• 7 مئی, 2024

قرآن، سوشل میڈیا، گلوبل کلچر اور ہم

جب وحشی اکٹھے کئے جائیں گے
اور جب نُفوس ملا دیئے جائیں گے
قرآن، سوشل میڈیا، گلوبل کلچر اور ہم

آخراس سوشل میڈیا میں ایسا کیا ہے؟

سوشل میڈیا کے فوائد و نقصانات کے بارے میں بہت لکھا گیا ہے اور جیسے جیسے یہ مزید پھیلتا اور تنوع اختیار کرتا رہے گا، لکھا جاتا رہے گا۔ حضور انور کی بصیرت افروز ہدایات بھی ہماری ہماری راہنمائی کے لیے موجود ہیں ، جن میں حضور انور نے اس میڈیم کے استعمال اور غلط استعمال کے ہر پہلو کو انتہائی باریکی سے بیان کیا ہے۔

کچھ عرصہ قبل Twitter اور Facebook پر کچھ ایسے غیر ضروری مباحثات، خیالات، تنقید، اور ٹرینڈز نظر سے گذرے کہ جن کی کوئی منطق تب سمجھ نہیں آئی پھر کچھ عرصہ میں ایسی ہی کچھ اور چیزیں نظر سے گذریں جن میں چند ہمارے اپنے احباب و خواتین بھی شامل تھے۔ یہ دیکھ خاکسار ان سب چیزوں کے محرکات اور سائیکولوجی کے بارے میں غور کرنے پر مجبور ہو گیا کہ آخر اس سوشل میڈیا میں ایسا کیا ہے کہ well educated اور بعض مذہبی پس منظر والے بھی خود کو ان غیر ضروری باتوں سے روک نہیں پاتے۔

آج کا دور اس لحاظ سے بہت منفرد ہے کہ اس دور میں تمام برائیاں اپنی پوری قوت کے ساتھ اور اپنے ہر رنگ کے ساتھ موجود ہیں اور دجال کے ایسے ایسے دجل ہیں کہ سچ جھوٹ، صحیح غلط میں امتیاز کرنا بہت مشکل ہے۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
’’یہ جو انٹرنیٹ وغیرہ کی میں نے مثال دی ہے، اس میں فیس بُک (facebook) اور سکائپ (skype) وغیرہ سے جو چَیٹ (chat) وغیرہ کرتے ہیں، یہ شامل ہے۔ کئی گھر اس سے میں نے ٹوٹتے دیکھے ہیں۔ بڑے افسوس سے مَیں کہوں گا کہ ہمارے احمدیوں میں بھی اس طرح کے واقعات ہوتے ہیں۔ پس خداتعالیٰ کے اس حکم کو ہمیشہ سامنے رکھنا چاہئے کہ فحشاء کے قریب بھی نہیں پھٹکنا کیونکہ شیطان پھر تمہیں اپنے قبضے میں کر لے گا۔

پس یہ قرآنِ کریم کے حکم کی خوبصورتی ہے کہ یہ نہیں کہ نظر اُٹھا کے نہیں دیکھنا، اور نہ نظریں ملانی ہیں بلکہ نظروں کو ہمیشہ نیچے رکھنا ہے اور یہ حکم مرد اور عورت دونوں کو ہے کہ اپنی نظریں نیچی رکھو۔ اور پھر جب نظریں نیچی ہوں گی تو پھر ظاہر ہے یہ نتیجہ بھی نکلے گا کہ جو آزادانہ میل جول ہے اُس میں بھی روک پیدا ہو گی۔ پھر یہ بھی ہے کہ فحشاء کو نہیں دیکھنا، تو جو بیہودہ اور لغو اور فحش فلمیں ہیں، جو وہ دیکھتے ہیں اُن سے بھی روک پیدا ہو گی۔ پھر یہ بھی ہے کہ ایسے لوگوں میں نہیں اُٹھنا بیٹھنا جو آزادی کے نام پر اس قسم کی باتوں میں دلچسپی رکھتے ہیں اور اپنے قصے اور کہانیاں سناتے ہیں اور دوسروں کو بھی اس طرف راغب کر رہے ہوتے ہیں۔ نہ ہی سکائپ (skype) اور فیس بُک (facebook) وغیرہ پر مرد اور عورت نے ایک دوسرے سے بات چیت کرنی ہے، ایک دوسرے کی شکلیں دیکھنی ہیں، نہ ہی ان چیزوں کو ایک دوسرے سے تعلقات کا ذریعہ بنانا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے سب ظاہر یا چھپی ہوئی فحشاء ہیں جن کا نتیجہ یہ ہو گا کہ تم اپنے جذبات کی رَو میں زیادہ بہہ جاؤ گے، تمہاری عقل اور سوچ ختم ہو جائے گی اور انجام کار اللہ تعالیٰ کے حکم کو توڑ کر اُس کی ناراضگی کا موجب بن جاؤ گے۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 2؍اگست 2013ء مسجد بیت الفتوح، لندن۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 23؍اگست 2013ء)

بَلِ الۡاِنۡسَانُ عَلٰی نَفۡسِہٖ بَصِیۡرَۃٌ

میں اس مضمون میں ایک سوشل اور سائیکولوجیکل پہلو بیان کرنے کی کوشش کروں گا۔ پہلے حصے میں کوشش کروں گا کہ دکھا سکوں کہ سوشل میڈیا کے ذریعے کس طرح معاشرے اپنی اقدار، روایات اور اخلاقیات کھو رہے ہیں یا ان میں بدلاو آ رہا ہے، دوسرے حصہ میں کوشش ہو گی کہ دیکھا جائے بطور احمدی ہمیں کن خدشات کا سامنا ہے اور ہم ان خطرات سے کس طرح بچ سکتے ہیں۔ دونوں صورتوں میں ایک بات مدنظر رکھنی نہایت ضروری ہے کہ کیا ہم کسی قسم کے denial میں تو نہیں ہیں؟ کیا یہ سوچ تو نہیں ہے کہ بطور احمدی ہم اس کے منفی پہلوؤں سے ہر صورت میں مستثنیٰ ہیں؟ بَلِ الۡاِنۡسَانُ عَلٰی نَفۡسِہٖ بَصِیۡرَۃٌ (سورۃالقیامہ:15) حقیقت یہ ہے کہ انسان اپنے نفس کو خوب دیکھ رہا ہے اور جانتا ہے کہ وہ کتنے پانی میں ہے۔

ایک دجل کی حقیقت

اگر یہ سوچ ہے یا نہیں بھی ہے تو یہ بات یاد رکھیں کہ سب سے پہلی بات جو آج کل کی جارہی ہے وہ یہ ہے کہ سوشل میڈیا ایک نشہ ہے اور اس کے استمعال کرنے والے نشئیوں کی طرح اس کے نشئے میں مبتلا ہوتے رہتے ہیں اور ان کو احساس بھی نہیں ہوتا اور نہ ہی وہ یہ تسلیم کرنے کو تیار ہوتے ہیں کہ وہ اس چیز کے addict ہیں۔ اگر آپ کو اس بات کا یقین نہیں ہے کہ آپ سوشل نیٹ ورک کے عادی ہیں یا نہیں، تومیری آپ سے گزارش ہے کہ آپ نوٹ کریں کہ آخری بار آپ کب ایسا ہوا ہے کہ آپ نے مسلسل 2 دن بغیر اپنا سوشل میڈیا اکاونٹ چیک کیے ہوے گزارا ہو؟

کچھ عرصہ پہلے نیٹ فلیکس پر ایک ڈاکیومنٹری ’’social delima‘‘ دیکھنے کا اتفاق ہوا، جس میں اسی انڈسٹری سے وابسطہ افراد، جو ان ایپلیکیشنز کی ڈیزایننگ، مارکٹنگ وغیرہ سے پہلے وابسطہ تھے یا ان ایپس کے بنانے میں شریک تھے نے کھل کر سوشل نیٹ ورکنگ ویب سایٹس اور ایپس کے منفی پہلوں بلکہ مخفی ایجینڈوں تک کو بے نقاب کیا ہے۔

سوشل میڈیا حقیقت میں لَت (addiction) کے لیے design کیا گیا ہے۔

میں نے سب سے پہلی جو چیز اس دستاویز سے سیکھی وہ یہ ہے کہ واقعی میں سوشل میڈیا کو نشہ کرنے کے لئے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ نیورو سائنسدانوں نے سوشل میڈیا کے اثرات کو براہ راست جسم میں انجیکشن کے ذریعے پہنچائی گئی ڈوپامائن Dopamine کی ایک سرنج سے تشبیہ دی ہے۔ ان سائٹوں سے جاری ٹویٹس، posts ، لائیکس، shares، سٹوریز اور کمنٹس وغیرہ کا سلسلہ دماغ کے انعام (Reward) والے حصے کو متاثر کرتا ہے اور اسی طرح کی کیمیائی رد عمل کو متحرک کرتا ہے جیسے دیگر دوائیاں، جیسے کوکین وغیرہ۔ ہارورڈ یونیورسٹی کے 2018 کی ایک سٹڈی کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ کس طرح سماجی رابطوں کی سائٹس پر self-disclosure دماغ کے اسی حصے کو روشن کرتا ہے جو کسی لت والی چیز لینے کے دوران بھی بھڑک اٹھتا ہے اور دستاویزی فلم کے ماہرین اس حقیقت کو دہراتے ہیں۔ وہ وضاحت کرتے ہیں کہ پلیٹ فارم آپ کوبس اِسی میں گھسے رہنے کے لیے اور آپ کو ہمہ وقت اسکرول کرتے رہنے کے لئے تیار کیا گیا ہے۔

Pinterest کے سابق صدر Tim Kendall کے مطابق سوشل میڈیا میڈیمزکا، ’’کاروباری ماڈل لوگوں کو اسکرین پر مصروف رکھنا ہے۔‘‘

حضور علیہ السلام اپنی تصنیف کشتی نوح میں جس کا دوسرا نام ’دعوت الایمان‘ اور تیسرا نام تقویۃ الایمان ہے، بڑے درد بھرے الفاظ میں فرماتے ہیں:

اے عقلمندو!
’’اے عقلمندو! یہ دنیا ہمیشہ کی جگہ نہیں۔ تم سنبھل جاؤ۔ تم ہر ایک بے اعتدالی کو چھوڑ دو۔ ہر ایک نشہ کی چیز کو ترک کرو۔ انسان کو تباہ کرنے والی صرف شراب ہی نہیں بلکہ افیون، گانجہ، چرس، بھنگ، تاڑی اور ہر ایک نشہ جو ہمیشہ کے لئے عادت کر لیا جاتا ہے وہ دماغ کو خراب کرتا اور آخر ہلاک کرتا ہے۔ سو تم اس سے بچو۔ ہم نہیں سمجھ سکتے کہ تم کیوں ان چیزوں کو استعمال کرتے ہو جن کی شامت سے ہر ایک سال ہزارہا تمہارے جیسے نشہ کے عادی اس دنیا سے کوچ کر تے جاتے ہیں اور آخرت کا عذاب الگ ہے۔ پرہیز گار انسان بن جاؤ تا تمہاری عمریں زیادہ ہوں اور تم خدا سے برکت پاؤ۔‘‘

(کشتی نوح، روحانی خزائن جلد19 صفحہ71،70)

دجالی گلوبل کلچر

اب یہ تو ایک مانی ہوئی بات بن چکی ہے کہ جو لوگ بھی سوشل میڈیا کو صرف اپنے جذبات یا رائے کے اظہار کے ٹول کے طور پر استمعال کرتے ہیں وہ آہستہ آہستہ اس دلدل میں پھنستے چلے جاتے ہیں اور ٹویٹس یا پوسٹس یا سٹوری وغیرہ سے بات پھر آگے اپنی چیزوں کی نمائش، کھانے کی نمائش اپنی اچیومنٹس کی نمائش یعنی خود ستائش اور خود نمائی تک بات پہنچ جاتی ہے اور کچھ ہی عرصہ کے بعد یہ ستائش ان کے ذہن اور جذبات پر غیر محسوس طور پر سوار ہو کر اور ڈیمانڈ کرتی ہے اور لوگ پھر دوسرے لوگوں پر تنقید اور ان کی ٹویٹس یا پوسٹس کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر اس پر اپنا اظہار خیال شروع کر دیتے ہیں اور بات پھر خودنما ئی سے انانیت پر آ جاتی ہے کیوں کہ وہ تنقید اکثر بحث، غیر ضروری باتوں اور تضحیک پر ختم ہوتی ہے، اس سے دل میں غصہ، انقباض، اور منفی خیالات ابھرتے ہیں اور پھر ٹویٹس اور پوسٹس وغیرہ پر ان احساسات کا اظہار شروع ہو جاتا ہے۔ غرض یہ ایک ایسا منحوس چکر ہے جو ایک دفعہ سٹارٹ ہو جاے تو اخلاق و عادات و احساسات کو تباہ کر کے شخصیت کو وہ بنا دیتا ہے جس کے لیے یہ ٹولز ڈیزائن کیے گے ہیں یعنی گمراہی، بے مقصدیت اور ایسے گلوبل مذہب (یا کلچر) کا حصہ جہاں ہر کوئی چاہے وہ عیسائی ہے، یہودی ہے، ہندو ہے مسلمان ہے یا احمدی مسلمان یا کوئی بھی اور، اگر اس چکر میں پھنس جائیں تو سب ایک ہی طرح کے مذاق اور اخلاق اور عادات کے حامل ہو جاتے ہیں۔

بہت سی ایسی چیزیں جو ہم کبھی بھی آمنے سامنے کسی کو نہیں کہہ سکتے وہ سوشل میڈیا پر کہنا عام سی بات ہے، memes کے نام پر تضحیک کی عادت بڑھتی جا رہی ہے، کئی emojis ایسے ان پلیٹ فارمز پر استعمال ہو رہے ہوتے ہیں جو کہ ہم کبھی بھی کسی کے آمنے سامنے ایسا کبھی نہ کریں، مثلا ً winking emoji, air kiss emoji یا منہ کھول کے بے انتہا ہنسنے والے ایموجیز وغیرہ، حقیقی زندگی میں اگر کسی مجلس میں ایسا حقیقی رنگ میں اگر کیا جائے تو یقینی طور پر ایسے شخص کو ہم پاگل یا بے ادب گردانیں لیکن سوشل میڈیا کی دُنیا ہی الگ ہے وہاں غیر محسوس طور پر وہ سب کچھ نفس جائز کر کے دکھاتا ہے جو اصل میں نا جائز ہے۔

صحبت کا اثر اور گلوبل صحبت و مجالس

یہاں یہ بات بہت ضروری یاد رکھنے کی ہے کہ اللہ نے انسان کو تنہائی سے نکال کر معاشرے میں ڈھالا ہے تاکہ اس کے اخلاق و اطوار ٹیسٹ ہو سکیں اور ہر شخص فطرتاً سوشل گیدرنگ یا کسی نا کسی انسانی سہارے کا محتاج ہوتا ہے چاہے ہو جسمانی ہو ، روحانی ،ذہنی ہو یا موجودہ دور میں خیالی اور مصنوعی۔ زندگی کے سفر میں انسان یا تو خود ایسے سہارے یا ساتھی و ہم سفر کا متمنی رہتا ہے یا پھر کہیں نا کہیں ضرورت یا حادثہ، کسی کا کسی ساتھی کا انتظام کر دیتی ہے۔ اور ہر ایسے لمحے اور وقت میں یہ حدیث مشعلِ راہ ہے: حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺنے فرمایا:
’’نیک ساتھی اور برے ساتھی کی مثال ان دوشخصوں کی طرح ہے جن میں سے ایک کستوری اٹھائے ہوئے ہو اور دوسرا بھٹی جھونکنے والا ہو۔ کستوری اٹھانے والا یا تو تجھے مفت خوشبو دے گا یا تُو اس سے خرید لے گا۔ ورنہ کم از کم تو اس کی خوشبو اور مہک تو سونگھ ہی لے گا۔ اور بھٹی جھونکنے والا یا تیرے کپڑے جلا دے گا یا تو اس سے بدبودار دھواں پائے گا‘‘۔

(مسلم کتاب البرّ والصّلۃ)

اور اس ساتھی میں وہ ہر قسم کا ساتھی شامل ہے کہ جس کی وہ صحبت میں وہ یا وہ اُٹھے بیٹھے اور بات چیت کرے اور ہر ایسا شخص یا گروپ بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے اور شخصیت کو بنانے یا بگارنے میں اس کا بہت رول ہوتا ہے، انٹرنیت اور خاص طور پر سوشل میڈیا کی آمد سے پہلے یہ تعلق یہ ساتھی اور صحبت، سوشل گروپس، کلبوں میں شرکت، محفلوں مجالس میں دوستوں اور ہم خیال لوگوں کے اکٹھے بیٹھنے یا اسی طرح کی مختلف ایکٹیویٹیز میں انوالومنٹ ہوتی تھی اور بہت حد تک ایسی مجالس محدود نوعیت کی ہوتی تھیں جن کا اثر بھی محدود ہوتا تھا اور ملنے جلنے کے اوقات اور فریکوئینسی بھی کم ہوتی تھی جس سے دماغ کو ٖفیصلہ کرنے میں وقت مل جاتا تھا کہ کیا غلط ہے اور کیا صحیح ہے وغیرہ لیکن سوشل میڈیا میں ایسا نہیں اس نے جہاں لوگوں کو (ضروری اور غیر ضروری) لوگوں کو ایک ڈیوائیس پر اکھٹا کیا ہے ہیں وہیں ان کی تمام برائیوں کو بھی اکھٹا کر دیا ہے اور کوئی شخص لاکھ کہے کہ اس کا اکاونٹ پراوئیویٹ ہے لیکن اگر وہ ایکٹو یوزر ہے اور وہ اس پلیٹ فارم کومحض ٹا ئم پاس یا تفریح طبع یا محض گپ شپ کے لیئے استمعال کرتا ہے تو وہ پوری دنیا کے لوگوں کے لیے اوپن ہے اور ایک طرح سے گلوبل صحبت میں بیٹھا ہے اور جب جاہے جتنا چاہے اس صحبت میں بیٹھ سکتا ہے اور اس مجلس اور صحبت کے دروازے ہر عمر،مذہب، رنگ و نسل، نیک و بد کے لئیے کھلے ہیں۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:
’’صحبت کا بہت بڑا اثر ہوتا ہے جو اندر ہی اندر ہوتا چلا جاتاہے۔ اگر کوئی شخص ہر روز کنجریوں کے ہاں جاتا ہے اور پھر کہتاہے کہ کیا میں زنا کرتاہوں؟۔ اس سے کہنا چاہئے کہ ہاں تو کرے گا اور وہ ایک نہ ایک دن اس میں مبتلا ہو جاوے گا کیونکہ صحبت میں تاثیر ہوتی ہے ۔اسی طرح پر جو شراب خانہ میں جاتا ہے خواہ وہ کتنا ہی پرہیز کرے اور کہے کہ میں نہیں پیتا ہوں لیکن ایک دن آئے گا کہ وہ ضرور پئے گا۔ پس اس سے کبھی بے خبر نہیں رہنا چاہئے کہ صحبت میں بہت بڑی تاثیر ہے‘‘۔

(ملفوظات جلد6 صفحہ247)

(مطبوعہ:الفضل انٹرنیشنل 10؍اپریل 1998ء تا16؍اپریل 1998ء)

اب آنحضرت ﷺ کی حدیث اور حضرت مسیح موعودؑ کا اقتباس محض کسی مذہبی راہنما کی مذہبی باتیں نہیں ہیں بلکہ گہرے انسانی فلسفے اور مزاج کا عکس ہے اور یہ بات تو مختلف ریسرچز وغیرہ سے ایک طرح کا ایسا یونیوسسل ٹروتھ بن چکا ہے کہ اس کو ثابت کرنے کے لیے یہاں کسی حوالہ کے دینے کی ضرورت نہیں ہے۔

Alternate world & Reality

ایک طرح سے سوشل میڈیا نے اب موجودہ حالت میں ایک الگ دنیا (alternate world) اور متوازی حقیقت (virtual reality) تشکیل دے دی ہے کہ جس کی اپنی حکومت ہے، اپنی رعایا ہےرولز اور اصول ہیں (اور یہ اصول یہ ہیں کہ ذیادہ سے ذیادہ لوگوں کی ذاتی معلومات، ترجیحات، خیالات وغیرہ پر بغیر پابندی کے شائع کرنے اور ڈسکس کرنے کی نہ صرف اجازت ہو بلکہ encourage کیا جائے)۔

دُنیا کی موجودہ آبادی اس وقت اندازہً 7.5(ساڑھے سات) بلین ہے جس میں سے ٹوڈلرز یا کم سن بچوں کی آبادی تقریبا 2بلین ہے یعنی ساڑھے 5بلین بڑی عمر کے لوگ اس دنیا میں ہیں۔ اب جو میں بات یہاں لکھوں گا شاید وہ ہم میں سے کی لوگوں کو حیرانگی سے چونکا دے اور دہلا ہے۔ ڈیٹا سٹڈی کے مطابق اس وقت دنیا میں چار اعشاریہ دو (4.2)بلین لوگ سوشل میڈیا کے ایٹیو یوزرز ہیں ۔ جی ہاں آپ نے صحیح پڑھا 4.2 بلین ، تصور کریں ! دنیا کی بالغ آبادی سے کچھ ہی کم آبادی سوشل میڈیا کی آبادی ہے۔

Forbes کے ایک سروے کے مطابق 2020 تک دنیا میں اوسطاً ہر بالغ اپنے روزانہ کے جاگنے کے اوقات کا چوتھائی حصہ جو کہ چار سے چھ گھنٹے ہیں آن لائن گزارتا ہے ، کئی ممالک میں یہ اس سے بھی ذیادہ ہے کچھ عمر کے لوگوں میں بھی یہ اس سے کہیں بڑھ کر ہے۔ اس میں سے اوسطاً ہر بالغ تقریبا ً اڑھائی گھنٹے سوشل میڈیا پر گزارتا ہے۔ اگر سب لوگوں کے اوقات کو جمع کیا جائے تو صرف 2021 میں 1.3بلین سال لوگ آن لائن گزاریں گے۔

https://datareportal.com/reports/digital-2021-global-overview-report
https://www.statista.com/topics/1164/social-networks/#dossierSummary

صرف اس ایک چارٹ کو دیکھ کر ہی اندازا ہو جاتا ہے کہ کس طرح ہماری ترجیحات بدل چکی ہیں اور لوگ کن وجوہات کے لیے سوشل میڈیا استمعال کرتے ہیں یا دوسرے لفظوں میں کون کون سے رستے ہیں جو ہمیں بھٹکانے کے لیے سوشل میڈیا پر موجود ہیں۔ ان میں سے کچھ وجوہات تجسس کی بنیاد پر ہیں کچھ وقت برباد ی کی بنیاد پر، کچھ خود پسندی و دکھاوے کچھ آذادی اظہارِ را ئے وغیرہ کی آڑ میں ہیں۔ (اوپر دئیے گئے لنکس پر آپ مزید بہت تفصیلی معلومات چیک کر سکتے ہیں۔)

یہاں یہ سوال پیدا ہوسکتا ہے کہ جب اتنا ذیادہ دنیا نے مادیت کی طرف اور ان رجحانات کی طرف راغب ہونا تھا اور اس زمانے میں شیطان نے اپنی ایک الگ دنیا بنا دینی تھی جس کا اثر اتنا شدید ہونا تھا کہ مومنین بھی اس کی ذد میں آسکتے تھے اور یہ سب ضرورت کے تحت اس دنیا کا حصہ نہیں ہیں بلکہ ایک ٹرانس، بھیڑ چال اور نشے کی کیفیت میں اس آبادی کی رعایا بنے ہوئے ہیں جو غیر حقیقی اور دجل پر مبنی ہے۔ تو کیا اس کی کوئی خبر مذہب نے دی ہے؟

قرآنی پیش خبریاں اور سوشل میڈیا

اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے: وَ اِذَا الۡوُحُوۡشُ حُشِرَتۡ (التکویر:6) اور جب وحشی اکٹھے کئے جائیں گے۔

حضرت مسیح موعود ؑ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ ’’اور جو لوگ وحشی اور ارذل اور اسلامی شرافت سے بے بہرہ ہیں ان کا اقبال چمک اُٹھنا جیسا کہ آیت وَ اِذَا الۡوُحُوۡشُ حُشِرَتۡ سے مترشع ہو رہا ہے۔‘‘

(تحفہ گولڑویہ، روحانی خزاین جلد17صفحہ242-243)

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں ’’یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وُحُوۡش سے مجازا ًوحشی انسان مراد لئیے جا ئیں۔ عربی زبان میں کثرت سے یہ لفظ ان معنوں میں استعمال ہوتا ہے، اردو زبان میں بھی کہتے ہیں فلاں آدمی تو وحشی ہے اُس سے باتیں نہ کیجیے۔ یا فلاں لوگ تو وُحُوۡش ہیں۔ اسی لحاظ سے وَ اِذَا الۡوُحُوۡشُ حُشِرَتۡ کے یہ معنے ہوں گے کہ وحشی انسان یعنی جنگلی یا غیر تعلیم یافتہ اقوام جمع کی جائیں گی اور اُن کا تعلق بوجہ اشاعت تمدن اور راستوں کے کھل جانے کے متمدن اقوام سے ہو جاے گا۔‘‘ مزید فرماتے ہیں ’’اس آیت کے یہ معنے بھی ہو سکتے ہیں کہ بد اخلاقی عام طور پر پھیل جائے گی اور دیندار لوگ دب جا ئیں گے۔‘‘

ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ آخری زمانہ کے متعلق پیشگوئیاں کرتے ہوئے فرماتا ہے۔

وَ اِذَا النُّفُوۡسُ زُوِّجَتۡ (التکویر:8) اور جب نُفوس ملا دیئے جائیں گے۔

حضرت مسیح موعود ؑ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ ’’یہ تعلقاتِ اقوام اور بلاد کی طرف اشارہ ہے۔ مطلب یہ ہے کہ آخری زمانہ میں بباعث راستوں کے کھلنے اور انتظامِ ڈاک اور تار برقی کے تعلقات بنی آدم کے بڑھ جائیں گے اور ایک قوم دوسری قوم کو ملے گی اور دوردور کے رشتے اور تجارتی اتحاد ہوں گے اور بلادِ بعید کے دوستانہ تعلقات بڑھ جائیں گے۔‘‘

(شہادت القرآن، روحانی خزائن جلد6 صفحہ317-319)

حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں ’’حدیث شریف میں اس آیت کی تفسیر میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ کہ ہر آدمی کا جوڑا اس کی نظیر کے ساتھ ملا دیا جاوے گا۔ آجکل گرجاؤں میں مرتدین کا جوڑ گانٹھ اسی پیمانہ سے عمدہ طور سے ہو جاتا ہے۔‘‘

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں ’’بالخصوص یوروپین فلسفہ نے انسانی دماغ کو ایک خاص رنگ میں ڈھال دیا ہے اب اگر ایک چینی سوچتا ہے تو مغربی رنگ میں سوچتا ہے۔ جاپانی سوچتا ہے تو مغربی رنگ میں سوچتا ہے۔ عرب سوچتا ہے تو مغربی رنگ میں اور پٹھان سوچتا ہے تو وہ بھی مغربی رنگ میں۔ حالانکہ جُداجُدا ازبانیں ہیں مگر مغربی فلسفہ اور مغربی تہذیب سب پر چھا گی ہے۔‘‘

(تفسیرِ کبیر صفحہ210-212)

قرآن کی ان خبروں کو دیکھتے ہوئے یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ یہ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا بھی قرآنی پیشگوئیوں کو سچا ثابت کر رہی ہیں اور اس دجالی زمانے کا حال کھول کھول کر ہمارے سامنے رکھ رہی ہے۔ کیا یہ کچھ نہیں ہو رہا؟ کیا ایسے ہی سب کی سوچ نہیں بدلی گئ؟ کیا پوری دنیا کا مذاق اور اطوار اور عادات چاہے وہ چین کا باشندہ ہو، آسٹریلیا کا باشندہ ہو، عرب کا، ہند کا، امریکا، یورپ یا جزائر کیا سب ایک ہی رنگ میں نہیں ڈھل رہے؟ خدا نے جہاں 1500 سال پہلے ان خطرات کو ہمارے سامنے رکھ دیا وہیں مختلف جگہوں پر ان خطرات کو مزید تفصیل سے بتا کر اُن کا حل بھی بتا دیا ہے۔ لیکن اس سب سے پہلے ایک چیز کو خوب اچھی طرح سمجھنا ضروری ہے جو کہ خود اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائی ہے

دُشمن شیطان

اِنَّ الشَّیۡطٰنَ لَکُمۡ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوۡہُ عَدُوًّا (الفاطر:11) شیطان تمہارا یقیناً دشمن ہے پس اس کو دشمن ہی سمجھو۔

اس لئے جب تک سوشل میڈیا کوہم دشمن سمجھ کر سمجھنے کی کوشش نہیں کریں گے تب تک اُس پر غلبہ بھی نہیں پا سکیں گے اور نہ ہی اس کی چالوں اور داؤ پیچ سے بچ سکیں گے۔

آخری زمانہ، دجال کی چالیں
اور اللہ سے پناہ کی طلب

اللہ تعالیٰ قرآن مجید کی آخری2سورتوں (سورہ فلق اور سورہ الناس) میں موجودہ دور (یعنی آخری زمانہ) کے دجالی حربوں اور چالوں کا تفصیلی نقشہ کھینچتے ہوئے اُن سے بچنے کا رستہ بھی بتاتا ہے۔

ترجمہ : اللہ کے نام کے ساتھ جو بے انتہا رحم کرنے والا، بِن مانگے دینے والا (اور) بار بار رحم کرنے والا ہے۔ تُو کہہ دے کہ میں (چیزوں کو) پھاڑ کر (نئی چیز) پیدا کرنے والے ربّ کی پناہ مانگتا ہوں۔ اُس کے شر سے جو اس نے پیدا کیا۔ اور اندھیرا کرنے والے کے شر سے جب وہ چھا چکا ہو۔ اور گِرہوں میں پھونکنے والیوں کے شر سے۔ اور حاسد کے شر سے جب وہ حسد کرے۔ (سورۃ الفلق)

ترجمہ: اللہ کے نام کے ساتھ جو بے انتہا رحم کرنے والا، بِن مانگے دینے والا (اور) بار بار رحم کرنے والا ہے۔تُو کہہ دے کہ میں انسانوں کے ربّ کی پناہ مانگتا ہوں۔انسانوں کے بادشاہ کی۔ انسانوں کے معبود کی۔بکثرت وسوسے پیدا کرنے والے کے شرّ سے، جو وسوسہ ڈال کر پیچھے ہٹ جاتا ہے۔ وہ جو انسانوں کے دلوں میں وسوسے ڈالتا ہے۔ (خواہ) وہ جنوں میں سے ہو (یعنی بڑے لوگوں میں سے) یا عوام النا س میں سے۔ (سورۃ الناس)

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
’’سورۃ الفلق اور سورۃ الناس یہ دونوں سورتیں سورہ تبت اور سورہ اخلاص کے لئے بطور شرح کے ہیں اور ان دونوں سورتوں میں اس تاریک زمانہ سے خدا کی پناہ مانگی گئی ہے جب کہ لوگ خدا کے مسیح کو دکھ دیں گے اور جب عیسائیت کی ضلالت تمام دنیا میں پھیلے گی۔‘‘

(تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد17 صفحہ218)

حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ سورہ الناس کے بارے میں فرماتے ہیں :
’’اس سورۃشریفہ میں یہ بھی ظاہر ہوتا ہے۔ کہ آخری زمانہ کا فتنہ محض دعا کے ذریعہ سے دور ہو گا۔ چنانچہ اس کی تائید میں حدیث شریف میں آیا ہے۔ کہ کفار مسیح موعود کے دم سے مریں گے۔ اور حضرت مرزا صاحب سے میں نے بارہا یہ سنا ہے۔ آپ فرمایا کرتے ہیں کہ اس قدر فتنہ کا مٹانا ظاہری اسباب کے ذریعہ سے نہیں ہو سکتا۔ ہمارا بھروسہ صرف ان دعاوں پر ہے جو کہ ہم اللہ تعالیٰ کے حضور میں کرتے ہیں۔‘‘

(حقائق الفرقان از حضرت خلیفۃ المسیح الاول ؓ، صفحہ582)

حضرت مسیح موعود ؑسورۃ الناس کی ہی تفسیر میں ایک معالج ہمیں ہماری بیماریوں کے لیے بتاتے ہوئےفرماتے ہیں: ’’رب کے لفظ میں اشارہ ہے کہ گو حقیقی طور پر خدا ہی پرورش کرنے والا اور تکمیل تک پہنچانے والا ہے لیکن عارضی اور ظلّی طور پر دو اور بھی وجود ہیں جو ربوبیت کے مظہر ہیں۔ ایک جسمانی طور پر اور دوسرا روحانی طور پر۔ جسمانی طور پر والدین ہیں اور روحانی طور پر مرُشد اور ہادی ہے۔ پھر آگے چل کر مزید فرماتے ہیں: چونکہ مرشد روحانی خدا تعالیٰ کے منشاء کے موافق اس کی توفیق و ہدایت سے تربیت کرتا ہے اسی لئے وہ بھی اسی میں شامل ہے پھر دوسرا ٹکڑا اس میں مَلِکِ النَّاس ہے یعنی تم پناہ مانگو خدا کے پاس جو تمہارا بادشاہ ہے۔ یہ ایک اور اشارہ ہے تا لوگوں کو متمدن دنیا کے اصول سے واقف کیا جاوے اور مہذب بنایا جاوے۔‘‘

(روئیداد جلسہ دعا، روحانی خزائن جلد15 صفحہ602-604)

علاج اور طبیب

محترم قارئین حضرت مسیح موعودؑ نے ہمیں روحانی طور پر مرُشد اور ہادی کی طرف راہنمائی فرمائی ہے۔ اور ہمارے مرشد موجودہ دور میں تو صرف خلیفۃ المسیح ہیں جو اللہ اور رسول کی طرف بلانے والا اور نجات کے طریق سکھانے والا ہے۔ خاکسار حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ایک، اور جیسا کہ مضمون میں ثابت ہوا کہ موجودہ دور میں، میں جدید ٹیکنالوجی میڈیا و سوشل میڈیا کا غلط اور بنا ادراک کے استعمال بے شک ایک شیطانی کام ہے۔ ایسے شیطانی حملوں سے بچنےکے لئے خلافت سے تعلق کی اہمیت بہت بڑھ جاتی ہے۔ اس تعلق میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے احباب جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:
’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مومنین کو شیطان کے حملوں سے بچانے کی کس قدر فکر ہوتی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کس طرح اپنے صحابہ کو شیطان سے بچنے کی دعائیں سکھاتے تھے اور کیسی جامع دعائیں سکھاتے تھے، اس کا ایک صحابی نے یوں بیان فرمایا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یہ دعا سکھلائی کہ۔

’’اے اللہ! ہمارے دلوں میں محبت پیدا کر دے۔ ہماری اصلاح کر دے اور ہمیں سلامتی کی راہوں پر چلا۔ اور ہمیں اندھیروں سے نجات دے کر نور کی طرف لے جا۔ اور ہمیں ظاہر اور باطن فواحش سے بچا۔ اور ہمارے لئے ہمارے کانوں میں، ہماری آنکھوں میں، ہماری بیویوں میں اور ہماری اولادوں میں برکت رکھ دے اور ہم پر رجوع برحمت ہو۔ یقیناً تُو ہی توبہ قبول کرنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے۔ اور ہمیں اپنی نعمتوں کا شکر کرنے والا اور ان کا ذکر خیر کرنے والا اور ان کو قبول کرنے والا بنا اور اے اللہ ہم پر نعمتیں مکمل فرما۔‘‘

(سنن ابو داؤد کتاب الصلاۃ باب التشہد حدیث969)

رَبَّنَا لَا تُزِغۡ قُلُوۡبَنَا بَعۡدَ اِذۡ ہَدَیۡتَنَا وَ ہَبۡ لَنَا مِنۡ لَّدُنۡکَ رَحۡمَۃً ۚ اِنَّکَ اَنۡتَ الۡوَہَّابُ

(آل عمران:9)

اے ہمارے ربّ! ہمارے دلوں کو ٹیڑھا نہ ہونے دے بعد اس کے کہ تو ہمیں ہدایت دے چکا ہو۔ اور ہمیں اپنی طرف سے رحمت عطا کر۔ یقیناً تو ہی ہے جو بہت عطا کرنے والا ہے۔ آمین

(تحقیق وتحریر: طاہر احمد۔فن لینڈ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 24 جون 2021

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ