• 6 مئی, 2024

ذبحِ عظیم اور عید الاضحی کی تقریب

قرآن کریم کی سورۃ الصافات میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس رؤیا اور اس کو عملی جامہ پہنانے کا تفصیل سے ذکر ہے جس کے نتیجے میں ذبح عظیم کا واقعہ رونما ہؤا۔

حضرت ابراہیم نے دعا کی تھی
’’اے میرے رب مجھے صالحین میں سے (وارث) عطا کر۔‘‘

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’پس ہم نے اسے ایک بردبار لڑکے کی بشارت دی۔پس جب وہ اس کے ساتھ دوڑنے پھرنے کی عمر کو پہنچا ابراہیم نے کہا اے میرے پیارے بیٹے یقیناً میں سوتے میں دیکھتا ہوں کہ میں تجھے ذبح کر رہا ہوں پس غور کر تیری کیا رائے ہے؟ بیٹے نے کہا اے میرے باپ وہی کر جو تجھے حکم دیا جاتا ہے یقیناً اگر اللہ چاہے گا تو مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائے گا۔پس جب وہ دونوں رضامند ہو گئے اور اس نے اسے پیشانی کے بل لٹا دیا تب ہم نے اسے پکارا۔ اے ابراہیم! یقیناً تو اپنی رؤیا پوری کرچکا ہے یقیناً اسی طرح ہم نیکی کرنے والوں کو جزاء دیا کرتے ہیں۔ یقیناً یہ ایک بہت کھلی کھلی آزمائش تھی۔ (و فدینہ بذبح عظیم) اور ہم نے ایک ذبح عظیم کے بدلے اسے بچا لیا‘‘۔

(الصافات آیات 101-108)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’…. دیکھو ابراہیم پر کیسا ابتلاء آیا اس نے اپنے ہاتھ میں چھری لی کہ اپنے بیٹےکو ذبح کرے اور اس چھری کو اپنے بیٹےکی گردن پر اپنی طرف سےپھیر دیا مگر آگے بکرا تھا – ابراہیم امتحان میں پاس ہوا اور خدا نے بیٹے کو بھی بچا لیا تب خدا تعالیٰ ابراہیم پر خوش ہؤا کہ اس نے اپنی طرف سے کوئی فرق نہ رکھا۔یہ خدا تعالیٰ کا فضل تھا کہ بیٹا بچ گیا ورنہ ابراہیم نے اس کو ذبح کردیا تھا اس واسطے اس کو صادق کا خطاب ملا۔

توریت میں لکھا ہے کہ خدا تعالیٰ نےفرمایا اے ابراہیم تو آسمان کے ستاروں کی طرف نظر کر – کیا تو انہیں گن سکتا ہے؟ اسی طرح تیری اولاد بھی نہ گنی جائےگی۔تھوڑے سےوقت کی تکلیف تھی وہ تو گزر گئی اس کے نتیجہ میں کس قدر انعام ملا۔آج تمام سادات اور قریش اور یہود و دیگر اقوام اپنے آپ کو ابراہیم کا فرزند کہتے ہیں۔‘‘

(تفسیر مسیح موعودجلد7صفحہ 157)

انسانی قربانی کی رسم کا خاتمہ

حضرت خلیفۃ المسیح اولؓ فرماتے ہیں:
’’سیریا (شام) جانب شمالی عرب (جس میں بیت المقدس فلسطین ہے) کے ملک میں انسانی قربانی کا رواج تھا چنانچہ مسیحی تعلیم کی جڑھ بھی یہی ہے اسی بناء پر وہ خدا کے اکلوتے بیٹے کی قربانی پر ایمان لاتے ہیں ہند میں بلیدان کا رواج تھا۔ جے پور میں اب بھی اس جگہ روز بکرا ذبح ہوتا ہے۔حضرت حق سبحانہ نے حضرت ابراہیم کو ایک رؤیا دکھلائی کہ وہ اپنا بیٹا ذبح کرتے ہیں اس کا اعلان کیا اس پر تیار ہوگئے پھر بیٹے کی جگہ حسب تفہیم الہی بکرا ذبح کیا اور یہ سمجھایا کہ اس کی اصل یہ ہے کہ خدا کا مکالمہ پہلے ایسےرنگ میں ہوا کہ لوگ سمجھ نہیں سکے کہ بیٹے کی قربانی سے کیا مراد ہے اور اس طرح پراس بد رسم کا ایک راستباز کے عمل سے قلع قمع ہوا۔‘‘

(حقائق الفرقان جلد 3 صفحہ 475)

اسمٰعیل اور اسحاق

حضرت ابراہیم کے دوعظیم الشان بیٹوں کا ذکر قرآن شریف میں آتا ہے

اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ الَّذِیۡ وَہَبَ لِیۡ عَلَی الۡکِبَرِ اِسۡمٰعِیۡلَ وَ اِسۡحٰقَ ؕ اِنَّ رَبِّیۡ لَسَمِیۡعُ الدُّعَآءِ

(ابراہیم آیت40)

ایک دلچسپ بحث

’’حضرت عمر و علی و عباس و ابن مسعود اور کعب اورقتادہ اورسعید ابن جبیر اور مسروق اور عکرمہ اور ظہری سدی اور مقاتل رضی اللہ عنھم کہتے ہیں کہ اسحاق علیہ السلام کے ذبح کا حکم ہؤا تھا یہودی اور نصاری اور ایران والوں کا بھی یہی مذہب ہے اور توریت سفر پیدائش کے 22 باب میں بھی یہی ہے

اور ابن عباس اور ابن عمر اور سعید بن المصعب اور حسن بصری اورشعبی اور مجاہد و کلبی وغیرہ جم غفیر علماء کا یہ مذہب ہے کہ حضرت اسماعیل کے لئے حکم تھا۔

میرے نزدیک یہی ہے کہ دونوں فرزندوں کے لئے علیحدہ علیحدہ قربانی کا حکم ہوا ہو گا کیونکہ قرآن شریف میں حضرت اسمعیل کی نسبت قربانی کا حکم ہے اور توریت میں اسحاق کی نسبت‘‘۔

(فٹ نوٹ صفحہ 951-952 قرآن مجید مع ترجمہ و تشریح مرتبہ حضرت مولانا میر محمد سعید صاحب از درس قرآن حضرت حکیم مولوی نور الدین خلیفۃ المسیح الاول)

خطبہ الہامیہ

اسی واقعہ کی یاد میں عید الاضحٰی منائی جاتی ہے جو حج کے ساتھ منسلک ہے اس موقع پر ابراہیمی سنت کو زندہ رکھنے کے لئے جانور قربان کئےجاتے ہیں اس کی اصل روح کو سمجھنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ کا خطبہ الہامیہ ہے۔

عید الاضحٰی جو 11 اپریل 1900ء کو ہؤئی عید کی نماز ادا کرنے کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے نہایت فصیح و بلیغ عربی زبان میں ایک خطبہ ارشاد فرمایا جو خطبہ الہامیہ کے نام سے معروف و مشہور ہے اس کا ایک حصہ پیش خدمت ہے

’’اور مسلمان وہ ہے جس نے اپنا منہ ذبح ہونے کے لئے خدا تعالٰی کے آگے رکھ دیا ہو اور اپنے نفس کی اونٹنی کو اس کے لئے پیشانی کے بل اس کوگرا دیا ہو اور موت سے ایک دم غافل نہ ہو –

پس حاصل کلام یہ ہے کہ ذبیحہ اور قربانیاں جو اسلام میں مروج ہیں وہ سب اسی مقصود کے لئے جو بذل نفس ہے بطور یاد دہانی ہیں اور اس مقام کو حاصل کرنے کے لئے ایک ترغیب ہے….. ‘‘۔

(اردو ترجمہ صفحہ 46)

اسلام چیز کیا ہے خدا کے لئے فنا
ترک رضائے خویش پئے مرضئ خدا

٭…٭…٭

(انجینئر محمود مجیب اصغر)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 24 جولائی 2020

اگلا پڑھیں

Covid-19 عالمی اپڈیٹ 25 جولائی 2020ء