• 19 اپریل, 2024

یومِ مسیحِ موعود علیہ السلام

جلسہ یوم مسیح موعودؑ کا پروگرام بروز اتوار21 مارچ اپنے وقت مقررہ پر شام پانچ بجے بذریعہ انٹرنیٹ زووم لینک پر منعقد ہوا جس سے جماعت لاس اینجلس کی بڑی تعداد نے استفادہ کیا۔ اس پروگرام کی صدارت نائب امیر مکرم ڈاکٹر حمید الرحمان خان صاحب نے کی۔ پروگرام کا آغاز تلاوتِ قرآنِ پاک سے ہوا۔ مکرم توفیق خالد احمد صاحب نے سورۃ جمعہ کی پہلی پانچ آیات کی تلاوت کی اور مکرم فلاح الدین صاحب نے تلاوت کی گئی آیات کا انگریزی زبان میں ترجمہ پیش کیا۔

صدرِ مجلس محترم نائب امیر ڈاکٹر حمید الرحمان خان صاحب نے اپنے مختصر ابتدائیے میں یوم مسیح موعود کی تقریب کی غرض و غایت اور تاریخ بیان کی۔ انہوں نے کہا کہ 23 مارچ 1889 ء کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پہلی بیعت شہر لدھیانہ میں صوفی احمد جان صاحب کے گھر پر لی اور اس طرح جماعتِ احمدیہ کی بنیاد رکھی۔ لیکن اس دن کو باقاعدہ طور پر منانے کا آغاز خلافت ِثانیہ کے ابتدائی دور میں شروع ہوا۔ ساری دنیا کے احمدی اس دن کو اللہ تعالیٰ کے شکر کے طور پر اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی اور حضرت مسیح موعود و مہدئ مسعود علیہ السلام کی بعثت کے دن کی خوشی کے طور پر مناتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ آج کے دن ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کے پورا ہونے اور مسیح موعود اور مہدئ مسعود علیہ السلام کی بعثت کا ذکر کرتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود و مہدئ موعود علیہ السلام کی بعثت کے مقاصد ، آپ علیہ السلام کے الہامات ، اور پھر ان الہامات کے پورا ہونے کا ذکر کرتے ہیں۔ آخر پر انہوں نے کہا کہ دو گھنٹے کا وقت جو آج کے اس پروگرام کے لئے مختص ہے ان موضوعات پر بات کرنے کے لئے کافی نہیں۔ چنانچہ انہوں نے احباب جماعت کو ایم ٹی اے دیکھنے کا مشورہ دیا جہاں ان موضوعات پر زیادہ عالمانہ اور سیر حاصل تقاریر اور پروگرام دیکھنے اور سننے کو ملیں گے۔

اس کے بعد صدرِ مجلس نے محترم توثیق الاسلام صاحب کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا منظوم پاکیزہ کلام پڑھنے کی دعوت دی جو انہوں نے بڑی خوش الحانی سے پیش کیا۔

لوگو سنو کہ زندہ خدا وہ خدانہیں
جس میں ہمیشہ عادتِ قدرت نما نہیں

محترم ریان صاحب نے اس منظوم کلام کا انگریزی زبان میں ترجمہ پیش کیا۔

اس کے بعد طاہر اکیڈمی کے درجہ پنجم کے طلبہ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیش گوئیوں، قادیان میں موجود شعائر اللہ ، اور آپ علیہ السلام کی تصانیف کا ذکر کیا۔

سب سے پہلے مکرم سلطان احمد صاحب اور مکرم اسرار احمد صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مختلف پیشگوئیوں کا ذکر کیا۔ سلطان احمد صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیش گوئیوں میں سے تین کا خاص طور پر ذکر کیا۔ پہلی پنڈت لیکھ رام کی موت سے متعلق ، دوسری جنگ عظیم سے متعلق جس میں کہا گیا تھا کہ زار بھی ہو گا تو ہو گااس گھڑی بہ حالِ زار، اور تیسری پیش گوئی جماعت کی ترقی سے متعلق کہ ’’میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا‘‘ جو 1994ء میں ایم ٹی اے کے ذریعہ پوری شان سے پوری ہوئی اور آج ہمارے سامنے ہے کہ دنیا کے کونے کونے میں اس کے ذریعہ جماعت احمدیہ کی آواز سنی جا سکتی ہے۔

مکرم اسرار احمد صاحب نے پیشگوئی مصلح موعود، طاعون سے متعلق پیشگوئی، اور وہ عظیم پیش گوئی جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ان کی دین سے محبت کی خاطر بے نفس ہو جانے کے بدلے اللہ تعالیٰ نے دی کہ ’’بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے‘‘ بیان کی۔

اس کے بعد مکرم موسیٰ علی احمد صاحب اور سلمان ریحان نور صاحب نے بہت محنت سے تیار کی گئی قادیان میں موجود شعائر اللہ کی تصویری سیر کروائی جو کہ تمام چھوٹوں اور بڑوں کے لئے برابر دلچسپی کا باعث رہی۔

قادیان کی بستی کی تصویری سیر کرواتے ہوئے مکرم موسیٰ علی احمدصاحب نے ہمیں دار المسیح ، مسجد مبارک ، بیت الدعا، مسجد اقصی، منارۃ المسیح ، اور دارالضیافت قادیان کی زیارت کا موقعہ فراہم کیا۔ انہوں نے تمام متذکرہ شعائر اللہ کی تفصیلی تصویری زیارت کروائی اور ان مقامات مقدسہ کی اہمیت اور ان سے متعلق مختصر تاریخ بھی بیان کی۔

اس کے بعد مکرم سلمان نورصاحب نے باقی شعائر اللہ کا باتصویر اور دلچسپ نظارہ کروایا۔ انہوں نے ہمیں بہشتی مقبرہ قادیان اور اس سے ملحقہ باغ، شاہ نشین ، حضرت اماں جان رضی اللہ تعالیٰ عنہا کاگھر، اور مقام قدرتِ ثانیہ کی سیر کے ساتھ ان مقاماتِ مقدسہ کی اہمیت کا بھی ذکر کیا اور آخر پر زور دے کر کہا کہ تمام احمدیوں کو ایک بارضرور قادیان دار الامان کی زیارت کرنا چاہئے۔

اس کے بعد دین احمد صاحب اور خاقان احمد صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات اور کتب کا مختصر تعارف پیش کیا۔

مکرم دین احمد صاحب نے ہمیں اشتہارات، مباہلہ، خطوط، تفسیر القرآن، روحانی خزائن، کشتی نوح سے روشناس کروایا ۔ کشتی نوح کے تعارف کے آخر پر انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ہر احمدی کو اس تصنیف کے جزو ‘‘ہماری تعلیم’’کا ضرور مطالعہ کرنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اردو، فارسی، اور عربی تینوں زبانوں میں کتب تحریر فرمائی ہیں۔ انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس پیغام کا بھی اعادہ کیا کہ ’’ہر احمدی کو میری کتب کا کم سے کم تین مرتبہ مطالعہ کرنا چاہئے اور جو میری کتب کا مطالعہ نہیں کرتا اس کے ایمان پر ہمیں شک ہے۔‘‘

مکرم خاقان احمد صاحب نے ہمیں براہینِ احمدیہ، حکومتِ برطانیہ اور جہاد، اور درثمین سے متعارف کروایا۔

پروگرام کے اگلے حصہ پر جانے سے پہلے نائب امیرڈاکٹر حمید الرحمان صاحب نے طاہر اکیڈمی کے درجہ خامس کے طلباء کو بہترین پروگرام پیش کرنے پر مبارکباد دی اور یہ بھی کہا کہ ہر احمدی کو زندگی میں ایک بار قادیان دارلامان کی زیارت ضرور کرنی چاہئے۔

اس کے بعد صدرِ مجلس نے ایک خادم مکرم سرمد چوہدری صاحب کو دعوت دی کہ وہ ’’حضرت مرزا غلام احمد علیہ السلام کا دعویٰ مسیح موعود و مہدئ معہود‘‘ کے موضوع پر اپنے خیالات کا اظہار کریں۔

انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعویٰ مسیحیت اور دعویٰ مہدویت کی سچائی کو ثابت کرنے کے لئے دو سوال اٹھا کر اپنے دلائل قرآن، حدیث، اور مسیح موعود علیہ السلام کی کتب سے حوالوں کے ساتھ پیش کیے۔ پہلا سوال یہ اٹھایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا دعویٰ مسیح موعود کیا تھا؟ اور دوسرا یہ کہ مسیح موعود و مہدئ معہود کے زمانے میں لوگوں کے ایمان کی حالت کیا ہو گی؟

انہوں نے قرآن کریم سے سورہ جمعہ کی آیات 3 اور 4 پیش کیں، جس کا ترجمہ یہ ہے کہ: ’’وہی ہے جس نے اُمّی لوگوں میں انہی میں سے ایک عظیم رسول مبعوث کیا۔ وہ اُن پر اس کی آیات کی تلاوت کرتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب کی اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے جبکہ اس سے پہلے وہ یقیناً کھلی کھلی گمراہی میں تھے۔اور انہی میں سے دوسروں کی طرف بھی (اسے مبعوث کیا ہے) جو ابھی اُن سے نہیں ملے۔ وہ کامل غلبہ والا (اور) صاحبِ حکمت ہے‘‘ [62:3-4]

انہوں نے کہا کہ ان آیات کے نزول کے وقت ایک صحابی نے دریافت کیا کہ وہ کون لوگ ہوں گے جن سے متعلق ان آیات میں ذکر ہوا ہے۔ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پاس بیٹھے ہوئے غیر عرب صحابی حضرت سلمان فارسی علیہ السلام کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر فرمایا کہ ’’اگر ایمان ثریا ستارے پر بھی چڑھ گیا تو ان میں سے ایک شخص (یا کچھ اشخاص) ایمان کو واپس زمین پر لے آئیں گے‘‘۔

انہوں نے کہاکہ دنیا کے تین بڑے مذاہب یعنی یہودی، عیسائی، اور مسلمان کسی نہ کسی رنگ میں مسیح علیہ السلام کی آمد کے منتظر ہیں۔ ان میں سے عیسائی اور مسلمان مسیح علیہ السلام کے آسمان سے اترنے کے انتظار میں ہیں۔ لیکن حضرت مرزا غلام احمد مسیح موعود و مہدئ مسعود علیہ السلام نے قرآن و حدیث اور دیگر اسلامی کتب سے مسیح کے آسمان سے اترنے کے خیال کو غلط ثابت کیا اور کہا کہ ’’اللہ تعالیٰ نے مجھے اطلاع دی ہے کہ وہ جو آنے والا تھا وہ میں ہوں‘‘۔ اسی طرح حضرت مرزا صاحب علیہ السلام نے غیر احمدیوں میں جو خونی مہدی کا تصور ہے اسے بھی قرآن و حدیث اور دیگر اسلام کی کتب سے غلط ثابت کیا۔ نیز یہ بھی ثابت کیا کہ مسیح موعود اور مہدی معہود ایک ہی وجود کے دو نام ہیں۔

انہوں نے کہا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں نہ صرف مسلمانوں کی ایمانی حالت انتہائی دگرگوں تھی بلکہ تمام مذاہب کے ماننے والوں کی ایمانی حالت بہت خراب ہو چکی تھی۔ تمام مذاہب کی اصل تعلیمات اپنا وجود کھو چکی تھیں۔ انسانوں کی اخلاقی اور ایمانی حالت بگڑ چکی تھی اور دنیا اندھیروں میں ڈوبی ہوئی تھی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نےفرمایا کہ دنیا کے حالات اس بات کا تقاضا کر رہے تھے کہ خدا کی طرف سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی میں ایک مسیح آئے اور اس دنیا کی تقدیر بدلے۔ مقرر نے یہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا شعر پڑھا:

وقت تھا وقت ِ مسیحا نہ کسی اور کا وقت
میں نہ آتا تو کوئی اور ہی آیا ہوتا

آخر پر انہوں نےکہا کہ ہم احمدی خوش قسمت ہیں کہ ہم نے اس زمانے کے مسیح اور مہدی کو مانا ہے۔ ہماری اس خوش بختی کا ذکر صدرِ مجلس نے بھی اپنے کلماتِ تشکر میں کیا۔

صدر مجلس محترم ڈاکٹر حمید الرحمان صاحب نے مقرر کی علمی کاوش کی تعریف کی اور اگلے مقرر کو دعوت دینے سے پہلے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب سے چند پُر شوکت حوالے بھی پیش کئے۔جن میں حضور اقدس کی تصانیف کرامات الصادقین ، ضرورت الامام، حقیقت الوحی سے اقتباسات شامل تھے۔ اس کے بعد انہوں نے اگلے مقرر محترم عظیم رحمان صاحب کو دعوت دی کہ وہ ’’مسیح موعود علیہ السلام کی سچائی کے نشانات‘‘ پر اپنی تقریر کریں۔

مکرم عظیم رحمان صاحب نے کہا کہ آج غیر احمدی دنیا مسیح موعود کی آمد، شخصیت، اور سچائی کے دلائل میں غلطاں و پیچاں ہے اور یہی بات ہمارے سامنے یہ سوال کھڑا کرتی ہے کہ ہم کس طرح مسیح موعود علیہ السلام کی شخصیت اور آپ علیہ السلام کی سچائی کو ان کے سامنے دلائل سے ثابت کریں۔

انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بے شمار نشانات عطا فرمائے ہیں جن کا ذکر حضورِ اقدس کی تصانیف میں جا بجا ملتا ہے اور جو مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کو دوسرے مدعیانِ مسیح موعود اور امام مہدی سے ممتاز کر کے آپ علیہ السلام کی سچائی کا ثبوت مہیا کرتےہے۔ انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصنیف آئینہ کمالات ِاسلام کا حوالہ دیا۔ اس تصنیفِ لطیف میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے وہ قرائن پیش فرمائے ہیں جو مسیح موعود کے دعویٰ کی سچائی کا ثبوت ہو سکتے ہیں۔ انہی قرائن میں سے پانچویں قرینہ کے بیان میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دنیائے اسلام کو ایک چیلنج دیا ہے۔ حضور اقدس کے اسی چیلنج کو مقرر نے اپنی دلیل کے طور پر پیش کیا ہے ۔ حضورِ اقدس فرماتے ہیں: ’’پانچویں علامت اس عاجز کے صدق کی یہ ہے کہ مجھے اطلاع دی گئی ہے کہ میں ان مسلمانوں پر بھی اپنے کشفی اور الہامی علوم میں غالب ہوں ان کے ملہموں کو چاہیئےکہ میرے مقابل پر آویں پھر اگر تائید الٰہی میں اور فیض سماوی میں اور آسمانی نشانوں میں مجھ پر غالب ہو جائیں تو جس کارد سے چاہیں مجھ کو ذبح کر دیں‘‘۔

(آئینہ کمالاتِ اسلام،روحانی خزائن جلد5 صفحہ348)

مقرر نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس چیلنج کو بنیاد بناتے ہوئے دو بہت اہم پیش گوئیوں کو اپنے دلائل اور مسیح موعود علیہ السلام کی سچائی کے نشان کے طور پر پیش کیا ہے۔ پہلی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی چاند سورج کے گرہن والی پیش گوئی اور دوسری حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پنڈت لیکھ رام سے متعلق پیش گوئی۔

مقرر نے چاند سورج گرہن کا تصویری نقشہ پیش کیا اور اس کی تاریخ بھی بیان کی۔ انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس آسمانی نشان والی حدیث مبارکہ پر روشنی ڈالی اور اس کا اپنے وقتِ مقررہ پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حق میں من وعن پورا ہونے کو ثبوت کے طور پر پیش کیا۔

پنڈت لیکھ رام سے متعلق پیش گوئی کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے اس کا تاریخی پس منظر، پنڈت لیکھ رام کی شخصیت اور حالات، اور اس پیشگوئی پر غیر وں کےاعتراضات اور پھر ان اعتراضات کے مدلل جواب بھی پیش کیے۔ انہوں نے کہا کہ یہ پیش گوئی ان بڑی بڑی پیش گوئیوں میں سے ایک ہے جس کے پورا ہونے پر ہندوستان میں ہزاروں لوگ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت میں شامل ہوئے۔

صدر مجلس نے مقرر کا شکریہ ادا کیا اور مختصر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے چاند سورج گرہن پر اپنی تصنیف نور الحق حصہ دوم میں تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ اس کے علاوہ حضورعلیہ السلام نے اس بارے میں عربی میں قصیدہ بھی لکھا ہے۔ انہوں نے مکرم فوزان نور صاحب کو حضورِ اقدس کے اسی قصیدہ سے چند اشعار پڑھنے کی دعوت دی۔ مکرم فوزان نور صاحب نے یہ قصیدہ پڑھا اور پھر اس کا انگریزی زبان میں ترجمہ بھی پیش کیا۔

اس کے بعد صدرِ مجلس نے طاہر اکیڈمی معیار اول کے طلبہ و طالبات کو منارۃ المسیح کے بارے میں معلومات اور حقائق بیان کرنے کی دعوت دی جو ان ننھے مُنے بچوں نے اپنی ماؤں کی مدد سے پیش کئے۔انہوں نے منارۃ المسیح کی تاریخ، مقام، اور اس کی اہمیت کا ذکر کیا۔

منارۃ المسیح کے ذکر کے بعد صدرِ مجلس نے مربی سلسلہ مکرم ارشاد ملہی صاحب کو ’’مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی اور سیرت‘‘ پر تقریر کرنے کے لیے مدعو کیا۔

مربی صاحب نے سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے واقعات بیان کرنے سے پہلے کہا کہ کچھ لوگ دوسروں کے ساتھ بات چیت میں اچھے ہوتے ہیں لیکن جب گھر جاتے ہیں تو ان کا رویہ اپنے بیوی بچوں کے ساتھ اچھا نہیں ہوتا۔ جبکہ بیوی اصل شاہد ہوتی ہے اپنے خاوند کے کردار کی۔ انہوں نے کہا کہ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب رضی اللہ عنہ دس سال تک مسیح موعود علیہ السلام کے گھر میں رہے ۔ وہ شہادت دیتے ہیں کہ انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اپنے بیوی بچوں کے ساتھ بہت ہی حلیم پایا۔

حضرت مولوی عبدالکریم صاحب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک دن حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر کا کام کر رہے تھے۔ بچہ آیا اور کہا کہ ’’ابا بوا کھول‘‘ (ابا دروازہ کھول) ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کے لئے دروازہ کھول دیا اور اس کے جانے پر پھر بند کردیا۔ لیکن بچہ بار بار آتا اور پھر چلا جاتا اور حضورؑ بغیر ماتھے پر بل ڈالے دروازہ کھولتے اور بند کرتے رہے۔

مربی صاحب نے کہا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام انتہائی مصروف ہونے کے باوجود اپنے بچوں کو مکمل وقت دیا کرتے تھے ان کی چھوٹی چھوٹی باتیں اور کہانیاں بڑے غور سے سنا کرتے تھے۔

مربی صاحب نے بتایا کہ حضرت اماں جان رضی اللہ عنھا کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر بڑا مضبوط ایمان تھا۔ وہ مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات کے پورا ہونے کی دعا کیا کرتی تھیں۔ یہاں تک کہ حضور اقدسؑ کا محمدی بیگم کے ساتھ دوسری شادی کے الہام کے پوار ہونے کی بھی دعا کیا کرتی تھیں۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا بیوی کے ساتھ سلوک کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ آپ کا اپنی بیوی سے اتنا اچھا سلوک تھا کہ حضور اقدس کے گھر پر کام کرنے والے بعض اَن پڑھ بھی تھے جو کہتے تھے کہ ’’مرزا بیوی دی بڑی مندا اے‘‘ (مرزا صاحبؑ اپنی بیوی کی بہت مانتے ہیں)۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک بار اپنی زوجہ صاحبہ پر آواز بلند کرنے کے واقعہ پر فرماتے ہیں: ’’میرا یہ حال ہے کہ ایک دفعہ میں نے اپنی بیوی پر آوازہ کسا تھا اور میں محسوس کرتا تھا کہ وہ بانگِ بلند دل کے رنج سے ملی ہوئی ہے۔ اور باایں ہمہ کوئی دل آزار اور درشت کلمہ منہ سے نہیں نکلا تھا۔ اس کے بعد میں بہت دیر تک استغفار کرتا رہا اور بڑے خشوع و خضوع سے کچھ نفلیں بھی پڑھیں اور صدقہ بھی دیا کہ زوجہ پر یہ درشتی کسی پنہانی معصیتِ الٰہی کا نتیجہ ہے‘‘۔

آخر پر مربی صاحب نے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اسوہ پرچلنے کی توفیق عطا فرمائے۔

اس کے بعد صدرِ مجلس نے واسوا عمر کنٹو صاحب کو کوئز پیش کرنے کی دعوت دی۔ انہوں نے فوزان نور صاحب کے ساتھ مل کر کاہوٹ کے ذریعہ یہ کوئز پیش کیا جس میں بچوں نے بڑی دلچسپی کے ساتھ حصہ لیا۔

صدر مجلس مکرم ڈاکٹر حمید الرحمان صاحب نے اپنے اختتامی خطاب میں کہا کہ وہ اس پیش گوئی کا ذکر کرنا چاہتے ہیں جو یہاں ہمارے گھر کے پچھواڑے میں پوری ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا پیغام آپؑ کی زندگی میں دنیا کے کناروں تک پہنچ چکا تھا۔ امریکہ میں ڈاکٹر ڈاوی نے اسلام کے نابود ہونے کا دعویٰ کیا اس وقت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کو جواب دیا اور اس کو مباہلہ کا چیلنج دیا۔ اس نے جواب نہ دیا۔ جب ایک اخبار نے اس کو مجبور کیا تو اس نے اپنے اخبار میں لکھا کہ اگر میں اس پر اپنا پیر رکھ دوں تو وہ اڑ بھی نہیں سکے گا۔ اس طرح وہ مباہلہ کا قبول کرنے والا بن گیا۔ اس کے بعد اس کو فالج ہو گیا اور وہ تباہی کی حالت میں مر گیا۔ اس پر دنیا بھر کے بے شمار اخبارات نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جیت کا ذکر کیا اور ڈاکٹر ڈوی کی تباہی کا بھی ذکر کیا۔

آخر پر انہوں نے زاین میں ہونے والی جماعتی ترقی کا ذکر کیا اور احباب جماعت کو وہاں بننے والی مسجد اور دیگر ترقیاتی پروگراموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی درخواست بھی کی۔

مکرم ارشاد ملہی صاحب مربی سلسلہ نے آخر پر دعا کروائی جس کے ساتھ ہی یہ آن لائن پروگرام اپنے اختتام کو پہنچا۔

(رپورٹ: قدیر ملک، لاس اینجلس)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 24 مئی 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 25 مئی 2021