• 2 مئی, 2024

ساڈے ہتھ پیالہ زہر دا ۔۔۔۔۔

جنگ احد میں جب کفار کی طرف سے اسلامی لشکر کو کچھ نقصان پہنچا تو سردارِ لشکر ابو سفیان نے تعلّی سے بھر پور نعرہ لگایا کہ اِن لنا العزی ولا عزی لکم یعنی ہمارے لئے عزّی (ایک مشہور بُت) ہے اور تمہارے لئے کوئی عزّی نہیں۔ اس پر بے قرار ہوکر رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو ارشاد فرمایا کہ اس کو جواب دو کہ اللّٰہ مولانا وَلامولیٰ لکم ’’کہ اللہ تعالیٰ ہمارا آقا ہے اور تمہارا کو ئی آقا نہیں‘‘

دراصل یہ ایک وقتی نعرہ نہیں تھا بلکہ دائمی سچائی کا اظہار تھاکہ جس خدا نے اسلام کو زمین پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارکہ کے ذریعہ دنیا کی ہدایت کے لئے اتارا ہے وہ اسکی حفاظت کا بھی ہمیشہ ذمہ دار رہے گا اور پھر دنیا نے دیکھا کہ خدا تعالیٰ نے اپنے اس پیغام کو اس تیز رفتاری سے دنیا میں پھیلایا کہ چند سال کے اندر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکّہ کے موقع پر ان تمام بتوں کو جن کی مدد پر مشرکین نازکرتے تھے ٹکڑے ٹکڑے کردیا اور اسلام کی ترقی کو دنیا بھر میں کوئی روک نہ سکا۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ عالم اسلام میں بعض کمزوریاں بھی ظاہر ہوتی رہیں مگر رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئیوں کے مطابق ہر صدی پر ایک ایسا شخص کھڑا ہوتا رہا جس نے امّت کی صحیح راہ نمائی کا حق ادا کرتے ہوئے انہیں دوبارہ درست راستے کی طرف گامزن کر دیا۔

آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری زمانہ کی نشانیوں میں دجال کے ظہور اور یاجوج ماجوج کے دنیا میں غالب آجانے کی خبر دینے کے ساتھ ساتھ یہ خوشخبری بھی عطاء فرمائی کہ ان تمام فتنوں کے سدّ باب کے لئے خدا تعالیٰ ایک مسیح اور مہدی کو مبعوث فرمائے گا۔ جو ان تمام فسادوں کا قلع قمع کرکے بنی نوع انسان کا رخ دوبارہ خدا تعالیٰ کی طرف موڑنے کا عظیم الشان کام سرانجام دے گا۔

چنانچہ انہی پیش گوئیوں کے عین مطابق انیسویں صدی کے آخر پر خدا تعالیٰ نے قادیان میں حضرت مرزا غلام احمد علیہ السلام کو مبعوث فرماکر یہ کمر توڑ دینے والی ذمہ داری آپ کے سپرد کردی اوردنیا نے ایک بار پھر زبانِ حال سے مشاہدہ کیا کہ وہ نعرہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میدان احد میں لگایا تھا۔اسی کے تتبعّ میں آپ نے مخالفین کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا ’’آخر خدا ہمارا ہی حامی ہوگا۔ اوریہ عاجز اگرچہ ایسے کامل دوستوں کے وجود سے خدا تعالیٰ کا شکر کرتا ہے ۔لیکن باوجود اس کے یہ بھی ایمان ہے کہ اگر چہ ایک فرد بھی ساتھ نہ رہے اور سب چھوڑ چھاڑ کر اپنا اپنا راہ لیں تب بھی مجھے کچھ خوف نہیں۔میں جانتا ہوں کہ خدا تعالیٰ میرے ساتھ ہے۔ اگر میں پیسا جاوٴں اور کچلا جاوٴں اور ایک ذرّے سے بھی حقیر تر ہوجاوٴں اور ہر ایک طرف سے ایذا اور گالی اور لعنت دیکھوں تب بھی میں آخر فتحیاب ہوں گا۔ مجھ کو کوئی نہیں جانتا مگر وہ جو میرے ساتھ ہے۔ میں ہرگز ضائع نہیں ہوسکتا۔ دشمنوں کی کوششیں عبث ہیں اور حاسدوں کے منصوبے لاحاصل ہیں۔‘‘

’’اے نادانواور اندھو! مجھ سے پہلے کون صادق ضائع ہوا جو میں ضائع ہوجاوٴں گا ۔کس سچے وفادار کو خدا نے ذلت کے ساتھ ہلاک کردیا جو مجھے ہلاک کرے گا ۔یقیناً یاد رکھو اور کان کھول کر سنو میری روح ہلاک ہونے والی روح نہیں اور میری سرشت میں ناکامی کا خمیر نہیں‘‘

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی آمد کا مقصد بیان کرتے ہوئے فرمایا ’’وہ کام جس کے لئے خدا نے مجھے مامور فرمایا ہے وہ یہ ہے کہ خدا میں اور اس کی مخلوق کے رشتہ میں جو کدورت واقع ہوگئی ہے اس کو دور کرکے محبت اور اخلاص کے تعلق کو دوبارہ قائم کروں اور سچائی کے اظہار سے مذہبی جنگوں کا خاتمہ کرکے صلح کی بنیاد ڈالوں۔ (لیکچر لاہور)

جوں جوں سائنسی ترقیات کے باعث دنیا قریب سے قریب تر ہوتی چلی جارہی ہے تو ں توں انسانوں کے آپس میں اختلافات اور تنازعات بڑھتے چلے جارہے ہیں ۔نت نئی ایجادات نے جہاں بنی نوع انسان کو بہت سی آسانیاں فراہم کی ہیں وہاں خطرناک ترین ہتھیار اکٹھے کرنے کی دوڑ بھی تیز تر ہوتی چلی جارہی ہے۔ نتیجةً اگر ممالک کی آپس میں جنگ ہو جائے تو اِن مہلک ہتھیاروں کے باعث انسانیت کے معدوم ہونے میں کوئی کسر باقی نہیں رہے گی۔

جماعت احمدیہ کے قیام کا ایک بڑا مقصد انسانیت کی خدمت اور امن کی طرف واپسی کا سفر ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے ایک شعر میں فرماتے ہیں۔

میرا مقصود و مطلوب و تمنا خدمتِ خلق است
ہمیں کارم ہمیں بارم ہمیں رسمم ہمیں راہم

چنانچہ اسوقت دنیا میں جماعت احمدیہ واحد جماعت ہے جو کسی رنگ، نسل مذہب یا قومیت کی تفریق کئے بغیر انسانیت کی بہتری اور امن و سکون کے لئے کام کررہی ہے ۔دو صد ممالک میں پھیلی ہوئی یہ جماعت اسکولوں اور ہسپتالوں کی تعمیر، پانی کی فراہمی کے منصوبے ،زراعت کے پروگرام اور بے شمار فلاحی کاموں میں دن رات سرگرم ہے ۔اس کے علاوہ خلیفة المسیح اپنے خطبات ،تقاریر اور میٹنگز میں دنیا میں امن کے قیام اور انسانیت کی خدمت کے حوالہ سے مختلف سیاستدانوں ،لیڈروں اور پارلیمنٹس میں انصاف اور برابری کے اصولوں کو نافذ کرنے کی طرف دن رات توجہ دلارہے ہیں۔

دنیا بھر میں اس جماعت کے علاوہ کوئی ایسی تنظیم یا تحریک نہیں جو بین الاقوامی سطح پر اس طرح بنی نو ع انسان کی راہنمائی کا نہ صرف دعویٰ کرتی ہو بلکہ عملی طور پر دن رات اس مقصد کے لئے کوشاں بھی ہو اور جیسے جیسے جماعت دنیا میں پھیل رہی ہے خدمت انسانیت کے یہ منصوبے بھی وسعت اختیار کرتے چلے جارہے ہیں۔

جماعت کے افراد کو عموماً تعلیم یافتہ اور مہذب تسلیم کیا جاتا ہے آخر کیاوجہ ہے کہ ترقی پذیر ممالک میں احمدی احباب باقی ماحول سے ممتاز نظر آتے ہیں ۔باوجود انتہائی مخالفت کا سامنا کرنے کے اور مخالفین کی طرف سے ہر ناجائز حربہ استعمال کرنے کے احمدی تعلیم کے میدان میں ،تہذیب کے میدان میں، معاشیات کے میدان میں ،معاشرتی میدان میں اپنے گرد و نواح سے بہترنظر آتے ہیں اور بہتر ہوتے چلے جارہے ہیں ۔اگر غور کریں اور تعصب کی عینک اتار کر حقیقت پسندانہ جائزہ لیں تو صاف نظر آتا ہے کہ کوئ نادیدہ طاقت ان کی مدد کررہی ہے ۔ یہ ایک ایسی جماعت ہے جو ایک خلیفہ کی اطاعت کرتی ہے اور جیسا کہ قرآن کریم میں مذکور ہے کہ خلافت کے انعام کے باعث ان کے خوف امن میں بدل دئیے گئے ہیں اور انہیں تمکنت اور طمانیت عطا کی گئی ہے۔

ایک ایسی تنظیم کو جو ایک ہاتھ پر اٹھنے اور ایک ہاتھ پر بیٹھے کے عہد کے ساتھ خلافت سے وابستہ ہے اور خلیفہ وقت بھی اپنا دن رات ایک کرکے افراد جماعت کی بہتری اور ترقی کے لئے نہ صرف خدا کے حضور دعاوٴں میں مصروف ہیں بلکہ چوبیس گھنٹے افراد جماعت سے رابطہ میں ہیں ۔کسی کو کوئی تکلیف ،کوئی پریشانی ،کوئی بیماری ،کوئی خوشی ،کوئی کامیابی نصیب ہو ، رشتے ناطے کے مسائل ،بچوں کی تعلیم و تربیت،ملازمت ،مقدمات، وراثتی جھگڑے حتی کہ نومولودبچوں کے نام رکھنے کے لیے بھی افراد جماعت خلیفہ وقت کو اپنے اِن معاملات میں دعا کے لئے بھی درخواست کرتے ہیں اور راہنمائی بھی طلب کرتے ہیں اور دو صد ممالک میں پھیلے ہوئے لاکھوں احمدیوں کو خلیفہ وقت خود جواب دیتے ،راہنمائی فرماتے اور دعاوٴں میں یاد رکھتے ہیں۔

حضرت مصلح الموعود رضی اللہ عنہ نے خلافت کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے فرمایا ’’تمہارے لئے ایک شخص تمہارا درد رکھنے والا ،تمہاری محبت رکھنے والا ،تمہارے دکھ کو اپنا دکھ سمجھنے والا ،تمہاری تکلیف کو اپنی تکلیف جاننے والا ،تمہارے لئے خدا کے حضور دعائیں کرنے والا ہے‘‘

دنیا کا کوئی اور لیڈر ایسانہیں ہے جو اپنے متبعین کے خطوط کا خود مطالعہ بھی کرتا ہو اورانہیں جواب سے بھی نوازتا ہو ۔ افراد جماعت اور خلیفہ وقت کا ایسا مضبوط رشتہ باہمی محبت اور اعتماد پر قائم ہے جس کی مثال دنیا بھر کی کسی اور تنظیم میں نہیں ملتی۔ اور افراد جماعت کو ہمیشہ اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے شکر کے جذبات کے ساتھ کوشش کرنی چاہیے کہ کوئی مخالف اس تعلق میں دراڑ نہ ڈال سکے۔مخالفین کی ہمیشہ یہ کوشش رہی کہ وہ خلافت کے در خت سے جماعت کا پیوند توڑ دیں ۔کیونکہ جب تک یہ پیوند قائم ہے اس وقت تک کوئی دشمن جماعت کا بال بھی بیکا نہیں کرسکتا ۔گزشتہ تاریخ پر نظر دوڑائیں تو یہی بات عیاں ہوتی ہے کہ مخالفین نے خلیفہ وقت اور جماعت کے اس مضبوط پیوند کو مختلف غلط فہمیاں پھیلانے اور حیلوں بہانوں سے توڑنے کی کوشش کی مگر خدا تعالیٰ نے ہمیشہ اپنی قائم کردہ خلافت کی مدد فرمائی اور تمام پلید منصوبے خاک میں ملا دیے ۔

حدیث میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مَنْ لَّمْ یَشْکُرُ النَّاسَ لَمْ یَشْکُرُ اللّٰہ۔ جو شخص لوگوں کا شکرگزار نہیں وہ خدا کا بھی شکر گزار نہیں ۔ خلیفہ وقت جو ہماری بہتری کے لئے ،ہمارے آرام کے لئے ،ہماری ترقی کےلئے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا دنیا بھر میں بلند کرنے کے لئے اپنے آرام کو تج کے اپنی صحت سے بے پرواہ ہوکر ۔اپنے اہل خانہ کو دیے جانے والے وقت کو ہماری خاطر قربان کر کے صرف اور صرف ہم سب کی بہبود کے لیے دن رات محنت اور دعاوٴں میں مصروف ہیں۔ ان سے تعلق کا دم بھرنے والوں کے لئے بھی لازم ہے کہ وہ جذبہ شکر گزاری اور جذبہ عقیدت و محبت کے ساتھ اس تعلق کو برقرار رکھیں اور جس طرح ہماری ذرا سی تکلیف اور پریشانی کو محسوس کرکے وہ ہمارے لئے خدا سے خیر مانگنے میں مصروف ہیں ہم بھی ان کے لئے روزانہ دعا کو اپنی عادت بنالیں اور ہر کام میں کامل اطاعت کا ثبوت دے کر آپ کے دل کی تسلی کا موجب بنیں۔

حضرت نواب مبارکہ بیگم رضی اللہ عنہا نے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی بیماری کے دوران ایک نظم میں جماعت کو اس طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا تھا۔

گریہٴ یعقوب نصف شب خدا کے سامنے
صبرِ ایوبی برائے خلق باخندہ جبیں
قوم احمد جاگ تو بھی جاگ اس کے واسطے
انگنت راتیں جو تیرے درد سے سویا نہیں
آج فرزند مسیحائے زماں بیمار ہے
دعویٰ دارانِ محبت سو رہے جاکر کہیں

خدا کرے کہ جماعت کو بھی آپ کے لیےقرةالعین بننے کی توفیق عطا ہو اور آپ کی نگرانی میں یہ قافلہ جس کی بنیاد آنحضور ؐ کی پیشگوئیوں پر رکھی گئی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وجود سے جسے دوبارہ دنیا کی صحیح راستے کی طرف راہ نمائی کرنے کی قوت عطا کی گئی ہے۔ خدمتِ انسانیت کےاپنے اس عظیم سفر پر کامیابی کے ساتھ رواں دواں رہے۔

ایک پنچابی شاعر نے کیا خوب کہا ہے

ساڈے ہتھ پیالہ زہر دا
اساں ویلے دے سُقراط
اساں کَھنڈ بناندے کھار نوں
ساڈی جگ توں وکھری بات

(قاف۔سین۔احمد)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 24 فروری 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ