حضرت ڈاکٹر سید غلام دستگیر صاحب رضی اللہ عنہ
آف راہوں ضلع جالندھر
حضرت ڈاکٹر سید غلام دستگیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ ولد حضرت سید علی محمد شاہ صاحب راہوں ضلع جالندھر کے رہنے والے تھے، آپ نے میڈیکل کی تعلیم حاصل کی جس کے بعد برما میں ایک ملٹری ہسپتال میں بطور ہاسپٹل اسسٹنٹ ملازمت کی۔ آپ نے اپنے خاندان میں سب سے پہلے قبول احمدیت کی توفیق پائی، بیعت کرنے پر آپ کے بڑے بھائی حضرت سید محمد اشرف صاحب نے آپ کی بہت مخالفت کی، حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ ایک جگہ بیان کرتے ہیں:
’’مجھے یاد ہے 1905ء میں میری آنکھوں میں ککرے پڑے ہوئےتھے، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام نے مجھے علاج کے لیے لاہور بھجوا دیا جہاں میرے کئی آپریشن ہوئے۔ میر محمد اسماعیل صاحب اُن دنوں وہاں ہاؤس سرجن تھے، میر صاحب کو رہنے کے لیے جو جگہ ملی تھی اُس کے ساتھ ایک نوکر خانہ تھا، اُس نوکر خانہ میں ایک آدمی آتا جاتا تھا، شام کو آتا اور صبح کو چلا جاتا تھا۔ میں نے میر صاحب سے دریافت کیا کہ یہ شخص کون ہے؟ تو انھوں نے مجھے بتایا کہ ان کا نام غلام دستگیر ہے، ڈاکٹری میں پڑھتے ہیں، یہاں رہتے ہیں اور یہیں کھانا پکاتے ہیں، ان کے بھائی سخت مخالف ہیں اس لیے انھیں دقت ہے۔‘‘ (خطبات محمود جلد نمبر33 صفحہ276) آپ نے مخالفت کے باوجود سلسلہ احمدیہ کے ساتھ اخلاص و وفا کا اعلیٰ نمونہ دکھایا اور آپ کی دعاؤں اور کوششوں سے آپ کے گھر کے دیگر افراد بھی آغوش احمدیت میں آگئے۔
آپ کو سلسلہ احمدیہ کے ساتھ بہت اخلاص تھا اور بڑھ چڑھ کر دینی کاموں میں حصہ لیتے۔ میڈیکل کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد آپ کی تقرری برما میں ہوئی اس لحاظ سے گوکہ آپ قادیان سے سینکڑوں میل تھے لیکن مرکز سلسلہ کے ساتھ مضبوط رابطہ تھا، جب صدر انجمن کا نظام قائم ہوا اور باہر کی جماعتوں میں اس کی شاخیں بنیں تو آپ برما جماعت کے جنرل سیکرٹری مقرر ہوئے۔ برما میں دیگر مقامات پر بھی کئی دیگر احمدی ملازمت اور روزگار کے سلسلے میں رہائش پذیر تھے، آپ نےبرما کے شہر مگوئی (Magway) اور منبو (Minbu) کو جماعت کا سنٹر بنایا اور فورًا اخبار بدر کے ذریعے اعلان کرایا کہ برما میں رہائش پذیر احمدی احباب جلد از جلد اپنے نام اور پتے کی خبر دیں تاکہ باقاعدہ طور پر وہ نظام جماعت کا حصہ بن سکیں، آپ کا یہ اعلان درج ذیل الفاظ میں شائع ہوا: ’’برادران! السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ۔ چونکہ ہم نے مگوئی و منبو واقع اپر برما میں انجمن احمدیہ قائم کی ہے اس لیے تمام احمدی احباب کو جو برما احاطہ میں رہتے ہیں بذریعہ نوٹس ہذا مطلع کیا جاتا ہے کہ وہ اپنے مفصل پتہ سے ممنون فرماویں تاکہ ان کو قواعد انجمن احمدیہ سے اطلاع دے کر انجمن ہذا کا ممبر بنایا جاوے، تمام اس قسم کی خط و کتابت میاں نور دین صاحب (پے حوالدار ملٹری پولیس مگوئی) اسسٹنٹ سیکرٹری انجمن احمدیہ مگوئی سے کرنی چاہیے۔ فقط والسلام
المشتہر غلام دستگیر احمد۔ ہاسپٹل اسسٹنٹ ملٹری ہاسپٹل مچینا
جنرل سیکرٹری انجمن احمدیہ مگوئی و منبو اپر برما‘‘
(اخبار بدر 7؍نومبر 1907ء صفحہ10 کالم2)
حضرت مفتی محمد صادق صاحب رضی اللہ عنہ اپنے ایک سفر راہوں ضلع جالندھر 1909ء کی روداد میں لکھتے ہیں: ’’….. مولوی علی محمد صاحب سے بھی ملاقات ہوئی جو کہ پہلے فارسی مدرس تھے اور اب پنشن لے کر اپنے وطن میں آ بیٹھے ہیں، وہ اپنی پنشن کے متعلق فرماتے تھے کہ یہ بھی اللہ تعالیٰ کا خاص فضل ہے کیونکہ اس صیغہ میں بہت کم کسی کو پنشن ملتی ہے۔ برما میں ڈاکٹر بابو غلام دستگیر صاحب جو اپنی جماعت کے پُر جوش ممبر ہیں، وہ بھی انھیں مولوی صاحب موصوف کے فرزند ارجمند ہیں بلکہ اس خاندان میں سب سے اوّل وہی احمدی ہوئے تھے اور انھیں کی دعاؤں اور کوششوں سے پھر دوسرے صاحبان نے سلسلہ حقہ کی طرف توجہ کی۔‘‘
(بدر 17؍جون 1909ء صفحہ5)
ایک مرتبہ جناب مولوی محمد علی صاحب سیکرٹری صدر انجمن احمدیہ نے قادیان میں سکول کی عمارت کے لیے مالی قربانی کا اعلان اخبار بدر میں کیا، جب آپ نے وہ اعلان پڑھا تو نہ صرف خود اس مالی قربانی میں شامل ہوئے بلکہ اخبار بدر میں ایک مضمون کے ذریعہ میڈیکل فیلڈ سے وابستہ اپنے ہم پیشہ احباب کو بھی اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی تلقین کی، چنانچہ آپ اپنےمضمون میں لکھتے ہیں:
’’….. میں آپ کی خدمت میں اس شریف اور نافع الناس پیشہ یعنی میڈیکل پروفیشن کی عزت کا واسطہ دے کر اپیل کرتا ہوں کہ لَا تَنْسوا الفضْلَ بَیْنَکُم کو یاد کر کے ہمیں پوری پوری تنخواہ یعنی ماہوار آمدنی بڑی خوشی سے دے دینی چاہیے کیونکہ یہ کوئی بڑا مطالبہ نہیں، صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کی خدمات کو جب دیکھا جاتا ہے تو ان کے مقابلہ پر ہماری دینی خدمات، ہمارا جوش اشاعت اسلام، ہمارا تقویٰ و طہارت پرپشّہ کے برابر بھی نظر نہیں آتا بلکہ شرم آتی ہے کہ ہم مصداق تو بنیں آیت کریمہ وَآخَرِیْنَ مِنْھُم لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ کے اور عملی طور پر ایسے نفس پرست ثابت ہوں کہ ایک ماہ کی آمدنی بھی خوشی سے نہ دے سکیں …… میں اب اپیل کو زیادہ طول نہیں دینا چاہتا اور بسم اللہ کر کے اپنی ناچیز اور حقیر جیسی رقم یعنی مبلغ پچھتر روپے کو جو کہ میری تنخواہ بمع الاؤنس ہے، مولوی صاحب کی خدمت میں پیش کرتا ہوں اور دیگر احباب سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ بھی فورًا جون سے پہلے پہلے مولوی صاحب کو اپنے اپنے چندہ سے اطلاع دے کر عند اللہ ماجور ہوں…..
آپ کا ناچیز دوست اور مسیح موعود کا ایک ناکارہ غلام
غلام دستگیر احمد۔ ہاسپٹل اسسٹنٹ ہانگ پا اوٹ پوسٹ ڈاکخانہ کمائین ضلع مچینا برما
محررہ یکم صفر المظفر 1326ہجری‘‘
(اخبار بدر 9اپریل 1908ء صفحہ5)
حضرت اقدس علیہ السلام کی وفات کے بعد خلافت کے ساتھ پورے خلوص و اطاعت کے ساتھ وابستہ رہے۔ خلافت ثانیہ میں بھی آپ ابھی برما میں ہی تھے اور وہاں انجمن احمدیہ کے جنرل سیکرٹری تھے، 1917ء میں آپ نے ایک مرتبہ پھر اخبار الفضل کے ذریعے برما میں بسنے والے احمدیوں کو نظام جماعت کے ساتھ منسلک ہونے کی تحریک کی اور لکھا ’’براہ نوازش اپنے اپنے مفصل پتہ سے مجھ کو مطلع فرماویں تا کہ ان کو دوسرے احمدی احباب سے واقف کرایا جاوے اور نیز انجمن احمدیہ برما میں ان کو داخل کیا جاوے۔ جماعت میں شامل ہونے سے اللہ تعالیٰ کی رحمتیں نازل ہوتی ہیں، طاقت بڑھتی ہے، ترقی ہوتی ہے، تبلیغ میں آسانی ہوتی ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی بار بار اس امر کی تاکید فرماتے ہیں۔‘‘
(الفضل 26؍مئی 1917ء صفحہ1)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام پر پختہ ایمان اور دین کو دنیا پر مقدم کرنے کی ایک اور مثال نظام وصیت میں شمولیت ہےچنانچہ جب نظام وصیت کا آغاز ہوا تو آپ اور آپ کے گھر والے اس کے ابتدائی شاملین میں سے ہوئے:
سید غلام دستگیراحمد صاحب ۔ وصیت نمبر 238
سیدعلی محمد شاہ صاحب (والد) وصیت نمبر 239 حصہ وصیت 5/1
سکینہ بیگم صاحبہ بنت غلام قادر شاہ صاحب (زوجہ) وصیت نمبر 240 حصہ وصیت 3/1
اولیاء بیگم صاحبہ زوجہ محمد افضل شاہ صاحب (ہمشیرہ) وصیت نمبر 241
آپ کے والد محترم حضرت علی محمد شاہ صاحب سکول میں فارسی کے مدرس تھے جہاں سے ریٹائر ہوکر راہوں ضلع جالندھر میں ہی مقیم تھے کہ مورخہ 19؍جون 1913ء کو وفات پائی۔ میت قادیان نہ آ سکی، بوجہ موصی ہونے کے یادگاری کتبہ بہشتی مقبرہ قادیان میں لگا ہوا ہے۔ حضرت ڈاکٹر صاحب کی بہن حضرت اولیاء بیگم صاحبہ زوجہ حضرت محمد افضل شاہ صاحب نے 6؍نومبر 1915ء کو 48 سال کی عمر میں وفات پائی اور بہشتی مقبرہ قادیان میں مدفون ہیں۔ آپ کے بھائی حضرت سید محمد اشرف صاحبؓ (وفات: 5؍جولائی 1952ء) کا ذکر قبل ازیں اخبار الفضل آن لائن 26؍نومبر 2020ء میں شائع ہوچکا ہے۔
حضرت ڈاکٹر سید غلام دستگیر احمد صاحبؓ نے 13؍دسمبر 1918ء کو بعمر 40 سال برما سے واپسی پر حالت سفر میں وفات پائی، اخبار الفضل نے اعلان وفات دیتے ہوئے لکھا: ‘‘جناب سید محمد اشرف صاحب کے چھوٹے بھائی ڈاکٹر غلام دستگیر صاحب جو برہما میں ڈاکٹر تھے، ہندوستان واپس ہوتے ہوئے جہاز میں ہی فوت ہوگئے اور کلکتہ میں دفن کیے گئے۔ مرحوم نہایت مخلص اور پُر جوش احمدی تھے۔’’(الفضل 28؍دسمبر 1918ء صفحہ 2) چونکہ آپ موصی تھے، آپ کا یادگاری کتبہ بہشتی مقبرہ قادیان میں لگا ہوا ہے۔ آپ کی اہلیہ محترمہ حضرت سکینہ بیگم صاحبہ نے 24؍ فروری 1917ء کو وفات پائی، اخبار الفضل نے لکھا : ‘‘ڈاکٹر غلام دستگیر صاحب سب اسسٹنٹ سرجن ملک برہما اپنی بیوی صاحبہ کی فوتیدگی کی اطلاع دیتے ہوئے درخواست نماز جنازہ کرتے ہیں۔’’ (الفضل 31؍مارچ 1917ء صفحہ 2) جیسا کہ ذکر ہوا آپ کی اہلیہ بھی موصیہ تھیں، حصہ وصیت 3/1 تھا، ان کا یادگاری کتبہ بھی بہشتی مقبرہ قادیان میں لگا ہوا ہے۔
آپ کی اولاد میں چھ بیٹیاں سیدہ محمودہ صاحبہ اہلیہ سید محمد اقبال حسین صاحب، سیدہ امۃ اللہ صاحبہ، سیدہ صفیہ صاحبہ، سیدہ عائشہ صاحبہ، سیدہ احمدی بیگم صاحبہ اور سیدہ رضیہ صاحبہ تھیں۔ سیدہ محمودہ صاحبہ کے بیٹے محترم سید منصور احمد بشیر صاحب مبلغ سلسلہ تھے ۔
نوٹ: آپ کی تصویر اور اولاد کی تفصیل مکرم میجر ظفر محمود ملک صاحب حال ٹورانٹو (نواسہ حضرت سید محمد اشرف صاحبؓ) نے مہیا فرمائی ہے، فجزاہ اللہ احسن الجزاء۔
(از غلام مصباح بلوچ)