیان کیا کرتے کہ تم لوگوں کے متعلق حضرت جی کی بڑی تاکید ہے۔‘‘

(رجسٹر روایات صحابہ نمبر7 صفحہ 213)

آپ کی اہلیہ محترمہ نے اس موقع پر اپنے زیورات حضرت اقدس مسیح موعودکی خدمت میں بھجوائے تا دینی ضروریات میں جہاں حضور مناسب سمجھیں، خرچ فرمائیں، چنانچہ ایڈیٹر اخبار بدر لکھتے ہیں:
’’پھر تین صاحبوں نے حضرت اقدس سے بیعت کی، جس میں ایک صاحب سید اختر الدین احمد ساکن کٹک بنگال تھے۔ مولوی عبدالکریم صاحب نے احمد حسین صاحب آمدہ از کٹک کی طرف سے ایک کرنسی نوٹ اور کچھ زیورات حضرت کی خدمت میں پیش کئے۔ زیورات ان کی اہلیہ مرحومہ کی طرف سے تھے جن کی وصیت تھی کہ یہ خاص حضرت اقدس کی خدمت میں دینی خدمت کے لئے دئیے جائیں۔ حضرت اقدس نے ان کے اخلاق کی تعریف کی اور فرمایا کہ خدا ان کو اٰخَرِیْنَ مِنْھُمْ (الجمعہ:۴) میں ملاوے۔‘‘

(ملفوظات جلد دوم صفحہ 434)

اخبار الحکم نے اس واقعے کا ذکر یوں درج کیا ہے:
’’کٹک سے دو بھائی آئے ہوئے ہیں، ان میں سے ایک نے نہایت اخلاص سے اپنی مرحومہ بیوی کا زیور حضور کی خدمت میں پیش کیا کیونکہ مرحومہ اس کی وصیت کر گئی تھی۔ مولوی نور الدین صاحب حکیم الامت نے اس پر عرض کیا کہ بڑے ہی اخلاص اور شہادت کا نشان ہے۔ فرمایا: اٰخَرِیْنَ مِنْھُم کہہ کر جو خدا تعالیٰ اس جماعت کو صحابہ سے ملاتا ہے تو صحابہ کا سا اخلاص اور وفاداری اور ارادت ان میں بھی ہونی چاہیے …. ‘‘

(الحکم 10نومبر 1902ء صفحہ 3)

آپ کا یہ اخلاص وایثار حضرت اقدس علیہ السلام سے آپ کی اور آپ کی اہلیہ کی عقیدت و ایمان کو ظاہر کرتا ہے۔ آپ حضرت اقدسؑ کے ایک وفاکیش مرید تھے۔ یہ آپ کے خلوص اور محبت کا اثر تھا کہ اپنے دور دراز علاقے سے آموں کا تحفہ حضرت اقدسؑ کی خدمت میں بھیجتے، اخبار بدر ایک جگہ لکھتا ہے: ’’اس کے بعد قابل ذکر دو تحائف آموں کے ہیں جو صالح پور کٹک سے سید احمد حسین صاحب نے اور سید سعید الدین صاحب نے بذریعہ ریل بھیجے ہیں اور دونوں بلٹیاں پہنچ گئی ہیں، اللہ تعالیٰ ہر دو کو جزائے خیر دے۔‘‘

(بدر 23 مئی 1907ء صفحہ 9)

ایک مرتبہ آپ نے حضرت اقدس کی خدمت میں ایک دعائیہ خط لکھا جس میں ایک بات یہ بھی لکھی کہ ہمارے علاقہ میں جماعت کی بڑی سخت مخالفت ہو رہی ہے اگر حضور اجازت دیں تو ان مخالفین کے نام حضور کی خدمت میں پیش کیے جائیں تا حضور بد دعا کریں کہ اللہ ان لوگوں کو ذلت و خواری نصیب کرے۔ حضرت مسیح موعودؑ نے جوابًا تحریر فرمایا:

محبی اخویم احمد حسین صاحب سلمہٗ

آپ کا خط مَیں نے اول سے آخر تک پڑھ لیا ہے آپ کے تمام مطالب کے لئے دعا کی گئی لیکن مخالفوں کی ذلت کی دعا کی کچھ ضرورت نہیں شائد اللہ تعالیٰ ان کو ہدایت فرمادے اور یہ بہت بہتر بات ہے کہ آپ ایک مدت تک اسی جگہ رہیں یہ عین ہماری دلی منشا ہے کہ اس جگہ رہنے سے آپ کی معلومات زیادہ ہوجائیں گی۔

والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد

(الفضل 25ستمبر 1943ء صفحہ 2۔۔ خط کا عکس الفضل یکم نومبر 1927ء صفحہ 1پر موجود ہے)

حضرت سید احمد حسین صاحب بفضلہ تعالیٰ 5/1 حصہ کے موصی (وصیت نمبر 520) تھے، آپ نے 14؍دسمبر 1914ء کو وفات پائی اور کٹک میں مدفون ہوئے ، یادگاری کتبہ بہشتی مقبرہ قادیان میں لگا ہوا ہے۔ آپ کی اولاد میں صرف ایک بیٹی کا علم ہوا ہے جن کا نام محترمہ امہ اللہ عرف فاطمہ بی بی صاحبہ تھا جنھوں نے 27؍ستمبر 1925ء کووفات پائی، ان کے شوہر محترم سید محمد محسن صاحب نے خبر وفات دیتے ہوئے لکھا: ’’مرحومہ ایک مخلص اور پُر جوش احمدی تھیں، تقویٰ اور نماز و روزہ کی پابند ہونے اور خشیت خدا رکھنے کے سوا سلسلہ کے کاموں میں بھی وافر حصہ لیتی تھی۔ 3 سال کی عمر میں ماں مرگئی، 13 سال کی عمر میں مرحومہ کے والد احمد حسین صاحب مرحوم (جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وفا کیش مرید تھے) بھی سر سے گذر گئے ۔ 14 سال کی عمر میں مرحومہ کی شادی ہوئی مگر تین ہی سال کے بعد خاوند بھی سر سے اٹھ گیا اور مرحومہ بیوہ ہوگئی۔ اس کم عمری میں اتنی مشکلوں کے باوجود کبھی بھی عنان صبر کو ہاتھ سے نہ دیا اور ہمیشہ شکر گذار رہی ….. گذشتہ اپریل کو میرے ہمراہ خود قادیان جاکر حضرت اقدس خلیفۃ المسیح الثانی کے دست مبارک پر بیعت کی۔ ہمیشہ کہتیں کہ ہجرت کر کے قادیان چلے جائیں اور وہیں رہیں…. غرض یہی وہ عورت ہے جو اپنی پھوپھی کے بعد اڑیسہ کی مستورات میں سے سب سے پہلے قادیان گئی۔ مرحومہ کا ایک چار سالہ لڑکا اور ایک آٹھ دن کی لڑکی یادگار ہے۔ گذارش ہے کہ احباب ایسی نیک خاتون کے لیے دعاء مغفرت فرمائیں۔‘‘

(الفضل 15اکتوبر 1925ء صفحہ7)

یہ بیٹی بھی موصیہ (وصیت نمبر 2333) تھیں، یادگاری کتبہ بہشتی مقبرہ قادیان میں لگا ہوا ہے۔ اللّٰھم اغفر لھم و ارحمھم۔

(از غلام مصباح بلوچ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 24 فروری 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 25 فروری 2021