• 26 اپریل, 2024

نماز کی حقیقت

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’رُوح کا کھڑا ہونا یہ ہے کہ وہ خدا کے لئے ہر ایک مصیبت کی برداشت اور حکم ماننے کے بارے میں مستعدی ظاہر کرتی ہے اور اس کا رکوع یعنی جھکنا یہ ہے کہ وہ تمام محبتوں اور تعلّقوں کو چھوڑ کر خدا کی طرف جھک آتی ہے اور خدا کے لئے ہو جاتی ہے اور اُس کا سجدہ یہ ہے کہ وہ خدا کے آستانہ پر گِر کر اپنے تئیں بکلّی کھو دیتی ہے اور اپنے نقشِ وجود کو مٹا دیتی ہے۔یہی نماز ہے جو خدا کو ملاتی ہے اور شریعت اسلامی نے اس کی تصویر معمولی نماز میں کھینچ کر دکھلائی ہے تا وہ جسمانی نماز روحانی نماز کی طرف محرک ہو کیونکہ خدا تعالیٰ نے انسان کے وجود کی ایسی بناوٹ پیدا کی ہے کہ روح کا اثر جسم پر اور جسم کا اثر روح پر ضرور ہوتا ہے ۔ جب تمہاری روح غمگین ہو تو آنکھوں سے بھی آنسو جاری ہو جاتے ہیں اور جب روح میں خوشی پیدا ہو تو چہرہ پر بشاشت ظاہر ہو جاتی ہے ۔ یہاں تک کہ انسان بسا اوقات ہنسنے لگتا ہے ایسا ہی جب جسم کو کوئی تکلیف اور درد پہنچے تو اس درد میں روح بھی شریک ہوتی ہےاور جب جسم کُھلی ٹھنڈی ہوا سے خوش ہو تو روح بھی اس سے کچھ حصہ لیتی ہے پس جسمانی عبادات کی غرض یہ ہے کہ روح اور جسم کے باہمی تعلقات کی وجہ سے روح میں حضرت ِ احدیت کی طرف حرکت پیدا ہو اور وہ روحانی قیام اور رکوع اور سجود میں مشغول ہو جائے کیونکہ انسان ترقیات کے لئے مجاہدات کا محتاج ہے اور یہ بھی ایک قسم مجاہدہ کی ہے۔‘‘

(لیکچر سیالکوٹ، روحانی خزائن جلد 20، صفحہ224)

’’نماز کیا چیز ہے؟ نماز در اصل ربّ العزت سے دعا ہے جس کے بغیر انسان زندہ نہیں رہ سکتا اور نہ عافیت اور خوشی کا سامان مل سکتا ہے۔ جب خدا تعالیٰ اس پر اپنا فضل کرے گا اس وقت اُسے حقیقی سرور اور راحت ملے گی۔ اس وقت سے اس کو نمازوں میں لذّت اور ذوق آنے لگے گا جس طرح لذیذ غذاؤں کے کھانے سے مزا آتا ہے۔ اسی طرح پھر گریہ و بُکا کی لذت آئے گی اور یہ حالت جو نماز کی ہے پیدا ہو جائے گی ۔ اس سے پہلے جیسے کڑوی دوا کو کھاتا ہے تاکہ صحت حاصل ہو اسی طرح بے ذوقی نماز کو پڑھنا اور دعائیں مانگنا ضروری ہیں۔ اس بے ذوقی کی حالت میں یہ فرض کر کے کہ اس سے لذت اور ذوق پیدا ہو یہ دعا کرے کہ اے اللہ تُو مجھے دیکھتا ہے کہ مَیں کیسا اندھا اور نابینا ہوں اور مَیں اس وقت بالکل مُردہ حالت میں ہوں۔ مَیں جانتا ہوں کہ تھوڑی دیر کے بعد مجھے آواز آئے گی تو میں تیری طرف آجاؤں گا۔ اُس وقت مجھے کوئی روک نہ سکے گا لیکن میرا دل اندھا اور ناشناسا ہے تُو ایسا شعلہ نور اس پر نازل کر کہ تیرا اُنس اور شوق اس میں پیدا ہو جائے۔ تُو ایسا فضل کر کہ مَیں نابینا نہ اُٹھوں اور اندھوں میں نہ جا ملوں۔

جب اس قسم کی دعا مانگے گا اور اس پر دوام اختیار کرے گا تو وہ دیکھے گا کہ ایک وقت اس پر ایسا آئے گا کہ اس بے ذوقی کی نماز میں ایک چیز آسمان سے اس پر گرے گی جو رِقّت پیدا کر دے گی۔‘‘

(ملفوظات جلد 2 صفحہ 616)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 24 مارچ 2020

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ