• 18 مئی, 2025

ایمان کی حفاظت

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:۔
اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ایمان لانے والوں کے لئے، ایسے لوگوں کے لئے جو صرف ایمان کا دعویٰ ہی نہیں کرتے بلکہ اپنے ایمان کی حفاظت کرنے والے ہیں، اپنے ایمان کی حفاظت کرتے ہوئے اس میں مضبوطی پیدا کرتے چلے جانے والے ہیں۔ اپنے ایمان کی حفاظت اور اس کی مضبوطی کے ساتھ ساتھ اپنی نسلوں کے ایمان کی حفاظت اور اس کی مضبوطی کے لئے بھی کوشاں رہتے ہیں۔ اور پھر صرف اپنی اور اپنے اہل و عیال کے ایمان کی حفاظت اور اس میں مضبوطی کی کوشش ہی نہیں کرتے بلکہ اپنے ماحول میں رہنے والے ہر مذہب کے ماننے والے بلکہ لا مذہبوں کو بھی اس لئے نصیحت کرتے ہیں کہ وہ بھی اللہ تعالیٰ کی خاطر نیکیاں بجا لانے والے ہوں اور ایمان لانے والے بنیں، اللہ تعالیٰ نے ایک بہت بڑی ذمہ داری مومنوں پر ڈالی ہے۔ وہ مومن جن کا یہ دعویٰ ہے کہ ہم نے اس زمانے کے امام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلامِ صادق اور عاشقِ صادق کو مان کر اللہ تعالیٰ پر اپنے مضبوط ایمان کا اظہار کیا ہے۔ پس قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں کی طرح جنہوں نے قرآنِ کریم کے احکامات اور ارشادات اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کو ہمیشہ سامنے رکھا اور شریعت اور قرآنی احکامات کو اپنی زندگیوں پر لاگو کرنے کی کوشش کی تا کہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے بن سکیں اور اس میں وہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے کامیاب بھی ہوئے، اس زمانے میں ہم احمدیوں کا فرض ہے جو قرآنِ کریم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر کامل اور مضبوط ایمان لانے کادعویٰ کرتے ہیں۔ جنہوں نے اپنی زندگیوں میں انقلاب پیدا کرنے کے لئے اور قرآنی احکامات کو اپنے پر لاگو کرنے کے لئے زمانے کے امام مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی ہے کہ ہم اپنے جائزے لیں کہ ہم کس حد تک خیرِ امت ہونے کا حق ادا کر رہے ہیں۔ ہم کس حد تک انسانوں کے فائدے کے لئے ان کا درد دل میں رکھنے کا حق ادا کر رہے ہیں۔ ہم کس حد تک اپنے قول کے ساتھ ساتھ اپنے عمل سے نیک باتوں کی تلقین کر رہے ہیں۔ ہم کس حد تک اپنے عمل اور نصائح سے دنیا کو برائیوں سے بچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ جائزے ہم اپنی طرف سے کسی قسم کا خود ساختہ معیار بنا کر نہیں لے سکتے۔ یہ جائزے ہمیں اس معیار کو سامنے رکھتے ہوئے لینے ہوں گے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے سامنے مقرر فرمایا۔ اس کا میں آگے جا کے ذکر کروں گا۔ اور جب تک ہم یہ جائزے لیتے ہوئے اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنے کی کوشش کرتے رہیں گے ہم ترقی کے راستے پر گامزن رہیں گے، ان شاء اللہ۔

قوموں کا زوال ہمیشہ اس وقت شروع ہوتا ہے جب وہ خود ساختہ معیاروں کو سامنے رکھتے ہیں، جب وہ ہوا و ہوس میں گرفتار ہو جاتے ہیں، جب وہ بنیادی مقصد کو بھول جاتے ہیں۔ قرآنِ کریم نے گزشتہ انبیاء کا ذکر کر کے ہمیں اس طرف توجہ دلائی ہے کہ سابقہ قوموں نے جب اپنی تعلیم کو بھلا دیا، جب اپنے مقصد سے روگردانی کرنی شروع کر دی تو پھر یا تو وہ تباہ ہو گئیں یا اُن میں اتنا بگاڑ پیدا ہو گیا کہ اصل تعلیم کی جگہ بدعات اور لغویات اُن میں رائج ہو گئیں جو روحانی اور اخلاقی تباہی ہے۔ برائیاں ان کی نظر میں اچھائیاں بن گئیں۔ پاکیزگی اور حیا اُن کی نظر میں فرسودہ تعلیم بن گئی۔ مذہب کی خود ساختہ تشریحات ہونے لگیں۔ انہوں نے اپنے انبیاء کی تعلیم کو ہی بدل کر رکھ دیا۔ انبیاء کی تعلیم کے نام پر غلط اور اپنی مرضی کی تعلیم اُن کتب کا حصہ بنا دی گئی جو انبیاء کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کے دلوں میں خدا تعالیٰ کا تقدس بھی باقی نہیں رہا اور نہ ہی انبیاء کا اور روحانی لحاظ سے وہ مردہ ہو گئیں۔ یہی حال آپ دیکھیں آج کل مغرب میں بسنے والی قوموں کا ہے۔ اس کے علاوہ اسلام سے پہلے کے اور جتنے بھی مذہب اپنے آپ کو کسی سے منسوب کرتے ہیں اُن کا بھی یہی حال ہے۔ مسلمانوں پرخدا تعالیٰ کا یہ احسان ہے کہ اس نے اپنے وعدے کے مطابق اس آخری شرعی کتاب کی حفاظت فرمائی۔

(خطبہ جمعہ 4؍ فروری 2011ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 24 مئی 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 25 مئی 2021