وہی جو خاک کے سینہ سے پھول اگاتا
جو پتھروں سے بھی چشمے بہا کے لاتا
نہاں جو رکھتا ہے موتی صدف کے سینے میں
جو بحر و بر سے گھٹائیں نئی اٹھاتا ہے
جوکوه و وادی و صحرا کے ذرے ذرے میں
سحر کی پہلی کرن بن کے جگمگاتا ہے
وہ خود ہے محور عالم اور ایک عالم کو
وہ ایک مرکز و محور پہ لے کے آتا ہے
جلا کے وحدتِ روحانیت کا ایک چراغ
وہ اس چراغ کی لو اور بھی بڑھاتا ہے
نثار ہونے کو آتے ہیں اس پہ پروانے
وہ جب دلوں پہ وفا کے دیے جلاتا ہے
ہزار بھڑکے جہاں میں شرار بولہبی
چراغ مصطفوی اور جگمگاتا ہے
یہی خدا کی مشیت کا ہے عمل اے دوست !
یہ اس لئے کہ خلیفہ خدا بناتا ہے
(عبدالسلام اختر)
(ماہنامہ خالد مئی ۲۰۰۳)