• 11 جولائی, 2025

خلافت احمدیہ غیروں کی نظر میں

اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ جرمنی اُن خوش قسمت ممالک میں شامل ہے جس کے کونے کونے نے خلافت کے بابرکت قدموں کو باربار چومنے کی سعادت پائی ہے اور جرمنی جماعت کی یہ بھی خوش قسمتی رہی ہے کہ خلافت خامسہ کے بابرکت دور میں اس ملک کے طول وعرض میں کثرت سے احمدیت یعنی حقیقی اسلام کا پیغام پہنچاہے۔ بالخصوص ہر سال نئی مساجد کے سنگ بنیاد اور افتتاحی تقریبات میں حضور انورکی بنفس نفیس شرکت اور ان پروگراموں میں مختلف مکتبۂ فکر سے تعلق رکھنے والے سینکڑوں بلکہ ہزاروں جرمن افرادکا براہ راست خلافت احمدیہ سے فیض پانا ہمارے لئے قابل صدافتخار ہے۔خلافت خامسہ کے دور میں اب تک جرمنی کی 45مساجد کا افتتاح ہوچکا ہے۔ اسی طرح جلسہ ہائے سالانہ کے مواقع پر آنے والے ہزاروں زیر تبلیغ افراد کے ساتھ حضورِانور کے خطابات اور دنیا کے کونے کونے سے آنے والے وفود، سیاست دان و دانشور اور مختلف مکتبۂ فکر سے تعلق رکھنے والے حضرات کا حضور انور کی شخصیت اور وجود کے بارے اپنے تاثرات کا اظہاراس بات کا منہ بولتا ثبوت ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی فعلی شہادت اپنے اس مقرر کردہ خلیفہ کے ساتھ ہے۔ ان تاثرات کے حصول کے لئے خاکسار نے برادرم حافظ فرید احمد خالد صاحب نیشنل سیکریٹری تبلیغ سے درخواست کی جو انہوں نے کمال شفقت سے منظور فرمائی آپ تحریر کرتے ہیں کہ:۔
’’اللہ تعالیٰ کے فضل سے خاکسار کو شعبہ تبلیغ کی ذمہ داری کے علاوہ گزشتہ کئی سالوں سے جلسہ سالانہ جرمنی پربیرون ممالک سےتشریف لانے والے وفود کی حضور انور سے ملاقاتوں اورمساجد کے افتتاح و سنگ بنیاد کی تقاریب کا انتظام کرنے کی توفیق مل رہی ہے۔ ان تقریبات میں بے شمار ایسے تاثرات و واقعات کا مشاہدہ کیا گیاہے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ غیر مسلم لوگوں کے دلوں میں آپ کی محبت اور چاہت ڈال دیتا ہے اور اُن لوگوں کے دلوں کو بدل دیتا ہے جو آپ کو دیکھنے سے پہلے مختلف قسم کے خدشات، بے چینیاں اور وہم اپنے دلوں میں لئے ہوتے ہیں۔ لیکن حضور انور کے دیدار اور ملاقات کے بعد خدا تعالیٰ ان کی حالت یکسر بدل دیتا ہے۔

کیا یہ کسی انسان کے ہاتھ میں ہے کہ نفرت وخوف کے جذبات کو یکلخت پیار و محبت اور فدائیت میں بدل دے۔ پس یہ خدا کا فضل ہی ہے اور خدا کا ہاتھ ہی ہے جو خلیفۃ المسیح کے سر پر ہے۔ جماعت احمدیہ اور حضرت خلیفۃالمسیح کے متعلق عوام الناس کے بے شمار تاثرات ہیں اُن میں سے چند پیش خدمت ہیں۔

مورخہ 14اکتوبر 2019 ویزبادن کی مسجد بیت المبارک کی افتتاحی تقریب کے بعد جرمن مہمانوں کے تاثرات:۔

*مکرم ڈاکٹر وجاہت احمد وڑائچ صاحب بیان کرتے ہیں کہ مکرم ڈاکٹر ہارٹ مَن صاحب Dr. Hartmann کہتے ہیں کہ لوگ جتنے بھی کھلے ذہن کا دعوی کریں مگر پھر بھی ان کے ذہنوں میں تحفظات موجود ہوتے ہیں اور امام جماعت احمدیہ کی گفتگو تو تحفظات دور کرنے والی تھی ہی مگر ان کی شخصیت کا اثر کچھ ایسا عاجز اور ہمدرد انسان کا تھا کہ مجھے لگ رہا تھا کہ ان سے کوئی بھی سوال پوچھا جا سکتا ہے اور ایسے شخص سے بات کرنے کے بعد دل میں کوئی تحفظات اور فاصلے نہیں رہتے۔

*مکرم کامران وڑائچ صاحب بیان کرتے ہیں کہ ویز باڈن ہسپتال کی ڈاکٹر فیراری Dr. Ferrari کہتی ہیں کہ میں آج کی تقریب میں شمولیت اپنے لئے اعزاز سمجھتی ہوں اور امام جماعت احمدیہ کی تقریر سے مجھے جو تعلیم اور پیغام ملا ہے اس کو میں اپنے لئے ہی نہیں بلکہ اپنی اولاد کے لئے بھی ضروری خیال کرتی ہوں۔ مذہب و ملت سے بالا تر ہو کر انسانی دکھوں میں ہمدردی کرنا اور مٹتی ہوئی انسانی قدروں کا قیام ہی اس وقت بین الاقوامی محبت اور یگانگت کے لئے لازمی امر ہیں اور اس تقریر نے ہر پہلو سے اس ضرورت کو اجاگر کیا ہے۔ میرا اپنا عیسائی فرقہ آپ کی جماعت کا مقابلہ نہیں کرسکتامیرے اندر آپ کے خلیفہ کے لئے بہت احترام ہے میں یہ تعلیم جذب کرنا چاہتی ہوں۔

*مکرم شہزاد میرؔ صاحب بیان کرتے ہیں مائینزشہرسےچرچ کےنمائندےاینگن برگر Angenberger صاحب کا کہنا تھا کہ امام جماعت احمدیہ نے ہمسائے کے حقوق کے حوالے سے جو اسلامی تعلیم تفصیل کے ساتھ پیش کی ہے یہ میرے لئے بالکل نئی اوردلچسپ تھی میں نے کبھی کسی مذہبی لیڈرسےہمسائیوں کے حقوق کے بارہ اتنی گہری باتیں نہیں سنی۔

*ایک خاتون Miss Mari کا کہنا تھا کہ امام جماعت احمدیہ شہریوں کے حقوق اور ہمدردی کے بارے میں دلی جذبات سے بھر پور بات کرتے ہیں اور ان کی تقریر سے ان کی ذات میں ہمدردی اور محبت کا اندازہ ہوتا ہے جو ان کو ہر انسان سے ہے، چاہے اس کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو۔ مجھے ان کی بلا امتیاز مذہب و ملت ہمدردی اور بنی نو انسان سے محبت کی تعلیم بہت پسند آئی ہے۔

*مکرم بہزاد چوہدری صاحب مربی سلسلہ بیان کرتے ہیں کہ انٹی گریشن محکمے سے تعلق رکھنے والے Mr. Hans Peter کا کہنا تھا کہ میں خلیفہ صاحب سے ایک بار پہلے بھی مل چکا ہوں مجھے آپ سے ملاقات کرکے بہت خوشی محسوس ہوتی ہے۔ امام جماعت احمدیہ کی اس تقریر کی ہر طبقے میں اشاعت ہونی چاہئے کہ لوگ اسلام کی حقیقی تعلیم کو جان سکیں کہ صرف زبانی دعوے کچھ اہمیت نہیں رکھتے جب تک عملی رنگ میں انسانی قدروں کی پاسداری کر کے نہ دکھائی جائے۔ مجھے جماعت احمدیہ اور امام جماعت احمدیہ اپنے قول و فعل میں مطابقت کی وجہ سے بہت عزیز اور قابل احترام ہیں اور میں چاہتا ہوں کہ معاشرے کے دیگر طبقات بھی انسانی قدروں کے احترام میں اسی نقطہ نظر کو فروغ دیں۔

*ڈاکٹر اسامہ ابو حسن کہتے ہیں کہ آپ کے خلیفہ نے اصل اسلامی تعلیم اور حقیقی اسلام کا دل نشیں چہرہ دکھا کر اسلام کے بارے غلط فہمی دور کرنے کے علاوہ عامتہ الناس کے دلوں سے اسلام کا خوف اور ڈر دور کردیا ہے۔

*محترمہ ہائیک براڈر Heik Brader کہتی ہیں کہ امام جماعت احمدیہ نے خدا کو ساری دنیا کا رب بتایا۔ رب العالمین جیسا تعارف رکھنے والے وسیع تر تصورِ خدا میں مجھے دلچسپی پیداہوئی ہے اور میرے لئے حیرت انگیز بات یہ ہےکہ واحد ویگانہ ہونے کے باوجود وہ سب مذاہب اور سارے انسانوں اور قوموں کو بلا امتیاز پالتا ہے۔

*مکرم حبیب الرحمن ناصر صاحب مربی سلسلہ بیان کرتے ہیں کہ جرمنی کے ایک معروف وکیل Joachim Macholdt کہتے ہیں جماعت احمدیہ کی سوچ کی وسعت پر میں اور میرا دفتر یکساں حیرت رکھتے ہیں اور آج امام جماعت احمدیہ نے ہمسائے کے حقوق بیان کرتے ہوئے ہمسائیوں کے حقوق کی جو وسعت بیان کی ہےاُس میں شہر کا شہر سما گیا ہے۔

*محترم ڈینیس میرس صاحب Dennis Merz بیان کرتے ہیں کہ میں نے تمام مقررین کو سنا مگر جب امام جماعت احمدیہ مائیکرو فون کے سامنے کھڑے ہوئے تومجھ پر ایک اور قسم کی کیفیت طاری ہوگئی۔ آپ کی آواز، آپ کا لہجہ سب سے منفرد تھا جس کا میں خودپر ایک روحانی اثر محسوس کررہا تھا اور بڑے غور سے آپ کا خطاب سنا۔ جو پیغام آپ نے ہمیں دیا وہ صرف اسلام کے بارہ میں نہیں تھا بلکہ ساری دنیا کے لئے ایک بہت اہم تعلیم تھی۔

*ایک خاتون محترمہ نین صاحبہ Nan نے کہا کہ آپ کے خلیفہ نے خدمت خلق کے حوالہ سےجتنی وضاحت اور زوردیکر بات کی ہے وہ میرے لئے حیران کن ہے کیونکہ ایسا ممکن نہیں اگر کہنے والا خود ہمدردیٔ خلق کے گہرے جذبات نہ رکھتا ہو۔

*محترمہ باؤورصاحبہ Bauer بیان کرتی ہیں کہ امام جماعت احمدیہ کا ہال میں ورودہی اپنے ساتھ متاثر کن روحانی فضا لیکر آیا۔ میرے لئے یہ ایک بہت بڑے اعزاز کا باعث ہے کہ میں ایک ایسی بابرکت محفل میں شامل ہوسکی۔بعض تحفظات و غلط فہمیاں جو میرے ذہن میں تھیں وہ امام جماعت احمدیہ نے اپنے واضح مؤقف اور اسلامی تعلیم کی حقیقی تشریح و تفصیل سے دور فرمادیں۔اب میرے لئے بہت کچھ واضح ہو چکاہے اورجو طمانیت آپ کے وجود سے ظاہر ہورہی تھی اُس کو بیان کرنے کے لئے میرے پاس الفاظ نہیں کیونکہ اُس کا تعلق محسوسات سے ہے۔

*محترم Strohe صاحب جوکہ جماعت احمدیہ کے بہت گہرے دوست ہیں اور کچھ عرصہ فوج میں بطور پادری خدمت کرتے رہے۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ پہلی بات جس کا میں ذکر کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ حضور اقدس کا وجود عاجزی سے بھرا ہوا معلوم ہوتا ہے۔ میں اس بات سے حیران ہوں کہ آپ کا طرز خطابت اور موضوع بالکل واضح تھا یعنی مجھے یہ لگا کہ یہ تقریر بہت اچھی تحقیق پر مبنی ہےاور ہمارے معاشرے کا بہترین تجزیہ ہے جو بڑے اعلیٰ رنگ میں بیان ہوا ہے۔ خاص طور پر دو باتیں اس خطاب میں واضح کی گئیں۔پہلی بات یہ کہ اللہ تعالیٰ کے حقوق ادا کرنا۔ دوسری بات انسانوں کے حقوق ادا کرنا۔ ہماری دنیا کے لئے فی الحال یہی سب سے بڑا کام ہے۔

*مکرم فراز صاحب بیان کرتے ہیں کہ ہائیکے برادر Heike Brader صاحبہ نے کہا کہ مجھے امام جماعت احمدیہ کے خطاب سے خدا تعالیٰ کی لامتناہی، وسیع اور واحد ذات سے تعارف حاصل ہوا اور اس تقریر سے مجھے خدا تعالیٰ میں دلچسپی پیدا ہوئی ہے

20اکتوبر 2019 جرمنی کے شہر فلڈا میں مسجد بیت الحمید کی افتتاحی تقریب میں شامل ہونے والے جرمن احباب کے حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کے بارے تاثرات:۔

*مِس کیراہ ہانیمن kirah Hanemann جن کا تعلق محکمہ پولیس سے ہے انہوں نے کہا کہ میں اسلامی تعلیمات پر ریسرچ کر رہی ہوں اور اتفاق ہے کہ اس مقصد کے لئے جو قرآن میں نے خریدا وہ جماعت احمدیہ کا شائع کردہ ہی تھاجو میرے زیر مطالعہ ہے قرآنی تعلیم کے علاوہ جب آپ کے خلیفہ ہال میں داخل ہوئے تو مجھ پر ایک ناقابل بیان روحانی کیفیت طاری ہوئی جو میں سمجھتی ہوں کے قرآنی تعلیم کے حسن کی تاثیر کا اظہار تھا جو امام جماعت احمدیہ کو دیکھنے سے ہوا۔ کسی کی شخصیت کا ایسا اثرمیرے لئے زندگی میں پہلا تجربہ تھا۔ اب میری خواہش ہے کہ میں جماعت سے مضبوط تعلق استوار کروں اور اگلے رمضان کا سارا مہینہ آپ لوگوں کے ساتھ گزاروں تاکہ میرے روحانی تجربے کو مزید تقویت ملے۔

*مس ایرگ Ihrig کہتی ہیں کہ علاوہ اس تقدس اور احترام کے اثر کے جو امام جماعت احمدیہ کی شخصیت کے لئے میرے دل میں موجود رہا میں ان کی تقریر کے اس جملے کے اثر میں ہوں کہ ’’اس زمانے میں بین الاقوامی امن کے قیام کے لئے پہلا قدم یہ ہے کہ ہمیں اپنے دلوں کوکھولنا پڑے گا اور دوسروں کے خیالات اور اعتقادات کے لئے اپنے دل میں وسعت پیدا کرنی پڑے گی‘‘۔

*ایک سٹوڈنٹ لیوکس جیرک Lucas Goerke کہتے ہیں کہ بین المذاہب ہم آہنگی اور امن عالم پر آپکے خلیفہ کی تمام باتوں سے اتفاق کرنے کے نتیجے میں معاشرہ دیرپا امن کا گہوارہ بن سکتا ہے اور مجھے امام جماعت احمدیہ کی طبیعت میں انکسار اور سادگی بہت پسند آئی۔

*مکرمہ من پریت سنگھ کہتی ہیں کہ امام جماعت احمدیہ کے ہال میں آنے پر جس طرح کی خاموشی اور احترام کی فضاء پیدا ہوئی وہ تو بادشاہوں جیسی تھی مگر جو تاثیر ان کے الفاظ میں تھی اور جس طرح ان کی باتوں نے سیدھا دل پر جا کر اثر کیا ہے یہ بات دنیاوی طور پر عظیم شخصیات کے حصے میں نہیں آتی۔ آپ کا وجود ایک روحانی اثر ڈالنے والا وجود تھا اور امن پہ بات کرنے کے علاوہ امن اورسکون آپ کی ذات اور چہرے سے بھی عیاں تھا۔ خاص طور پر آپ نے بدامنی کے حالات کے تناظر میں جانوروں کی مثال دے کر انسانیت پرستوں کے ضمیر کو جھنجوڑا ہے اور یہ مثال ترقی یافتہ معاشروں کے لئے بر محل اشارہ تھی۔ مجھے امام جماعت احمدیہ کا خطاب اپنی جامعیت کے لحاظ سے بہت پسند آیا۔

*ہمسائے شہر کےمئیر مکرم ورنر ڈیٹرش صاحب Werner Dietrich نے کہا کہ مجھے امام جماعت احمدیہ کی تقریر کے الفاظ کے انتخاب نے بہت حیران کیا۔ آپ نے ٹھہراؤ اور پر سکون لب و لہجے میں سارا خطاب کیا۔ دو طرفہ تحفظات اور تعلقات کا موازنہ بھی پیش کیا اور معاشرے کے طبقات میں موجود باہمی کشمکش کے اسباب بھی کھول کر بتائے اور ان عوامل کی نشاندہی بھی کھلے لفظوں میں کر دی جو معاشرے کا امن برباد کرتے ہیں مگر اس کے باوجود کسی طبقے یا فرقے یا گروہ کی عزت نفس پر کوئی سخت بات نہیں کی بلکہ اجتماعی انسانی ضمیر اور بین الاقوامی انسانی قدروں کے حوالے سے Food for Thought کے رنگ میں بات کرتے گئے اور اختتام اپنوں اور غیروں کے لئے دعائے خیر کے کلمات سے کیا۔

*مس سائیبلے Sybille کہتی ہیں کہ امام جماعت احمدیہ نے بنی نوع انسان کو نصیحت اور تنبیہہ کرنے کے لئے بھی الفاظ کا انتخاب بہت احتیاط سےکیا اور لہجے کو بھی ملائم رکھا۔ ان کی شخصیت کی طرح ان کے الفاظ اور لب و لہجہ پر سکون اور ملاطفت سے بھرا ہوا تھا۔ ان کی تقریر سے قبل مجھے ان کی ذات سے جس تقدس اور نور کا احساس ہو رہا تھا ان کی گفتگو نے اس تاثر کی تائید اور تصدیق کی ہے۔ آپ لوگوں نے بہت اعلی اور عمدہ طریق پر اس دعوت کا انتظام کیا جس کی انتہاء امام جماعت احمدیہ کااس میں بنفس نفیس شرکت کرنا تھا۔ میں مسلسل یہ سوچتی رہی کہ کیا صرف ساڑھے چار سو لوگوں سے ملنے کے لئے اور وہ بھی معاشرے کے عام طبقات سے تعلق رکھنے والے لوگوں سے ملاقات کے لئے پوپ کو بلایا جاتا تو وہ اتنا لمبا سفر کر کے ملنے آتے؟ میرے دل و دماغ پر اس نوعیت کے موازنے نے امام جماعت احمدیہ کی شخصیت کا تاثر مزید گہرا کر دیا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ اگر مذہبی لیڈرشپ ہو تو ایسی ہی ہونی چاہئے جس کی عام آدمی کے مسائل تک ذاتی رسائی ہو۔

*مکرمہ اَوش کِنِس صاحبہ Oschkinis کہتی ہیں کہ امام جماعت احمدیہ گفتگو کرتے ہیں تو بات کو گھما پھرا کر نہیں کرتے بلکہ سیدھی، صاف اور سچی بات کرتے ہیں اور اس میں اثر پیدا کرنے کے لئے لہجے کو سخت نہیں ہونے دیتے۔ ان کی پر سکون باتیں قابل یقین لگتی ہیں کیونکہ ان میں انسانیت کے لئے سچی اور بے لوث ہمدردی پائی جاتی ہے اور آپ کے کارکنان بھی بے لوث طوعی طور پر اتنے بڑے پروگرام کرتے ہیں۔ مجھے لگتاہے کہ معاشرے میں دیرپا امن اور انسانی قدروں کے قیام کےلئے ایسی انتھک جماعت اور ایسے قابل اعتماد اور بے لوث ہمدردی کرنے والے لیڈر کی ضرورت ہے۔

*مکرم شہزاد میر صاحب بیان کرتے ہیں کہ مکرمہ کرسٹن بوشولز Christine Buchholz ممبر پارلیمنٹ کہتی ہیں کہ امام جماعت احمدیہ نے حالات حاضرہ کی نبض کو بالکل صحیح طور پر محسوس کیا ہے اور ضروری امور کی طرف بہت اچھے انداز میں توجہ دلائی ہے۔ میرے خیال میں اُن کی تشخیص درست ہے اس لئے ان کےتجویز کردہ علاج میں معاشرتی بد امنی کا دیرپا علاج موجود ہے۔

*محترم فولکر قیصر صاحب بیان کرتے ہیں کہ ایک استاد بین ایلم صاحب نے کہا کہ میں حضور کے خطاب سے بہت ہی متأثر ہوا ہوں کیونکہ انہوں نے پہلے سے تیار شدہ تقریر نہیں پڑھی بلکہ دوسرے مقررین کی تقاریر سے پوائنٹ لیکر اُن کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے امن کا جو پیغام اور مذاہب کی ذمہ داریوں کوبیان کیا ہے دراصل یہی باتیں معاشرے میں امن کو قائم کر سکتی ہیں۔

مورخہ 22اکتوبر 2019 کو جرمنی کے دارالحکومت برلین میں حکومتی شخصیات و ممبران پارلیمنٹ سے حضورِانور نے خطاب فرمایا اس میں شامل جرمن احباب کے تاثرات پیش خدمت ہیں۔

*مکرمہ بٹینا مُلّر Bettina Müller ممبر پارلیمنٹ نے کہا کہ امام جماعت احمدیہ کے خطاب سے مجھے محسوس ہوا کہ آپ کا وجود مجسم امن کا گہوارہ ہے جس سے امن، سلامتی اور سچائی کی تاثیر جھلک رہی تھی جس نے پروگرام کے دوران سارے ماحول کو اپنی آغوش میں لے رکھا تھا۔

*محترم Alexander Radwan، ممبر پارلیمنٹ کہتے ہیں کہ امام جماعت احمدیہ نے جس امن اور سلامتی کا پیغام دیا اس کا ماخذ قرآن تھا اور انہوں نے اپنے موقف کی تائید قرآن اور بانیٔ اسلام کے فرمودات سے کی۔ اگرچہ یہ موضوع جدید اور عصری تقاضوں سے ہم آہنگ تھا لیکن خلیفہ نے اپنے موقف کو قدیم اسلامی ماخذ کی مدد سےثابت کیا کہ اسلام اور قرآن نے مذہب کی بنیاد روز اول سے ہی انسانی ہمدردی اور امن و سلامتی کی تعلیم پر قائم کی ہے۔ میرے خیال میں اس خطاب کی وسیع پیمانے پر تشہیر ہونی چاہئے تا کہ مغرب میں اسلام کے بارے میں حقیقی تعلیم سے عام لوگوں کو بھی واقفیت ہو سکے۔

اس جگہ ذکر کرتا چلوں کہ پروگرام کے بعد بعض مہمانوں نے اس قسم کے خیالات کا اظہار براہ راست حضورِانور سے سے بھی کیا۔ ہال سے نکلتے وقت حضورانور نے مکرم امیر صاحب جماعت احمدیہ جرمنی کو ارشاد فرمایا کہ اس خطاب کا فوری ترجمہ کرواکے ان لوگوں کو مہیا کیا جائے۔ پیارے حضور کے اس ارشاد کی تعمیل فوری طور پر کی گئی اور تین دن میں اس خطاب کا ترجمہ کرکے شائع کروا کر ان احباب کو مہیا کرنے کی توفیق ملی۔ الحمدللہ۔

*مکرمہ زاکلین ناسٹک صاحبہ Zaklin Nastic ممبر پارلیمنٹ کہتی ہیں کہ امام جماعت احمدیہ نے اپنا موقف تمام زاویوں سے واضح کیا اور کسی ابہام کا شائبہ نہیں رہنے دیا۔ ایسا شفاف طرز خطابت سچائی اور فکری دیانت کے بغیر ممکن نہیں۔ اس لئے مجھے امام جماعت احمدیہ کے لفظ لفظ سے اتفاق ہے۔

*ایمنسٹی انٹرنیشنل کےترجمان محترم شاء Chaa کہتے ہیں کہ امام جماعت احمدیہ کی تقریر کے علاوہ ان کا شخصی تاثر بھی اتنا ہی گہرا ہے کہ مجھے اُن کی بات سن کردلی اطمینان محسوس ہوا اور اپنے سے پہلے خلیفہ کے حوالے سے جوانہوں نے تہذیب اور کلچر کی تعریف بیان فرمائی اور دونوں کا باہمی تعلق بتایا اس سے جدید دور کے اہل دانش انکار نہیں کر سکتے۔ مزید کہتے ہیں کہ خلیفہ کا وجود نہایت پر اثر ہے اور آپ پُر کشش محسوس ہوتے ہیں۔ آپ نے اپنے خطاب میں قرآنِ کریم کی اُن آیات کی تفسیر کی جس کو مخالفینِ اسلام غلط بیان کرتے ہیں۔

*مکرم فلس لوپوٹ Fillis Lupot ممبر پارلیمنٹ کہتے ہیں کہ امام جماعت احمدیہ ایک منکسر المزاج شخص ہیں اور معاشرے کے جس نچلے طبقےتک ان کی نظر ہے اور جس جامعیت سے وہ انسانی ہمدردی اور انسانی قدروں کے احترام کی بات کرتے ہیں اس سے میں یہی سمجھا ہوں کہ ان کا عوام سے گہرا ذاتی رابطہ ہے۔ اور عامتہ الناس سے جس طرح کی دوری مذہبی اور سیاسی لیڈروں میں پائی جاتی ہے، ان کی شخصیت اس سے بالا تر ہے۔

*ایک پروفیسر ہیربرٹ ہیرٹے Heribert Hirte کہتےہیں کہ امام جماعت احمدیہ ایک زیرک انسان ہیں اور انہوں نے اپنی جماعت کو تعلیمی میدان میں نمایاں کر کےجماعت احمدیہ کو دیگر تمام مذہبی جماعتوں سے ممتاز مقام پر کھڑا کر دیا ہے۔ جس جماعت کے افراد تعلیم پر اتنی توجہ دیں گے ان کی منزل ہی یہ ہے کہ وہ قیادت کریں نا کہ اندھی تقلید، اس لئے مذہبی حلقوں میں ایسا وژن رکھنے والے راہنما سے مل کر مجھے خوشی ہوئی۔

*مکرم ایکسل کنورگ صاحب Axel Knoerig ممبر پارلیمنٹ کہتے ہیں کے لیڈر شپ اس زمانے میں بحیثیت مجموعی عوام اور رعایا کے دکھوں سے دور ہے۔ صرف زبانی ان کے مسائل اور مشکلات کا ذکر کرتے ہیں مگر ذاتی درد اور احساس سے عاری ہیں۔ مجھے خوشی ہوئی کہ امام جماعت احمدیہ کی تقریر ان کے عوام سے رابطے کی عکاسی کرتی تھی اور ان کی ذات سے انسانوں سے ذاتی محبت اور ہمدردی کا تاثر ملتا ہے۔ میں اس خطاب کو جا کر دوبارہ پڑھوں گا اور جہاں تک میری رسائی ہو گی اس کو آگے بھی بیان کروں گا۔

*مکرمہ فلز پولاٹ Filiz Polat ممبر پارلیمنٹ کہتی ہیں کہ امام جماعت احمدیہ نے نظام تمدن کی جامع اور بھرپور تعریف پیش کی ہے۔ پروگرام کے بعد جب مجھے ان سے بات چیت کا موقع ملا تو میں نے ان سے ماحولیاتی تحفظ اور موسمی تحفظ کی بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک عالمی مسئلہ ہے اور جب تک تمام ممالک اجتماعی کوشش نہ کریں تو اس میں مثبت پیش رفت ممکن نہیں۔ ایسے گلوبل ماحولیاتی مسائل کا حل کسی ایک ملک کی کوششوں سے ممکن نہیں ہوتا۔ مجھے خوشی ہوئی کہ انسانی مسائل پر ان کی اجتماعی نظر بہت گہری ہے۔

*ایک مہمان خاتون ناہونڈی Nahawandi کہتی ہیں کہ امام جماعت احمدیہ کے اس خطاب کی یورپ میں وسیع پیمانے پر اشاعت ہو نے سے اسلام کے بارے میں پائے جانے والےتحفظات دور ہوں گے اور یکطرفہ پائے جانے والے منفی تاثر کا ازالہ ہو سکے گا۔

مورخہ 26اکتوبر 2019 کو مہدی آباد کی مسجد بیت البصیر کی افتتاحی تقریب میں شمولیت کرنے والے بعض جرمن احباب کے تاثرات پیش خدمت ہیں۔

*جناب ویٹک صاحب Witecke، جو پیشے کے لحاظ سے ایک وکیل ہیں، کہتے ہیں کہ امام جماعت احمدیہ کی موجودگی کا ماحول پر ایک حیرت انگیز اثر تھا اور ان کی روحانی تاثیر کی وجہ سے ان کی تقریر کا براہ راست دل پر اثر ہورہاتھا۔ انہوں نے اپنے خطاب میں عورت کے مقام کو بہت اچھے رنگ میں بیان کیا ہے اور اس سے اسلام میں عورت کا مقام اور معاشرے میں عورت کی تکریم ظاہر ہوتی ہے۔

*مکرم مئیر باور صاحب Bauer نے کہا کہ جماعت احمدیہ سے میرا جب سے تعارف ہوا ہے اسی دن سے جماعت کے اخلاق و اطوار نے مجھے بہت متاثر کیا ہے لیکن آپ کے خلیفہ سے ملنے کے بعد مجھے آپ کی جماعت کے اخلاق کا اصل ماخذ پتا چلا ہے کہ یہ لیڈر شپ ہے جو آپ کی اجتماعی تربیت کے پیچھے محرک ہے اور میں آپ لوگوں کو خوش قسمت سمجھتا ہوں کہ آپ کےپاس اس طرح کے باوقار اور بارعب لیڈر ہیں جن کو ہمہ وقت اپنی جماعت کی سماجی، اخلاقی اور روحانی تربیت کا خیال رہتا ہے۔ آپ کے خلیفہ سے ایک عجیب قسم کی روحانی کیفیت ظاہر ہوتی ہے جس کو محسوس توکیا جا سکتا ہے مگر لفظوں میں اس کا اظہار ممکن نہیں۔

*محترم مئیربرینڈ ڈوینگر صاحب Bernd Dwenger نے کہا کہ آپ کے خلیفہ کی تقریر بہت ہی متأثر کرنے والی اور غفلت سے بیدار کرنے والی تھی۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ انہوں نے اپنی تقریر میں اپنے سے پہلے مقررین کی باتوں کا ذکر کیا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ دو طرفہ ابلاغ کے قائل ہیں اور جو لوگ ان کی باتیں سننے آتے ہیں تو خلیفہ بھی آنے والوں کو غور سے سنتے اور ان کی باتوں کو اہمیت دیتے ہیں۔ اور اس بات سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ آپ مہمانوں کو کس طرح عملی رنگ میں عزت اور احترام دیتے ہیں۔ ایک اجتماعی معاشرتی مکالمے کے لئے یہ بہت اہم جزو ہے جس کا امام جماعت احمدیہ نے خاص طور پر اظہار فرمایا۔

*مکرمہ میلانی لاڈوگ صاحبہ Melanie Ladewig نے کہا کہ میں روحانی فرقوں کے بارہ میں تحقیق کر رہی ہوں اور میں نے روحانیت پر مشق کرنے کی تعلیم بھی حاصل کی ہے۔ اب میں ایک اسکول میں طلباء کو روحانی طبیب بنارہی ہوں۔ جب امام جماعت احمدیہ میرے سامنے سے گزرے تو میں نے ایک ویڈیو بنائی مگر جب آپ کی نظر مجھ پر پڑی تو میرے جسم سے ساری طاقت نکل گئی۔ ایک وقت کے لئے میں بالکل ساکت ہو گئی۔ جب خلیفہ نے دعا کروائی تو میری آنکھوں میں بے اختیار آنسو آگئے میں نے پوری کوشش سے خود کو سنبھالا۔ خلیفہ کی موجودگی کی وجہ سے سارے ماحول میں ایک خاص روحانی تاثیر اور کیفیت تھی۔

*مکرم جَوخِم ٹیگٹ مائیر صاحب Jochim Tegtmeyer نے بیان کیا کہ آپ کے خلیفہ نے اعلیٰ اخلا ق اپنانے پر بات کی اور ان کا طرز گفتگو ایسا مخلصانہ اور ہمدردانہ تھا کہ مجھے یوں لگا کہ قطع نظر اس کے کہ ہم کون ہیں اور کس مذہب سے تعلق رکھتے ہیں ان کی اخلاقی اور انسانی قدروں کے حوالے سے ہم سب ایک ہی ہیں۔ امام جماعت احمدیہ نے بڑی وضاحت سے اچھے اور برے کا فرق بیان کیا اور اس بات کی طرف توجہ دلائی کہ ہمیں ہمسائیوں کے حقوق کا خیال رکھنا چاہئے اور ایک فیملی کی طرح رہنا چاہئے۔ امام جماعت احمدیہ کا وجود ایسا نفیس معلوم ہورہا تھا کہ جس میں کسی قسم کے جبر اور سخت گیری کا شائبہ تک نہ تھا اور چلتی پھرتی محبت کی تصویر تھے۔ آپ کی سچائی کی دلیل آپ کے تربیت یافتہ افراد جماعت ہیں، جن سے ہمیں روزمرہ واسطہ پڑتا رہتا ہے۔

*محترم مئیر جان اِلزے صاحب Jan Ilse نے بیان کیا کہ آپ کے خلیفہ نے جن باتوں کا ذکر کیا ہے وہ ہمارے ماحول اور معاشرے میں عام ہونی چاہئیں۔ ہر مذہب کی بنیاد امن پر ہے اور آپ کے خلیفہ اپنی شخصیت سے بھی ایک پر امن شخصیت معلوم ہوتے ہیں اور ان سے عاجزی و انکساری ظاہر ہوتی ہے۔ خلیفہ ایک صادق انسان ہیں جنہوں نے مجھ پراپنی سچائی کا گہرا اثر چھوڑا ہے۔

*محترم فریڈرش گنٹر صاحب Friedrich Günther کہتے ہیں کہ خلیفہ ایک کھلے دل و دماغ کے نفیس طبع انسان ہیں جن کی ذات میں ایک روحانی تاثیر اور کشش ہے۔ ان کی باتوں کو ان کی شخصی تقدیس سے تقویت ملتی ہے۔ میں اپنے آپ پر ان کی تقریر اور شخصیت کا یکساں اثر محسوس کر رہا ہوں۔

*محترمہ میوگن برگ Muggenburg کہتی ہیں کہ خلیفہ ایک بہت ہی دلکش وجود ہے اور آپ لوگوں کا خلیفہ وقت سے پیار واضح محسوس ہورہا تھا۔ مجھے بہت اچھا لگا اور میں متاثر ہوئی کہ خلیفہ وقت نے باقی مقررین کی باتیں غور سے سنیں اور نوٹس لئے۔ آجکل ہر کوئی اپنی بات پیش کرتا ہے اور خود غرضی کا یہ عالم ہے کہ دوسروں کی بات توجہ سے سننے کا رواج ہی نہیں رہا مگر خلیفہ نے دو طرفہ احترام اور تکریم کا عملی اظہار کیا اس لئے ہمیں بین المذاہب مکالمے میں خلیفہ کو نمونہ سمجھنا چاہئے۔

*محترم اولیور صاحب Oliver کہتے ہیں کہ خلیفہ کا مقام عیسائیوں کے پوپ جیسا ہے۔ انہوں نے پوچھا کہ کیا حضور صرف اس مسجد کے افتتاح کے لئے آئے ہیں؟ جب انہیں بتایا گیا کہ حضور انور نے دوسری مساجد کا افتتاح بھی کیا ہے اور حضور انور ہر احمدی سےخط وکتابت کے ذریعہ ذاتی تعلق رکھنے کی کوشش کرتے ہیں تو وہ بہت حیران ہوئے اور پوچھنے لگے کہ حضور یہ سب کام کس طرح کرتے ہیں؟ جب انہوں نے یہ بات سنی کہ حضور انور نے Fulda میں ایک حدیث کا ذکر کیا جس میں آنحضور ﷺ نے ایک عیسائی وفد کو مسجد میں عبادت کرنے کی اجازت دی تو انہوں نے اپنی خواہش کا اظہار کیا کہ میں بھی آپ کی مسجد میں عبادت کے لئے آنا چاہتاہوں جس پر انہیں خوش آمدید کہا گیا۔

*میلانی والنڈورف صاحبہ Melanie Wellendorf نے کہا کہ اس پروگرام سے پہلے مجھے بہت ہی خوف تھا اور میرے ذہن میں مختلف تحفظات تھے۔ مگر جب آپ کے خلیفہ نے اپنا خطاب شروع کیا تو آہستہ آہستہ تمام تحفظات اور خوف دور ہو گئے۔ آپ کے خلیفہ کا وجود بہت متأثر کرنے والا ہے۔ آپ کے الفاظ میرے دل تک پہنچے ہیں اور مجھے ایک عجیب امن اور سکون کی کیفیت محسوس ہوئی جو مادی اور دنیاوی نہیں بلکہ روحانی ہے۔

*مکرم الرش لینز صاحب Ulrich Lenz نے کہا کہ میں جماعت کو 30 سال سے جانتا ہوں اور ابھی تک سب کچھ ہی اس جماعت کے بارے میں اچھا لگا ہے۔ امام جماعت احمدیہ کا وجود بہت شاندار اور متاثر کرنے والا ہے لیکن ان کا رعب اور شان ایک تسکین اور محبت اپنے ساتھ رکھتی ہے۔ان کی موجودگی بھی امن اور محبت کا اثر ڈالتی ہے اور ہر مذہب کا مقصد سب کے لئے امن ہی ہوتا ہے۔

*مکرمہ کینل صاحبہ Canel جو سابق ممبر پارلیمنٹ ہیں، کہتی ہیں کہ امام جماعت احمدیہ کا خطاب سیر حاصل تھا اور معاشرتی انضمام کی تعریف جو آپ نے فرمائی ہے وہ جامع، مبنی بر حقائق اور بالکل درست ہے۔

*مکرم فیلکس کوک صاحب Felix Kück نے کہا کہ امام جماعت احمدیہ بہت پڑھے لکھے شخص ہیں، ان سے مل کر محسوس ہوتا ہے کہ آپ بین الاقوامی نقطہ نظر اور عالمی معاملات پر گہری نظر رکھنے والے ایک باوقارانسان ہیں۔آپ مذاہب کے درمیان راستوں کو کھولنے، آپس کے اختلافات کو مٹانے، بین الاقوامی اور بین المذاہب مکالمے کے لئے مثبت اور حقیقی ماحول کے فروغ اور قیام میں مصروف نظر آتے ہیں۔

*مکرم وولف گنگ میرکمن Wolfgang Merkmann نے کہا کہ مجھے حضور کا وجود یوں محسوس ہوا کہ آپ کو دنیا کی کوئی بھی طاقت، اسلام کے امن کے پیغام کو پھیلانے سے نہیں روک سکتی۔ آپ قوی اور مضبوط شخصیت کے مالک ہیں اور آپ کے استدلال کی بنیاد انسانیت کے لئے سچی ہمدردی اور انسانی قدروں کے قیام کے لئے بے لوث کوششوں پر استوارہے۔ کون ہے جو ایسے طاقتور، مقدس اور مخلص انسان کی کوششوں کو روک سکے۔

*مکرم سفیرالرحمان ناصر صاحب مربی سلسلہ بیان کرتے ہیں کہ مکرم سیدان مراد صاحب یونان سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کی عمر 48 سال ہے۔ انہیں خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے19اپریل 2017 کو Marburg کی مسجدکےسنگ بنیاد کے بابرکت موقع پر حضور انور کا خطاب سننےکی توفیق ملی جس سے مراد صاحب بہت ہی متاثر ہوئے۔ اور پروگرام کے آخر میں انہیں پیارے حضور سے شرف مصافحہ اور دست بوسی کی سعادت بھی حاصل ہوئی۔ جس چیز نے ان کے دل کو جماعت احمدیہ کی طرف اور بھی زیادہ مائل کیا۔ یہ خود بتاتےہیں کہ جب حضور کو سٹیج پر بیٹھے دیکھا تو میرے دل میں مصافحہ کرنے کی خواہش پیدا ہوئی پھر خود کلامی کرتے ہوا کہنے لگا کہ اتنے سارے لوگ ہیں مصافحہ کرنا تو ممکن نہیں۔ بتاتے ہیں کہ میں لوگوں کے درمیان میں کھڑا تھا ایک دم میں کیا دیکھتاہوں کہ میرے سامنے کوئی ہجوم نہ رہا اور سامنے پیارے حضور دکھائی دیئے۔ سو مجھے قدم آگے بڑھا کر پیارے حضور سے شرف مصافحہ اور بوسہ لینے کی توفیق ملی۔ مراد صاحب بتاتے ہیں کہ میں نے دل میں سوچا کہ میں کتنا ہی خوش قسمت ہوں کہ وہ وجود جس کو دنیا دیکھنے کےلئے ترستی ہے اللہ تعالیٰ نے مجھے اُن چنیدہ لوگوں میں شامل کرکے اس بابرکت وجود سے مصافحہ کروادیا۔ ان کے دل پر اس بات نے اتنا گہرا اثر کیا کہ وہ خدا تعالیٰ کی حمد و شکر کرتے ہوئے روتے رہے۔ اور اتنے جذباتی ہوگئے کہ کچھ لمحوں کے لئے ان کے منہ سے کوئی لفظ ادا نہ ہوسکا۔ مراد صاحب بتاتے ہیں کہ اس مبارک دن نے میری زندگی بدل دی۔ میں نے اپنی زندگی میں بہت سی مشکلات اور تکالیف کا سامنا کیا ہے مگر اب ایسا لگتا ہے کہ جسم اور روح بھی اطمینان پاگئے ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے ایک اور بہت ہی حیرت انگیز بات بیان کی اور ساتھ یہ بھی کہا کہ اس بات سے ان کے دل کو مزید سکون اور یقین ہوا کہ یہ جماعت اور ان کے سر براہ سچے ہیں۔ وہ بات کچھ اس طرح سے ہے کہتے ہیں جب میں اس روز اس بابرکت تقریب کے بعد واپس گھر گیا تو میں نے اپنی ہونے والی بیوی سے جس کا تعلق یونان سے ہے اور یونان میں رہتی ہے سکائیپ پر ویڈیو کال کے ذریعہ بات کی اور اس کو اپنا مکمل قصہ تقریب اور خلیفہ وقت سے مشرف ملاقات کے حوالے سے سنایا۔ وہ بتاتے ہیں کہ میری ہونے والی بیوی غیر احمدی ہیں اور جماعت سے کسی قسم کا بھی تعلق نہیں مگر جب میں نے اس کو یہ بات بتائی تو اس پر بھی اس بات نے اتنا گہرا اثرہوا کہ وہ رو پڑی اور مجھے کہنے لگی کہ تم تو بہت خوش قسمت ہو کہ تمہیں اللہ تعالیٰ ایسی بابرکت تقریب میں لیکر گیا اور اتنے سارے لوگوں میں سے ایسے وجود سے ملنے کا شرف حاصل کر آئے۔ وہ بتاتے ہیں کہ میری منگیتر کے اس رد عمل اور اس کی آنکھوں میں آنسو آجانے اور اس کے تبصرے نے حالانکہ اس نے خلیفہ وقت کو اپنی زندگی میں کبھی دیکھا بھی نہیں میرے ایمان کو مزید پختہ کردیا اور میں نے بیعت کرنے کا حتمی فیصلہ کرلیا۔ الحمداللہ۔ کہتے ہیں نہ صرف یہ بلکہ مجھے دوسری طرف سے اس بات کی بھی تسلی ہوگی کہ جس خاتون کو میں اپنی بیوی بنانے جارہا ہوں حالانکہ میں اس سے آج تک کبھی نہیں ملا وہ بھی صالح خاتون ہے کیونکہ ان باتوں نے اس کے دل پر بھی اتنا ہی گہرا اثر چھوڑا ہے۔ ایک لمبی گفتگو کے بعد مراد صاحب نے خاکسار سے اس بات کا ذکر کیا کہ میں بھی ان خوش نصیبوں میں شامل ہونا چاہتا ہوں جو اسلام کی ان پیاری تعلیمات اور حضرت مسیح موعود کے ذریعہ سے بتائے ہوئے علوم کو دیوانہ وار پھیلا تے ہیں میں بھی اس طرح یہ فریضہ سر انجام دینا چاہتا ہوں اور دنیا کے ہر شخص تک ان تعلیمات کو پھیلانا چاہتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ مجھے اس کی توفیق دے۔ آمین۔ اس کےبعد بمقام بیت السبوح دعا کرکے بیعت لی گئی۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمارے پیارے امام سیّدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کو اپنی حفظ وامان میں صحت وسلامتی والی کامیاب وکامران وبامراد زندگی سے نوازے۔ سلسلہ عالیہ احمدیہ کے کاموں کو فائزالمرامی عطافرمائے۔ دشمن کے شریر حملوں سے محفوظ رکھے اور ہمیں تادیر ان سے فیض پانے کی توفیق عطا فرماتا چلا جائے۔ آمین یا رب العالمین آمین

(صفوان احمد ملک۔ نمائندہ الفضل آن لائن،جرمنی)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 24 مئی 2022

اگلا پڑھیں

ایک سبق آموز بات