صحابیاتؓ کا حیا سے متعلق مثالی کردار ہمارے لیے مشعل راہ ہے
قسط پنجم۔ آخری
محترمہ آپا طاہرہ صاحبہ حضرت نواب امۃ الحفیظ بیگم کی یادیں بیان کرتے ہوئے تحریر کرتی ہیں کہ ’’آپ رضی اللہ عنہاکو شادی شدہ لڑکیوں کا اچھا پہننا اوڑھنا اور زیور وغیرہ پہننا پسند تھا اس لئے جس روز ہم نے آپ ؓ کو ملنے جانا تھا حضور ؒنے مجھے خاص طور پر فرمایا کہ آج اچھی طرح سے زیور پہن کر تیار ہونا اور یہ موقع تھا جب آپ رحمہ اللہ نے مجھے خاص طور پر تیار ہونے کے لیے ارشاد فرمایا …… اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ پردے اور جائز حدود کے اندر رہتے ہوئے عورت اپنے پہننے اوڑھنے کے شوق کو پورا کر سکتی ہے۔‘‘
(عظیم خواتین و برکات سے وابستہ یادیں خدیجہ رسالہ شمارہ نمبر 1/2013صفحہ 259)
حضرت نواب امۃالحفیظ بیگم صاحبہ ؓکی حیات طیبہ کا ایک اور انتہائی حسین واقعہ ملتا ہے جو کہ انکے پردے اور اعلیٰ اخلاق سے مزین ہے۔ بیان ہوتا ہےکہ ’’…… سب سے پہلے آپ ؓ ہالینڈ گئیں …… پھر آپ جرمنی تشریف لے گئیں …… اخباری نمائندوں نےآپکا انٹرویو لیا آپکی اور فوزیہ (آپ کی بیٹی: ناقل) کی برقع میں تصاویر وہاں کے اخبارات میں شائع ہوئیں …… 25اگست 1962ء کو زیورک میں مسجد کا سنگ بنیاد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سب سے چھوٹی بیٹی سے رکھوایا گیا ……آپ کی اس موقع پر بہت سی تصاویر کھینچی گئیں …… اور چونکہ تصاویر میں سب نے برقع پہنا ہوا تھا اس لیے تبلیغ کا ذریعہ بن گئیں ۔یہ ایک اہم تاریخی واقعہ تھا جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیٹی کے ہاتھوں سے تثلیث کے مرکز میں خانہ خدا کی بنیاد رکھی گئی۔لندن سے واپس آنے کے بعد آپ نے فرانس کا بھی سفر کیا۔ اس سفر کا انتظام مکرم صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب نے اپنے کسی دوست کے ذریعے کروایا۔ جہاں آپ اور فوزیہ ٹھہرے تھے وہ انتہائی شریف اور خاندانی لوگ تھے ۔ان کے گھر میں ان کی ایک عزیز بھی ٹھہری ہوئی تھی جو بہت بڑے گورنمنٹ افسر کی بیگم تھی۔ حضرت سیدہ امۃ الحفیظ بیگم صاحبہ اور فوزیہ برقعے میں ہوتی تھیں اور وہ شاید ان دونوں کو دقیانوسی سمجھتی تھیں۔ خاتون کے گھر والے بھابھی جان کہتے تھے …… ایک دن شاپنگ کے دوران بیگم صاحبہ کی طبیعت ناساز ہوگئی۔ اور وہ اور فوزیہ اسٹور سے جلد باہر آگئیں اور کار میں بیٹھ کر باقی لوگوں کا انتظار کرنے لگیں کافی دیر ہوگئی۔ انتظار کے بعد آئے تو پتہ چلا کہ بھابھی جان کے بیگ سے کچھ ایسی چیزیں نکل آئی جن کی قیمت ادا نہیں ہوئی تھی۔لیکن حضرت بیگم صاحبہ اور فوزیہ شکر ادا کررہے تھے کہ اللہ نے مسیح موعود علیہ السلام کے صدقے اس ذلت سے بچالیا ورنہ ہمارے برقعے ان لوگوں کی نظروں میں زیادہ قابل گرفت تھے۔‘‘
(ازدخت کرام صفحہ25تا 26)
جہاں اس واقعے میں پردہ کی حرمت کو برقرار رکھتے ہوئے تبلیغ اسلام کا ذریعہ بننے کا ذکر مذکور ہے وہیں بظاہر ماڈرن نظر آنے والی خاتون کی اخلاقی پستی کا بخوبی علم ہوجاتا ہے ۔
حضرت ام طاہر صاحبہؓ کی حیا کا خوبصورت واقعہ
حضرت مصلح موعود ؓنے حضرت ام طاہر صاحبہ کی وفات پر میری مریم کے پیار بھرے عنوان سے ایک مفصل مضمون تحریر فرمایا ۔آپؓ بیان کرتے ہیں کہ ’’ایک دن شاید 1917ء یا 1918ء کا تھا ۔میں امۃ الحئی مرحومہ کے مکان میں بیت الخلاء سے نکل کر کمرہ کی طرف آ رہا تھا ۔راستہ میں ایک چھوٹا سا صحن تھا ۔ اس کے ایک طرف لکڑی کی دیوار تھی ۔میں نے دیکھا ۔سفید کپڑوں میں ملبوس لڑکی مجھے دیکھ کر اس لکڑی کی دیوار سے چمٹ گئی ہے اور اپنا سارا لباس سمٹا لیا ۔میں نے کمرے میں جاکر امۃ الحئی مرحومہ سے پوچھا۔ باہر کھڑی لڑکی کون ہے؟ انہوں نے کہا ۔آپ نے پہچانا نہیں ڈاکٹر عبدالستار شاہ صاحب کی لڑکی مریم ہے۔ میں نے کہا اس نے تو پردہ کیا تھا۔ اگر سامنے بھی ہوتی تو میں اسے کب پہچان سکتا تھا۔‘‘
(ماخوذ از سوانح فضل عمر حصہ پنجم صفحہ334)
محترمہ رشیدہ بیگم صاحبہ اہلیہ مکرم جمعدار شرافت احمد صاحب پنشنر کارکن دفتر وقف جدید ربوہ حضرت سیدہ ام طاہر صاحبہؓ کی سیرت کا ایک واقعہ بیان کرتی ہیں جس میں بچیوں کےلئے حیا اور پردے کی پابندی کروانے کا ذکر ملتا ہے جس سے علم ہوتا ہے خواتین مبارکہ ؓ نہ صرف خود سختی سے اسکی پابندی کرتیں تھیں بلکہ لجنہ کو بھی اسکی پابندی کرواتیں چنانچہ وہ بیان کرتیں ہیں کہ ’’میں نے آپ کو بہت پابند اصول پایا۔ اس وقت آپ کسی کی رعایت نہیں کرتی تھیں ۔بلکہ کڑی نگرانی کرتی تھیں۔ آپ لجنہ اماء اللہ کی صدر تھیں ۔ایک دفعہ لجنہ کی طرف سے حکم ہوا کہ تمام عورتیں پوری آستین والا برقع پہنا کریں۔ہر ہفتہ آپاجان کے مکان پر حضور ایدہ اللہ تعالیٰ عورتوں میں درس دیتے تھے۔ایک دفعہ میں غلطی سے سفید آستینوں والا برقہ پہن کر آ گئی۔ آپ نے یہ دیکھ کر غصے سے کہا ۔رشیدہ یہ کیا؟ابھی واپس جاؤ اور دوسرا برقع پہن کر آؤ ۔میں نے دیکھا کہ آپ ناراض ہیں۔ اور سوچنے لگی کہ اپنے مکان پر محلہ دارالرحمت میں واپس جاؤں تو درس ختم ہوجائے گا۔اور آپا جان اس برقعے کے ساتھ وہاں بیٹھنے نہیں دیں گی۔اب کروں تو کیا کروں۔ میں نے نیچے جاکر برقع دربان کی طرف پھینک دیا ۔باباجی اس کو اپنے پاس رکھو۔ اور خود دوپٹہ اوڑھ کر اوپر چلی گئی ۔آپاجان نے مجھے جو اس حالت میں دیکھا تو آپ کو ہنسی آگئی۔اور فرمانے لگیں اچھا بیٹھ جاؤ۔آئندہ ایسی غلطی نہ کرنا۔
(’’سیرت حضرت سیدہ ام طاہرؓ‘‘ تابعین اصحاب احمد جلد سوم صفحہ 176,175)
حضرت سیدہ عزیز بیگم صاحبہ ؓحرم حضرت خلیفۃالمسیح الثانی ؓ
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اہل بیت میں ’’بڑی پھوپھی جان قمیض کے ساتھ ہمیشہ تنگ پاجامہ پہنتی تھیں۔ ربوہ میں گھر سے باہر پیدل تو شاذ ہی جانا ہوتا ۔اگر کہیں جاتیں تو ان کا نقاب اوڑھنے کا طریقہ عرب خواتین کی طرح کا ہوتا جس سے صاف ظاہر ہوتا کہ یہ کوئی ہندوستان کی خاتون نہیں ہے۔‘‘
(مضمون مکرم سیدکمال یوسف صاحب سابق مبلغ سلسلہ احمدیہ ناروے)۔ (بحوالہ خدیجہ شمارہ 1/2013ء سیرت خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خواتین مبارکہ صفحہ 246)
حضرت سیدہ ناصرہ بیگم ؓ
حضرت سیدہ ناصرہ بیگم صاحبہ ؓپردہ کی بہت پابند تھیں جب کبھی باہر تشریف لے جاتیں چہرے پر نقاب ڈال کر گاڑی میں بیٹھتیں ۔ اور ہاتھوں پر دستانے بھی پہنتیں۔
(بحوالہ خدیجہ شمارہ 1/2013ءسیرت خاندان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوہ والسلام اور خواتین مبارکہ صفحہ 354)
واقعہ امۃ الحئیؓ صاحبہ
ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب نے آپ کو آٹھ نو سال کی عمر میں دیکھا تھا۔آپ ہر وقت سر پر سفید سکارف پہننے رکھتیں کیونکہ حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ ان کو ننگے سر پھرنے سے منع کرتے تھے۔
(بحوالہ امۃالحئؓ صفحہ5)
پردے میں خواتین کےلئے درس کا انتظام
’’حضرت ڈاکٹر صاحب بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ میرے گھر والوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا کہ حضور مرد تو آپ کی تقریر بھی سنتے ہیں اور درس بھی لیکن ہم مستورات اس فیض سے محروم ہیں ہم پر کچھ عنایت ہونی چاہئے کہ ہم بھی آپ ؑکی صحبت سےکچھ فیض حاصل کریں۔ اس سے پہلے حضور علیہ السلام نے کبھی عورتوں میں تقریر یا درس نہیں دیا تھا مگر ان کی التجا اور شوق کو پورا کرنے کے لیے عورتوں کو جمع کرکے روزانہ تقریر شروع فرما دیں جو بطور در س تھی ،چند روز بعد حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ مولوی عبد الکریم صاحب رضی اللہ عنہ اور مولوی نورالدین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور دیگر بزرگ بھی عورتوں میں درس دیا کریں۔ چنانچہ عبد الکریم صاحب رضی اللہ عنہ درس کے لئے بیٹھے اور سب عورتیں جمع ہوئیں کیونکہ مولوی صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طبیعت بڑی آزاد اور بے دھڑک تھی ۔ تقریر کے شروع میں فرمانے لگے کہ اے مستورات! افسوس ہے کہ تم میں سے کوئی ایسی …… عورت نہ تھی جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو تقریر یا درس کے لئے توجہ دلاتی اور تحریک کرتی …… اب شاہ صاحب کی …… بیوی ایسی ہیں جس نے اس کار خیر کے لیے حضور علیہ السلام کو توجہ دلائی اور تقریر کرنے پر آمادہ کیا۔تمہیں ان کا نمونہ اختیار کرنا چاہیے نیز حضرت مولوی نورالدین صاحب رضی اللہ عنہ بھی اپنی تقریر اور درس فرمانے لگے اس وقت سے مستورات میں مستقل طور پر درس کا سلسلہ جاری ہوگیا ۔
(ماخوذ از سیرت مہدی جلد اول حصہ سوم صفحہ 776, 777 روایت 882)
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عورتوں کی اعلیٰ تعلیم کے لئے 1925ء میں مدرسۃ الخواتین قائم فرمایا …… تو اس کلاس کو حضرت صاحب کے علاوہ مرد عالم دوہری چقیں ڈال کر یعنی مکمل پردہ کی رعایت سے پڑھاتے تھے ۔
(بحوالہ خدیجہ سیرت صحابیات نمبر شمارہ نمبر 1/2018ء صفحہ 106)
دیگر صحابیات کے پردے کے نمونے
ایک صحابیہ کی حیا کا واقعہ
حضرت سیدہ زینب بیگم صاحبہؓ روایت کرتی ہیں کہ ’’ایک دفعہ جب حضور علیہ السلام سیالکوٹ تشریف لے گئے تو میں رعیہ سے ان کی خدمت میں حاضر ہوئی ۔ مجھے خفقان کا سخت دورہ تھا ۔میں شرم کے مارے آپ سے عرض نہ کر سکتی تھی۔ مگر میرا دل چاہتا تھا کہ میری بیماری سے کسی طرح حضور کو علم ہوجائے تاکہ حضورؑ میرے لئے دعا کریں۔ میں حضورؑ کی خدمت کر رہی تھی …… کہ حضور ؑ نے فرمایا تم کو خفقان کی بیماری ہے ہم دعا کریں گے تم کچھ ورزش کیا کرو اور پیدل چلا کرو ۔مجھ کو یہ پیدل چلنا سخت مصیبت اور ہلاکت معلوم ہوتی تھی۔ مگر خدا کی قدرت جوں جوں میں پیدل چلتی تھی آرام معلوم ہوتا تھا …… دوسرے روز پھر میں پیدل حضور کی زیارت کو آئی تو دورہ خفقان جاتا رہا اور بالکل آرام آگیا۔‘‘
(ماخوذ از تابعین اصحاب احمد مصنفہ ملک صلاح الدین جلد دوم ستمبر 1990ءصفحہ 29)
سیرت مبارکہ بیگم محمد سرور شاہ صاحب میں مذکور ہےکہ ’’اماں جی گھر سے باہر کم نکلتیں ۔آخرعمر تک باپردہ گھر سے جاتیں ۔ اگر جانا ہوتا تو ٹوپی والا برقعہ پہن کر جاتیں ۔صحت ماشاءاللہ آخر وقت تک ایسی رہی جیسے بڑھاپا انتظار میں تھک گیا ہو۔ بڑی عمر میں سرکے بالوں میں چاندی اترنے کی بجائے سیاہی لوٹ آئی۔‘‘
(بحوالہ بیگمات سید محمد سرور شاہ صاحب صفحہ15,14)
سیرت حضرت نواب بی بی صاحبہ المعروف ماں جی میں مذکور ہے۔ماں جی کے گاؤں اور علاقہ کا ہر چھوٹا بڑا ان کا بہت احترام کرتا تھا یہاں تک کہ جب آپ کسی کے گھر جاتیں یا گلی میں سے گزر رہی ہوتیں تو عورتیں اور بچیاں احتراماً اپنے ڈوپٹےٹھیک کر لیتی کہ ماں جی آرہی ہیں پردہ درست نہ ہونے پر کہیں ناراض نہ ہوں۔
(بحوالہ خدیجہ جرمنی شمارہ نمبر 1/2018 صفحہ80)
واقعہ بو زینب ؓ
آپ بہت پردہ کی پابند تھیں۔ سیرت صحابیات کے مطالعہ سے اس بات کا بھی علم ہوتا ہے کہ حیا اور پردے کی تقدس کو قائم رکھ کر جب عورت تیار ہو تو اسمیں کوئی ہرج نہیں بلکہ یہ بات مومن عورتوں کے دل کو بہت بھاتی ہے جیسا کہ حضرت بو زینبؓ کی سیرت میں ایک واقعہ درج ہے کہ ’’انہیں شادی شدہ لڑکیوں کا سجے سنورے رہنا پسند تھا۔ خوشبوؤں میں بسی سجی سنوری لڑکیوں پر انہیں بہت پیار آتا۔‘‘
(ماخوذ :سیرت بو زینبؓ صفحہ19از۔امتہ اشکور شکری)
سیرت محمودہ بیگم صاحبہ ؓ
اسی طرح ایک واقعہ سیرت و سوانح محمودہ بیگم صاحبہ میں مذکور ہے کہ آپ انتہائی حیا دار اور باپردہ خاتون تھیں۔ ان کے بارے میں روایت ہے کہ ’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت اماں جان سے خاص تعلق تھا … بہت کم اس زمانہ میں بات کرتے بڑوں سے میں نے ان کو دیکھا۔ شام کو باہر صحن میں آنا تو مؤدب ہو کر بیٹھنا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سامنے بھی دوپٹہ بہت لپیٹ کر اوڑھے رکھنا ان کا طریقہ تھا۔ جیسے پنجابی میں دوہری بکل کہتے ہیں۔ آپ لڑکیوں نے شاید یہ طریقہ دیکھا ہی نہ ہو۔ اسی صورت میں ڈوپٹہ اوڑھ کر صحن میں نکلتی تھیں۔ یہ ایک طرح کا گھر کا پردہ ہی ہوتا ہے ۔حالانکہ اس وقت شروع میں پردہ والا کوئی خاص گھر میں نہ ہوتا تھا۔
(محمودہ بیگم صاحبہؓ صفحہ4 از مبشرہ بشارت)
حضرت غلام فاطمہؓ کی حیات مبارکہ کا واقعہ ہے کہ آپؓ میں حیا کا بہت مادہ تھا۔پہلے جب ٹوپی والا برقع ہوتا تھا تو اسے آپؓ سلیقے سے اوڑھتی تھیں۔ بعد میں عام نقاب والے برقعے آئے تو وہ پہنے اور زندگی کے آخری لمحات تک برقعے کی پابندی کی۔
ایک ا ورو اقعہ میں مذکور ہے کہ ’’وہ ہمیشہ ڈوپٹے کو بہت سلیقے سے اوڑھتیں۔ دن ہو یا رات سر ڈھکا رہتا ۔ایک دفعہ ایک عزیزہ غلام فاطمہؓ بیگم صاحبہ سے ملنے آئیں تو فوراً اپنا اٹیچی کیس کھلوا کر ایک خوبصورت عمدہ سفید دوپٹہ نکال کر دیا کہ اسے اوڑھیں۔ ایک بچی کو کہاکہ اسے دوپٹہ اوڑھنا سکھائو کہ کس طرح سرڈھکتا ہے۔ ہماری بہو بیٹیاں سر ڈھک کررہتی ہیں۔ اسی طرح ایک دفعہ ایک بچی کو بغیر دوپٹے کے دیکھا وہ ایران سے آئی تھی تو اسے احساس دلانے کے لیے کہا: کیا تم اپنا دوپٹہ شاہ ایران کو دے آئی ہو یعنی آپ غلطی کی اصلاح سامنےکر دینا زیادہ مناسب خیال کرتی تھیں بجائے اس کی کمزوری کو پیٹھ پیچھے بیان کرنے کے۔‘‘
(ماخوذ ازسیرت غلام فاطمہ و میمونہ بیگم صفحہ 13تا15)
حیا کے بارے میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ارشادات
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
’’پھر اپنے آپ کو با حیا بنانا ہے کیو نکہ یہ بھی ایمان کا ایک حصہ ہے۔ حیا بھی ایمان کا حصہ ہے۔ اللہ تعا لیٰ نے عورت کو جس طرح اپنے آپ کو ڈھانپنے کا حکم دیا ہے اس طرح احتیاط سے ڈھانپ کر رکھنا چا ہئے۔زینت ظا ہر نہ ہو۔ حیا کا تصور ہر قوم میں ہر مذہب میں پا یا جا تا ہے۔ آج مغرب میں جو بے حیا ئی پھیل رہی ہے اس سے کسی احمدی لڑ کی کو کسی احمدی بچی کو کبھی متا ثر نہیں ہو نا چا ہئے۔‘‘
(خطاب لجنہ یو کے 20نومبر 2005ء)
’’…… پس یہ ہے ایک حقیقی مسلمان لڑکی کی شان اور اطاعت کا معیار اور یہ ہے ایک مسلمان لڑکے کے تقویٰ کا معیار کہ دین کو ہر صورت میں دنیا پر مقدم کیا۔ کیا ہمارے معیار یہ ہیں؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ رشتے کے وقت تم لڑکی کی شکل اور صورت دیکھتے ہو، اس کی دولت دیکھتے ہو، اس کا خاندان دیکھتے ہو، خوبصورت ہے، دولت مند ہے یا اچھے خاندان کی بیوی تمہیں ملے۔ لیکن فرمایا کہ اصل چیز جو تمہیں دیکھنی چاہیے وہ یہ ہے کہ تم یہ دیکھو کہ اس میں نیکی اور تقویٰ ہے۔ تم اس کا دین دیکھو۔‘‘
(صحیح البخاری کتاب النکاح باب الاکفاء فی الدین حدیث 5090)
پس جیسا کہ پہلے بھی ایک صحابیہ کے حوالے سے ذکر ہوا ہے کہ بننا سنورنا، زیور پہننا اس نے اس لیے نہیں کیا کہ اس کے خاوند کی اس پر توجہ نہیں تھی۔ بننا سنورنا زیور پہننا منع نہیں ہے مگر اس پر فخر کرنا اور اس کا غیر ضروری اور نامناسب اظہار کرنا یہ غلط ہے۔ خوشی کے موقعے پر لڑکیاں عورتیں بنتی سنورتی ہیں اور یہ جائز ہے مگر اس کا اظہار صرف محرم رشتوں کے سامنے ہو نہ یہ کہ سڑکوں اور بازاروں میں پھریں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد ہمیشہ اپنے سامنے رکھیں کہ حیاء ایمان کا حصہ ہے۔
(صحیح البخاری کتاب الایمان باب الحیاء من الایمان حدیث 24)
ایک احمدی کو مرد ہو یا عورت اس طرح اپنی زندگی کا جائزہ لینا چاہیے کہ کیا میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی بیعت میں آ کر آخرین میں شامل ہو کر پہلوں سے ملنے اور ان کے نقشِ قدم پر چلنے کی کوشش کر رہا ہوں یا کر رہی ہوں؟ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ اگر تم صحیح رنگ میں میری پیروی کرو گے تو پھر جو کچھ صحابہ نے دیکھا تم بھی دیکھو گے۔ (درثمین اردو صفحہ 56) اور میری پیروی انہی احکامات پر چلنے میں ہے جو اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائے ہیں۔ اس رہ نمائی پر عمل کرنے میں ہے جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں دی ہے اور اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہی بتایا ہے کہ یہ ورلی زندگی مَتَاعُ الْغُرُوْرِ ہے، دھوکے کا عارضی سامان ہے۔ پس عارضی سامان کے پیچھے ہم کیوں اپنی زندگیاں برباد کر رہے ہیں۔‘‘
(روزنامہ الفضل 24 دسمبر 2019ء)
آپ ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے احمدی بچیوں کو خا ص توجہ دلاتے ہو ئے فرمایا۔
’’پس ہر احمدی بچی کو اگر وہ اللہ تعا لیٰ سے محبت کا دعویٰ کرتی ہے۔اپنے عملوں کی نیک جز ا چاہتی ہے تو اپنی حیا کی بھی حفاظت کر نی ہو گی۔ احمدی بچی کا لباس بھی حیا دار ہو نا چا ہئے نہ کہ ایسا کہ لو گو ں کی آپ کی طرف توجہ ہو۔‘‘
(جلسہ سا لا نہ جرمنی 2جون 2012ء)
؎دو عضو اپنے جو کوئی ڈر کر بچائے گا
سیدھا خدا کے فضل سے جنت میں جائے گا
اظہار تشکر
محترم قارئین کرام !الحمد للہ ثم الحمد للہ کہ خدا کے فضل واحسان اور اس کی تائید و نصرت سے ’’صحابیاتؓ کا حیا سے متعلق مثالی کردار ہمارے لیے مشعل راہ ہے‘‘ کے عنوان کے تحت ایک مضمون کو سینۂ قرطاس پر بکھرنے کے لئے نوک ِقلم کو جنبش دی ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم کی طرح صحابیات رضوان اللہ عنہن نے جس طرح اپنے نیک افعال سے مسابقت الخیر کے باب رقم کئے ہیں وہ یقینا ًدور حاضر میں ہمارے لئے مشعل راہ ہیں۔ میدان جنگ سے لیکر علوم وفنون کی ترقی میں صحابیات رضی اللہ عنہن اپنے بیٹوں ،اپنے شوہروں اپنے بھائیوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہونے کے ساتھ ساتھ اپنی اعلیٰ اقدار کی حفاظت کرنے والی، اپنے پردے اور حیا کے تقدس کا خیال کرتیں نظر آتیں ہیں ۔غرض مذہبی ،سیاسی ،جنگی اور معاشرتی خدمات کے حوالے سے صحابیات رضوان اللہ عنہن کے نمایاں اور احسن کردار کو فراموش نہیں کیا جاسکتا اور انکا یہ کردار تمام مسلمان خواتین کے لئے مشعل راہ رہے گا ۔مضمون ہذا میں خاکسار نے ایک حقیر سی کوشش کی ہے کہ ان صحابیاتؓ کی حیا اور پردہ کے متعلق واقعات کو یکجا کرکے ایک مضمون کی شکل میں آپکے سامنے پیش کرسکوں تاکہ ہماری آنے والی اور موجودہ نسلیں ان واقعات کو پڑھ کر ان سے سبق حاصل کریں اور اپنی حیا اور پردے کے تقدس کو قائم رکھتے ہوئے اپنی اور اپنی اولاد کی نیک تربیت کے ساتھ تبلیغ اسلام کا اولین فریضہ سر انجام دے سکیں۔ اگرچہ تمام صحابیات مبارکہ رضوان اللہ عنہن کے نمونے ہمارے لئے مشعل راہ ہیں، خاکسارنے کوشش کی ہے کہ چند ایک نمونے آپکی خدمت میں پیش کرسکوں۔اس سلسلہ میں جماعتی کتب کے علاوہ چند دیگر مشہور و معروف کتب سے بھی استفادہ کیا گیا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ واقعات کو آپکے سامنے پیش کیا جا سکے ۔چند احادیث بھی دیگر کتب کے تراجم سے پیش کی گئیں ہیں۔
آخر میں خدا تعالیٰ کے حضور عاجزانہ دعا ہے کہ وہ میری اس حقیر سی کوشش کو قبول فرمائے ۔(آمین)
٭…٭…٭
(مرسلہ: درثمین احمد جرمنی)