• 20 اپریل, 2024

اطاعت والدین

اطاعت و فرمانبرداری کا حقیقی مفہوم ’’سمعنا و اطعنا‘‘ کے الفاظ میں پایا جاتا ہے ۔ سادہ انداز میں اسے یوں بیان کیا جاسکتا ہے ۔سر تسلیم خم ہے جو مزاج یار میں آئے ۔ سماجی اور تمدنی زندگی نے حقوق و فرائض کے باہمی رشتہ وتعلق کے دائرہ ہائے فکر وعمل کو متعین کر دیاہے ہرمعاشرہ اور قوم کے خمیر کی اٹھان اور ترقی و تنزلی ان کی درجۂ اعتدال اور عدم اعتدال کی بجا آوری پر قائم و استوار ہے ۔ والدین کے جو حقوق و فرائض ہیں ان کے حقوق کی منصفانہ اور مساویانہ ادائیگی کا نام اطاعت و فرمانبرداری ہے جو اولاد کے فرائض کا دوسرا نام ہے۔

اخلاق حسنہ ترک شر اور ایصال خیر کی جامعیت کے مظہر ہیں۔ دونوں پہلوؤں کو زوایۂ مستقیم پر رکھنا خُلق کہلاتا ہے لیکن اگربنظر عمیق دیکھا جائے تو ترک شر ادنیٰ پہلوہے اور ایصال خیر اعلیٰ پہلو ہے۔

مثلاً خیانت کے مقابل پر دیانت و امانت ایک اعلیٰ وارفع خوبی اور وصف ہے۔

اطاعت والدین میں بھی ’’نہ کر‘‘ (ترک شر) اور ’’کر‘‘ (ایصال خیر) کے دونوں پہلو موجود ہیں ان دونوں باتوں کا لحاظ رکھے بغیر اطاعت والدین کا فریضہ کما حقہٗ ادا نہیں ہو سکتا ۔ قرآن مجید نے پوری صراحت و وضاحت سے ان دونوں زاویوں کو اجاگر کیا ہے۔ اس لئے اولاً ’’نہ کر’’ کے کردار و عمل کا بحوالہ قرآن کریم ذکر کیا جاتا ہے۔

بڑھاپے میں انسان کا جسم وروح گزرتے وقت کے ساتھ کمزورسے کمزور تر ہوتے جاتے ہیں۔ عدم برداشت میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ مختلف عوارض لاحق ہوجاتے ہیں۔ مزاج میں چڑ چڑا پن پیدا ہو جاتاہے۔ احساس تکلیف بڑھ جاتا ہے اس کے مقابل پر اولاد کے قویٰ توانا اور مضبوط ہوتے ہیں۔ برداشت کا مادہ بڑھا ہوتا ہے ان حالات میں جب والدین کی جانب سے درشتی، سختی اورناگواری کی بات پر اظہار ہو تو ارشاد خداوندی ہے کہ اولاد ’’اُف’’ تک کا اظہار بھی نہ کرے یہ ناپسندیدہ کا کم سے کم اظہار ہے۔ یعنی چہرہ کے اتار چڑھاؤ سے اور لبوں کی حرکت و جنبش سے اپنی ناگواری ظاہر نہ کرے۔

’’تنھر‘‘ کی صورت کے سامنے بلند آواز، درشت انداز، جھڑکنا اور سختی سے روارکھے جانے والے بد سلوک رویہ سے روکا گیا ہے۔ ’’اُف‘‘ اور ’’تنھر‘‘ جیسے الفاظ کے ذریعے والدین کے احساسات و جذبات کا تحفظ کیا گیا ہے۔
مشرکانہ امور میں والدین کی اطاعت کو لازم قرار دیا گیا ہے البتہ دنیوی معاملات میں ان کے ساتھ نیک تعلقات جن کو لفظ ’’معروف‘‘ سے تعبیر کیا گیا ہے وہ قائم اور برقرار رکھنے کا ارشادِ باری تعالیٰ ہے۔ جیسا کہ قرآن مجید میں ہے۔

قُلۡ اَذٰلِکَ خَیۡرٌ اَمۡ جَنَّۃُ الۡخُلۡدِ الَّتِیۡ وُعِدَ الۡمُتَّقُوۡنَ ؕ کَانَتۡ لَہُمۡ جَزَآءً وَّ مَصِیۡرًا ﴿﴾

ترجمہ: اور اگر وہ دونوں تجھ سے بحث کریں کہ تو کسی کو میرا شریک مقرر کر جس کا تجھے کوئی علم نہیں ہے تو ان دونوں کی بات مت مانیو ہاںدنیوی معاملات میں ان کے ساتھ نیک تعلقات قائم رکھیو۔

(الفرقان:16)

اطاعت والدین کے سلسلہ میں عمل سے قبل انداز گفتگو آتا ہے ان ضمن میں ارشاد باری تعالیٰ ہے قول کریم سے کام لیں۔ یعنی اس انداز اور طریق پر والدین کو مخاطب کریں کہ ان کی بزرگی، وقار و عظمت اور جلالت کو زک اور ٹھیس نہ پہنچے۔ ان کی کسر شان نہ ہو۔ نہایت ادب و احترام سے گفتگو کریں تاکہ ان کی عزت و تکریم میں اضافہ ہو۔ کمی نہ آئے۔ ان کی وجاہت برقرار رہے۔

اطاعت کی عملی صورت میں طرز عمل عاجزانہ رنگ رکھتاہو اور اس میں رحم کاجذبہ کار فرماہو۔

ایک انسان کے مالی وسائل کا فقدان، اثرات ماحول اور دیگر قضاء وقدر کے حالات بعض اوقات اطاعت کے معاملہ میںسد راہ بن کر اطاعت کی کمی کاباعث بن جاتے ہیں۔ انسان فرائض کی ادائیگی میں مجبور و معذور ہوجاتا ہے اور مقدور بھر خدمت بجا لانے سے محروم اور قاصر رہتا ہے ۔ ایسے پیش آمدہ حالات کے وارد ہونے یا نہ ہونے کے اعتبار سے اولاد کو والدین کے لئے ہمیشہ دعاگورہناچاہئے تاکہ اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کی رداء انسان کی بشری کمزوریوں اور دیگر نا مساعد حالات کو ڈھانپے رکھے ۔ دعا کرتے وقت اپنی صغرسنی کو مد نظر رکھے کہ ان حالات میں میرے والدین میری پرورش میں ذاتی محبت سے ہمہ وقت لگے رہے ۔ خود تکالیف اٹھائیں اور مجھے آرام دیا۔ میری کمزوری کے زمانہ میں سہارا بنے۔ میری پرورش و نگہداشت میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔

اللہ تعالیٰ نے والدین سے احسان کا سلوک روا رکھنے کا قرآن مجید میں ارشاد فرمایاہے

(بنی اسرائیل: 24)

احسان کا لفظ حسن سے مشتق ہے اور حسن سے مراد وہ امر ہے جس میں کامل خوبی پائی جائے۔ کمال کا درجہ ہو اور کوئی نقص یا سقم اور خرابی نہ پائی جائے۔ اس لئے والدین سے حسن سلوک میں احسان کا پہلو آفتاب عالمتاب کی مانند ہو۔

آنحضرت ﷺ نے بھی اپنی احادیث مبارکہ میں اولاد میں جذبۂ اطاعت بیدار کرنے کے لئے رغبت دلائی ہے۔اس سلسلہ میں چند احادیث نبویؐہ پیش خدمت ہیں جو اس مضمون پر روشنی ڈالتی ہیں:۔

آنحضرت ﷺ نے تین مرتبہ فرمایا کہ خاک آلودہ ہو گئی اس کی ناک جس نے والدین میں سے دونوں یا کسی ایک کو بڑھاپے کی حالت میں پایا اور پھر وہ جنت میں داخل نہ ہوا۔

آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تمام گناہ جو وہ چاہے گا معاف کردے گا سوائے والدین کی نافرمانی کے۔

(مشکوٰۃ)

ایک صحابی ؓ نے رسول کریم ﷺ سے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ !والدین کا کیا حق ہے اس کی اولاد پر؟ فرمایا: وہ تیرے لئے جنت ہیں یا دوزخ۔ یعنی اطاعت اور عدم اطاعت جنت اور جہنم کے مترادف ہے۔

(ابن ماجہ)

ایک صحابی ؓ نے بارگاہ رسالت مآب میں جہاد میں شریک ہونے کی خواہش اور ارادہ کا اظہار کیا تو حضرت سرور کائناتؐ نے اس سے دریافت فرمایا کہ کیا آپ کے والدین زندہ ہیں؟ اس نے عرض کی یا رسول اللہ! زندہ ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ان کی خدمت ہی جہاد ہے۔

ایک موقع پر حضرت خیرالبشر ﷺ نے فرمایا کہ باپ جنت کا بہترین دروازہ ہے۔

والدہ کے بلندمقام و مرتبہ کے حوالہ سے حضرت نبی اکرمؐ نے فرمایا کہ جنت ماؤں کے قدموں تلے ہے۔غرض کہ اطاعت والدین اجر وثواب کے اعتبارسے ایک بہت بڑا اخروی خزانہ ہے جو خدمت والدین کا مرہون منت ہے۔

انسان نمونہ کا محتاج ہے۔ نمونہ اس کی قوت فکر وعمل کو بیدار اور تیز کرتا ہے ۔ قرآن کریم میں اطاعت والدین کے منفی اور مثبت دونوں نمونوں کا ذکر کیا ہے ۔ حضرت نوح ؑ کے بیٹے نے اطاعت سے انحراف کیا ۔ نافرمانی کی اور طوفان آب کا نشانہ بن کر غرق ہوا۔ اور اس کا سبب عمل غیر صالح تھا جس سے عدم اطاعت وقوع پذیر ہوئی۔

دوسری جانب حضرت ابرہیمؑ کے بیٹے حضرت اسماعیل ؑ کی تابعداری والد کا ذکر قرآن کریم میں ہے کہ جب حضرت ابراہیم ؑنے ان کے سامنے اپنی رویاء کا ذکر کیا کہ جس میں وہ اسے ذبح کر رہے ہیں۔ تو بیٹے نے فی الفور عرض کی کہ جو آپ کو حکم خداوندی ملا ہے وہ پورا کریں۔میں دل وجاں سے حاضر ہوں۔ اور واقعتا آپؑ قربان ہونے کے لئے عملی رنگ میں تیار بھی ہو گئے ۔ حالانکہ سن شعوری کا آغاز ہی تھا۔

حضرت اسماعیل ؑ کی اطاعت و فرمانبرداری کا ایک بے نظیر اور مثالی نمونہ بخاری کی اس حدیث سے بھی ملتا ہے۔ جس میں بیان کیا گیا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت ابراہیم ؑ مکہ حضرت اسماعیل ؑ کوملنے گئے۔ آپ ؑ گھر پر موجود نہیں تھے۔ آپ کی بیوی سے گھر کا حال احوال حضرت ابراہیم ؑ نے دریافت فرمایا۔ بہونے گلہ شکوہ کا دفتر کھول دیا ۔ معاشی تنگی ترشی کا خوب ذکر کیا ۔ آپ نے جب مکہ سے واپسی کا ارادہ فرمایاتو حضرت اسماعیل کی بیوی نے بیٹے کے لئے کوئی پیغام چھوڑنے کاکہا۔ تو حضرت ابراہیم ؑ نے فرمایا کہ جب اسماعیلؑ آئے تو کہنا کہ باپ کا پیغام ہے کہ اپنی دہلیز بدل لو۔

جب حضرت اسماعیل ؑ گھر لوٹے اور بیوی نے باپ کے آنے کا ذکر کیا تو پوچھا!کوئی پیغام تو نہیں چھوڑ گئے بیوی نے کہا کہ ہاں۔ فقط اتنا ہی کہہ گئے ہیں کہ دہلیز بدل لیں۔ حضرت اسماعیل ؑ اپنے باپ کے پیغام کے مفہوم کو سمجھ گئے اور بیوی کو طلاق دے کر فارغ کر دیا۔

خود آنحضرت ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام ؓ کی سیرت طیبہ میں اطاعت والدین کے زریں ابواب ہیں۔ گو حضرت رسول پاک ﷺ کا بچپن یتیمی میں گزرا ۔لیکن آپ ؐ نے اپنی رضاعی ماؤں کا ہر لحاظ سے واجبی اکرام کو ملحوظ رکھا۔ ثوبیہ جو ابو لہب کی لونڈی بھی اور جس نے محض چند روز ہی آپ ﷺ کو دودھ پلایا آپؐ نے ان کی پوری عمر ان کا خیال رکھا اور مکہ میں مدینہ سے ان کی امداد فرماتے رہے۔

اسی طرح حلیمہ سعدیہ کی عزت و تکریم ہر موقع پر فرماتے رہے اور اس طرح اطاعت والدین کا اسوہ حسنہ امت کے سامنے رکھا۔

حضرت اویس قرنی جن کی نسبت حضرت سید الانبیاء ﷺ فرمایا کرتے تھے کہ مجھے یمن سے خوشبوئے رحمان آتی ہے۔ وہ اپنی بوڑھی ضعیفہ والدہ کی خدمت و تیمارداری میں لگے رہے اور ظاہری طور پر آستانہ نبوت پر حاضری کا موقع میسر نہ آیا۔ لیکن اطاعت سے اور عشق رسول ؐ سے صحابہؓ کے ہم رنگ ہوئے۔


پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 24 مارچ 2020

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ