• 2 مئی, 2024

ربط ہے جانِ محمدؐ سے مری جاں کو مدام (قسط 13)

ربط ہے جانِ محمدؐ سے مری جاں کو مدام
کھانے میں برکت
قسط 13

فروری مارچ 5 شوال 627 ہجری کفار مکہ نے ارد گرد کے قبائل کو ملا کر کثیر لشکر اور سازو سامان کے ساتھ مدینہ کی طرف پیش قدمی شروع کی تو آنحضور ﷺ نے اپنے دفاع کے لئے حضرت سلمان فارسی ؓ کے مشورے پر مدینے کے گرد خندق کھودنے کا کام شروع کروایا یہ شدید محنت طلب کام تھا۔ سخت سردی میں دن رات کام کرنے سے صحابہ کرام ؓ نڈھال ہو گئے اس کام میں مصروفیت سے معمول کی رزق کمانے کی کوششیں بھی معطل تھیں بھوک پیاس برداشت کرکے کام کرنا بہت مشکل تھا ایسے میں اللہ تعالی نے اپنے پیاروں کی جسمانی اور روحانی ضیافت کا انتظام فرمایا۔ ایک ایمان افروز واقعہ پڑھئے۔ ایک مخلص صحابی جابر بن عبداللہ ؓنے آپؐ کے چہرہ پر بھوک کی وجہ سے کمزوری اور نقاہت کے آثار دیکھ کر آپؐ سے اپنے گھر جانے کی اجازت لی اور گھر آکر اپنی بیوی سے کہا آنحضرت ﷺ کو بھوک کی شدت سے سخت تکلیف معلوم ہوتی ہے۔ کیا تمہارے پاس کھانے کو کچھ ہے؟ہاں کچھ جَو کا آٹا اور ایک بکری ہے جابر ؓ کہتے ہیں میں نے بکری کو ذبح کیا اور آٹے کو گوندھا اورپھر اپنی بیوی سے کہا تم کھانا تیار کرو میں جاکر رسول اللہﷺ کی خدمت میں عرض کرتا ہوں کہ تشریف لے آئیں بیوی نے کہا مجھے ذلیل نہ کرنا کھانا تھوڑا ہے رسول اللہ ؐ کے ساتھ زیادہ لوگ نہ آئیں جابر ؓ کہتے ہیں کہ میں گیااورمیں نے آہستگی سے آنحضور ﷺ سے عرض کیا یا رسول اللہ ؐمیرے پاس کچھ گوشت اور جَو کا آٹا ہے جن کے پکانے کے لئے میں اپنی بیوی کو کہہ آیا ہوں آپ اپنے چند اصحاب کے ساتھ تشریف لے آئیں اور کھانا تناول فرمائیں۔ آپؐ نے فرمایا کھانا کتنا ہے میں نے عرض کیا کہ اس اس قدر ہے۔آپؐ نے فرمایا بہت ہے پھر آپ نے ادھر ادھر نگاہ ڈال کر بلند آواز سے فرمایا: اے مہاجرین و انصار کی جماعت! چلو جابر نے آپ کی دعوت کی ہے چل کر کھانا کھالو۔ اس آواز پر کوئی ایک ہزار فاقہ مست صحابی آپ کے ساتھ ہولئے۔ آپؐ نے جابرؓ سے فرمایا تم جلدی جلدی جاؤاور اپنی بیوی سے کہہ دو کہ جب تک میں نہ آؤں ہنڈیا چولھے سے نہ اتارے اور نہ ہی روٹیاں پکانی شروع کرے۔ جابرؓ نے جاکراپنی بیوی کو اطلاع دی اور وہ بیچاری سخت گھبرا گئی کہ کھانا تو چند آدمیوں کا اندازہ ہے اور آرہے ہیں اتنے لوگ! اب کیا ہوگا مگر آنحضرت ﷺ نے وہاں پہنچتے ہی بڑے اطمینان کے ساتھ ہنڈیا اور آٹے کے برتن پر دعا فرمائی اور پھر فرمایا اب روٹیاں پکانا شروع کردو اس کے بعد آپ نے آہستہ آہستہ کھانا تقسیم فرمانا شروع فرما دیا۔ جابرؓ روایت کرتے ہیں کہ مجھے اس ذات کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں ہماری جان ہے کہ اسی کھانے میں سب لوگ سیر ہوکر اٹھ گئے اور ابھی ہماری ہنڈیا اسی طرح ابل رہی تھی اور روٹیاں اسی طرح پک رہی تھیں۔‘‘

(بخاری کتاب المغازی حالات غزوہء احزاب)

(استفادہ از سیرۃ خاتم النبیین ؐ جلد دوم از ہادی علی چودھری صفحہ 576)

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی ذات بابرکات سے ایسی ہی برکات و فیوض کا سلسلہ جاری ہوا۔ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے چند مہمانوں کی دعوت کی اور ان کے واسطے گھر میں کھانا تیار کروایا مگر عین جس وقت کھانے کا وقت آیا اتنے ہی مہمان اور آگئے۔اور مسجد مبارک مہمانوں سے بھر گئی حضرت صاحب نے اندر کہلا بھیجا کہ اور مہمان آگئے ہیں کھانا زیادہ بھجواؤ۔ اس پر بیوی صاحبہ نے حضرت صاحب کو اندر بلوا بھیجا اور کہا کہ کھانا تو تھوڑا ہے صرف ان چند مہمانوں کے لئے پکایا گیا تھا جن کے واسطے آپ نے کہا تھا مگر شاید باقی کھانے کا تو کھینچ تان کر انتظام ہوسکے گامگر زردہ تو بہت ہی تھوڑا ہے اس کا کیا کیا جاوے میرا خیال ہے کہ زردہ بھجواتی ہی نہیں صرف باقی کھانا نکال دیتی ہوں۔ حضرت صاحب نے فرمایا نہیں یہ مناسب نہیں تم زردے کا برتن میرے پاس لاؤ چنانچہ حضرت صاحب نے اس برتن پر رومال ڈھانک دیا پھر رومال کے نیچے اپنا ہاتھ گزار کراپنی انگلیاں زردے میں داخل کردیں اور پھر کہا اب تم سب کے واسطے کھانا نکال دو خدا برکت دے گا چنانچہ میاں عبداللہ صاحب کہتے ہیں کہ زردہ سب کے واسطے آیا سب نے کھایا پھر بھی کچھ بچ گیا…

(سیرۃ المہدی صفحہ 133-134)

حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے اپنی والدہ صاحبہ حضرت نصرت جہاں بیگم صاحبہؓ سے معجزاتی برکت کے بارے میں استفسار فرمایا تو آپ نے بیان فرمایا: ایسے واقعات بارہا ہوئے ہیں کہ تھوڑا کھانا تیار ہوا پھر مہمان زیادہ آگئے مثلاََ پچاس کا کھانا تیار ہوا تو سو آگئے لیکن وہی کھانا حضرت صاحب کے دم سے کافی ہوجاتا رہا۔پھر حضرت والدہ صاحبہ نے ایک واقعہ بیان کیا کہ ایک دفعہ کوئی شخص حضرت صاحب کے واسطے ایک مرغ لایا۔میں نے حضرت صاحب کے واسطے اس کا پلاؤ تیار کرایااور وہ پلاؤ بس اتنا ہی تھا کہ بس حضرت صاحب کے واسطے تیار کروایا تھا مگر اسی دن اتفاق ایسا ہوا کہ نواب صاحب نے اپنے گھر میں دھونی دلوائی تو نواب صاحب کے بیوی بچے ادھر ہمارے گھر آگئے اور حضرت صاحب نے مجھے فرمایا کہ ان کو بھی کھانا کھلاؤ۔ میں نے کہا کہ چاول تو بالکل ہی تھوڑے ہیں صرف آپ کے واسطے تیار کروائے تھے۔حضرت صاحب نے فرمایا چاول کہاں ہیں پھر حضرت صاحب نے چاولوں کے پاس آکر ان پر دم کیا اور کہا اب تقسیم کردو۔والدہ صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ ان چاولوں میں ایسی برکت ہوئی کہ نواب صاحب کے سارے گھرنے کھائے او پھر بڑے مولوی صاحب (یعنی حضرت مولوی نورالدین صاحب) اور مولوی عبدالکریم صاحب کو بھی بھجوائے گئے اور پھر قادیان میں کئی لوگوں کودئے گئے اور پھر چونکہ وہ برکت والے چاول مشہور ہوگئے تھے اس لئے کئی لوگوں نے آآکر ہم سے مانگے اور ہم نے سب کو تھوڑے تھوڑے تقسیم کئے اور وہ سب کے لئے کافی ہوئے۔

(سیرۃ المہدی صفحہ 134 – 135)

(امۃ الباری ناصر۔ امریکہ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 24 فروری 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ