’’جب مجھے یہ خبر دی گئی کہ میرے والد صاحب آفتاب غروب ہونے کے بعد فوت ہوجائیں گے تو بموجب مقتضائے بشریت کے مجھے اس خبر کے سننے سے درد پہنچا اور چونکہ ہماری معاش کے اکثر وجوہ انہیں کی زندگی سے وابستہ تھے …… اس لئے یہ خیال گزرا کہ ان کی وفات کے بعد کیا ہوگا۔ اور دل میں خوف پیدا ہوا کہ شاید تنگی اور تکلیف کے دن ہم پر آئیں گے اور یہ سارا خیال بجلی کی چمک کی طرح ایک سیکنڈ سے بھی کم عرصہ میں دل میں گزر گیا تب اسی وقت غنودگی ہو کر یہ دوسرا الہام ہوا ’’اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ‘‘ یعنی کیا خدا اپنے بندہ کے لئے کافی نہیں ہے۔ اس الہام الٰہی کے ساتھ دل ایساقوی ہوگیا کہ جیسے ایک سخت دردناک زخم کسی مرہم سے ایک دم میں اچھا ہو جاتاہے …… مَیں نے اسی وقت سمجھ لیا کہ خدا مجھے ضائع نہیں کرے گا۔
… پس دیکھنا چاہئے کہ یہ پیشگوئی یعنی ’’اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ‘‘ کس صفائی اور کس قوت اور شان سے پوری ہوئی۔ کیا یہ کسی مفتری کا کام ہے یا شیطانی وساوس ہیں۔ ہرگز نہیں۔ بلکہ یہ اس خدا کا کام ہے جس کے ہاتھ میں عزت اور ذلت اور ادبار اور اقبال ہے۔‘‘
(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد22 صفحہ219 تا 221)
پھرحضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے مولا کے حضور عرض کرتے ہیں کہ :
(ترجمہ): ’’اے میرے رب !مَیں نے تجھے اختیار کیاہے پس توُ بھی مجھے اختیار کر اور میرے دل کی طرف نظر کر اور میرے قریب آ جا کہ توُ بھیدوں کا جاننے والا ہے اور ہر اُس چیز سے خوب باخبر ہے جو غیروں سے چھپائی جاتی ہے۔ اے میرے رب! اگر توُ جانتاہے کہ میرے دشمن سچے اور مخلص ہیں تو مجھے اس طرح ہلاک کر ڈال جیسے سخت جھوٹے ہلاک کئے جاتے ہیں۔ اور اگر توُ جانتاہے کہ مَیں تجھ سے ہوں اور تیری طرف سے بھیجا گیاہوں تو توُ میری مدد کر، توُ میری مدد کے لئے کھڑا ہوکہ مَیں تیری مدد کا محتاج ہوں۔‘‘
(اعجاز المسیح،روحانی خزائن جلد18 صفحہ203)