• 25 اپریل, 2024

سفر نامہ کچ گلی ٹریک

ہمارے کلاس فیلوز نے گرمیوں کی آمد پر ہائیکنگ پر جانے کا پروگرام بنایا۔ جس کے لئے کلاس کے سیکرٹری صاحب نے ہائیکنگ پر جانے کے خواہشمند طلباء کی فہرست بنائی اور کلاس نگران مکرم راجہ برہان احمد صاحب سے راہنمائی لی۔ جس کے بعد گروپ ممبران کی میٹنگ کال کی گئی۔ اس میٹنگ کے منٹس، ٹریک کا انتخاب،گروپ ممبران کی تعداد، تواریخ سفر، سامانِ سفر و دیگر زاد راہ تھے۔

ٹریک کا انتخاب

ہائیکنگ کے لئے سب سے اوّل ٹریک کا انتخاب ضروری ہے۔ بعد مشاورت ہم نے کچ گلی ٹریک کا انتخاب کیا۔ جس کا حسن و جمال ملکہ پربت اور اس کے دامن میں موجود آنسو جھیل میں اور بھی بڑھ جاتا ہے۔ یہ جھیل تقریباً تیرہ ہزار فٹ سے زائد بلندی پر واقع ہے اور دنیا کی خوبصورت ترین جھیلوںمیں شمارہوتی ہے۔ ٹریک کے باقی علاقہ جات کی تفصیل سفر کی روداد میں آئے گی۔

گروپ ممبران کی تعداد

سترہ ممبران پر مشتمل گروپ فائنل ہوا۔ اس گروپ میں محترم کلاس نگران صاحب کے ساتھ پندرہ طلباء اور ایک دوست مکرم سیّدطاہر احمد سہیل صاحب ایم ٹی اے سٹوڈیو سے شامل تھے تا کہ سفر کی خوبصورتی اور یادوں کو کیمرہ کی آنکھ سے محفوظ کیا جا سکے۔ہمارا گروپ با لحاظ تعداد تو کافی بڑا تھا لیکن ہمیں اس کے فوائد دوران سفر حاصل ہوتے رہے۔ جیسا کہ ایک دوسرےکی حوصلہ افزائی، مختلف کاموں میں آسانی اور سواری کے لئے مکمل ویگن کرانے کی سہولت وغیرہ شامل تھے۔

تواریخ سفر

گروپ ممبران کی رائے میں جون 2007ء کے دوسرے ہفتہ کی تواریخ مناسب ٹھہریں تا کہ کراچی اور اندروں سندھ سے تعلق رکھنے والے طلباء کو گھروں پر جانے کے بعد دوبارہ پنجاب کا سفر نا کرنا پڑے جو کہ وقت اور رقم کے خرچ کو بڑھاتا تھا۔

زاد راہ

سفر کے لئے زاد راہ کا ہونا بہت اہم امر ہے۔ سامان میں تین اقسام کی اشیاء کا ہونا ضروری ہے۔ اوّل: اشیاء خور و نوش مثلاً بھنے ہوئے چنے، خشک دودھ، پتی، چینی، بسکٹس، شربت، گلوکوز اور کھانا پکانے کے برتن و چولھا وغیرہ شامل ہوتے ہیں۔دوم:رہائش کا سامان جیسے کیمپ، میٹرس وغیرہ۔ سوم:سرد موسم اور بارش سے بچاؤ کا سامان جیسے جیکٹس، رین کوٹ، گرم کپڑے اور سلیپنگ بیگ وغیرہ۔

احساسات

جب بھی انسان پاکستان میں موجود شمالی علاقہ جات جاتا ہے اور قدرت کے حسین مناظر کو بچشم خود دیکھتا ہے تو بہت دلچسپ و لطیف احساسات دل و دماغ پر حاوی ہو جاتے ہیں۔

سب سے پہلا احساس تو یہ ہوتا ہے کہ دل از خود خدا تعالیٰ کی حمد کے ترانے گاتا ہے۔

؎ ہے عجب جلوہ تری قدرت کا پیارے ہر طرف
جس طرف دیکھیں وہی رہ ہے ترے دیدار کا

دوسرا:برف کاسفید لباس اوڑھے بلند و بالا پہاڑ، گہری کھائیاں، جوش سے بہتے چشمے، دریا اور سبزہ کو دیکھ کر انسان کو اس کائنات میں اپنے عجز و ضعف اور اس دنیا میں موجود دیگر نظام کی اہمیت و ضرورت کا اندازہ ہوتا ہے۔

؎ بنا سکتا نہیں اک پاؤں کیڑے کا بشر ہر گز
تو پھر کیونکر بنانا نورِ حق کا اس پہ آساں ہے

تیسرا: دل خدا تعالیٰ کا شکر بجا لاتا ہے اور دعا گو بھی ہوتا ہے کیونکہ اس نے ہمیں ملک پاکستان میں پیدا کر کے اس ملک سے جوڑا جو کہ قدرتی وسائل اور خوبصورتی سے مالا مال ہے۔

؎ خدا کرے میری ارض پاک پر اترے
وہ فصلِ گل جسے اندیشہء زوال نہ ہو

وڈیو ریکارڈننگ

ہمارے کچ گلی ٹریک کے سفر کو ایم ٹی اے ٹیم نے وڈیو ریکارڈنگ کے ذریعہ مزید یاد گاربنا دیا۔ اس پروڈکشن کی میزبانی مکرم راجہ برہان احمد صاحب نے کی جبکہ ریکارڈنگ کا کام مکرم سیّد طاہر احمد سہیل صاحب نے سر انجام دیا۔ اس ریکارڈنگ کو ایڈٹنگ کے بعد ایم ٹی اے پر ناظرین کے ازدیاد علم اور تفریح کے لئے نشر کیا گیا۔

آغاز سفر

اللہ تعالیٰ کے فضل سے سفر کا آغاز جامعہ احمدیہ جونیئر سیکشن ربوہ سے دعا، حضور انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کو دعائیہ خط اور صدقہ کے ساتھ ہوا۔ ہمارا سفر تین حصوں پر مشتمل تھا۔ پہلا بذریعہ بس راولپنڈی تک پہنچنا۔ دوسرا ویگن اور جیپ کے ذریعہ پہاڑوں کے دامن تک پہنچنا اور تیسرا پیدل سفر کرتے ہوئے پہاڑوں کو عبورکرنا۔

رودادِ سفر

ہمارا کچ گلی ٹریک کا سفر تقریبا ً سات دنوں میں مکمل ہوا۔ ربوہ سے رات دس بجے روانگی کے بعد ہم چنیوٹ پہنچے۔ جہاں سے ہم بَس میں سوار ہو کر صبح 4:15بجے راولپنڈی پہنچے۔

پھر ہم پبلک ٹرانسپورٹ پر حویلیاں، ایبٹ آباد سے ہوتے ہوئے مانسہرہ پہنچے۔ہم نے یہ سفر قراقرم ہائی وے پر طے کیا جو کہ پاکستان کو ہمسایہ ملک چائنا سے ملاتا ہے۔

بالاکوٹ

مانسہرہ سے ہم بالاکوٹ کی طرف روانہ ہوئے۔ بالا کوٹ سطح سمندر سے تقریباً 3226فٹ بلند ہے۔ بالاکوٹ وادی کاغان کا دروازہ ہے۔ بالا کوٹ کے معنی بلند قلعہ کےہیں۔ اس کے ارد گرد پہاڑی سلسلے ہیں۔ بالا کوٹ کی ایک وجہ شہرت یہاں پر موجود حضرت سیّد احمد بریلوی شہید کا مزار بھی ہے۔اس راستہ میں ہم نے دریائے کنھار کو اپنے ساتھ بہتا دیکھا۔ اس دریا میں دیگر چھوٹی بڑی آبشاروں کا پانی شامل ہوتا ہے۔ یہ دریا جھیل لو لو سر سے نکلتا ہے۔ کنھار دو لفظوں کا مجموعہ ہے کوہ یعنی پہاڑ اور نھار یعنی نہریں۔ بالاکوٹ میں ہم نے پہاڑوں میں کٹاؤ دیکھا جس کی وجہ سن 2005ء میں بالاکوٹ میں آنے والا زلزلہ تھا۔

مہانڈری

بالا کوٹ سے ہم نے مہانڈری کا سفر کیاجو کہ 45 کلو میٹر بنتا ہے۔ مہانڈری کے نام کے متعلق دلچسپ بات یہ ہے کہ مہانا ہندی زبان میں دو دریاؤں کو ملانے والی جگہ کو کہتے ہیں۔ مہانڈری کے مقام پر دریائے مَنُور جو کہ آنسو جھیل سے نکلتا ہے دریا ئے کنھار کے ساتھ مل جاتا ہے۔ مہانڈری انہی دو دریاؤں کے سنگم پر ایک خوبصورت مقام ہے۔

مَنُور بیلہ

منور بیلہ جو کہ مہانڈری سے 11کلومیٹر پر ہے ہمارا پہلی رات قیام ہوا۔اس جگہ ہم نے کیمپنگ کے ذریعہ آرام کیا۔ چکن کڑاہی کو اپنا عشائیہ بنایا جبکہ منور بیلہ کے ساتھ بہتے دریائے منور نے ہماری پانی کی ضرورت پوری کی۔منور بیلہ میں مقامی افرادنے لسی اور مکئی کی روٹی ہمیں تحفۃً پیش کی۔

مَنُور بنگلہ

منور بیلہ سے ہم نے اپنی ٹریکنگ کا آغاز کیا اور بیاڑی سے ہوتے ہوئے ہم منور بنگلہ پہنچے۔منور بنگلہ قیام پاکستان سے پہلے کا قائم ہے اور یہاں سیاح آکر قیام کرتے ہیں۔ ہم نے بھی اپنے سفر کی دوسری رات کے قیام کے لئے منور بنگلہ کا انتخاب کیا۔ یہاں پر محکمہ جنگلات کی طرف سے بنگلہ تعمیر کیا گیا ہے جو منور بنگلہ کی وجہ تسمیہ بنا۔ منور بنگلہ میں ہم نے پکوڑے اور دال چاول کے ذریعہ اپنی بھوک مٹائی۔

ڈھیر کا میدان

منور بنگلہ سے ہم نے اپنے ساتھ ایک گائیڈ لیا اور ڈھیر کے میدان پہنچے۔ اس میدان کی اونچائی تقریباً 12500فٹ ہے۔ ڈھیر کا میدان ہمارا تیسری رات قیام ہوا اور بون فائر سے لطف اندوز ہوئے۔رات کا کھانا آلو والا پلاؤ تھا۔چاول تھے کے گلنے کو نہیں آتے تھے۔ یہاں پر اکثر طلباء کو سر درد کی شکایت ہوئی۔

آنسو جھیل

آنسو جھیل اس ٹریک کا خوبصورتی کے حوالہ سے نکتہ عروج ہے۔ اس کی اونچائی سطح سمندر سے 13000فٹ ہے۔ آنسو جھیل تک پہنچنے کے لئے تین راستے آتے ہیں۔ ایک مذکورہ ٹریک جس پر ہم نے سفر کیا۔ دوسرا کاغان ویلج سے اور تیسرا جھیل سیف الملوک سے آتا ہے۔ یہ جھیل ملکہ پربت کے دامن میں موجود ہے۔ ملکہ پربت سطح سمندر سے 17360 فٹ اونچی ہے۔ آنسو جھیل پر مقامی بچوں نے ھند کو زبان میں لوک نغمہ سنایا جس نے سما باندھ دیا۔اس مقام پر تمام طلباء برف پر سکیٹنگ سے لطف اندوز ہوئے۔

جھیل سیف الملوک

آنسوجھیل کے بعدہماراسیف الملوک کی طرف اترائی کا سفر تھا۔ یہ سفر ہم نے کچ گلی یعنی دو پہاڑوں کے درمیانی راستہ سے طے کیا۔جھیل سیف الملوک کسی تعارف کی محتاج نہیں کیونکہ ناران کا سفر کرنے والے سیاح بذریعہ جیپ اس کو دیکھنے ضرور آتے ہیں۔

واپسی کا سفر

جھیل سیف الملوک سے ہوتے ہوئے ناران میں رات قیام کیا۔ قیمہ کباب جسے چپل کباب بھی کہا جاتا ہے ناران کی سوغات ہے۔ لھذا ہم نے بھی اسی کو منیو کا حصہ بنایا۔ اس کے بعد ایک رات مری میں قیام کیا اور اسلام آباد سے ہوتے ہوئے ربوہ پہنچے۔

اختتامیہ و شکرانہ

اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمارا یہ سفر بخیر خوبی اختتام کو پہنچا اور ہم اپنی منزل ربوہ پہنچے۔خدا تعالیٰ کا یہ فضل بھی ہمارے شامل حال رہا کہ سفر کے دوران کوئی بھی فرد بیمار یا زخمی نہیں ہوا۔ ہائیکنگ کو جامعہ احمدیہ کی غیر نصابی سرگرمیوں میں شامل کرنے کا جو مقصد تھا وہ اس سفر میں پورا ہوتا نظر آیا۔ کیونکہ اس سفر سے ہم تمام طلباء جہاں ذہنی اور جسمانی تازگی محسوس کر رہے تھے۔ وہیں پر ہماری انتظامی صلاحیت، اعتماد، جفا کشی کی عادت اور وسائل کی کمی کے باوجود صبر و استقامت کے ساتھ مل کر چلنے کی صفت پروان چڑھ رہی تھی۔اس موقع پرخاکسار اپنے محترم استاد راجہ برہان احمد صاحب کا بھی شکریہ ادا کرتا ہے کہ انہوں نے ہر موقع پر ہماری حوصلہ افزائی اور راہنمائی فرمائی۔ فجزاھم اللّٰہ تعالیٰ أحسن الجزاء۔ یہ سفر نا صرف میری زندگی کا یاد گار سفر ہے بلکہ ہم طلباء جب بھی اس سفر کو یاد کرتے ہیں تو مسکراہٹیں ہمارے چہروں پر نظر آتی ہیں۔ ہمارا یہ سفر آنسو جھیل کا تھا تواس سفر کے اختتام پر بھی ہم سب کی آنکھوں میں آنسو تھے لیکن یہ آنسو خوشی اور شکرانے کے تھے۔

(ابن زاہد شیخ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 24 جون 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ