• 5 مئی, 2024

قدرت ثانیہ یعنی خلافت احمدیہ

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:۔
پھر آپ ؓ (خلیفہ اول ۔ناقل) فرماتے ہیں کہ: ’’کہا جاتا ہے کہ خلیفہ کا کام صرف نماز پڑھا دینا اور یا پھر بیعت لے لینا ہے۔ یہ کام تو ایک مُلاّں بھی کر سکتا ہے اس کے لئے کسی خلیفے کی ضرورت نہیں اور میں اس قسم کی بیعت پر تھوکتا بھی نہیں۔ بیعت وہ ہے جس میں کامل اطاعت کی جائے اور خلیفہ کے کسی ایک حکم سے بھی انحراف نہ کیاجائے۔‘‘

(الفرقان، خلافت نمبر۔ مئی جون ۱۹۶۷ء صفحہ ۲۸)

پھر دنیا نے دیکھا کہ آپؓ کے ان پر زور خطابات سے اور جو آپ نے اس وقت براہ راست انجمن پر بھی ایکشن لئے، جتنے وہ لوگ باتیں کرنے والے تھے وہ سب بھیگی بلّی بن گئے، جھاگ کی طرح بیٹھ گئے۔ اور وقتی طور پر ان میں کبھی کبھی اُبال آتا رہتا تھا اور مختلف صورتوں میں کہیں نہ کہیں جا کر فتنہ پیدا کرنے کی کوشش کرتے رہتے تھے لیکن انجام کار سوائے ناکامی کے اور کچھ نہیں ملا۔ پھر حضرت خلیفۃ المسیح الاول ؓ کی وفات ہوئی۔ اس کے بعد پھر انہیں لوگوں نے سر اٹھایا اور ایک فتنہ برپا کرنے کی کوشش کی، جماعت میں پھوٹ ڈالنے کی کوشش کی اور بہت سارے پڑھے لکھے لوگوں کو اپنی طرف مائل بھی کر لیا، کیونکہ ان کا خیال تھا کہ اگر خلافت کا انتخاب ہوا تو حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد کو ہی جماعت خلیفہ منتخب کرے گی۔ اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس فتنہ کو ختم کرنے کے لئے ان شور مچانے والوں کو، انجمن کے عمائدین کو یہ بھی کہہ دیا کہ مجھے کوئی شوق نہیں خلیفہ بننے کا، تم جس کے ہاتھ پر کہتے ہو میں بیعت کرنے کے لئے تیار ہوں۔ جماعت جس کو چنے گی میں اسی کو خلیفہ مان لو ں گا۔ لیکن جیسا کہ میں نے کہا ان لوگوں کو پتہ تھا کہ اگر انتخاب خلافت ہوا تو حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحب ہی خلیفہ منتخب ہوں گے۔ اس لئے وہ اس طرف نہیں آتے تھے اور یہی کہتے رہے کہ فی الحال خلیفہ کا انتخاب نہ کروایا جائے۔ ایک، دو، چار دن کی بات نہیں، چند مہینوں کے لئے اس کو آگے ٹال دیا جائے، آگے کر دیا جائے اور یہ بات کسی طرح بھی جماعت کو قابل قبول نہ تھی۔ جماعت تو ایک ہاتھ پر اکٹھا ہونا چاہتی تھی۔ آخر جماعت نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد ؓ کو خلیفہ منتخب کیا اور آپ ؓ کے ہاتھ پر بیعت کی۔ اور اس وقت بھی مخالفین کا یہ خیال تھا کہ جماعت کے کیونکہ پڑھے لکھے لوگ ہمارے ساتھ ہیں اور خزانہ ہمارے پاس ہے اس لئے چند دنوں بعد ہی یہ سلسلہ ختم ہو جائے گا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے پھر اپنی رحمت کا ہاتھ رکھا اور خوف کی حالت کو پھر امن میں بدل دیا اور دشمنوں کی ساری امیدوں پہ پانی پھیر دیا اور ان کی ساری کوششیں ناکام ہو گئیں۔ پھر خلافت ثانیہ میں 1934ء میں ایک فتنہ اٹھا اس کو بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے دبا دیا اور جماعت کو مخالفین کوئی گزند نہیں پہنچا سکے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ ہم پتہ نہیں کیا کر دیں گے۔ پھر 1953ء میں فسادات اٹھے۔ جب پاکستان بن گیا اس وقت دشمن کا خیال تھا کہ اب ہماری حکومت ہے یہاں انگریزوں کی حکومت نہیں رہی اب یہاں انصاف تو ہم نے ہی دینا ہے اور ان لوگوں کو انصاف کا پتہ ہی کچھ نہیں تھا اس لئے اب تو جماعت ختم ہوئی کہ ہوئی۔ لیکن پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے جماعت کو ان سخت حالات اور خوف کی حالت سے ایسا نکالا کہ دنیا نے دیکھا کہ جو دشمن تھے وہ تو تباہ و برباد ہو گئے، وہ تو ذلیل و خوار ہو گئے لیکن جماعت احمدیہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک نئی شان کے ساتھ پھر آگے قدم بڑھاتی ہوئی چلتی چلی گئی۔

غرض کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی خلافت کا دور 52سال رہا اور ہر روز ایک نئی ترقی لے کر آتا تھا۔ کئی زبانوں میں آپ ؓ کے زمانے میں تراجم قرآن کریم ہوئے۔ بیرونی دنیا میں مشن قائم ہوئے۔ افریقہ میں، یورپ میں مشنز قائم ہوئے اور بڑی ذاتی دلچسپی لے کر ذاتی ہدایات دے کر۔ اس زمانے میں دفاتر کا بھی نظام اتنا نہیں تھا۔ خود مبلغین کو براہ راست ہدایات دے دے کر اس نظام کو آگے بڑھایا اور پھر اللہ تعالیٰ نے نہ صرف ہندو پاکستان میں بلکہ دنیا کے دوسرے ملکوں میں بھی اور خاص طور پر افریقہ میں لاکھوں کی تعداد میں سعید روحوں کو احمدیت قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائی۔ اور وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع ہوئیں۔ پھر دیکھیں آپ نے کس طرح انتظامی ڈھانچے بنائے۔ صدر انجمن احمدیہ کا قیام تو پہلے ہی تھا اس میں تبدیلیاں کیں، ردّو بدل کی۔ اس کو اس طرح ڈھالا کہ انجمن اپنے آپ کو صرف انجمن ہی سمجھے اور کبھی خلافت کے لئے خطرہ نہ بن سکے۔ پھر ذیلی تنظیموں کا قیام ہے، انصاراللہ، خدام الاحمدیہ، لجنہ اماء اللہ، آپ کی دُور رس نظر نے دیکھ لیا کہ اگر میں اس طرح جماعت کی تربیت کروں گا کہ ہر عمر کے لوگوں کو ان کی ذمہ واری کا احساس دلا دوں اور وہ یہ سمجھنے لگیں کہ اب ہم ہی ہیں جنہوں نے جماعت کو سنبھالنا ہے اور ہر فتنے سے بچا نا ہے۔ اپنے اندر نیک تبدیلی اور پاک تبدیلی پیدا کرنی ہے۔ اگر یہ احساس پید اہو جائے قوم کے لوگوں میں تو پھر اس قوم کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ تو دیکھ لیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب دنیا کے ہر ملک میں یہ ذیلی تنظیمیں قائم ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے فعال ہیں اور آج جرمنی کی خدام الاحمدیہ بھی اسی سلسلے میں اپنا اجتماع کر رہی ہے۔ تو یہ بھی ایک بہت بڑی انتظامی بات تھی جو حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جماعت میں جاری فرمائی۔ پھر تحریک جدید کا قیام ہے۔ جب دشمن یہ کہہ رہا تھا کہ میں قادیان کی اینٹ سے اینٹ بجا دوں گا اس وقت آپ ؓ نے تحریک جدید کا قیام کیا اور پھر بیرون ممالک میں مشن قائم ہوئے۔ پھر وقف جدید کا قیام ہے جو پاکستان اور ہندوستان کی دیہاتی جماعتوں میں تبلیغ کے لئے تھا۔ اب تو یہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے دنیا میں پھیل گئی۔ غرضیکہ اتنے کام ہوئے ہیں اور اسی شخص کو جس کو اپنے زعم میں بڑے پڑھے لکھے اور عقلمند اور جماعت کو چلا نے کا دعویٰ کرنے والے سمجھتے تھے کہ یہ بچہ ہے اس کے ہاتھ میں خلافت کی باگ ڈور ہے اور یہ کچھ نہیں کر سکتا اسی بچے نے دنیا میں ایک تہلکہ مچا دیا۔ اور تمام دنیا میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اس الہام کو بھی پورے کرنے والے ہو گئے کہ میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا۔

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ فرماتے ہیں کہ:
’’جو خلیفہ مقرر کیا جاتا ہے اس میں دیکھا جاتا ہے کہ اس نے کل خیالات کو یکجا جمع کرناہے۔ اس کی مجموعی حیثیت کو دیکھا جاوے۔ ممکن ہے کسی ایک بات میں دوسرا شخص اس سے بڑھ کر ہو۔ ایک مدرسہ کے ہیڈ ماسٹر کے لئے صرف یہ نہیں دیکھا جاتا کہ وہ پڑھاتا اچھا ہے کہ نہیں یا اعلیٰ ڈگری پاس ہے یا نہیں۔ ممکن ہے کہ اس کے ماتحت اس سے بھی اعلیٰ ڈگری یافتہ ہوں۔ اس نے انتظام کرنا ہے، افسروں سے معاملہ کرنا ہے، ماتحتوں سے سلوک کرنا ہے یہ سب باتیں اس میں دیکھی جاویں گی۔ اسی طرح سے خدا کی طرف سے جو خلیفہ ہو گا اس کی مجموعی حیثیت کو دیکھا جاوے گا۔ خالد بن ولید جیسی تلوار کس نے چلائی؟ مگر خلیفہ ابو بکر ہوئے۔ اگر آج کوئی کہتا ہے کہ یورپ میں میری قلم کی دھاک مچی ہوئی ہے تو وہ خلیفہ نہیں ہو سکتا۔ خلیفہ وہی ہے جسے خدا نے بنایا۔ خدا نے جس کو چن لیا اُس کو چن لیا۔ خالد بن ولید نے 60آدمیوں کے ہمراہ 60ہزار آدمیوں پر فتح پائی۔ عمر ؓ نے ایسا نہیں کیا‘‘۔ (حضرت عمرؓ نے) ’’مگر خلیفہ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی ہوئے۔ حضرت عثمان ؓ کے وقت میں بڑے جنگی سپہ سالار موجود تھے، ایک سے ایک بڑھ کر جنگی قابلیت رکھنے والا ان میں موجود تھا۔ سارے جہان کو اس نے فتح کیا مگر خلیفہ عثمان ؓ ہی ہوئے۔ پھر کوئی تیز مزاج ہوتا ہے، کوئی نرم مزاج، کوئی متواضع، کوئی منکسرالمزاج ہوتے ہیں، ہر ایک کے ساتھ سلوک کرنا ہوتا ہے جس کو وہی سمجھتا ہے۔ جس کو معاملات ایسے پیش آتے ہیں۔‘‘

(خطبات محمود جلد4 صفحہ72تا73)

(خطبہ جمعہ 21؍ مئی 2004ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 24 مئی 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 25 مئی 2021