• 2 مئی, 2024

سچائی کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنانے کی ضرورت

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
سچائی ایک ایسا وصف ہے کہ جس کے اپنانے کے بارے میں صرف مذہب ہی نے نہیں کہا بلکہ ہر شخص جس کا کوئی مذہب ہے یا نہیں اس اعلیٰ خُلق کے اپنانے کا پُر زور اظہار کرتا ہے۔ لیکن اگر ہم جائزہ لیں تو اس اظہار کے باوجود سچائی کے اظہار کا حق نہیں ادا کیا جاتا۔ جس کو جب موقع ملتا ہے اپنے مفاد کے حصول کے لئے جھوٹ کا سہارا لیتا ہے۔ انسان کی ذاتی زندگی سے لے کر بین الاقوامی تعلقات تک میں سچائی کا خُلق اپنانے کا جس شدت سے اظہار کیا جاتا ہے اُسی شدت سے وقت آنے پر اُس کی نفی کی جاتی ہے۔ اپنے مفاد حاصل کرنے کے لئے روزمرہ کے معمولی معاملات میں بھی جھوٹ کا سہارا لیا جاتا ہے اور وہ حقیقی سچائی جسے قولِ سدید کہتے ہیں اُس کی نفی ہو رہی ہوتی ہے۔ کاروباری معاملات ہیں تو دنیا کا ایک بہت بڑا طبقہ اِن میں جھوٹ کا سہارا لیتا ہے۔ معاشرتی تعلقات ہیں تو ان میں بسا اوقات جھوٹ کا سہارا لیا جاتا ہے۔ ملکی سیاست ہے تو اس میں سچ کا خون کیا جاتا ہے۔ بین الاقوامی سیاست اور تعلقات ہیں تو اِس کی بنیاد بھی جھوٹ پر ہے۔ اکثر دفعہ تو یہی دیکھنے میں آیا ہے۔ حتی کہ مذہب جو خالصتاً سچائی کو لانے والا اور پھیلانے والا ہے اس میں بھی مفاد پرستوں نے جھوٹ کو شامل کر کے سچ کی دھجیاں بکھیر دی ہیں یا کوشش کرتے ہیں کہ سچ کو اس طرح چھپا دیں کہ سچ کا نشان نظر نہ آئے۔ بعض لوگ تو اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ اتنا جھوٹ بولو کہ سچ جو ہے وہ جھوٹ بن جائے اور جھوٹ جو ہے وہ سچ بن جائے۔ یہ بے خوفی اور بیباکی سچائی کو ہر سطح پر پامال کرنے کی اس لئے پیدا ہو گئی ہے کہ خدا تعالیٰ پر یقین نہیں رہا۔ اگر خدا تعالیٰ پر یقین ہو تو ہر سطح پر جھوٹ کا سہارا اس طرح نہ لیا جائے جس طرح اس زمانے میں لیا جاتا ہے یا اکثر لیا جاتا ہے۔ ذاتی زندگی میں گھروں میں ناچاقیاں اس لئے بڑھتی ہیں کہ سچائی سے کام نہیں لیا جاتا اور اس سچائی سے کام نہ لینے کی وجہ سے میاں بیوی پر اعتمادنہیں کرتا اور بیوی میاں پر اعتماد نہیں کرتی اور جب بچے دیکھتے ہیں کہ ماں باپ بہت سے موقعوں پر جھوٹ بول رہے ہیں تو بچوں میں بھی جھوٹ بولنے کی عادت ہو جاتی ہے۔ نئی نسل جب بعض غلط کاموں میں پڑ جاتی ہے وہ اس لئے کہ گھروں کے جھوٹ اُنہیں برائیوں پر اُبھارتے ہیں۔ یوں لا شعوری طور پر یا شعوری طور پر اگلی نسلوں میں بجائے سچائی کی قدریں پیدا کرنے کے اُسے بعض گھر زائل کر رہے ہوتے ہیں۔ اپنے بچوں کو برباد کر رہے ہوتے ہیں۔ پھر باقی معاشرے سے تعلقات کا بھی یہی حال ہے۔ اسی طرح کاروباری جھوٹ ہیں۔ جیسا کہ مَیں نے کہا بدقسمتی سے مسلمان ممالک میں یہ زیادہ عام بیماری ہے۔ سچائی اور صداقت کا جتنا شور مچایا جاتا ہے اتنا ہی عملاً اس کی نفی کی جاتی ہے۔ اسی طرح ملکی سیاست ہے اس میں عموماً جھوٹ کا سہارا لیا جاتا ہے لیکن مسلمان کہلانے والے ممالک جن کو اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے سچائی پر قائم رہنے اور جھوٹ سے نفرت کرنے کی تلقین کی ہے، بڑی شدت سے ہدایت دی ہے وہ اُتنا ہی جھوٹ کا سہارا لیتے ہیں۔ گزشتہ دنوں پاکستان میں کراچی اور سندھ کے حالات پر جب ایک سیاستدان نے اپنے لوگوں سے ناراض ہو کر اندر کا تمام کچا چٹھابیان کیا تو بعض سیاستدانوں اور تبصرہ نگاروں نے یہ تبصرہ کیا کہ سچائی کا اظہار سیاستدان کا کام نہیں ہے۔ سیاستدان سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ کبھی سچ بولے۔ یہ اگر سچ بول رہا ہے تو یہ سیاستدان نہیں ہے بلکہ پاگل ہو گیا ہے۔ اس کا انکار نہیں کیا کہ جو باتیں ہیں وہ غلط ہیں، تبصرہ ہو رہا ہے تو اس بات پر کہ یہ سچ بول رہا ہے اس لئے پاگل ہے۔ تبصرے والے کہتے ہیں کہ اس نے اپنی سیاسی زندگی اور دنیاوی منفعت کو داؤ پر لگا دیا ہے، جو صرف ایک پاگل ہی کر سکتا ہے۔ گویا ان کے نزدیک یہ سچائی اور صداقت زوال کا ذریعہ بنے گی۔ یہ تو ان کا حال ہے۔ پس ان کی نظر میں سیاست اور حکومت خدا کے قول پر حاوی ہے۔ اللہ اور اُس کا رسول کہتے ہیں جھوٹ نہ بولو۔ لیکن یہ کہتے ہیں کہ سیاست اور حکومت کے لئے جھوٹ بولو، اگر نہیں بولو گے تو تم غلط کرو گے۔ اس کے باوجود یہ لوگ پکے مسلمان ہیں اور احمدی غیر مسلم ہیں جو سچائی کی خاطر اپنے کاروباروں، منفعتوں اور جانوں کو داؤ پر لگائے ہوئے ہیں اس لئے کہ وہ ایک خدا کی عبادت کرنے والے ہیں جس نے کہا ہے کہ جھوٹ شرک ہے اور اُس نبی کو ماننے والے ہیں جس پر آخری شرعی کتاب قرآنِ کریم نازل ہوئی اور جن کا فرمان ہے کہ تمام برائیوں کی اور گناہوں کی جڑ جھوٹ ہے۔

پھر بین الاقوامی سیاست ہے تو اس میں مسلمان حکومتیں ہوں یا مغربی حکومتیں ہوں اِن سب کا ایک حال ہے۔ اِن ملکوں کو جو آپس کے تعلقات میں عموماً سچائی کا اظہار کرتے ہیں۔ کچھ نہ کچھ ان میں سچ ہے۔ جب دوسرے ممالک کا سوال پیدا ہو، مسلمان ممالک کا سوال پیدا ہو، دوسری حکومتوں کا سوال پیدا ہو تو ان کی سچائی کے نظریے بالکل بدل جاتے ہیں۔ ان کا حال تو پہلے عراق پر جو حملے انہوں نے کئے اُسی سے پتہ چل گیا۔ جب صدام حسین کو اُتارنے کے لئے عراق کو تباہ و برباد کر دیا، اُس کے وسائل پر قبضہ کر لیا تو پھر کہہ دیا کہ ہمیں غلطی لگی تھی۔ جتنا ظلم اور خوفناک منصوبہ بندی اور خطرناک ہتھیاروں سے دنیا کو تباہ کرنے اور ہمسایوں کو زیرِ نگیں کرنے کی ہمیں اطلاعیں ملی تھیں کہ صدام حسین کرنا چاہتا ہے، اُتنا کچھ تو وہاں سے نہیں نکلا۔ پھر لیبیا کو نشانہ بنایا گیا تو اب کہتے ہیں کہ اصل میں غلط اطلاعیں تھیں۔ اتنا ظلم وہاں عوام پر نہیں ہو رہا تھا۔ تو یہ سب باتیں مغربی پریس ہی اب دے رہا ہے۔ انہی کے تبصرے آ رہے ہیں۔ پس پہلے جھوٹا پروپیگنڈہ کر کے حملے کئے جاتے ہیں۔ پھر سچا بننے کے لئے اپنے میڈیا کے ذریعے سے ہی کہہ دیا جاتا ہے کہ ہمیں غلطی لگی۔ جتنا کچھ ہمیں بتایا گیا تھا اُتنا کچھ ثابت نہیں ہوا۔ اصل میں تو یہ سچائی بھی جھوٹ چھپانے کے لئے ہے۔ مقصد وسائل پر قبضہ کرنا تھا جو ہو گیا لیکن اس کا موقع بھی مسلمان ہی مہیا کرتے ہیں۔ اگر سینکڑوں بلین ڈالرز کی ملک کی دولت عوام پر خرچ کی جائے تو نہ کبھی ملک کے اندر ایسے فتنے فساد اُٹھیں، نہ ان لوگوں کو دخل اندازی کی جرأت ہو۔

بہر حال خلاصہ کلام یہ کہ بین الاقوامی جھوٹ اور صداقت کو نہ صرف چھپانے بلکہ اس کی دھجیاں بکھیرنے میں عموماً تمام دنیا کی حکومتیں ہی اپنا اپنا کردار ادا کر رہی ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم بچ جائیں گے۔ اگر اس دنیا میں بچ بھی جائیں تو ایک آئندہ زمانہ بھی آنا ہے، ایک آئندہ زندگی بھی ملنی ہے، ایک آئندہ دنیا بھی ہے جس میں تمام حساب کتاب ہونے ہیں۔ پھر ان دنیا داروں پر ہی بس نہیں ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ مذہب کے نام پر مذہب کے نام نہاد علمبردار سچائی کو رَد کرتے ہیں اور جھوٹ کو فروغ دیتے ہیں۔ اس میں اسلام دشمن طاقتیں بھی ہیں جو اسلام کے خلاف ہیں اور اس زمانے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشقِ صادق کے مخالفین بھی ہیں یعنی مسلمان بھی شامل ہیں جو اسلام دشمن طاقتوں کا ہی کردار ادا کر رہے ہیں۔ سچائی کو جانتے ہیں لیکن اپنے مفادات اور منبر کی خاطر جھوٹ کا سہارا لیتے ہیں۔ عوام الناس کے ذہنوں کو بھی زہر آلود کرنے میں ایک دوسرے سے بڑھ رہے ہیں۔ کئی ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور جماعت کی کتب اور لٹریچر پڑھ کر درس دیتے ہیں، اُسی سے تقریریں تیار کرتے ہیں کیونکہ اس کے علاوہ ان کے پاس مخالفینِ اسلام کا منہ بند کرنے کے لئے کوئی دلائل نہیں ہیں، کوئی موادنہیں ہے، لٹریچر نہیں ہے۔ اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہی ہیں جنہوں نے اسلام کا دفاع ایسے پُر زور اور پُر شوکت رنگ میں کیا ہے اور ایسے دلائل کے ساتھ کیا ہے کہ جس کو کوئی رَد نہیں کرسکتا۔ لیکن عوام الناس کو دھوکہ دینے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بارے میں کہتے ہیں کہ نعوذ باللہ یہ شخص جھوٹا ہے۔ پہلے بھی میں ایک دفعہ ذکر کر چکا ہوں اور ایک دو دفعہ نہیں، مختلف لوگوں کے بارے میں، علماء کے بارے میں جو ٹی وی پر آ کر بڑے درس بھی دیتے ہیں اور تقریریں کرتے ہیں کسی نے بتایا ہے کہ خود اُنہوں نے اُن کے گھروں میں تفسیرِ کبیر کی اور کتب کی جلدیں دیکھی ہیں اور اس لئے نہیں کہ صرف اعتراض تلاش کریں۔ وہ تو ظاہر کرنے کے لئے کرتے ہی ہیں، لیکن خود انہوں نے بتایا کہ اس سے فائدہ اُٹھا کر یہ اپنے درسوں وغیرہ میں دلائل استعمال کرتے ہیں۔ تو ان لوگوں کو اسلام کی برتری ثابت ہونے سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ اس لئے عوام الناس کو بھی سچائی کے راستے دیکھنے کے طریق کبھی نہیں بتائیں گے کہ کہیں اس سے ان کے منبر و محراب ہاتھ سے نہ نکل جائیں۔ اُس سے ہاتھ نہ دھونے پڑ جائیں۔ لیکن بہر حال یہ ان کی کوششیں ہیں اور ہر زمانے میں جب بھی اللہ تعالیٰ اپنے کسی فرستادے کو بھیجتا ہے تو مخالفین یہی کوششیں کرتے ہیں لیکن ایک اللہ تعالیٰ کی تقدیر بھی چلتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی تقدیر ہمیشہ غالب رہتی ہے۔ سچائی کو ہی اللہ تعالیٰ کی تقدیر نے غالب کرنا ہے۔

(خطبہ جمعہ 9؍ ستمبر 2011ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 24 جون 2021

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ