• 11 جولائی, 2025

تمنائے خلافت

یہ وعدہ ہے خدائے ذوالمنن کا
عطا ہو گی خلافت مومنوں کو
بہت خوشخال و خوش قسمت وہ ہوں گے
سمیٹیں گے جو اس کی برکتوں کو
خلافت تو انعام ہے ارمغاں ہے
سبھی کو یہ نعمت میسر کہاں ہے؟

خدا تعالیٰ نے اپنی رحمت خاص سے بنی نوع انسان پر شفقت فرماتے ہوئے اپنے دائمی وعدہ کے موافق اس دور آخر میں خلافت کا نظام جاری فرمایا ہے۔جس کی خوشخبری قرآن و حدیث اور دیگر الہامی کتب میں ابتداء سے ہی چلی آرہی تھی۔حضرت ابو حذیفہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ کے دوسرے صحابہ ہمیشہ اچھی، بھلائی، اور خوشخبری والی باتیں آپ ﷺسے پوچھا کرتے تھے لیکن میں مستقبل میں پیدا ہونے والے فتنہ و فساد کے متعلق پوچھتا رہتا تھا۔ ایک دن میں نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول ﷺ! کیا ان بھلے دنوں کے بعد برے دن بھی آئیں گے جس طرح پہلے دن تھے ؟ آپ ﷺنے فرمایا،ہاں۔ میں نے عرض کیا، اس فتنہ سے بچنے کی کیا صورت اختیار کی جائے گی؟ آپ ﷺنے فرمایا، تلوار؟ یعنی جنگ کا حربہ استعمال کیا جائے گا۔ میں نے عرض کیا،نتیجہ کیا ہو گا؟ آپ ﷺنے فرمایا، ،دلی کدورت کے باوجود سطحی صلح کی کوششیں کی جائیں گی۔میں نے عرض کیا، پھر کیاہو گا؟ آپ ﷺنے فرمایا، گمراہی کی طرف بلانے والے لوگ کھڑے ہونگے۔ ایسے حالات میں اگر زمین پر کوئی اللہ کا خلیفہ دیکھو تو تم اُس کی متابعت و مصاحبت اختیار کرو، اگرچہ اِس وجہ سے تمہارا جسم لہو لہان کر دیا جائے اور تمہارا مال لوٹ لیا جائے۔ اوراگر تمہیں ایسے خلیفة اللہ کا قرب میسر نہ آئے تو زمین کے کسی کونے میں چلے جاؤ،اگرچہ تم اکیلے درخت کے تنے کو پکڑے مر جاؤ۔

(مسند احمد بن حنبل بحوالہ حدیقة الصّالحین صفحہ878)

مخبر صادق ﷺ کے فرمان کے عین مطابق رسول خدا ﷺ کے رخلت فرما جانے کے بعد امت محمدیہ میں خلافت راشدہ کا قیام عمل میں آیا۔ یہ خلافت راشدہ الٰہی نوشتوں کے مطابق مقررہ وقت تک اپنی پوری آب وتاب کے ساتھ قائم رہی اور ایک دنیا کو اپنی رہبری سے نوازتی رہی اور بالآخر یہ بنی ونوع کی ہدایت کا یہ آسمانی نظام زمین سے اٹھا لیا گیا۔ اور پھر فتنوں اور جنگ و جدل کا وہ دور شروع ہو گیا جس نے دلوں میں نفرت وکدوت پیدا کر کے ملت واحدہ کو انگنت فرقوں میں تقسیم کر دیا۔ جیسا کہ سن 35 ہجری میں جب باغی تیسرے خلیفہ ٔحضرت عثمانؓ سے خلافت کا منصب چھوڑنے کا مطالبہ کر رہے تھے اور قتل کی دھمکیاں دے رہے تھے تو حضرت عثمانؓ نے فرمایا تھا کہ! اگر تم نے مجھے قتل کر دیا تو بخدا میرے بعد تم میں کبھی اتحاد قائم نہیں ہو گا۔ تم باہمی الفت نہ کر سکو گے۔ کبھی تم متحد ہو کر نماز نہیں پڑھ سکو گے۔اور نہ اکٹھے ہو کر دشمن سے جنگ کر سکو گے۔

(الطبقات الکبری جلد3 صفحہ72 ابن سعد دار صادر بیروت تاریخ طبری حالات 35ھ)

  • اسی زمانہ میں صحابی رسول ﷺ حضرت حنظلہؓ نے کچھ اشعا ر کہے (جن کا ترجمہ یہ تھا کہ) مجھے تعجب ہے کہ لوگ کن باتوں میں پڑے ہوئے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ خلافت جاتی رہے۔ اگر وہ چلی گئی تو لوگ ہر خیر سے محروم ہوجائیں گے اور پھر انتہائی ذلیل ہوجائیں گے۔ وہ یہود اور انصایٰ کی طرح ہوجائیں گے جو راہ حق سے بھٹک چکے ہیں۔

(تاریخ ابن اثیر جلد2 صفحہ173)

خلافت راشدہ کی بے قدری کی وجہ سے جب یہ حقیقی ہدایت واصلاح کا نظام دنیا میں نہ رہا، جب امت کی وحدت والفت کا یہ الٰہی ذریعہ جاتا رہا۔ تو اس نور کی جگہ اب ضلالت وگمراہی نے لے لی ہاں اب وہ روشنی دلوں میں باقی نہ رہی جو خلافت کی نعمت کی بدولت میسر تھی جس نے امت کو ایک بنیان مرصوص بنایا ہوا تھا۔ اگر کبھی باہمی تعاون، الفت میں کمی آتی تھی تو اس حبل اللہ کی بدولت یہ کمی دور ہوجاتی تھی۔جب یہ مربوط نظام ہی نہ رہا تو امت محمدیہ باہمی جھگڑوں اور رنجشوں سے لہولہان ہو گئی۔اندرونی و بیرونی فتنوں نے اسے نڈھال کر کے رکھ دیا۔عددی قوت وزمینی معدنی وسائل اور دولت کے انباروں کے باوجود ان کی کوئی سمت نہیں ہے۔ اور بنا رہبر کے اندھیروں میں بھٹک رہی ہے۔اس تمام تر صورتحال کو دیکھ کر امت کے دانشور مشرق ومغرب کے حکماءاس کا ایک ہی حل نکال رہے ہیں کہ کسی طرح پھر خلافت کا نظام جاری کیا جاسکے۔ ہر جگہ سے قیام خلافت کی صدائیں آئے روز بلند ہو رہی ہیں۔ ہر کوئی اپنے دل میں قیام خلافت کی تمنا لئے ہوئے نظر آتاہے۔

  • جیسا کہ نوائے وقت ملی ایڈیشن 25اگست 2006ء کی اشاعت میں لکھتا ہے: ’’آج مسلمانوں کی تعداد ڈیڑھ ارب سے زائد ہے۔ اس کی افواج کی تعداد تقریباً 40لاکھ سے بھی زیادہ ہے۔ مسلمانوں کے پاس امریکہ سے بھی زیادہ لڑاکا جہاز ہیں۔ دنیا کے 70فیصد توانائی کے وسائل اور زرخیززمینیں مسلمانوں کے پاس ہیں اور 13سو سال کی دنیا پر حکومت کرنے کی شاندار تاریخ ہے۔ لیکن پھر بھی یہ امت ایک زبردست تاریکی میں کھڑی ہے اور اس کا جسم لہو لہان ہے۔ صرف اور صرف اسلام کی روشنی اور خلافت کی طاقت ہی اس امت کو دوبارہ سے اس کا کھویا ہوا مقام دلواسکتی ہے۔‘‘
  • علامہ اقبال صاحب اپنی کتاب بانگے درا کے صفحہ266 میں خلافت کے قیام کی یوں تمنا کرتے ہیں:

ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے
نیل کے ساحل سے لے کر تا بخاک کا شغر
تا خلافت کی بنا دنیا میں ہو پھر استوار
لا کہیں سے ڈھونڈ کر اسلاف کا قلب و جگر

جناب شورش کشمیری اپنے ایک شعر میں کہتے ہیں:

خلافت راشدہ دوبارہ خدا کرے ہو وطن میں قائم
یہی ہے شورش تری تمنا، یہی ہمارا بھی مدعا ہے

(چٹان 23 فروری 1970ء صفحہ6)

  • چوہدری رحمت علی صاحب لکھتے ہیں :آج ہمارے اختیار کردہ اسلام میں نہ خلیفة المسلمین کا وجود ہے نہ اولی الامر کا جن میں خلیفة المسلمین کو مرکزی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ نہ شوریٰ کا کہ جس میں ارکان شوریٰ نے خلیفة المسلمین کو مشورہ دینا ہوتا ہے۔ لیکن خلیفة المسلمین خود موجود نہیں۔ ہمارے ہاں یا زیر آسماں آج امت مسلمہ کا بھی وجود نہیں جو مرکز یت کے تحلیل ہونے سے اقوام میں بٹ گئی۔یہ چاروں ادارے خلیفہ وخلافت کی موجودگی میں ہی وجود پذیر ہوتے ہیں۔

(نوائے وقت سنڈے میگزین 2دسمبر 2007ء)

  • جناب فضل محمد یوسف زئی استاذ جامعہ بنوری ٹاون کراچی لکھتے ہیں: ’’مسلمان ترس رہے ہیں کہ کاش ہماری ایک خلافت ہوتی، ہمارا ایک خلیفہ ہوتا، کاش ہماری ایک بادشاہت ہوتی، کاش ہمارا ایک بادشاہ ہوتا جس میں وزن ہوتا جس میں عظمت ہوتی جس میں شجاعت ہوتی‘‘۔

(ماہنامہ الحق اکوڑہ خٹک مارچ2000ء صفحہ58)

  • اہل قرآن کے لیڈر غلام احمد صاحب پرویز لکھتے ہیں کہ:۔ ’’ہمارے لئے کرنے کا کام یہ ہے کہ پھر سے خلافت علی منھاج رسالت کا سلسلہ قائم کیا جائے جو امت کو احکام و قوانین خداوندی کے مطابق چلائے۔‘‘

(ماہنامہ طلوع اسلام مارچ1977 صفحہ6)

  • اہل حدیث کا ترجمان رسالہ تنظیم اہلحدیث لکھتاہے کہ:۔ ’’اگر زندگی کے ان آخری لمحات میں ایک دفعہ بھی خلافت علی منھاج نبوت کا نظارہ نصیب ہوگیا تو ہو سکتاہے کہ ملت اسلامیہ کی بگڑی سنبھل جائے اور روٹھا ہوا خدا پھر سے مان جائے۔ اور بھنور میں گھری ہوئی ملت اسلامیہ کی یہ ناوٴ شاید کسی طرح اس کے نرغہ سے نکل کر ساحل عافیت سے ہمکنار ہوجائے۔ ورنہ قیامت میں خدا ہم سب سے پوچھے گا کہ دنیا میں تم نے ہر ایک اقتدار کے لئے زمین ہموار کی کیا اسلام کے غلبہ اور قرآن کریم کے اقتدار کے لئے بھی کچھ کیا؟‘‘

(ہفت روزہ تنظیم اہلحدیث لاہور 12ستمبر 1969)

  • ماہنامہ جدوجہد لاہور لکھتاہے کہ: ’’مراکش سے لے کر انڈونیشیا تک تیس ممالک کا ایک عظیم اسلامی بلاک صرف اتحاد واتفاق کی نعمت سے محروم ہونے کی وجہ سے مغربی اقوام سے پٹ رہاہے۔ اب وقت کا تقاضا ہے کہ مسلمان ممالک متحد ہوکر اس دشمن اسلام اقوام متحدہ کو چھوڑ کر خلافت اسلامیہ کا احیاءکریں۔ ایک فعال قوت کی حیثیت سے زندہ رہنے کا یہی ایک طریقہ ہے۔‘‘

(ماہنامہ جدوجہد لاہور اگست1974ء)

  • حزب التحریر نامی تنظیم کی طر ف سے مورخہ 13؍اپریل 2003ء کو ایک پمفلٹ اسلام آباد میں تقسیم کیا گیا۔ جس کا عنوان تھا حزب التحریرکی پکارصرف خلافت کے ذریعہ ہی تم فتح حاصل کروگے۔اس میں لکھا گیا کہ:اے مسلمانو!کیا وقت ابھی نہیں آیا کہ تم اپنے معاملات پر غور کرو۔ اس بات کو جان لو کہ اس تہہ در تہہ ظلمت سے نکالنے والا صرف نظام خلافت ہی ہے۔ کیا تم اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی تصدیق نہیں کرتے جب وہ تمہارے لئے بیان کرتاہے کہ تم کو کس طرح نصرت و عزت ملے گی۔ بلا شبہ تمام کی تما م عزت اللہ کے لئے ہی ہے۔اور ارشاد باری تعالیٰ ہے اگر تم اللہ کی مدد کرو خلافت راشدہ کے قیام کے ذریعہ شریعت کو نافذ کرو تب ہی تمہیں فتح اور عزت ملے گی۔ اے مسلمانو! خلافت کو قائم کرو تم عزت پاوٴ گے۔ اس کو زندہ کرو گے تو کامیاب رہو گے۔ ورنہ تم تہہ در تہہ ظلمت میں گرتے چلے جاوٴ گے اور اس وقت پشیمان ہوگے جب بہت دیر ہوچکی ہوگی۔ تب اللہ ایسی قوم لے آئے گا جو تم سے بہتر ہو گی جو کہ اللہ کے وعدے کوپوراکرے گی۔

(پمفلٹ حزب التحریرکی پکار13؍اپریل 2003ء)

  • مشہور مصری عالم الشیخ الطنطاوی الجوہری خلافت کی اہمیت وضرورت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:جسے بھی حقیقی سکون اور راحت سے زندگی بسر کرنے کی تلاش ہے۔ جسے بھی اپنی روحانی اور مادی ترقی کی فکر ہے۔ اسے خلافت کاجھنڈا تلاش کر کے اس کے نیچے جمع ہونا ہو گا۔ اس کے مرکز سے زندہ تعلق قائم کرے۔ اس کی طرف سے جاری ہونے والی تمام ہدایات کی روشنی میں لائحہ عمل اور ضابطۂ حیات مرتب کرنا ہو گا۔ اس کی کامیابی یقینی ہے۔

(القرآن والعلوم العصریة صفحہ21)

  • ڈاکٹر ضیاءالدین صاحب جو کہ القاہرہ یونیورسٹی میں اسلامی تاریخ کے لیکچر ار رہے ہیں اپنی کتاب الاسلام والخلافة فی العصر الحاضر میں لکھتے ہیں: ’’صرف اور صرف خلافت سے ہی امت مسلمہ کو یکجا کیا جا سکتا ہے۔ اسی سے ہی نا امیدی کے مارے ہوئے نفوس کے لئے امید کی کوئی کرن ہے اور اسی کے ذریعہ ہی عزت اور وقار کی منزل کی طرف چلا جا سکتا ہے۔ کیونکہ عالم اسلامی میں ایسی کو ئی طاقت یا حکومت یا لیڈر شپ نہیں ہے جس سے مذکورہ بالا اہداف کی تکمیل ہو سکے، خصوصاً ایسی حالت میں جبکہ ہم باہمی لڑائی جھگڑے، آپس کی پھوٹ، انحطاط اور ذلت کا شکار ہیں۔

(الاسلام والخلافة فی العصر الحاضر صفحہ286 القاہرہ1983ء)

تمنائے خلافت کی اٹھنے والی صداؤں میں سے صرف چند ایک درج کی گئی ہیں جبکہ حقیقت تو یہ ہے کہ تمنا ئے قیام خلافت کی یہ صدائیں اس قدر کثرت سے دنیا کے متفرق مقامات سے بلند ہوئی ہوئی ہیں۔ اور اتنی شدت سے قیام خلافت کی کوششیں کی جارہی ہیں کہ اس کے شما رکے لئے ایک یا چند مضامین نہیں بلکہ ایک ضخیم کتاب تیار ہو سکتی ہے۔ لیکن شاید اس قدر کثرت سے اور مسلسل کوششوں کے باوجود بھی ان بے نوروں کو معلوم نہیں ہو سکا اور نہ وہ اپنی مسلسل ناکامیوں کو دیکھ کر یہ سبق سیکھ سکے کہ اس کے لئے کسی دنیاوی تحریک اور کوشش کی ضرورت نہیں بلکہ قیام خلافت کی یہ تمناء عمل صالح کے ساتھ ساتھ نور نبوت پر ایمان لانے کے بعد پوری ہوسکتی ہے۔قیام خلافت کی یہ تمناء خلافت علیٰ منہاج النبوت کی بدولت ممکن ہو سکتی ہے۔

ایک عظیم الشان چیلنج

  • حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مورخہ 20دسمبر 2020 بروز اتوار کو تما م امت مسلمہ کو چیلنج دیتے ہوئے فرمایا: تم انہیں کھل کے چیلنج کیوں نہیں دیتے؟ ان کو اچھی طرح کھول کر بتاؤ کہ اب خلافت احمدیہ صرف اور صرف خاتم الخلفاء، مسیح و مہدی موعود علیہ السلام کی خلافت ہی کی شکل میں ممکن ہے۔ بے شک یہ بھی کہہ دینا کہ ہماری طرف سے چیلنج ہے کہ اگر مسلم دنیا کے تمام ممالک کے سربراہان، اور امت مسلمہ کے تمام مسالک کے تمام افراد متفقہ طور پر کسی ایک شخص کو بطور خلیفہ تسلیم کر لیں اور اس کی بیعت میں شامل ہو جائیں،تو جماعت احمدیہ بھی اس خلیفہ کو تسلیم کرنے اور امت کے باقی مسالک کے ساتھ اس کی بیعت کرنے پر غور کرے گی۔ یہ بھی ان کو اچھی طرح بتا دینا کہ تم ایسا نہیں کر سکو گے۔ایسا تم کر ہی نہیں سکتے۔

(الفضل انٹرنیشنل یکم جنوری 2021ء صفحہ3)

  • حضرت خلیفة المسیح الرابع ؒ عالم اسلام کو چیلنج دیتے ہوئے فرماتے ہیں: سارا عالَمِ اسلام مل کر بھی زور لگا لے اور خلیفہ بنا کر دکھا دے وہ نہیں بنا سکتا کیونکہ خلافت کا تعلق خدا کی پسند سے ہے اور خدا کی پسند اس شخص پر انگلی رکھتی ہے جسے وہ صاحب تقوی سمجھتا ہے۔

(خطبہ جمعہ فرمودہ13؍اپریل 1993)

  • صد سالہ خلافت جوبلی کے موقع پر 27مئی 2008 کو Excel سینٹر لندن میں منعقد ہونے والے تاریخی جلسہ میں حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ولولہ انگیز خطاب میں فرمایا:۔ اے دشمنان احمدیت! میں تمہیں دو ٹوک الفاظ میں کہتا ہوں کہ اگر تم خلافت کے قیام میں نیک نیت ہو تو آؤ اور مسیح محمدی کی غلامی قبول کرتے ہوئے اس کی خلافت کے جاری و دائمی نظام کا حصہ بن جاؤورنہ تم کوششیں کرتے کرتے مر جاؤ گے اور خلافت قائم نہیں کر سکو گے۔ تمہاری نسلیں بھی اگر اسی ڈگر پر چلتی رہیں تو وہ بھی کسی خلافت کو قائم نہیں کر سکیں گی۔ قیامت تک تمہاری نسل در نسل یہ کوشش جاری رکھے تب بھی کامیاب نہیں ہو سکے گی۔ خدا کا خوف کرو اور خدا سے ٹکر نہ لو اور اپنی اور اپنی نسلوں کی بقا کے سامان کرنے کی کوشش کرو۔

(خطابات مسرور خطاب صد سالہ خلافت جوبلی 27مئی 2008 Excel سینٹر لندن صفحہ56)

خلفاءاحمدیت کی طرف سے دیا گیا یہ چیلنج آئندہ آنے والے ہر زمانے کےلئے خلافت احمدیہ کی صداقت کا ایک زندہ ثبوت بن کر موجود رہے گا۔بالکل اسی طرح جس طرح خلافت احمدیہ تاقیامت قائم رہے گی اور اِس کے مخالفین کوئی خلافت قائم نہ کر سکیں گے۔ کیونکہ وہ ایسا کر ہی نہیں سکتے۔ کر ہی نہیں سکتے۔ کر ہی نہیں سکتے۔

(ایم اے شہزاد)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 24 مئی 2022

اگلا پڑھیں

ایک سبق آموز بات