• 2 مئی, 2024

محترمہ اقبال خاتون مرحومہ کا قبول احمدیت

احمدیت کا ورثہ
محترمہ اقبال خاتون مرحومہ کا قبول احمدیت

ناروے جماعت کی ا یک بزرگ ممبر محترمہ اقبال خاتون (اہلیہ مکرم عبدالطیف مرحوم) جن کا خاندان ناروے میں آنے والے ابتدائی لوگوں میں شمار ہو تا ہے 29.09.2021 کو تقریباً اڑھائی ہفتے اسپتال میں اسٹروک کی تکلیف میں مبتلا رہ کر وفات پا گئیں۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ۔ مرحومہ موصیہ تھیں اور ناروے کے بہشتی مقبرہ میں دفن کی گئیں۔ آپ 1935ء میں ہندوستان کے شہر لکھنو کے قریبی قصبہ میں پیدا ہوئیں۔ آپ کے والدین، وہابی فرقہ سے تعلق رکھتے تھے۔ تقسیمِ ہند کے بعداپنی بڑی بہن اور بہنوئی (مکرم عبدالرحمان دہلوی) کے ساتھ ہجرت کر کے پاکستان آ گئیں۔پاکستان میں ان کی شادی مکرم قریشی عبداللطیف ابن مکرم عبدالشکور قریشی مرحوم جو مکرم قریشی ڈاکٹر لطیف احمد مرحوم کے چچا زاد بھائی تھے کے ساتھ انجام پائی۔ 1976ء میں قسمت اس خاندان کو ناروے لے آ ئی، جبکہ ان کے شوہر پہلے سے یہاں آ کر آباد ہو چکے تھے۔ خالہ جان اقبال خاتون سے میری پہلی ملاقات مسجد نور (اوسلو)، میں ہوئی ان کے اردو کے لہجے نے فوراً مجھے اپنی طرف کھینچا۔ اہل ِ زبان تھیں اور انتہائی شستہ اردو بول رہی تھیں۔ میں نے ان سے پہلی ملاقات میں ہی پوچھ لیا کہ آپ لکھنو سے آ ئی لگتی ہیں۔ میرا ا ن کے ساتھ عمر کے حساب سے تو دوستی کا کوئی جوڑ نہیں بنتا تھا مگر ان کی باتوں کا شستہ پن، دلچسپ گفتگو اور گفتگو کے درمیان بر جستہ محاورے، اور محاورے بھی وہ جو ہم نے کبھی انتظار حسین اور ان کے ہم عصر ادیبوں کے افسانوں میں پڑھے ہوئے تھے نے مجھے اپنی طرف کھینچا۔ پاکستان چھوڑے پانچ برس گزر چکے تھے، ان سے مل کر ایسے لگا جیسے کسی ادبی لائبریری میں پہنچ گئی ہوں۔ ہم دونوں کی بہت جلد دوستی ہوئی جو آ خر دم تک رہی۔ خوش پوش اور خوش نفیس مزاج کی حامل بہت وضع دار طبیعت والی شخصیت تھیں۔ ایک دو دفعہ کی ملاقات کے بعد معلوم ہوا کہ موصوفہ،باوجود اس کے کہ کالج وغیرہ کی تعلیم یافتہ نہیں مگر ادب کا بہت ذوق رکھتی ہیں، ہر قسم کے ادبی، علمی اور کتابیں چٹکیوں میں ختم کر دیتی ہیں، الفضل کا ہر مضمون اور اعلان انہیں یاد ہوتا تھا۔

جماعتی خدمات

محترمہ خالہ جان کی جب تک صحت اور طاقت رہی مجلس کے اور جماعتی ہر قسم کی تقریبات میں شامل ہوتی رہیں اور تندرستی کی حالت میں مقدور بھر خدمات بھی انجام دیتی رہیں۔ سلائی، کپڑوں کی کٹائی اور بنائی میں خالہ جان کو اچھی خاصی مہارت تھی، اس ہنر سے آپ نے لجنہ کو اچھا خاصافائدہ پہنچایا خود کام کرنے کے اعتبار سے بھی اور نئی لجنہ کو سکھانے کے اعتبار سے بھی۔ ہماری لجنہ مجلس ایک اور کام کے لئے بھی ان کی شکر گزار ہے۔ مجھے تاریخ تو یاد نہیں لیکن یہ 1990/91ءکی بات ہے کہ خواتین کی میت کے لئے کفن کی پیمائش، کٹائی اور نہلانے کے طریق کا معاملہ اُٹھا تو معلوم ہواکہ خالہ جان مرحومہ کو یہ کام آتا ہے، انہوں نے کفن کی پیمائش۔ کٹائی اور میّت کو نہلانے کا کام اپنے ذمے لیا اور پھر کچھ دوسری لجنات کو بھی اس میں ماہر کیا۔ اس وقت سے ناروے لجنہ کی یہ مشکل حل ہو چکی ہے۔ اسّی اور نوّے کی دہائی میں چونکہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ اور حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ متعدد مرتبہ ناروے (اوسلو) میں تشریف لائے، مربی سلسلہ کمال یوسف صاحب کی بیگم صاحبہ نے خالہ جان کو بھی خلفاء کاکھانا بنانے کے لئے ذمّے داری دی۔ چونکہ ان کے ہاتھ میں بہت لذّت تھی۔ کھانا بہت پریم سے اور مزے کا بناتی تھیں۔ اور نئی سے نئی لکھنوی ڈشز تیار کرتی تھیں۔ خالہ جان کو اپنے ہاتھ کا لکھنوی کھانے کے علاوہ کسی اور کاکھانا پسند نہیں آتا تھا۔ اس سلسلے میں تین برس قبل کی بات ہے جب میں ان سے ان کی زندگی کے حالات پوچھ کر لکھ رہی تھی تو انہوں نے خلافت ِ رابعہ کے ناروے کے دورے کے دوران ہونے والی ایک خوبصورت بات مجھے بتائی۔

’’حضور (خلیفۃ المسیح الرا بعؒ) کے لئے مربی صاحب کے کہنے پر ایک دن میں نے ایک لکھنو کی ڈش بنائی (مجھے بالکل نہیں یاد کہ ڈش کا نام کیا تھا، میرے ساتھ ایک اور خاتون بھی تھیں ان کو بھی ڈش کانام یاد نہیں رہا) بہرحال خالہ جان کے مطابق، کھانے کے وقت پیغام آیا کہ یہ کھانا کس نے بنایا ہے، انہیں حضور ؒ نے یاد کیا ہے چونکہ میں نے میٹھا بھی بنایا تھا، مربی صاحب کی بیگم نے کہا کہ میں اور آپ دونوں جاتی ہیں۔ مجھے اندر سے خوف آ رہا تھا کہ شائد حضور کو کھانا پسند نہیں آیا۔ حضور نے پوچھا ’’کیا یہ ڈش بہار والوں کی ہے کس نے بنائی ہے؟ کیسے بنتی ہے ؟بہت مزے کی ہے‘‘

پھر میری تسلّی ہوئی کہ حضور کو پسند آ ئی ہے اور میں نے بتایا کہ یہ بہاری نہیں لکھنوی ڈش ہے اور اس کا نام بھی بتایا اور حضور نے اس کا طریقہ بھی پوچھا خالہ جان نے بڑی محبّت اور رسانیت سے ہمیں یہ قصّہ سنایا۔ جمعہ سے خالہ جان کو محبت تھی جمعہ ضرور پڑھنے آ تیں اور ان کی یہ خواہش Covid 19 تک ان کے اکلوتےبیٹے (محترم عبدالرحمٰن محمود) اور ان کی بہو (عابدہ محمود) نے ماشاء اللّٰہ خوب ذمّے داری سے نبھائی۔

جوان بیٹی کی وفات پر صبر ورضا
اور اقرباء سے حسن ِ سلوک

ان کی زندگی میں ان کے ساتھ شوہر کی وفات کے بعد ایک اور بہت بڑا حادثہ ہو گیا جب ان کی جواں سال بیٹی (مبارکہ جعفری اہلیہ سّید رضا عباس جعفری) چھوٹے چھوٹے پانچ بچے چھوڑ کر وفات پا گئیں، اس حادثے نے ان کو کھوکھلا تو کردیا مگر ان کے بہو بیٹے، اور پوتے پوتیوں نے انکی خدمت اور دل بہلانے میں کو ئی کسر نہ اُ ٹھا رکھی، شائد یہی وجہ تھی اور کچھ طبیعت میں خودداری بھی بہت تھی کہ ہم نے ان کو کبھی بیٹی کے غم میں روتے دھوتے نہیں دیکھا۔ بیٹی کے بعد ان کی دولت ان کا بیٹا مکرم عبدالرحمٰن تھے، بیٹے اور بہو نے بھی والدہ کو کسی چیز کی کمی نہیں آ نے دی، مگر خالہ جان میں حد درجہ خود داری تھی، ان کی کوشش یہی ہوتی کہ اپنا ہر کام اپنے ہاتھ سے کریں۔ اللہ تعالیٰ ان کے صبر کا اجر انہیں دے۔ میں اکثر ان کی طبیعت کا پوچھنے ان کے ہاں جاتی تھی مگر وہ کبھی بھی بیٹی کو یاد کر کے بے صبری کی گفتگو نہیں کرتی تھیں۔ بیٹے کے ساتھ رہنے میں قانع تھیں۔ پوتے پوتیوں سے بے حد لگاؤ اور شفقت کا سلوک تھا۔خالہ جان کا ایک وصف اقربا پروری تھا۔ گو کہ ان کے کچھ عزیز غیر احمدی تھے، لیکن یہ ان عزیزان کے ساتھ بھی ویسے ہی لگاؤ اور محبت رکھتیں۔ ان کی ایک بھتیجی اور بھتیجی کی بیٹی جو احمدی نہیں تھیں، ان کے حالات بہت تنگ تھے، خالہ جان کے پاس جب بھی میں جاکر بیٹھتی وہ ان کی بات کرتیں، ان کے حالات پر کڑھتیں اور ان کی مدد کرنے کی مسلسل کو شش کر رہی ہوتیں، انہوں نے برس ہا برس اپنے ان عزیزوں کی مالی مدد کی ہے، ان کی بہو نے بتایا کہ وفات سے پہلے وہ اپنے ان عزیزوں کے لئے بہت پریشان تھیں کیونکہ ان کی بیٹی کی شادی تھی اور خالہ جان کو ان کی ضروریات کے متعلق بہت فکر تھی۔ اللہ تعالیٰ ان کو اس کا اجر دے آمین۔خالہ جان کو اللہ تعالیٰ نے عمرہ ادا کرنے کی توفیق بھی عطا فرمائی، یہ اس وقت کی بات ہے جب ابھی صفا اور مروہ پر چھت نہیں ڈالی گئی تھی۔ انہوں نے بارہا میرے سامنے اللہ کے اس احسان کو یاد کر کے شکر ادا کیا۔

مرحومہ کی زبانی، بیعت کرنے اور
ہندوستان سے ہجرت کرنے کے حالات

مجھے معلوم تھا کہ خالہ جان نے بچپن میں اپنے شوق سے احمدیت قبول کی تھی۔ میں چاہتی تھی کہ وہ اپنے خاندان میں قبولِ احمدیت اور کچھ مزید حالات لکھ دیں۔ اس لئے خاکسارنے ان سے درخواسست کر رکھی تھی کہ آپ اپنی بیعت کا قصہ، اور ہندوستان کی لجنہ کے ابتدائی حالات جو بھی یاد ہوں میرے لئے لکھ دیں تو نوازش ہوگی لہٰذا خاکسار کی خواہش کو پورا کرتے ہوئے وفات سے دو ماہ قبل انہوں نے نہات باریک لکھائی میں کچھ حالات لکھے، جسے ان کی پوتی نے مجھے کمپیوٹر پر بھیج دیا۔ وفات سے تین، چار ہفتے قبل میں نے فون پر بات کی تو، مجھے تمام لکھی ہوئی تحریر کھول کھول کر بیان کی۔ ا للہ تعالیٰ نے خود ہی ان کے دل میں ڈالا کہ اتنا وقت مجھے دے دیں۔ مضمون مکمل ہوگیا تو آپ خاموشی سے اپنے رب کے حضور رخصت ہو گئیں۔ان کی لکھی ہوئی تحریر حاضر ہے۔

’’میری پیدائش 1935ء کو لکھنؤ کے قریب ایک ضلع اوناومیں قصبہ رنجیت سنگھ، پروا کے علاقے میں ہوئی۔ مکرم عبدالرحمٰن دہلوی مرحوم کے بیٹے فضل الرحمٰن عامر صاحب نے اپنے والدین کی یاد میں ایک کتاب (بنام آئی جو ان کی یاد) لکھی ہے اس میں محترمہ نسیمہ بیگم صاحبہ اہلیہ (عبد الرحمان دہلوی صاحب) کی لکھی ہوئی تحریر کے مطابق ان کے جدِّ امجد راجہ داہر کے خاندان سے تھے، جنہوں نے اسلام قبول کر لیا تھا، اور نہ جانے کس مناسبت سے یہ خان زادے کہلاتے تھے آج بھی ان کے محلّے کا نام محلہ خانزادہ ہے۔ یہ تو مجھے معلوم نہیں کہ خاندان میں احمدیت کس کے ذریعہ آئی، یہ معلوم ہے کہ میری پھوپھی کے ایک بیٹے احمدی تھے۔ ان کی وجہ سے ہمارے گھر میں بھی احمدیہ جماعت کا ذکر چلتا رہتا، ہو سکتا ہے ان کے علاوہ بھی کوئی اور احمدی ہو۔ جب ذرا بڑی ہوئی تو میرے شعور میں یہ بات آئی کہ میرے والد احمدیوں کے خلیفہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد ؓ سے دو دفعہ ملاقات کرنے قادیان گئے ہیں اور میرے سننے میں یہ بھی آتا رہا کہ والد صاحب حضور کے ساتھ خط وکتابت بھی رکھتے ہیں۔بہت بچپن کی ایک بات مجھے یاد ہے کہ، گھر میں سب باتیں کر رہے تھے کہ مرزا بشیر الدین محمود صاحبؓ سفر کے دوران لکھنؤ کے قریب کسی اسٹیشن پر رکیں گے۔ میری یاد داشت میں ہے کہ میرے پھوپھی زاد بھائی تو گئے ہی تھے ان کے علاوہ اور بھی بہت سے مردو خواتین ان کی ملاقات کو گئے تھے۔

کچھ عرصہ بعد ہمارے گھر میں، ہماری بڑی آپا محترمہ نسیمہ بیگم (اہلیہ مکرم عبدالرحمٰن دہلوی) ہمارے اپنے گھر میں احمدیت لانے کا سبب بنیں۔ کچھ یوں ہوا کہ قادیان، احمدیت اور مرزا صاحب (میرے ذہن میں مرزا محمود احمد ؓ ہے) کا نام ہمارے ہاں اکثر ہوتا۔مجھے اب زیادہ یاد نہیں آرہا بس اتنا یاد ہے کہ قادیان میں جوبلی کی تقریبات ہوئیں، میری بڑی آپا نسیمہ، (اہلیہ مکرم ٖعبدالرحمٰن دہلوی) جو مجھ سے بارہ سال بڑی تھیں قادیان میں ہونے والی جوبلی کی تقریبات میں شرکت کے لئے گئیں ،گو کہ ہمارے پھوپھی زاد بھائی کے سوا ہمارے خاندان میں اُس وقت تک کسی نے باقاعدہ احمدیت قبول نہیں کی تھی، لیکن پھر بھی نہ جانے کیا بات تھی کہ بڑی آپا، کسی نہ کسی طرح قادیان کی ان بابرکت تقریبات میں شامل ہونے کے لئے گئی تھیں اور وہاں سے بیعت کا شرف لے کر واپس آ ئیں، یوں اللہ کے فضل سے ہمارے گھر میں احمدیت بڑی آپا لے کر آ ئیں۔ الحمد للّٰہِ۔

ہماری آپا کس جذبے سے، کیسے؟ کیوں؟ اور کس طرح اکیلی، تنِ تنہا قادیان پہنچیں۔اس کے متعلق میں زیادہ نہیں لکھ سکتی مختصر یہ کہ یہ داستان اپنی ذات میں ایک مہم ہے۔ بہر حال ہماری آپا کا ہمارے خاندان پر احسان ہے کہ انہوں نے ہمیں احمدیت کی راہ دکھائی۔ ان کے آنے کے بعد میری والدہ نے بھی بیعت کر لی، کیسے کر لی یہ سب کچھ میرے ذہن میں نہیں ہے(میری والدہ میرے بچپن میں وفات پاگئی تھیں،ان کے متعلق زیادہ باتیں یاد نہیں) مگر یہ ضرور مجھے معلوم ہے کہ میرے والد صاحب کو اس بات پر کوئی اعتراض نہیں تھا۔ ایک مرتبہ عید کا موقعہ تھا، اس وقت میری عمر دس سال کے لگ بھگ تھی، میں اپنے پھوپھی زاد بھائی (جو احمدی ہو چکے تھے) کے ہاں تھی وہاں عید کی نماز ہو رہی تھی، میں بھی شامل تھی۔ مجھے یاد ہے مرد باہر لان میں نماز پڑھ رہے تھے، بھائی صاحب نے نماز پڑھائی۔ عید کی تقریب ختم ہوئی تو نہ جانے کیا جذبہ تھا؟ میرے د ل میں کیا خیال آ یا کہ میں ایک پوسٹ کارڈ لے کر بھائی صاحب کے پاس گئی کہ مجھے یہاں قادیان کے لئےخط لکھ دیں میں نے بھی بیعت کرنی ہے اور احمدی ہونا ہے۔ اب تک مجھے کبھی کسی نے نہیں کہا تھا کہ تم بھی بیعت کر لو، یہ خیال مجھے خود ہی آیا تھا۔

مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ بھائی صاحب کا چہرہ خوشی سے کھل اٹھا تھا، مگر وہ بولے کچھ نہیں۔ خاموشی سے ایک الگ کاغذ پر مجھے حضور کے نام بیعت کرنے کا مضمون لکھ دیا۔ میں نے اس تحریر کو پوسٹ کارڈ پر اتار لیا، بھائی صاحب نے وہ کارڈ ڈاک میں ڈال دیا، کچھ دنوں بعد انہوں نے مجھے بتایا کہ ’’قادیان سے واپسی جواب آ گیا ہے تمہاری بیعت منظور ہو گئی ہے‘‘۔ لکھنو میں کسی کے گھر میں جماعتی اجلاسات وغیرہ ہوتے تھے۔ ایک مرتبہ کا مجھے یاد ہے کہ اس اجلاس میں میں شامل ہوئی تو مرکز یعنی قادیان سے مہمان آئے ہوئے تھے جن کی وجہ سے بڑی گہماگہمی تھی۔مہمانوں میں مرد بھی تھے اور خواتین بھی۔

نئے وطن، پاکستان کی طرف ہجرت

خالہ جان نے میری فرمائش پر تقسیم ِ ہند کے متعلق،پاکستان ہجرت کا مختصرواقعہ ایسے سنایا ’’کہ تقسیم کا حتمی وقت آنے سے کچھ عرصہ قبل ہم تک یہ ا طلاع تھی کہ قادیان پاکستان میں شامل ہو گا، ہمارے گھر کے علاوہ دوسرے احمدی لوگوں نے بھی اپنے اپنے طور پر قادیان پہنچنے کا پروگرام بنا رکھا تھا۔ لیکن سفر آسان نہیں تھا۔ ٹرانسپورٹ کا انتظام اتنا وسیع نہیں تھا کہ لوگ آسانی سے سفر کر سکتے۔ بہرحال ہم دو کزن بہنیں اور ایک بھتیجی 1947 کو جون کے مہینہ میں قادیان پہنچ گئے۔ ہماری بڑی آپا اپنے سسرال کے ساتھ قادیان ہی میں رہتی تھیں۔ وہاں ایک مکان کرائے پر لیا اور کچھ ہفتے سکون کے کاٹے۔ کچھ دنوں میں خبر آ گئی کہ قادیان تو پاکستان میں نہیں شامل ہو رہا۔ بہت پریشانی کا عالم تھا، قادیان میں ہر طرف انڈین فوج آ چکی تھی، بجلی بند پانی، بند، بجلی بند تو آٹا پیسنے والی چکّی بھی بند، گھر میں پکانے کا کوئی سامان نہ ہوتا، باہر نکلا نہ جاتا، ایک روز ہمارا دروازہ اور کھڑکیاں بار بار کھڑکیں، کوئی صاحب تھے انہوں نے ہمیں بتایا کہ سوائے آپ کے اس محلے کا ہر مکان خالی پڑا ہے، ہم جس حال میں تھے اور وہ ایک ایک تھیلا جو ہم نے اپنے لئے تیار کر رکھا تھا اٹھایا اور باہر بھاگے۔ کسی بورڈنگ ہا ؤ س میں مرد اور عورتیں الگ الگ جمع ہو رہے تھے۔ یہ ایک لمبی داستان ہے جس میں خوف ہی خوف تھا، بہر حال ہم بہت دن کے انتظار کے بعد فوجی ٹرکوں پر کسی نہ کسی طرح پاکستان کی سرحد میں داخل ہو گئے۔‘‘

پاکستان میں ربوہ کا پہلا جلسہ

خالہ جان نے خاکسار کو بارہا بہت سی باتیں بتائی ہوئی ہیں۔ لیکن میری کوشش ہے کہ زیادہ تر وہی لکھوں جو انہوں نے آخری ملاقات میں کی تھیں یا لکھ کر دی تھیں۔ پاکستان میں ہجرت کرنے کے بعد ربوہ میں ہونے والے پہلے جلسہ کے مناظر بھی انہیں یاد تھے۔ میری خواہش پر انہوں نے ایسے بیان کیا کہ ’’پاکستان میں جماعت کی ضروریات دیکھتے ہوئے بہت جلد، حضرت مصلح ِ موعودؓ نے اللہ سےاذن پاکر دریائے چناب کے کنارے جماعت کا نیا مرکز قائم کردیا، ہمیں بھی کسی کے ذریعے اطلاع ملی کہ، چنیوٹ کے قریب دریائے چناب کے کنارے کوئی جگہ منتخب کی گئی ہے۔ ایک سال سے کم عرصہ میں وہاں جلسہ ہونے کی اطلاع بھی پہنچ گئی۔ یوں پاکستان میں ہونے والے پہلے جلسہ سالانہ پر مجھ عاجز کو بھی جانے کی سعادت نصیب ہوئی۔۔۔۔۔۔یہاں اللہ تعالیٰ نے وہ موقعہ اور سعادت بخشی جس کے متعلق شائد کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔ جلسہ کے قیام کے دوران جب کہ خواتین ایک خیمے میں بیٹھی تھیں کہ اطلاع ملی کہ حضورؓ تشریف لارہے ہیں۔ چنانچہ کچھ دیر انتظار کے بعدحضرت مصلح ِموعوؓد حضرت چھوٹی آپا کے ساتھ وہاں تشریف لائے سلام کیا سب کا مشترکہ حال احوال پوچھا اور پھر ہم خواتین سے مشترکہ بیعت کی تقریب عمل میں آ ئی، حضور ؓ بیعت کے الفاظ کہتے اور ہم خواتین ان کے پیچھے پیچھے الفاظ دُہراتی رہیں، دعا کے بعد حضور ؓ واپس تشریف لے گئے۔ یوں مجھ عاجز کی حضور انورسے دستی بیعت ہو گئی‘‘

اللہ تعالیٰ انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔ اور ان کی بہو، عابدہ بیٹے عبدالرحمان اور ان کے چاروں بچوں، ابراہیم، فرحان، آمنہ اور صوفیہ کو جزائے خیر عطا کرے، انہوں نے اپنی دادی اور ہماری خالہ جان کی بہت خدمت کی ہے۔ آمین۔

(نبیلہ رفیق۔ ناروے)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 24 فروری 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ