حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:۔
قرآن کریم نے ہمیں یہ سنہری اصول بتا دیا کہ یہ مہمان نوازی، خدمت کا جذبہ اور جوش اس وقت پیدا ہو گا جب تم دلوں میں محبت پیدا کرو گے۔ اور جب یہ محبت تمہارے دلوں میں پیدا ہو جائے گی تو پھر تم اپنے آرام پر، اپنی ضروریات پر، اپنی خواہشات پر، ان دور سے آنے والوں کی ضروریات کو مقدم کرو گے اور ان کو فوقیت دو گے۔ اور اگر اس جذبے کے تحت خدمت کرو گے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم فلاح پا گئے، تم کامیاب ہو گئے۔ اور خاص طور پر ان مہمانوں کے لئے اپنے ان اعلیٰ جذبات کا اظہار کرو گے جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مہمان ہیں تو پھر تم یقینا اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مستحق ٹھہرو گے۔ مہمان نوازی تو نبیوں اور نبیوں کے ماننے والوں کا ایک خاص شیوہ ہے۔ دیکھیں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بھی مہمان نوازی کو دیکھتے ہوئے فوراً اس وقت آنے والوں سے یہ نہیں پوچھا کہ تم کھانا کھاؤ گے کہ نہیں، ایک بچھڑا ذبح کر دیا اور حضرت خدیجہ ؓ نے بھی پہلی وحی کے بعد جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو گھبراہٹ ہوئی تواور بہت سی باتوں کے علاوہ یہ بھی حضرت خدیجہ ؓ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو عرض کیا کہ فکر نہ کریں خداتعالیٰ آپ ؐ کو ہرگز ضائع نہیں کرے گا کیونکہ آپؐ میں مہمان نوازی کا وصف بھی انتہا کو پہنچا ہوا ہے۔ پس ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کا دعویٰ کرتے ہیں آپؐ کے اس اعلیٰ خلق کو اختیار کریں اور آپؐ کے عاشق صادق کے مہمانوں کی خدمت میں جلسے کے ان دنوں میں خاص طور پر کمر بستہ ہو جائیں اور اللہ تعالیٰ کے پیار کے وارث بنیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تو ایمان کی یہ نشانی بتائی ہے کہ سچا مومن وہی ہے جو اپنے مہمان کی مہمان نوازی کا حق ادا کرتا ہے۔ ایک روایت میں ہے، حضرت ابوہریرہؓ سے یہ روایت ہے کہ آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے وہ اچھی بات کہے یا خاموش رہے اور جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لاتا ہے چاہئے کہ وہ اپنے پڑوسی کی عزت کرے۔ اور جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لاتا ہے وہ اپنے مہمان کا احترام کرے۔
(صحیح مسلم کتاب الایمان باب الحث علی اکرام الجار)
تو اعلیٰ اخلاق بھی ایمان کی نشانی ہیں۔ بلکہ اللہ تعالیٰ نے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلیٰ اخلاق کی قسم کھائی ہے۔ ہم جو آپؐ کی امت میں شمار ہوتے ہیں ہم نے بھی انہیں قدموں کی پیروی کرنے کی کوشش کرنی ہے۔ کیونکہ ہمیں اللہ تعالیٰ کا بڑا واضح حکم ہے کہ تم اس رسول صلی اللہ علیہ وسلم، جو میرا پیارا رسول ہے، اس کے اُسوۂ حسنہ پر چلو۔ اور آپؐ نے ہمیں فرمایا کہ اگر میری پیروی کرنے والے شمار ہونا ہے تو ہمیشہ تمہارے منہ سے عزیزوں، رشتہ داروں، قریبیوں، تعلق داروں اور ہر ایک کے بارے میں خیر کے کلمات نکلنے چاہئیں۔ پھر پڑوسی کے ساتھ بھی عزت اور احترام کا سلوک ہے۔ صحابہ ؓ کہتے ہیں کہ بعض دفعہ ہمیں شک پڑتا تھا کہ جس طرح پڑوسی کے حقوق کے متعلق اللہ تعالیٰ کے احکامات ہیں اور ہمیں بتایا جاتا ہے کہ کہیں وہ ہمارے وارث ہی نہ ٹھہر جائیں، وراثت میں بھی ان کا حصہ نہ ہو۔ پھر اس میں مہمان کا احترام کرنا بھی بتایا ہے اور پھر جو مہمان ہیں وہ تو تمہارے قریب آ کر جب ساتھ رہنے لگ گئے تو ہمسائے بھی بن گئے اس لئے مہمان کا تو دوہرا حق ہو گیا کہ ایک مہمان اور دوسرے جب تک یہاں ہیں تمہارے ہمسائے بھی ہیں۔ اور ان کے بارے میں تمہارے منہ سے کوئی بھی ایسی بات نہیں نکلنی چاہئے جو ان لوگوں کی دل آزاری کا باعث بنے، کسی تکلیف کا باعث بنے۔
( خطبہ جمعہ 23؍ جولائی 2004ء)