- مکرمہ امتہ الباری ناصر۔امریکہ سے لکھتی ہیں:
محبتوں میں پلے پوسے سعید احمد رفیق صاحب کا مضمون بہت ایمان افروز، سبق آموز اور دلچسپ طریق پر لکھا ہوا ہے۔ بہت سےعزیزوں کو بھیجا سب نے شوق سے پڑھا اور اچھے تأثرات کا اظہار کیا۔ یہ بھی احمدیت کا اعجاز ہے کہ جماعت کا ہر فرد یہ محسوس کرتا ہے کہ وہ سب سے زیادہ حضور انور کو پیار کرتا ہے اور حضور انور سب سے زیادہ اس سے پیار کرتے ہیں۔ کسی کو حضور کی ایک نظر ایک جملہ کوئی اظہار تعلق نصیب ہو جائے وہ ساری عمر اس سرمائے کو سینے سے لگائے رکھتا ہے۔ مربیان کرام سے حضور کا پُر لطف خصوصی مشفقانہ سلوک قابل تشکر ہے۔ اللہ تعالیٰ اس ٹھنڈے میٹھے سائے کو سلامت رکھے۔آمین اللّٰھم آمین
- مکرمہ خالدہ نزہت ۔آسٹریلیا سے لکھتی ہیں:
چند روز قبل کی اشاعت میں ’’بعض قرض کبھی اتارے نہیں جا سکتے‘‘ عنوان کے تحت جو مضمون پڑھنے کو ملا وہ بہت ہی دل گداز تھا ۔آپ نے آسان اور سادہ پیرائے میں اتنے پیارے انداز میں ماں کے پیار کو اجاگر کیا۔ ماشاء اللّٰہ
15 اور 16 فروری کی الفضل کی اشاعت میں دو قسطوں میں جو مربی سعید احمد رفیق کی ڈائری بعنوان ’’محبتوں میں پلے پوسے انسان کی کہانی‘‘ پڑھ کر مربی صاحب کی قسمت پر رشک آیا کہ کیسے خوش قسمت انسان ہیں جو حضور انور کی صحبت سے فیضیاب ہوئے ۔اللہ تعالیٰ ہمارے پیارے امام کا حامی و ناصر ہو ۔آمین
- مکرمہ ثمرہ خالد۔ جرمنی سے لکھتی ہیں:
مورخہ 11 فروری کے شمارہ میں ’’مطالعہ کتب‘‘ قابلِ رشک و قابلِ تقلید روایات و واقعات کے ساتھ بہت دلچسپ مضمون تھا۔یقیناً ہر کتاب دوست کے دل کے نہاں خانے میں یہ آرزو جنم لیتی ہے جس کو الفاظ کا جامہ حضرت مولوی غلام حسین رضی اللہ عنہ کی اس خواہش نے پہنایا ’’کہ دِل چاہتا ہے کہ میرے لئے ایسا مکان بنا دیا جائے جس کی دیواریں کتابوں کی بنی ہوں‘‘
یوں تو فی زمانہ انٹرنیٹ پر کتابیں پڑھنے کی سہولت موجود ہے لیکن کتاب سے پیار کرنے والے اس بات کو بخوبی جانتے ہیں کہ مطالعہ کی جو پیاس، کتاب کو ہاتھ میں پکڑ کر اُس سے تعلق باندھ کر بجھتی ہے وہ دورِ جدید کی اِن سہولیات سے ممکن نہیں۔
12 فروری کی اشاعت میں اداریہ ’’بعض قرض کبھی نہیں اتارے جا سکتے‘‘ ماں کی عظمت کو بہترین خراجِ تحسین تھا۔ درحقیقت صرف ایک یہی رشتہ ہےجو ہر قسم کے منفی جذبہ سے پاک، بے غرض وبے لوث محبتیں لٹانے والا اور اولاد کے حق میں ہمیشہ مجسم دعا ہوتا ہے۔خاکسار کی والدہ محترمہ آج سے 25 سال قبل کینسر کے سبب وفات پا گئیں تھیں۔ جب انہیں معلوم ہوا کہ ان کے پاس وقت کم ہے تو وہ ہمارے لئے ہمہ وقت مجسم دعا بن گئیں۔ اس سوچ کے ساتھ کہ اپنے کمسن بچوں کے لئے دعاؤں کا خزانہ چھوڑ جاؤں۔عاجزہ کی یہ خوش نصیبی ہے کہ ان کی بیماری اور تکلیف دہ وقت میں دل وجان سے ان کی خدمت کی توفیق ملی۔ (الحمد للّٰہ علی ذلک)
اللہ تعالیٰ ہر ایک کو والدہ کے مقام کو سمجھتے ہوئے ان کی خدمت کی توفیق عطا فرمائے اور ہر ماں کو اولاد کی طرف سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرمائے۔آمین
- مکرم رفیع احمد قریشی لکھتے ہیں:
چند روز قبل کی اشاعت میں شائع کردہ مضمون ’’بعض قرض کبھی اتارے نہیں جا سکتے‘‘ کادودن تک طبیعت پر بہت اثررہا۔ اب کچھ بہتر محسوس کیا تو لکھنے کی جسارت کر رہا ہوں ۔آپ کے قلم نے جس رنگ میں ’’ماں‘‘ کی بچوں کے لئے بےلوث محبت، خدمت، تربیت کا ذکر کیا اس سے مجھے ماں کے حوالے سے ایک واقعہ یاد آگیا کہ ایک ماں کے بارےمیں پڑھا تھا کہ جب وہ بسترمرگ پر تھی تو اپنے شوہر سے کہا کہ اگر میں شام تک مرجاؤں تو میری تدفین بعد میں کرنا۔ پہلے بچوں کوقرآن کریم پڑھنے کے لئے بھیجنا ۔ان کی چھٹی نہیں ہونی چاہئے۔ ایک احمدی ’’ماں‘‘ کا نمونہ ہے ۔
مجھے میری دادی جان نے پالا۔ ان کی گود میں میرا بچپن گزرا۔گو کہ کئی سال بیت گئے مگر میں دعا کے لئے قبرستان لازمی جاتا ہوں اور ان کے بلندی درجات اور مغفرت کے لئے دعا کرتاہوں۔
مجھے اپنی ماں سے بھی بہت محبت ہے۔ اور آج بھی ان کے آخری ایام یاد کرتا ہوں تو غمزدہ ہوجاتا ہوں ۔اپنے آخری ایام میں جب وہ بیماری کی وجہ سے ہسپتال میں داخل تھیں تو باوجود یہ کہ وہ کسی کو نہیں پہچان پاتی تھیں مگر مجھے پہچان لیا اور کہا ’’میرا رفیع‘‘ آگیا۔
اور اگلے ہی روز ان کا انتقال ہوگیا گویا وہ میری ہی منتظر تھیں۔ انا للّٰہ واناالیہ راجعون۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے، آمین۔
اللہ تعالیٰ ان تمام ماؤں کے درجات بلند کرتا رہے جو اپنی اولاد کو داغ مفارقت دے گئیں۔ اللہ تعالیٰ ان مرحوم ماؤں کی نیکیاں اولادوں میں جاری و ساری رکھے۔ اور ایسی مائیں جن کا سایہ اپنی اولادوں پر موجود ہے اللہ ان کی عمر میں برکت ڈالے۔ اولادوں کی نیکیوں کی وجہ سے ان کے اقبال کو بلند کرتا چلا جائے۔ اللہ ان کی اولادوں کو ماؤں کی آنکھوں کی ٹھنڈک بنائے۔ آمین اللّٰہم آمین
(ادارہ)