• 8 مئی, 2024

اے چھاؤں چھاؤں شخص تیری عمر ہو دراز

ڈائری عابد خان سے کچھ حصے
اے چھاؤں چھاؤں شخص تیری عمر ہو دراز

سیکیورٹی پر متعین کیپٹن کے تاثرات

Main Chamber میں شمولیت کے بعد، حضور انور نے سینیٹ کی کاروائی کو دیکھنا بھی پسند فرمایا اور official گیسٹ بک پر دستخط فرمائے۔

بعد ازاں (مخصوص) کیپٹن صاحب حضور انور کو ایک کمرے میں لے گئے جہاں آپ کے لئے ریفریشمنٹ کا انتظام کیا گیا تھا۔ اگلے چند منٹ حضور انور نے چائے نوش فرمائی اور کیپٹن صاحب سے کچھ گفتگو فرماکر اپنی گاڑی میں تشریف فرما ہوئے۔ اس ملاقات کے اختتام پر کیپٹن صاحب نے بتایا کہ کس طرح حضور انور کی میزبانی کرنا ا ن کے لئے باعث فخر اور صد افتخا ر تھا۔

پھر لوکل سیکرٹری امور خارجہ نے بتایا کہ جب وہ پہلی مرتبہ ان کیپٹن صاحب کو ملے تھے تو ان کا رویہ غیر دوستانہ تھا اور لوکل احمدیوں کو ملنے کے حوالہ سے وہ کچھ متذبذب معلوم ہوتے تھے تاہم حضور انور سے ملتے ہی ان کا رویہ یکسر بدل گیا۔

مکرم انصر جمیل صاحب سیکرٹری امور خارجہ نے بتایا کہ حضور انور سے ملنے کے بعد وہی کیپٹن صاحب یکسر بدلے ہوئے انسان تھے۔ انہوں نے فوراً اس بات کا اظہا ر کیا کہ وہ حضور انور سے کس قدر متا ثر ہوئے ہیں اور حضور انور کی موجودگی سے بے حد خوش ہیں ۔ یوں وہ جملہ معاملات میں نہایت دوستانہ برتاؤ کرنے لگے۔

اللہ تعالیٰ کے فضل سے حضور انور کا آئرش نیشنل پارلیمنٹ کا دورہ ہر لحاظ سے نہایت با برکت ثابت ہوا اور جماعت احمدیہ آئر لینڈ کی تاریخ میں یقیناً یہ ایک تاریخ ساز دن تھا۔

ایک غیر احمدی کے جذبات

اس دن صبح کے وقت مجھے ایک آئرش دوست مکرم Fintan Higgins (بعمر 40 سال) سے ملنے کا موقع ملا جو گزشتہ ایک ہفتہ سے مسجد میں بطور audio-visual contractor کے کام کر رہے تھے۔ وہ اپنے گزشتہ ایک ہفتے کے مسجد کے مشاہدہ اور خاص طور پر حضور انو رکو مسجد میں دیکھنے کی وجہ سے بہت متاثر تھے ۔ اپنے گزشتہ ہفتے کے مشاہد ہ کے بارے میں مکرم Fintan صاحب نے بتایا کہ گزشتہ چند دنوں میں احمدیوں کے ساتھ وقت گزارنا ایک زبردست تجربہ تھا۔ میں نے دیکھا کہ کس طرح احمدی ایک دوسرے کے ساتھ فیملی ممبرز کے طور پر پیش آتے ہیں ۔ خاص طور پر میں حضور (حضرت مرزا مسرور احمد صاحب) سے متاثر ہوا ہوں ۔بطور کیتھولک میں حضور کو صرف اللہ اور حضرت محمد(ﷺ) کا ہی نہیں بلکہ حضرت عیسیٰ کا نمائندہ بھی خیال کرتا ہوں۔

میں چالیس سال کاہوں اور گزشتہ 35 سال سے میں (صحیح) راستہ کی تلاش میں ہوں اور اب مجھے لگتا ہے کہ 35 سال کے بعد بالآخر مجھے وہ راستہ مل گیاہے۔ ہم عیسائی اس سے محروم ہیں اور یوں آپ احمدی کس قدر خوش قسمت ہیں کہ آپ کے پاس ایک خلیفہ ہے وہ آ پ کی راہنمائی فرماتا ہے۔ میں نے خود بھی نمازوں کے اوقات میں خلیفہ کی اقتداء میں نمازیں ادا کی ہیں ۔میرے اندر کچھ تھا جس نے مجھے حضور انور کی اقتداء میں نمازیں ادا کرنے پر مجبور کیا۔

بعد ازاں حضور انور نے از راہ شفقت مکرم Fintan صاحب سے ذاتی ملاقات فرمائی اور انہیں World Religions کانفرنس کے بارے میں ایک کتاب بطور تحفہ عطا فرمائی۔ مکرم Fintan صاحب نے حضور انور کے ساتھ تصویر بنوانے کی خواہش کا اظہار کیا جو حضور انور نے قبول فرمالی۔ مکرم Fintan صاحب سے ملاقات میرے لئے ایک شاندار تجربہ تھا اس حوالہ سے کہ خلافت کس طرح لوگوں کو متاثر کئے بغیر نہیں چھوڑتی۔ ہم میں سے چند احمدی اس نعمتِ عظمیٰ کی کما حقہ قدر نہیں کرتے جب آپ مشاہدہ کرتے ہیں کہ دوسرے حضور سے اور آپ کے پیغام سے کس عزت و احترام سے پیش آتے ہیں اور یوں آپ کو ہمیشہ خیال رہتا ہے کہ ہم کس قدر خوش نصیب ہیں کہ ہمیں خلافت نصیب ہے۔

جیساکہ مکرم Fintan صاحب نے بتایا کہ وہ گزشتہ 35 سال سے ایک صحیح راستہ کی تلاش میں تھے اور صرف حضور کو دیکھنے پر انہیں لگا جیسے انہیں وہ راستہ مل گیاہے۔

جماعت کے لئے حضور انور کی محبت کی مثال

ایم ٹی اے کی تصویر کے بعد دیگر گروپس جیسے لوکل عاملہ اور نیشنل مبلغین نے حضور انور سے تصویر بنانے کی درخواست کی ۔ جیساکہ ان مواقع پر بالعموم ہوتا ہے کہ جب لوگ ایسا موقع دیکھتے ہیں تو مزید گروپس آتے چلے جاتے ہیں اور حضور انور سے تصویر بنانے کی درخواست کرتے ہیں تاہم حضور انور نے ہر گروپ کو تصویر بنانے کی اجازت مرحمت فرمائی۔

بعد ازاں ایک دوست نے کہا کہ وہ دنیا کے کسی دوسرے لیڈر کے متعلق یہ خیال نہیں کر سکتا کہ وہ اپنے لوگوں کو اس قدر وقت دے جتنا حضور انور عطا فرماتے ہیں اور یقیناً میں بھی ان سے پوری طرح متفق تھا۔

ایک غم زدہ خاندان سے حضور انور کی محبت

حضور انور Galway سے شام 3:45 پر Dublin ہوٹل کے لئے روانہ ہوئے جہاں ہم نے آئرلینڈ میں ابتدائی دو راتیں گزاری تھیں۔ ہوٹل میں آمد پر میں نے دیکھا کہ ایک احمدی فیملی استقبالیہ میں حضور انور کا چشمِ پر نم سے انتظار کر رہی تھی۔ جب حضور انور ا پنی گاڑی سے باہر تشریف لائے تو آپ نے از راہ شفقت ہر فیملی ممبر سے ملاقات فرمائی جن میں دو بچے بھی شامل تھے۔ حضور انور نے نہایت محبت اور شفقت سے ان سب کو شرف ملاقات بخشا۔

یہ منظر دیکھنے پر میں نے اندازہ لگایا کہ یہ فیملی شاید کسی غم اور تکلیف سے گزری ہے اور پھر پتہ چلا کہ آئر لینڈ جماعت کی ایک (معمر) ممبر لجنہ ایک دن قبل کینسر کی لمبی تکلیف سے گزرنے کےبعد وفات پا گئی تھیں ۔ بعد ازاں مجھے پتہ چلا کہ وہ کس قدر بیمار تھیں تاہم چند روز قبل اتنی بیماری کے باوجود وہ ویل چیئر پر حضور انور کو ملنے آئی تھیں۔

یہ واقعہ احمدیوں اور خلافت کے دوہرے محبت کے رشتے کی ایک اعلیٰ مثال ہے۔ ایک نہا یت بیمار خاتون جن کی زندگی کے دو یا تین دن باقی تھے وہ محض اپنےخلیفہ کو ملنے کے لئے تشریف لائی تھیں تاکہ اپنے بچوں کے لئے دعا کی درخواست کر سکیں۔ پھر جب ان کی وفات کی خبر حضور انور تک پہنچی تو آپ نے اس قدر محبت اور شفقت سے ان غمزدہ احباب سے ملاقات فرمائی۔ بالآخر لندن واپسی پر حضور انور نے جمعہ کی ادائیگی کے بعد ان کی نماز جنازہ بیت الفتوح میں پڑھائی اور نہایت شفقت سے ان کی جماعتی خدمات کا تذکرہ فرمایا۔

ایک منفرد تقریب آمین

ظہر اور عصر کی نماز کی ادائیگی کے بعد حضور انور نے چند احمدی بچوں کی تقریب آمین میں شمولیت اختیار فرمائی۔ یہ ایک منفرد آمین کی تقریب تھی کیونکہ جو آخری دوست اس آمین میں شامل ہوئے وہ بچپن کی عمر میں نہ تھے بلکہ 30 سال سے زائد عمر کے ایک دوست تھے۔ ان کا نام مکرم Yusuf Pender صاحب تھا جنہوں نے 2005ء میں احمدیت قبول کی تھی اور چند سال قبل ہی قرآن کریم کا دور ختم کیا تھا۔

حضور انور کی خوشی خوب عیاں تھی کہ مکرم Yusuf صاحب نے قرآن کریم کی تلاوت مکمل کرلی ہے اور یوں نہایت شفقت سے ان کو دیکھ کر ماشاء اللہ فرمایا۔

(دورہ حضور انورآئر لینڈستمبر 2014ء)

(مترجم : ابو سلطان)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 23 جولائی 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ