• 24 اپریل, 2024

پس اللہ تعالیٰ نے آپ کو تسلی دلائی کہ یہ طعن و تشنیع جو دشمن کرتا ہے وہ تو ہونی ہے، آپ صبر کے ساتھ اسے برداشت کریں

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:۔
بہر حال اس ساری تمہید سے یا بیان سے میرا مقصد آپؐ کے بلند مقام کو بیان کرنا ہے۔ اس کے علاوہ بھی آپ کے بے شمار معجزات ہمیں روایات میں ملتے ہیں جن سے آپؐ کے مرتبہ اور خدا تعالیٰ کے آپ سے خاص سلوک کا پتہ چلتا ہے جس کی مثالیں پہلے کبھی نہیں ملتیں، لیکن ان سب باتوں کے باوجود کافروں کے اس مطالبے پر جو انہوں نے آپ سے کیا کہ ہمارے سامنے آپ آسمان پر چڑھیں اور کتاب لے کر آئیں جسے ہم پڑھیں تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا: قُلْ سُبْحَانَ رَبِّیْ ھَلْ کُنْتُ اِلَّا بَشَرًارَّسُوْلًا (بنی اسرائیل: 94)۔ ان کو کہہ دے کہ میرا ربّ ان باتوں سے پاک ہے۔ مَیں تو صرف ایک بشر رسول ہوں۔ پس آپ کا مقام گو سب انسانوں سے بڑھ کر ہے کیونکہ آپ انسانِ کامل ہیں، لیکن جہاں تک بشر رسول ہونے کا سوال ہے، آپﷺ سے بھی خدا تعالیٰ نے وہی سلوک فرمایا جو باقی رسولوں سے فرمایا۔ یعنی جہاں، جس طرح باقی رسولوں کی اُن کی قوموں نے مخالفت کی، آپ سے بھی کی اور آپ کیونکہ تمام زمانوں اور تمام قوموں کے لئے ہیں اس لئے آپ کی مخالفت اُس زمانہ میں آپ کی زندگی میں بھی کی گئی اور اب بھی کی جا رہی ہے اور کی جاتی رہے گی۔ باقی انبیاء کا بھی استہزاء ہوا تو آپ کا بھی استہزاء ہوا اور کیا جا رہا ہے۔ لیکن سعید فطرت لوگ پہلے بھی انبیاء کو مانتے رہے۔ آپؐ کو بھی آپؐ کے زمانہ میں مانا بلکہ سب سے زیادہ مانابلکہ آپ کی زندگی میں عرب میں پھیلا اور عرب سے باہر قریب کے علاقوں تک اسلام پھیل گیا۔ اور پھر ایک دنیا نے دیکھا کہ تمام دنیا میں پھیل گیا اور آج تک پھیلتا چلا جا رہا ہے اور ایک وقت آئے گا جب دنیا کی اکثریت اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے ہو گی۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذمّہ تبلیغ کا کام اللہ تعالیٰ نے لگایا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا بَلِّغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِکَ (المائدۃ: 68) تیرے ربّ کی طرف سے جو کلام تجھ پر اتارا گیا ہے، اسے لوگوں تک پہنچا۔ پس آپ نے حسن و احسان سے، پیار سے، عفو سے، صبر سے، دعائیں کرتے ہوئے یہ پیغام پہنچایا۔ غیر تو خیر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ الزام لگاتے ہی ہیں کہ اسلام تلوار سے پھیلالیکن بعض مسلمان علماء، یا علماء کہلانے والے بھی یہ نظریہ رکھتے ہیں کہ اسلام جنگوں کے ذریعہ سے پھیلا۔ حالانکہ ہجرت کے بعد جب مکّہ سے مدینہ ہجرت ہوئی ہے اور پھر جب اگلے سال میں جنگِ بدر ہوئی ہے تو اس کے بعد صلح حدیبیہ تک مختلف جنگیں ہوتی رہیں، جس میں زیادہ سے زیادہ جنگِ احزاب میں مسلمان شریک ہوئے تھے اور اُن کی تعداد تین ہزار تک تھی۔ صلح حدیبیہ کے وقت پندرہ سو افراد کا قافلہ تھا جو آپ کے ساتھ مکّہ گیا تھا۔ صلح حدیبیہ تک یہ تقریباً پانچ سال کا عرصہ بنتا ہے۔ لیکن صلح حدیبیہ سے لے کر فتح مکہ تک پونے دو سال میں جو لشکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مکّہ گیا، اُس کی تعداد دس ہزار تھی۔ پس یہ بھی اس بات کا ثبوت ہے کہ امن کے جو دو سال تھے، ان میں اسلام زیادہ پھیلا ہے۔ اسی طرح امن اور پیار کی تبلیغ کے بہت سے واقعات ہیں۔ عفو کے بہت سے واقعات ہیں جس نے لوگوں کے دلوں پر قبضہ کیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عفو، درگزر اور شفقت کے سلوک کے واقعات گزشتہ خطبات میں بھی مَیں بیان کر چکا ہوں۔ آپؐ نے یہ سب کیوں کیا؟ اس لئے کہ خدا تعالیٰ نے حکم دیا تھا کہ یہ آپؐ نے کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ بے شک یہ میرا پیارا ترین ہے اور قریب ترین ہے مگر انبیاء سے لوگوں کے سلوک کا جو طریق چلا آ رہا ہے وہ اس سے بھی ہو گا۔ آپؐ کو فرمایا اے نبی! تجھ سے بھی (ایسا) ہو گا لیکن توُ نے صبر، تحمل، برداشت، عفو، مستقل مزاجی سے تبلیغ کا یہ کام کرتے چلے جانا ہے۔ سوائے اس کے کہ کوئی جنگ ٹھونسے، حتی الوسع سختی سے پرہیز کرنا ہے۔ ہرزہ سرائیوں پر، بیہودہ گوئیوں پر، ایذاء دہی پر صبر کا اعلیٰ نمونہ دکھاتے چلے جانا ہے کہ اسلام کا محبت اور امن کا پیغام اسی طرح پھیلنا ہے۔ قرآنِ کریم میں خدا تعالیٰ نے ان سب باتوں کو کس طرح بیان فرمایا ہے اور کیا نصیحت فرمائی ہے؟ وہ مَیں بیان کرتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ سورۃ قؔ میں فرماتا ہے کہ فَاصْبِرْ عَلٰی مَا یَقُوْلُوْنَ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ قَبْلَ طُلُوْعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ الغُرُوْبِ (سورۃ ق: 40) پس صبر کر اس پر جو وہ کہتے ہیں اور اپنے ربّ کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کر، سورج کے طلوع ہونے سے پہلے اور غروب سے پہلے بھی۔

پس اللہ تعالیٰ نے آپ کو تسلی دلائی کہ یہ طعن و تشنیع جو دشمن کرتا ہے وہ تو ہونی ہے، آپ صبر کے ساتھ اسے برداشت کریں۔ قرآنِ کریم ان پیشگوئیوں سے بھرا پڑا ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ہی غالب آئیں گے۔ آخر کار کامیاب وہی ہوتا ہے جس کے ساتھ خدا تعالیٰ ہوتا ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ قرآنِ کریم کے ساتھ، اس تعلیم کے ساتھ نصیحت کرتا چلا جا، تنبیہ کرتا چلا جا۔ پس جو خدا تعالیٰ سے ڈرتا ہے وہ اس نصیحت اور تنبیہ سے ڈر کر اپنی دنیا و عاقبت سنوارنے والا بن جائے گا۔

پھر خدا تعالیٰ نے دشمن کی زبان درازیوں پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کیا رویہ اختیار کرنے کا ارشاد فرمایا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ فَاصْبِرْ کَمَا صَبَرَ اُوْلُوالْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ وَلَا تَسْتَعْجِلْ لَھُمْ۔ کَاَنَّھُمْ یَوْمَ یَرَوْنَ مَا یُوْعَدُوْنَ لَمْ یَلْبَثُوْآ اِلَّا سَاعَۃً مِّنْ نَّھَارٍ۔ بَلٰغٌ۔ فَھَلْ یُھْلَکَ اِلَّا الْقَوْمُ الْفٰسِقُوْنَ (احقاف: 36) پس صبر کر جیسے اولوا العزم رسولوں نے صبر کیا اور ان کے بارہ میں جلد بازی سے کام نہ لے۔ جس دن وہ اسے دیکھیں گے جس سے انہیں ڈرایا جاتا ہے تو یوں لگے گا جیسے دن کی ایک گھڑی سے زیادہ وہ انتظار میں نہیں رہے۔ پیغام پہنچایا جا چکا ہے۔ پس کیا بدکرداروں کے سوا بھی کوئی قوم ہلاک کی جاتی ہے۔

(خطبہ جمعہ 28؍ جنوری 2011ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 24 مارچ 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 25 مارچ 2021