سیّدنا حضرت اقدس خلیفۃ المسیح الثانی مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نےجلسہ سالانہ 1932ء میں اس مضمون اور حضرت شیخ خادم حسین صاحبؓ کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار ان لفاظ میں فرماتے ہیں:
’’دوسری کتاب تحقیق واقعات کربلا ہے جو ہمارے دوست اور میرے استاد منشی خادم حسین صاحب خادم بھیروی نے لکھی ہے اور بہت اعلیٰ درجہ کی کتاب ہے ۔خادم صاحب کا طرز تحریر ایسا ہے کہ شیعہ کبھی یہ نہیں کہہ سکتے کہ انہوں نے سخت لکھا۔ بلکہ اعتراف کرتے ہیں کہ ان کا کلام بہت نرم اور میٹھا ہوتا ہے وہ جو کچھ لکھتے ہیں احمدیت کی روشنی میں لکھتے ہیں اور خوب لکھتے ہیں‘‘۔
(الفضل 3 جنوری 1933ء)
[’’تحقیق واقعات کربلا‘‘ کے عنوان سے یہ مضمون 1911ء کے تشحیذالاذہان کی جلد نمبر 6 میں شائع ہوا تھا یہ حضرت شیخ خادم حسین صاحب خادمؓ کا تحریر فرمودہ ہےجو قارئین الفضل کے ازدیاد ایمان کے لئے شائع کیا جارہا ہے۔ (ادارہ)]
ہر ایک واقعہ کے وقوع سے پیشتر ا س کے کچھ نہ کچھ بواعث اور اسباب ہوتے ہیں اور جب تک کہ کسی واقعہ کے ابتدائی اسباب کا کافی علم نہ ہو بِلا سوچے سمجھے اس واقعہ کے مخالف یا موافق رائے قائم کرلینا عقلمندی اور انصاف کے خلاف ہوتا ہے۔ واقعہ ہائلہ کربلا بھی ایک سچا او ر تاریخی واقعہ ہے۔ اسکے افسوسناک وقوع سے پیشتر اس کے بھی کئی اسباب پیدا ہو چکے تھے جن کا معلوم کرنا نہایت ضروری ہے۔ بزرگان ملّت کی یہ رائے ہے کہ یہ ایک ملکی واقعہ ہے اور اس کو مذہب اسلام سےکچھ تعلق نہیں ہے ۔ برخلاف اس کے شیعہ صاحبان کہتے ہیں کہ اسلام کی تکمیل ہی شہادت امام مظلوم علیہ السلام سے ہوئی۔ چنانچہ ان کا ایک شاعر کہتا ہے۔
دین است حسینؓ و دین پناہ است حسینؓ
شاہ ہست حسینؓ و پادشاہ ہست حسینؓ
سرداد و نہ داد دست در دست یزید
حقا کہ دلیل لا الٰہ ہست حسینؓ
قبل اس کے کہ خاکسار اپنی رائے کا اظہار کرے بہتر ہوگا کہ اسباب واقعہ مذکورہ کو شیعہ کی کتابوں سے تلاش کیا جائے حسن اتفاق سے مجھے ایک ایسی کتاب مل گئی ہے جس کے مصنف کی بابت کہا گہا ہے کہ وہ خود معرکہ کربلا کے وقت زندہ تھا۔ اس کتاب کا نام مقتل ابو مخنّف ہے جو خود مصنف کے نام پر مشہور ہے۔ افسوس ہے کہ ہمارے ملک کے شیعہ صاحبان نے مرزا دبیر اور میر انیس کے مرثیوں کو آسمانی نوشتے سمجھ رکھا ہے اور جو ضعیف اور موضوع روایات ان بزرگوں نے نظم فرمائیں۔ ان کو اسقدر وقعت دے دی ہے کہ اب جو کوئی ان کے برخلاف لکھے خواہ ان کی اپنی کتابوں سے ہی استدلال کیا جائے معتبر و مستند نہیں مانتے۔ عوام کا تو کیا ذکر، ان کے علماء اور اہل قلم بھی اصل روایات کو ظاہر نہیں کرتے۔ خدا جانے اس اخفاء اور اغماض و تجاہل عارفانہ کا باعث کیا ہے؟
اول ابو مخنف کے متعلق جاننا ضروری ہے کہ کس پایہ کا وقائع نگار ہے مؤرخ ناسخ التواریخ فرماتے ہیں۔ ’’و ابو مخنف خود وراں ہنگامہ حاضر و ناظر بود چہ ابو مخنف کنیت لوط بن یحییٰ است۔ و یحییٰ در شمار اصحاب امیرالمومنین علیہ السلام است‘‘۔ دیکھو ناسخ التواریخ جلد ششم کتاب دوم صفحہ 133مطبوعہ ایران
قبل اس کے کہ اسباب شہادت کو ابو مخنف کے مقتل سے عرض کیا جاتا ہے۔ تھوڑا سا ذکر کوفہ اور اہل کوفہ کا ضروری ہے کیونکہ شہادت امام مظلوم کے باعث کوفی ہی ہوئے تھے۔
معزز ناظرین کو معلوم ہو کہ حضرت عمرؓ کی خلافت میں کوفہ اور بصرہ مسلمانوں کے لشکر گاہ تھے۔ اور دونوں شہر حضرت عمرؓ نے ہی آباد کئے تھے۔ پہلے تینوں خلفائے رسولﷺ مدینۃ الرسول میں ہی اپنی اپنی نوبت پر خلافت کرتے رہے۔ برخلاف اس کے جناب علیؓ نے مدینہ کو چھوڑ کر کوفہ کو دارالخلافہ بنا لیا۔ خدا جانے دراصل اس کی کیا وجہ تھی؟۔ مگر جیسا کہ واقعات سے پتہ چلتا ہے اس کی وجہ یہ تھی کہ کوفہ والوں کو اہل مصر کی طرح آنجناب کے ساتھ شہادت حضرت عثمانؓ سے پہلے کا قدرتی اُنس تھا۔ اور اس سابقہ تعلق نے ہی تقاضا کیا ہوگا کہ جناب علیؓ نے مدینہ کو چھوڑ دیا۔ اس وجہ سے اگر کوفہ کو شیعیان کی پہلی بستی کہا جائے تو بےجا نہ ہوگا۔ حضرت علیؓ کو کوفیوں کی وفاداری اور شجاعت پر بھی شروع میں پورا بھروسہ تھا۔ چنانچہ نہج البلاغۃ میں جناب علیؓ کا ایک خط مندرج ہے جو بوقت جنگ جمل جو حضرت عائشہؓ کے ساتھ بصرہ میں ہوا۔ اور جناب علیؓ کو اپنا جرار لشکر تیار کرنے کی ضرورت درپیش آئی تو ان کوفیوں کو دعوت فرماتے ہوئے ان کو ’’جبہۃ الانصار‘‘ و ’’سنام العرب‘‘ کر کے خطاب فرمایا تھا جس کے معنی مددگاروں کی پیشانی اور عرب کی کوہان ہے۔ پیشانی کو جسمِ انسانی میں جو رتبہ اور شرف دیا گیا ہے وہ ظاہر ہے۔ گویا کوفیوں کو اپنے انصار و مددگاروں کا ماتھا فرمایا ہے۔ اور سنام کے معنی اونٹ کی کوہان کے ہیں جو تمام جسم شُتر میں بلند تر مقام ہے گویا کوفی تمام اقوام عرب میں یا ملک عرب میں اس طرح معلوم دار اور رفیع المنزلت ہیں جیسے اونٹ کی کوہان ہوتی ہے۔ اصل عبارت خط مذکورہ کی یوں شروع ہوتی ہے: من کتاب لہ علیہ السلام لاھل الکوفہ عنہ مسیّرہ من المدینۃ الی البصرہ من عبداللہ علی امیر المومنین الیٰ اھل الکوفۃ جبھۃ الانصار و سنام العرب۔ الخ دیکھو نہج البلاغۃ مطبوعہ بیروت کتاب مراسلات صفحہ 3۔ 2
لیکن افسوس ہے کہ آنجناب کا یہ حسن ظن کوفیوں کے متعلق زیادہ عرصہ تک قائم نہ رہا۔ کیونکہ لشکر شام کے ساتھ معرکے ہوئے تو یہ لوگ پرلے درجہ کے بزدل اور بدعہد ثابت ہوئے ۔ ان کمبختوں نے حضرت علیؓ کاناک میں دم کردیا۔ چنانچہ نہج البلاغہ میں دوسرے موقعہ پر انہی کوفیوں کے حق میں آنجناب فرماتے ہیں:کہ واللہ ! میں پسند کرتا ہوں کہ معاویہؓ اپنے لشکریوں کے عوض میں تم کو مجھ سے درہم و دینار کے تناسب سے بدلا لے۔ یعنی وہ اپنا ایک آدمی مجھ کو دے اور دس آدمی تمہارے مجھ سے لے لے۔ اصل عربی عبارت یوں ہے: لوددت واللّٰہ ان معاویۃ صارفنی بکم صرف الدینار بالدرھم فاخذ منی عشرۃ منکم و اعطانی رجلاً منھم یا اھل الکوفۃ۔ الخ دیکھو نہج البلاغۃ مطبوعہ بیروت صفحہ 92
انہی شیعیان کوفہ نے جناب علیؓ کو مجبور کیا کہ امیر معاویہ کے ساتھ ثالثوں کے ذریعے سے فیصلہ کرلیں تو بہتر ہے۔ ہم سے تو لشکر شام سے جنگ اور جدل کی زحمت برداشت نہیں کی جاسکتی۔ اگر ہماری بات نہ مانئے گا تو ہم آپ کی بیعت کو توڑ دیں گے۔ جس پر جناب علیؓ نے طوعاً وکرھاً ثالثی کو منظور فرمایا۔ لیکن ان کے منظور فرماتے ہی بہت سے شیعہ ان کی بیعت سے خارج ہو گئے اور اسی واسطے خارجی کہلائے۔ ان کمبختوں نے انارکسٹوں کی طرح آپس میں یہ سمجھوتہ کیا کہ جناب علیؓ اور امیر معاویہ دونوں کو قتل کردو۔ تا کہ آئے دن کے ملکی تنازعوں کی وجہ سے جو کُشت و خون کے دریا بہائے جاتے ہیں ان سے عام مسلمانوں کو امان ملے۔ چنانچہ جناب علیؓ اسی خارجی گروہ کے ایک بیباک ممبر عبدالرحمٰن ابن ملجم نامی کے بے رحم ہاتھ کی ضرب سے ایسے مجروح ہوئے کہ جانبر نہ ہوسکے۔
آپ کی شہادت کے بعد جناب امام حسن علیہ السلام خلیفہ ہوئے پولیٹیکل تنازعے ہنوز ختم نہیں ہوئے تھے۔ اور امام حسن ؑکو ایسا ہی کوفیوں کی مدد سے لشکر شام کا مقابلہ بدستور جاری رکھنا پڑا۔ لیکن آپ کو ایک دو موقعوں پر جلدی ہی ثابت ہوگیا کہ کوفیوں کے بھروسہ پر اجرائے جنگ و جدل بے سود اور مزید برآں مسلمانوں کی تباہی اور بربادی کا موجب ہے۔ اس واسطے آپ نے امیر معاویہ سے بغیر صلح و صفائی کے چارہ نہ دیکھا۔ آپ نے امر خلافت امیر معاویہ کو سونپ دیا۔ اور اپنے اور اپنے متعلقین کے گزارہ کے موافق سالانہ تنخواہ منظور فرمالی۔ یہ معاملہ محض زبانی طے نہیں گیا گیا بلکہ مستقل طور پر ایک عہد نامہ لکھا گیا ۔ جس میں کئی ایک ایسے شرائط قلمبند کئے گئے جن کی پوری کیفیت بہت قلیل ہواخواہوں کو بتلائی گئی اور جن کا مفہوم کچھ ایسا وسیع تھا جس سے خاندان نبوت کو دوبارہ حق خلافت کے لئے دعوٰی کرنے کی بمشکل گنجائش نکل سکتی تھی۔ لیکن جو کچھ مالک الملک کی مشیت میں تھا وہ عمل میں آگیا۔
تا ہم جب کوفیوں پر امام حسنؑ نے امیر معاویہ کے ساتھ صلح کر لینے کا ارادہ ظاہر فرمایا تو وہ سخت برہم ہوئے اور اس ارادہ کو امام کی بزدلی پر محمول کیا۔ پھر کیا تھا ان کمبختوں نے امام عالی مقام کی ایسی بے ادبی کی کہ خدا کی پناہ۔ کسی نےکہا: السلام علیک یا عار المومنین، کسی نے کہا: السلام علیک یا ذل المومنین۔ ایک شیطان نے آپ کے پائے مبارک کے تلے سے جائے نماز کھینچ لی۔ ایک نے ران مبارک پر خنجر کا وار کیا۔ یہ سب غصہ و غضب اس لئے تھا کہ امیر معاویہ سے کیوں صلح کرنے کا ارادہ ہے اور ہم شیعوں مومنوں کو کیوں ذلیل کیا۔ ان سب واقعات کی تصدیق کے لئے دیکھو کتاب جلاء العیون ملا باقر مجلسی حالات امام حسنؑ۔ اس تمہید کو ذہن نشین کر لینے سے آئندہ واقعات کربلا اور اس کے اسباب پر حاوی ہونے کے لئے ناظرین کو آسانی ہوگی۔ اب میں بخوف طوالت مقتل ابو مخنف سے جو عربی میں ہے، خلاصۃً ترجمہ کرتا جاؤں گا۔
ابن جندب الازدی اپنے باپ سے روایت کرتا ہے کہ کہا اس نے: میں اور سلیمان بن صرد الخزاعی اور مسیّب بن نجیۃ و سعید بن عبداللہ الحنفی جناب حسنؑ بن علیؓ ابن ابی طالب کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سلام عرض کیا۔ انہوں نے وعلیکم السلام کہا۔ اور یہ اُس وقت کا ذکر ہے جب کہ انہوں نے معاویہ بن ابی سفیان سے صلح فرمائی تھی اور آپ اس وقت کوفہ میں مقیم تھے۔ پس سلیمان نے ابتداء کلام امام سے کی اور عرض کیا: اے فرزند دختر رسولِ خدا۔ ہم حیران ہیں کہ آپ نے معاویہ سے بیعت کرلی حالانکہ آپ کے ہمراہ اہل کوفہ سے چالیس ہزار جان نثار موجود تھے۔ جو سب تنخواہ خور ہیں اور ایسے ہی انکی اولاد سوائے مددگاراں بصرہ و حجاز کے۔ اور آپ نے اپنی ذات کے لئے کوئی پختہ شرط عہد نامہ میں نہ لکھوائی اور عطیہ میں بھی معقول حصہ نہیں لیا۔ اگر میں شامل ہوتا تو ایک نوشتہ لکھواتا اور مشرق و مغرب والوں کی شہادت اس پر کرواتا کہ امر خلافت کے بعد اس کے آپ ہی مستحق رہتے لیکن آپ یونہی اس بات پر راضی ہوگئے۔ اُس نے آپ کو تھوڑا دیا اور خود بہت کچھ لے لیا۔ اس کے جواب میں مام علیہ السلام نے فرمایا : کہ میں ایسا شخص نہیں ہوں کہ ایک عہد کروں پھر اس کو توڑ دوں اور میں کوئی اقرار نہیں کرتا جس سے پھر پشیمان ہو کر رجوع کرلوں۔ اب جب خدا نے پھر ہم کو توفیق دی اور ہماری آرزوؤں کو پورا کیا تو میں ایسا کام نہیں کروں گا۔ لیکن تم ہمارے شیعہ ہو اور ہمارے مددگار اور ہمارے اہل مؤدت ہو (اصل عبارت: وانتم شیعتنا و انصارنا و اھل مؤدّتنا) اور علیٰ ہذا القیاس۔ اور وہ لوگ جو ہماری نصیحت کو سنیں اور ہماری خیر خواہی کریں اور ثابت قدمی دکھلائیں۔ اور اگر میں طالب دنیا و سلطنت ہوتا تو معاویہ مجھ سے شدت قوت و شجاعت میں زیادہ نہ تھا لیکن جو مصلحت مجھے مدنظر ہے اسکو تم نہیں جان سکتے۔ اور قسم ہے خدا کی کہ اس صلح سے مجھے سوائے تمہاری حفاظت، خون ریزی اور اصلاح حالت کے اور کوئی مقصود نہیں تھا۔ پس تم بھی راضی بقضاء اللہ ہو جاؤ اور اس کو تسلیم کرلو اور اپنے گھروں میں بیٹھے رہو اور قسم ہے کہ تم ہمارے شیعہ اور محب ہو۔ اور میں نے اپنے والد بزرگوار امیر المومنین علیؑ سے سنا۔ آپ فرماتے تھے کہ :فرمایا رسول خداﷺ نے کہ جو کوئی جس قوم سے محبت رکھتا ہے قیامت کے دن وہ اسی قوم کے ساتھ محشور ہوگا۔ اور تم ہمارے ساتھ ہو اور ہمارے زمرہ میں ہو۔ تم ہم سے جدا نہ ہونا، ہم تم سے جدا نہ ہوں گے۔
پھر سلیمان بن صرد نے کہا کہ: امام حسنؑ سے فارغ ہو کر ہم ان کے بھائی امام حسینؑ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور وہ اپنے نوکروں کو حکم دے رہے تھے کہ کوفہ سے مدینہ کی طرف کوچ کریں۔ امام حسین ہماری طرف تشریف لائے اور ہمارے ساتھ بیٹھ گئے اور ہم کو سلام کہا اور ہم نے بھی سلام کا جواب عرض کیا۔ امام حسینؑ نے ہمارے چہروں پر رنج و غم کے آثار ملاحظہ فرمائے اور پہلے ابتداءً کلام فرمائی اور کہا کہ، خدا کا شکر ہے جس کے کہ وہ لائق ہے۔ خدا کے کام اور خدا کی مشیّت جس طرح مقرر تھی پوری ہوگئی۔ خدا کی قسم اگر تمام جن و انس اکٹھے ہو کر مشیت ایزدی کو روکنا چاہیں تو وہ نہیں روک سکتے۔ خدا کی قسم ہے کہ مجھ کو موت آجاتی جبکہ حسنؑ نے مجھ کو مجبور فرمادیا۔ اور مجھ سے حلف لے لی کہ میں ذرا انحراف نہ کروں اور نہ سکون سے حرکت کروں۔ پس میں نے بھی مان لیا اور یہ ایسا معاملہ ہوا ہے گویا کاٹنے والے نے چھری سے میری ناک کاٹ ڈالی ہے۔ یا آرہ سے میرے جسم کے ٹکڑے اڑائے گئے ہیں۔ پس میں نے مجبور ہو کر ان کی بات کو مان لیا۔ اصل عبارت : لقد کنت طیب النفس بالموت حتی عزم علی الحسن و ناشد نی اللہ ان لا انفذ امرا ولا احرک ساکنا فاطعتہ و کانّما یجذع جاذع انفی السکاکین او یشرح لحمی بالمناشیر فاطعتہ کرھاً۔ اور فرمایا ہے خدا تعالےٰ نے عسیٰ ان تکرھوا شیئا الخ یعنی کہ قریب ہے کہ جس چیز کو تم ناپسند کرو وہی تمہارے لئے بہتر ہو اورقریب ہے کہ جس چیز کو تم پسند کرتے ہو۔ وہی تمہارے لئے شر کا باعث ہو اور خدا جانتا ہے تم نہیں جانتے۔
اب تو صلح ہوگئی۔ اور بیعت بھی ہوگئی تا کہ ہم منتظر رہیں۔ جب تک یہ شخص (معاویہ) زندہ ہے اور جب مر گیا تو ہم بھی دیکھیں گےاور تم بھی دیکھو گے (کہ کیا کرنا چاہئے)۔ پس ہم نے کہا: قسم ہے خدا کی اے ابا عبداللہ ہمیں کوئی رنج نہیں ، مگر محض آپ کی خاطر تا کہ آپ اپنے حق سے محروم نہ ہوں اور ہم تو آپ کے مددگار اور ہوا خواہ ہیں۔ پس جب آپ ہم کو دعوت کریں گے ہم قبول کریں گے اور جب آپ حکم کریں گے ہم اطاعت کریں گے۔
پھر سلیمان کہتا ہے :امام حسنؑ اور امام حسین علیہم السلام دونوں نے کوفہ سے کوچ فرمایا۔ اور ہم بھی ساتھ تھے تا کہ ان سے وداع کریں اور مشایعت کریں۔ جب ہم دارالہند کے آگے نگل گئے تو امام حسینؑ نے کوفہ کی طرف نظر اٹھا کر دیکھا اور آہ سرد بھری اور یہ شعر ارشاد فرمائے: ’’ہم نے خود سرد دِل ہو کر اپنے عزیزوں کے گھروں کو نہیں چھوڑا بلکہ خود وہ ہماری امداد سے دست بردار ہوگئے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی قضا مخلوق میں جاری ہے اور یہ دنیا ہمیشہ رہنے کی جگہ نہیں ہے‘‘۔ پھر کہا سلیمان نے کہ: سب سے پہلے جو شخص امام حسینؑ کو جا کر ملا اور ان کو جنگ و قتال کی ترغیب دی، حجر بن عدی تھا۔ اور جس دن وہ امام حسینؑ کی خدمت میں حاضر ہوا تو امام حسینؑ نے فرمایا کہ: اور لوگ تیری طرح نہیں اور جس امر کو تم دوست رکھتے ہو وہ نہیں رکھتے۔
پھر کہا سلیمان نے کہ حجر بن عدی امام حسینؑ سے رخصت ہو کر چلے آئے ۔ اس کے بعد جب امام حسنؑ فوت ہو گئے تو اہل کوفہ جمع ہوئے اور امام حسینؑ کی خدمت میں ان کے برادر مکرم کا تعزیت نامہ لکھا اور یہ اجتماع سلیمان بن جرو کے گھر میں ہوا تھا۔ پس انہوں نے اس تعزیت نامہ کو یوں لکھا: بسم اللہ الرحمٰن الرحیم طرف حسین بن علی بن ابی طالب کے منجانب اُن کے شیعہ اور ان کے والد کے شیعوں کے اصل عبارت (الی الحسین بن علی بن ابی طالب من شیعاتہ و شیعۃ ابیہ) بعد حمد و نعت آن کہ ہم کو آپ کے بھائی حسن کے فوت ہوجانے کی خبر پہنچی۔ پس اُن پر خدا کی رحمت ہو اور آپ کو اس مصیبت کا اجر نیک عطا کرے انا للہ و انا الیہ راجعون۔ آپ کو سخت صدمہ پہنچا ہے پس آپ صبر فرمائیں۔ ان ذلک من عزم الامور۔ اور آپ خدا کے فضل سے ان کے قائم مقام ہیں۔ اور جو بھی آپ کی پیروی کرے گا اور آپ کی ہدایت پر کاربند ہو گا اس کو خدا کامیاب کرے گا۔ اور ہم آپ کے شیعہ ہیں آپ کی مصیبت میں شریک ہیں اور آپ کے حزن سے محزون ہیں۔ اور آپ کی خوشنودی سے خوش ہیں اور آپ کے امر خلافت کے منتظر ہیں۔ اصل عبارت: و نحن شیعتک المصاب بمصیبتک المحزونون بحزنک المسرورون بسرورک المنتظرون لامرک۔ خدا آپ کا شرح صدر کرے اور آپ کی حالت کو بلند کرے اور آپ کے قدر کو رفع دے۔ اور آپ کے حق خلافت کو آپ کو دوبارہ دے دے (ورد علیک حقک) والسلام علیک ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
پھر عام لوگوں میں یہ چرچا ہونے لگا کہ امیر معاویہ نے امام حسینؑ کے بارے میں کچھ انصاف نہیں کیا۔ پس امام حسینؑ کے پاس آمدو رفت شروع کردی اور اس اقدام سے انقطاع نہیں کیا۔ پس اس کی خبر امیر معاویہ کو بھی پہنچ گئی پس انہوں نے امام حسینؑ کو ایک خط حسب ذیل لکھا: بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ معاویہ بن ابی سفیان کی طرف سے اما بعد آنکہ مجھ کو آپ کی طرف سے چند امور اور اسباب کی اطلاع آئی ہے جن کو میں باطل خیال کرتا ہوں۔ اور اگر یہ باتیں سچی ہیں جیسا کہ میرا گمان ہے تو معلوم ہوا کہ آپ زیادہ سعید ہیں اور خدا کے عہد کو زیادہ ایفا کرنے والے ہیں۔ پس آپ مجھ کو مجبور نہ کریں کہ میں آپ سے قطع کروں۔ کیونکہ آپ میرے عزیز ہیں (فانک منّی) پس اگر آپ مجھ سے فریب کریں گے تو میں بھی فریب دوں گا۔ اگر آپ میری تکریم کریں تو میں بھی آپ کی تکریم کروں گا۔ اور اس امت میں آپ تفرقہ کے موجب نہ ہوں تحقیق آپ ان کو ابتلاء میں ڈالیں گے اور خود بھی مبتلا ہوں گے۔ پس آپ اپنے آپ میں اور اپنے دین میں نظر رکھیں۔ ولا یستخفنک السفھاء الذین لا یعلمون۔ والسلام علیک ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ یعنی نادن لوگ آپ کو خفیف نہ کرنے پائیں جو کہ حقیقت حال سے واقف نہیں۔ والسلام
پھر کہا سلیمان نے کہ امام حسینؑ نے اس خط کے جواب میں یوں خط روانہ فرمایا، جس میں تحریر کیا: بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ اما بعد مجھ کو تمہارا خط پہنچا۔ اور جو کچھ تم نے اس میں لکھا ہے، اس کے مدعا کو سمجھ لیا۔ اور معاذ اللہ جو میں اس عہد میں فرق لاؤں جو تمہارے ساتھ میرے بھائی حسنؑ نے کیا ہے۔ (اصل عبارت: و معاذ اللہ ان انقض عھد عھدہ الیک اخی الحسن) حقیقت یہ ہے کہ جن لوگوں نے تم کو یہ اطلاع پہنچائی ہے وہ سُخن چِین، جھوٹے اور چغلخور اور قوم میں تفرقہ ڈالنے والے ہیں۔ اور خدا کی قسم وہ جھوٹ بولتے ہیں۔ (فانما اوصلہ الیک الوشاۃ الملقون بالنمائم المفرقون بین الجماعات فانھم و اللہ یکذبون)۔ پس جب یہ خط امیر معاویہ کو پہنچا تو باز رہا اُن سے یعنی امام حسینؑ سے اور اُن کی صلہ رحمی میں خیانت نہ کی۔ اور اُن کے معاوضہ کو کبھی قطع نہ کیا اور سال بسال اُن کی خدمت میں ہزار ہزار دینار (اشرفی) روانہ کرتا تھا، سوائے ہر قسم کے تحائف اور ہدایہ کے۔ اصل عبارت : فلمّا وصل الکتاب الیٰ معویۃ امسک عنہ ولم یخنہ وصلہ لم یقطع ملتہ و کان یبعث الیہ فی کل سنۃ الف الف دینار سوی العروض و الھدایا من کل صنف۔ ترجمہ ختم ہوا۔ دیکھو مقتل ابو مخنّف مطبوعہ بمبئی فصل اوّل
کوائف مندرجہ بالا سے جو معتبر ترین کتب شیعہ سے اقتباس کئے گئے ہیں ناظرین پر واضح ہو گیا ہوگا کہ امر خلافت میں امام حسنؑ کے صلح کر لینے پر شیعیان کوفہ کو کس قدر اعتراض تھا۔ اور علاوہ اُن کے جناب امام حسینؑ کو کس قدر قلق تھا۔ اور ساتھ ہی یہ کہ بایں ہمہ امیر معاویہ کی حکمت سے آخر کار کس طرح امام حسینؑ اور ان کے درمیان صفائی ہو گئی۔ اور اس کے عوض میں امیر معاویہ کس طرح امام حسینؑ کی دلجوئی و خوشنودی خاطر کو مدنظر رکھتے تھے۔ یہ بھی یاد رہے کہ یہ واقعات میں نے محض الزامی طور پر شیعوں کی توجہ کے لئے نہیں لکھے۔ بلکہ میرا یقین ہے کہ درحقیقت یہ سچے واقعات ہیں جو کہ قرین قیاس بھی معلوم ہوتے ہیں اور ان سے بڑھ کر سچے واقعات بھی۔ اور ان کی تاویل ممکن نہیں کہ کسی اسلامی تاریخ سے دریافت ہو سکے۔
آمدیم برسر مطلب۔ امیر معاویہ کے دل میں جو تعظیم و تکریم امام حسینؑ کی بابت مرکوز تھی اس کی تائید اُن کی اس وصیت سے بھی ہوتی ہے جو انہوں نے آخری وقت میں امر خلافت کے متعلق یزید کو فرمائی۔ اور جس کو خاکسار راقم اس ابو مخنف کی کتاب سے ہدیہ ناظرین کرتا ہے۔ ابو مخنف کہتا ہے کہ جب امیر معاویہ سخت بیمار ہوگئے اور وفات کا وقت نزدیک آ پہنچا۔ تو یزید موجود نہ تھا وہ اس وقت حمص کا حاکم تھا انہوں نے قلم دوات منگائی۔ اور یہ خط اس کو لکھا: بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ بعد حمد و نعت آنکہ اے میرے بیٹے! میں تمہارے لئے وصیت لکھتا ہوں جب تک اس پر کاربند ہو گے، خیر پاؤ گے۔ میں تم کو وصیت کرتا ہوں اہل شام کے بارے میں ، کہ وہ تجھ سے ہیں اور تُو اُن سے ہے۔ ان میں سے جو کوئی تیرے پاس آئے اس کی خاطر کرنا۔ اور جو اور ہو، اس کے حال سے مطلع رہنا۔ جب کوئی دشمن تجھ پر حملہ آور ہو تو ان کو ہمراہ لینا۔ جب فتح نصیب ہو تو پھر ان کو اپنے مقاموں پر واپس بھیج دینا۔ اور جو کوئی اہل حجاز سے تیرے پاس آئے تو ان کے ساتھ نیکی کرنا۔ اے بیٹے اہل عراق (کوفی) کے معاملات میں متوجہ رہنا، اگر وہ خواہش کریں کہ ہر روز ان کے عامل کو معزول کرتے رہو تو ایسا ہی کرنا اور ایسا کرنا تیرے لئے آسان ہے بہ نسبت اس کے کہ بادشاہ وقت پر امت بلوہ کرے۔ اے بیٹے !جان تو کہ میں نے تیرے لئے سب بلاد کو مطیع اور سب آدمیوں کو زیر دست کر دیا ہے اور اب میں تیرے لئے کسی سے خوف میں نہیں ہوں۔ مگر صرف چار اشخاص سے، وہ نہ تیری بیعت کریں گے اور نہ تجھ سے اس امر خلافت میں تنازعہ برپا کریں گے۔
پہلے عبدالرحمٰن بن ابی بکر ہے، پس وہ دنیا دار ہے اس کو دنیا داری میں مبتلا رہنے دے اور چھوڑ دے اس کو اور اس کے ارادوں کو، نہ وہ تیرے موافق ہوگا نہ مخالف۔ دوسرے عبد اللہ بن عمر ہیں، وہ صاحب قرآۃ (قرآن خوان) اور صاحب محراب (عابد) ہیں۔ وہ دنیا سے کنارہ کش ہو گئے اور آخرت کے دھیان میں راغب ہیں۔ اور گمان نہیں کہ وہ اس امر میں تمہارے ساتھ تنازعہ کریں اور نہ اُن کا ارادہ ہوگا۔ تیسرے عبداللہ بن زبیر ہیں، وہ تجھ سے لومڑی کی طرح فریب کریں گے اور شیر کی طرح تجھ پر حملہ کریں گے۔ پس اگر وہ تجھ سے آمادہ جنگ ہوں تو تُو بھی جنگ کرنا۔ اگر صلح کریں تو صلح رکھنا اگر وہ تجھ سے مشورہ کرنا چاہیں تو ان کے مشورہ کو قبول کرنا۔ اور چوتھے حسینؑ بن ابی طالب ہیں، پس یقین ہے کہ لوگ ان کو دعوت کریں گے۔ یہاں تک کہ تجھ پر خروج فرمائیں گے۔ پس اگر تو ان پر فتح پائے تو تُو ان کی قرابت کا لحاظ رکھنا، جو ان کو رسول اللہﷺ سےہے۔ جان تُو اے بیٹے کہ اُن کے والد بزرگوار تیرے باپ سے اور انکی والدہ ماجدہ تیری ماں سے اور انکے جد امجد تیرے جد سے بہتر ہیں۔ اور واسطے انسان کے ہے جو کچھ اُس کے دل میں ہے اور یہ میری وصیت ہے تیرے لئے۔ والسلام۔ امام حسینؑ کے بارے میں اصل عربی عبارت یوں ہے: والرابع الحسینؑ بن علی ابن ابی طالب صلوٰۃ اللّٰہ علیھما فان الناس یدعونہ حتی یخرج الیک فان ظفرت بہ فاحفظ قرابتہ من رسول اللّٰہ و اعلم یا بنی ان اباہ خیر من ابیک و امہ خیر من امک وجدہ خیر من جدک وللمرء ما بقلبہ و ھذہ وصیّتی الیک والسلام۔ بعدہ یہ خط بند کیا گیا اور ضحاک بن قیس القہری کو دیا گیا کہ یزید کو پہنچادے۔
(مقتل ابو مخنف صفحہ 5مطبوعہ بمبئی)
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب امیر معاویہ او ر امام حسینؑ کے تعلقات اس حد تک دوستانہ و برادرانہ تھے تو واقعہ کربلا کی نوبت کیوں اور کب اور کس وقت آئی؟
اس کے جواب میں عرض کیا جاتا ہے کہ تا حین حیات امیر معاویہ تو معاملات ملکی کی صورت حسب دلخواہ رہی لیکن ان کے فوت ہو جانے کے ساتھ ہی وہ فتنہ خوابیدہ جاگ اٹھا جس کو بروقت صلح امام حسنؑ دبایا گیا تھا۔ امام حسینؑ کی ذات ملکوتی صفات پر ہم کو کسی حالت میں بدگمانی نہیں ہو سکتی کہ انہوں نے اپنے معزز و محترم بھائی کی تاکیدی وصیت صبر کے خلاف خلافت و سلطنت کے دوبارہ خاندان نبوت میں لانے کی ہوس کو دل میں پکایا ہو۔ لیکن برا ہو خانہ خراب کوفیوں کا جن کے پیٹ میں امیر معاویہ کی وفات کی خبر پاتے ہی حبِّ جاہ و ریاست کے لئے چوہے کودنے لگے اور امام حسینؑ کو یزید کے برخلاف خروج کرنے کی پہلی تحریک ان کو ہی سوجھی۔ ادھر سے یزید نے مسندِ خلافت پر بیٹھتے ہی ان چاروں بزرگوں کے متعلق جن میں امام حسینؑ بھی داخل تھے عامل مدینہ کو لکھا کہ بیعت لی جائے۔ لیکن ان چاروں بزرگوں نے عامل مدینہ کو بیعت سے جواب دے دیا۔ پہلے دو بزرگ تو باوجود انکار بیعت، اول سے آخر تک مدینۃ الرسول میں اقامت گزیں رہے نہ کسی نے ان پر جبر کیا اور نہ وہ کسی کے دباؤ سے خائف ہوئے۔ لیکن پچھلے دو نوں صاحب عبداللہ بن زبیر اور حضرت امام حسینؑ، نہ معلوم اس سوال بیعت سے اس قدر گھبرائے کہ موقعہ پا کر مدینہ سے راتوں رات مکہ معظمہ کی طرف نکل آئے۔
کوفیوں نے جو سمجھوتہ امیر معاویہ کی زندگی میں امام حسینؑ سے کر رکھا تھا اور وقتاً فوقتاً اس کی یاد دہانی بھی امام سے کرتے رہتے تھے اس پر اب کاربند ہو نے کے درپے ہو گئے۔ ان کو بوجہ دیرینہ ہواخواہ رسالت مآب ہونے کے کسی حالت میں منظور نہ تھا کہ امیر معاویہ کی وفات کے بعد بھی عہد صلح امام حسنؑ کے بدستور پا بند رہیں۔ ان کو یزید کی اطاعت سے اس قدر نفرت تھی جس قدر کہ انکو ائمہ اہل بیت کرام کے زیر سایہ دولت و ثروت کے مزے اڑانے کا خیال تھا۔ امام حسینؑ ابھی مکہ میں رونق افروز تھے کہ کوفیوں نے اسی سلیمان بن جرد کے گھر میں جمع ہو کر ایک جلسہ قائم کیا۔ اور یہ تحریک کی کہ اب فوراً امام حسینؑ کو طلب کرنا چاہئے کہ کوفہ میں تشریف لائیں اور اپنے دیرینہ دارالخلافت کو مشرف فرمائیں۔ وہ ہمارے امام اور ہم ان کے شیعہ۔ پھر یزید کا کیا اجارہ ہے کہ وہ خلیفہ وقت ہو اور ہم اس کی اطاعت میں بدستور جکڑے رہیں۔ بس پھر کیا تھا سب نے اتفاق رائے کیا، اس پر سلیمان بن جرد نے اٹھ کر ان کو خطاب کیا کہ دیکھو بھئی! تم امام حسینؑ اور ان کے والد بزرگوار کے شیعہ ہو، لازم ہے کہ اپنے اقرار پر اور عزم پر ثابت رہنا، ایسا نہ ہو کہ امام کو بُلا کر پھر اُن سے بے وفائی کرو۔ ناسخ التواریخ میں اس خطاب میں یہ عربی الفاظ ہیں: انتم شیعیتہ و شیعۃ ابیہ (دیکھو صفحہ 130 جلاء العیون مجلسی اردو صفحہ 430 و مہیج الاحزان صفحہ48 مطبوعہ ایران)
مقتل ابو مخنف میں لکھا ہےکہ سلیمان نے کہا تھا کہ: نحن شیعتہ وا نصارہ یعنی ہم ان کے دشمنوں سے جنگ کریں گے اور اپنی جانوں کو ان کے آگے قربان کر دیں گے۔ ایشاں گفتند با دشمن او جنگ خواہیم کرد و جانہا را در برابر او فدا خواہیم نمود۔
(مہیج الاحزان صفحہ 48)
پس سب شیعوں نے مل کر امام کی خدمت میں عریضہ لکھا اور قاصد بھیجے اور پھر اور بے شمار خطوط اور قاصد روانہ کئے جن کی تعداد بارہ ہزار لکھی گئی ہے۔ شیعیان کوفہ کے اس پُر شوق اصرار نے امام حسینؑ پر بھی اثر کیا۔ آخر انہوں نے لکھدیا کہ ہم عنقریب آتے ہیں۔ اپنے چچا زاد بھائی حضرت مسلم کو کوفہ میں روانہ فرمادیا۔ وہاں بقول ناسخ التواریخ 80ہزار کوفیوں نے انکی بیعت امام حسینؑ کے واسطے کر لی۔ چنانچہ لکھا ہے کہ: بہ روایت ابو مخنف ہشتادہزار کس با مسلم بیعت کرد۔ (ناسخ صفحہ 133) امام حسینؑ نے شاید اس تعداد کو اپنی نصرت کے لئے کافی نہ خیال کیا تھا، کیونکہ سب کتابوں میں لکھا ہے کہ اہل بصرہ کے رؤسا کو بھی لکھا گیا کہ کوفہ چلنے کے لئے لشکر جرار بہم پہنچائیں۔ چنانچہ ایک رئیس بصرہ ، یزید بن مسعود نہنشلی نے وہاں تین قبائل بنو تمیم، بنی حنظلہ و بنی اسد کو خاص طور پر بلا کر نصرت امام کی ترغیب دی اور انہوں نے اس کو قبول کر لیا۔ امام کو جب اس کی اطلاع ملی تو یزید بن مسعود کا شکریہ ادا کیا۔ اور دعا کی ، مگر افسوس ہے کہ بصرہ کے لشکر، کربلا میں اس وقت پہنچے جبکہ امام مظلوم شہید ہو چکے تھے۔ مسلم کے وارد کوفہ ہونے اور کوفیوں کے آمادہ بغاوت ہونے کی خبر جب یزید کو پہنچی تو اس نے بھی سب سے پہلے عبیداللہ بن زیاد حاکم بصرہ کو کوفہ کا حاکم بنا کر انسداد فساد پر مقرر کر دیا۔ اس نے کوفہ میں پہنچتے ہی ایسا بندوبست کیا کہ سب کوفی بیعت امام سے منحرف ہوگئے۔ حضرت مسلم کو شہید کرایا۔ اس وقت امام حسینؑ مکہ سے عازم کوفہ ہوچکے تھے اور کوفہ کے نزدیک آگئے تھے۔ زیاد نے پیشدستی کر کے حرّ شہید کو مقرر کیا کہ امام سے جہاں مڈ بھیڑ ہو وہیں روک دو اور کوفہ میں نہ پہنچنے دو۔
حضرت امام حسینؑ جب اول دفعہ مدینہ سے عازم مکہ ہونے کو تھے تو جب مکہ معظمہ سے کوفہ کی طرف جانے لگے جب بھی سب عزیز و احباب مثل محمد بن حنفیہ بن علی اور عبداللہ ابن عباس اور عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہم،آپ کو مدینہ چھوڑنے سے منع فرماتے رہے۔ خصوصاً کوفہ جانے سے تو بہت لوگوں نے منع کیا اور کوفیوں کی اس بے وفائی کو بھی جتلاتے رہے، جو وہ حضرت علی ؓاور حضرت امام حسنؑ سے کرچکے تھے۔ لیکن امام نے کسی کی نہ سنی اور کوفہ کو روانہ ہو ہی گئے۔ روانگی مکہ سے پہلے ایک خط حضرت مسلم کا بھی کوفہ سے آپ کو مل چکا تھا جس میں انہوں نے عرض حال کیا تھا کہ اسّی ہزار کوفیوں نے آپ کی بیعت میرے ہاتھ پر کی ہے۔ جس پر امامؑ کو تسلی ہوگئی تھی کہ صورت معاملہ حسب دلخواہ ہے۔
اور ایک خط آپ نے خود بھی مکہ سے روانہ ہو کر منزل قادسیہ کے متصل ایک مقام بطن زمہ سے کوفیوں کو بدیں مضمون تحریر فرما دیا تھا۔ اما بعد بدرستیکہ خط مسلم بن عقیل کا میرے پاس پہنچا۔ اس خط میں لکھا تھا کہ تم لوگوں نے میری نصرت اور دشمنوں سے میرا حق طلب کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ میں خدا سے سوال کرتا ہوں کہ اپنا احسان مجھ پر تمام کرے اور تم کو تمہاری حُسن ِ نیت و کردار پر بہترین جزائے ابرار عطا فرمائے۔ بدرستیکہ میں آٹھویں ماہ ذی حجہ روز سہ شنبہ کو مکہ سے باہر آیا اور تمہاری جانب آتا ہوں، جب میرا قاصد تم کو پہنچے کمر اطاعت مضبوط باندھو۔ اور اسباب کارزار آمادہ رکھو اور میری نصرت کے لئے مہیا رہو کہ میں اب بہت جلد تم تک پہنچتا ہوں۔ والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
(بالفاظہ دیکھو جلاء العیون مجلسی اردو مطبوعہ لکھنؤ صفحہ 449)
ادھر حضرت مسلم جب کوفیوں کے نرغہ میں آگئے اور وقت شہادت نزدیک آ پہنچا تو، اس وقت آپ نے وصیت فرمائی تھی کہ اس وصیت کو امام حسینؑ تک جلدی پہنچا دیا جائے کیونکہ وہ مکّہ سے روانہ ہونے والے ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ پہلے خط پر بھروسہ کر کے کوفہ آجائیں اور میری طرح معرض ہلاکت میں نہ پڑ جائیں۔ اس وصیت کا ایک فقرہ یہ ہے: ارجع فداک ابی و امّی باھل بیتک ولا یغررک اھل الکوفۃ فانہم اصحاب ابیک الذی یتمنی فراقھم بالموت او القتل ان اھل الکوفۃ قد کذبوک ولیس لکذوب رائ۔
(ناسخ التواریخ جلد 6کتاب 2 صفحہ 149)
جلاء العیون فاضل مجلسی کے الفاظ میں اس روایت کا ترجمہ اردو میں یوں ہے:
’’آپ کا پسر عم عرض کرتا ہے، میرے پدر و مادر آپ پر سے فدا ہوں۔ آپ مراجعت فرمائیےکہ میں یہاں اسیر ہو گیا ہوں اور مترصد قتل ہوں۔ یہ اہل کوفہ وہی لوگ ہیں جن کے نفاق سے آپ کے پدر بزرگوار پریشان ہو کے آرزوئے مرگ کرتے تھے‘‘۔
(ترجمہ اردو جلاء العیون صفحہ 141)
غرض یہ ہے کہ امام حسینؑ کوفہ کو جاتے ہوئے جب منزل ثعلبیہ پر پہنچے تو اس وقت پہلی دفعہ آپ کو اپنے پیارے چچا زاد اور غریب الوطن بھائی مسلم کی شہادت کی خبر ہوئی۔ اس وقت آپ کو اس سفر کے حسرت ناک انجام کا یقین ہو گیا۔ آپ نے حضرت مسلم کے بھائیوں سے واپس ہو جانے کے لئے مشورہ کیا، لیکن انہوں نے عرض کی بخدا سو گند ہم واپس نہ جائیں گے جب تک حضرت مسلم کا بدلہ اُن اشقیاء سے نہ لیں یا جو شربت انہوں نے پیا ہے ہم بھی نوش کریں۔
(جلاء العیون صفحۃ451)
اسی روایت کی تائید میں خاکسار ایک اور قدیم کتاب کے حالات کربلا سے استدلال کرتا ہےجس کا نام مقتل ابن نما ہے جس میں امام کے رجوع سفر کی خواہش صاف الفاظ میں مذکور ہے۔ شہادت حضرت مسلم کی خبر سن کر لکھا ہے کہ امام حسینؑ سخت روئے اور اپنے عزیزوں کے مفقود ہونے کے رنج و افسوس کے مارے واپس ہو جانے کا ارادہ فرمایا۔ اور ایک بلدہ تک چلے گئے لیکن پھر پہلی رائے پر قائم ہو گئے اور فرمایا کہ جس پر مجھے اعتماد ہے وہی قائم رہے۔ اصل الفاظ یہ ہیں: ثم اراد الرجوع حزناً و جزعاً لفقد احبتہ و مضیٰ الی بلدۃ ثم تاب الیہ رائہ الاول و قال علیٰ ما کنت علیہ معول۔
(ابن نما صفحہ 25 مطبوعہ بمبئی)
اسی کوچ و مقام میں امام علیہ السلام نے ایک اور خط کوفیوں کو لکھا اور عبداللہ بن یقطر، اپنے رضاعی بھائی اور ایک روایت کے رُو سے قیس ابن مسہر کے ہاتھ کوفہ روانہ فرمادیا تھا۔ یہ خط بروایت کتاب اللہوف سید ابن طاؤس ، اسی سلیمان بن حرد الخزاعی وغیرہ کو لکھا جن کی نسبت بروایت مقتل ابو مخنف پہلے ناظرین کو معلوم ہو چکا ہےکہ بوقت صلح امام حسنؑ سے در یافت کرنے آئے تھے کہ باوجود اس قدر لشکر و انصار کے آپ نے امیر معاویہ سے صلح کیوں فرمائی ہے۔ یہ قاصد جب کوفہ میں داخل ہواتو کسی مخبر نے عبیداللہ بن زیاد کو مخبری کر دی وہاں تو پہلے ہی فتنہ کی آگ مشتعل ہو چکی تھی۔ عبداللہ بن یقطر قاصد مذکور کو بلوا کر، ابن زیاد نے ہر چند پوچھا اور ڈرایا دھمکایا کہ بتلاؤ خط کن کن لوگوں کے نام ہے؟ مگر اُس نے خط کو تو پہلے ہی چاک کردیا تھا نام بھی کسی کے نہ بتلائے۔ آخر قتل کر دینے کا حکم ہوا۔قتل سے پہلے اس قاصد نے خاص و عام کے سامنے کوفیوں کو بلند آواز سے خبر کر دی کہ امام حسینؑ تمہاری طرف تشریف لارہے ہیں اور فلاں جگہ پر پہنچ گئے ہیں۔پس انکی دعوت کو قبول کرو۔ یہ سب کیفیت ابن زیاد کے گوش گزار کی گئی۔ جب عبداللہ بن یقطر کی شہادت کا بھی امامؑ کو علم ہو گیا تو کوفیوں کی طرف سے اب آپ کو بکلی نا امیدی ہو گئی۔ اس وقت آپ نے اپنے ہمراہیوں کو جمع فرمایا۔ اور ان کو حضرت مسلم اور ہانی بن عروہ اور عبداللہ بن یقطر کی شہادت سے مطلع کیا اور فرمایا کہ: سچ مچ ہمارے شیعوں نے ہم کو چھوڑ دیا ۔ تم کو بھی اختیار دیا جاتا ہے جس کو تیغ و شمشیر کی پرواہ نہ ہو وہ رہ جائے اور جو برداشت نہ کرسکے وہ چلا جائے۔ امام کا یہ جملہ کہ ہمارے شیعوں نے ہم کو چھوڑ دیا خاص قابل غور ہے۔ دو تین حوالے اس کی تصدیق کے لئے عرض کئے دیتا ہوں۔ ’’ہمارے شیعوں نے ہماری نصرت سے ہاتھ اٹھا لیا ہے‘‘۔ (جلاء العیون صفحہ452) وقد خذلنا شیعتنا۔ (مقتل ابو مخنف صفحہ 25 و ناسخ التواریخ صفحہ 163 و خلاصۃ المصائب روایت ہفتم صفحہ 56) یہ حال معلوم کرتے ہی بہت سے ہمراہی جدا ہوگئے جو بقول جلاء العیون مجلسی و ابو مخنف، بطمع مال غنیمت کوفہ ساتھ ہو لئے تھے۔ اور اب صرف عیال و اطفال اور بنی ہاشم جو مکہ سے ہی آپ کے ہمر کاب تھے اور تعداد میں 72 تھے باقی رہ گئے۔
ادھر حرّ شہید جو امام کی تلاش میں کوفہ سے معہ ایک ہزار فوج کے سرگردان تھا، امام کو دو منزلیں آگے جا کر مل گیا۔ دو بدو ہوتے ہی امام نے حرّ سے پوچھا۔ ہماری نصرت کے لئے آئے ہو یا مقابلہ کے لئے؟ حرّ نے کہا، مقابلہ کے لئے۔ امام نے فرمایا : لاحول ولا قوۃ الا باللّٰہ العلی العظیم۔ پھر کچھ دیر تک بات چیت ہوتی رہی۔ آخر امامؑ نے حرّ اور ساتھ کے کوفیوں کو فرمایا کہ: جو کچھ مجھ کو لکھتے رہے مراسلات میں اور قاصدوں کی زبانی کہلا کر بھیجتے رہے، اگر آپ اس کے برخلاف ہو گئے ہیں، تو میں جہاں سے آیا ہوں واپس چلا جاتا ہوں۔ ابن نما کے الفاظ اس موقعہ پر یہ ہیں: فانی ارجع الی الموضع الذی اتیت منہ (صفحہ 23) ابو مخنف کے الفاظ: وان کنتم کارھین لقد ومی رجعت منکم الیٰ ما شئت من الارض (صفحہ 26) فاضل مجلسی کے الفاظ: اور اگر اپنی گفتار سے پھر گئے ہو اور عہد پیمان کو شکستہ کردیا ہے اور میرے آنے سے بیزار ہو، میں اپنے وطن واپس جاتا ہوں۔ (صفحہ 454) مؤرخ ناسخ التواریخ کے الفاظ: و اگر شما رائے دگر گون کنید و عہد بشکنید وحمل بیعت از گردن فرونہید قسم بجان من کہ از شما شگفت نباشد چہ با پدر من علیؑ و برادر من حسنؑ جز ایں نہ کردید فریفتہ کسے است کہ بہ عہد و پیمان شما مغرور شود۔ الخ (صفحہ170)
یہ رسل و رسائل کا حال سن کر حر نے عرض کیا :مجھ کو اس کی کچھ خبر نہیں۔ امامؑ نے اپنی خرجین منگائی اور حر کو دکھائی ۔یہ خرجین کوفیوں کے خطوط سے بھری ہوئی تھی۔ آخر حر نے عرض کیاکہ: مجھے تو ان خطوط سے غرض نہیں ، مجھے ابن زیاد نے حکم دیا ہے کہ جہاں آپ کو پاؤں جدا نہ ہوں تا وقتیکہ آپ کو ابن زیاد کے پاس نہ لے جاؤں۔ حضرت نے فرمایا :جب تک زندہ ہوں یہ ذلت مجھے گوارا نہ ہوگی ۔ پس اصحاب کو حکم دیا کہ سوار ہوں، جب ہودج ہائے حرم محترم اونٹوں پر بندھ گئیں، حضرت پائے مبارک رکاب میں رکھ کے سوار ہوئے کہ جب چاہا واپس جائیں۔ لشکر مخالف نے راستہ روک لیا۔ حضرت نے فرمایا: تیرا مطلب کیا ہے؟ حر نے کہا کہ: میں چاہتا ہوں آپ کو ابن زیاد کے پاس لے چلوں۔ حضرت نے فرمایا: میں تیری اطاعت نہ کروں گا۔ حر نے کہا: میں بھی دست بردار نہ ہوں گا۔ جب درمیان میں طول سخن ہوا، حر نے کہا مجھےحکم نہیں ہے کہ آپ سے جنگ کروں۔ اگر آپ کو کوفہ جانا منظور نہیں ہے تو مدینہ دوسرے راستے سے جائیے کہ میں یہ کیفیت ابن زیاد کو لکھوں، شاید کوئی ایسی صورت نکل آئے کہ میں آپ سے پیشوائے بہ محاربہ مبتلا نہ ہوں۔ حضرت نے بضرورت راہ قادسیہ سے جانب دست چپ توجہ کی اور وہ لشکرِ ضلالت اثر بھی ہمراہ ہوا۔ حر نے قریب امام حسینؑ کے آ کے کہا: یا حضرت آپ کو میں قسم دیتا ہوں کہ اس گروہ سے مقابلہ نہ کیجئے گا ورنہ قتل ہو جائے گا!‘‘ الخ (جلاء العیون اردو صفحہ454 باب5 فصل14)
جیسا کہ روایت مذکورہ سے ظاہر ہے۔ امام حسینؑ کو حر نے واپس تشریف لے جانے کی اجازت دے دی ہے مگر کوفی کمبخت مانع ہوئے۔ آخر مجبوراً امامؑ معہ حر اور لشکر کوفی لا یونی کے کربلا میں وارد ہو گئے۔ علامہ مجلسی لکھتے ہیں کہ دوسری محرم کو پہنچے اور ایک اورروایت میں لکھا ہےکہ آٹھویں محرم کو وارد ہوئے۔ حر نے ابن زیاد کو سب حالات سے مطلع کیا جس پر اس نے ایک عریضہ امام کی خدمت میں روانہ کیا۔ اور اس میں تحریر کیا کہ: میں نے سنا ہے کہ آپ کربلا میں اترے ہیں۔ یزید بن معاویہ نے مجھے لکھا ہے کہ آپ کو مہلت نہ دوں یا آپ سے بیعت لوں اور اگر انکار کیجئے تو یزید کے پاس بھیج دوں۔‘‘
(جلاء العیون اردو صفحہ456)
اس روایت سے صاف ظاہر ہے کہ عشرہ محرم تک یزید کی طرف سے کوئی حکم ابن زیاد کے نام یا اس سے ما قبل حاکم مدینہ کے نام قتل حسینؑ کے بارہ میں صادر نہیں ہوا تھا۔ جو لوگ یہ ظاہر کرتے ہیں کہ یزید نے سلطنت شام پر قابض ہوتے ہی عامل مدینہ کو خط لکھا تھا کہ امام حسینؑ سے بیعت لے لو۔ اور اگر وہ انکار کریں تو انکا سر کاٹ کر میرے پاس بھیج دو، یہ درست نہیں ہے۔ خود مجلسی کی روایت مذکورہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکم بیعت کے وقت سے لے کر اس وقت تک کہ بیسیوں موقعے شورش و فساد و بغاوت کوفہ و بیعت مسلم وغیرہ کے یزید کو دئے گئے ۔امام علیہ السلام کے کربلا پہنچ جانے تک اس قسم کا کوئی حکم یزید نے کسی کے نام جاری نہیں کیا تھا۔ ورنہ ابن زیاد اپنے خط میں یہ نہ لکھتا کہ یزید کا حکم یہ ہے کہ یا تو آپ سے بیعت لوں یا بصورت انکار اس کے پاس شام میں بھیج دوں۔
امام علیہ السلام نے ابن زیاد کا یہ خط پڑھ کر پھینک دیا اور قاصد کو کچھ جواب نہ دیا۔ ابن زیاد کو جب یہ حال معلوم ہوا تو بہت غضبناک ہوا اور پھر اس نے عمر بن سعد کو سرداری لشکر کی دی۔ وہ چار ہزار لشکر کوفیاں بے وفا کا ہمراہ لے کر روانہ کربلا ہوا۔ عمر بن سعد مذکور نے امام کی خدمت میں پیغام بھیج کر دریافت کیا کہ :آپ یہاں کیوں آئے ہیں؟ امام نے جواب میں کہلا بھیجا: ’’تمہارے شہر کے لوگوں نے نامہ ہائے بےشمار مجھے لکھے اور بہت مبالغہ و اصرار کر کے بلایا۔ اگر میرا آنا اب منظور نہیں ہے تو مجھے واپس جانے دو‘‘۔ (ناسخ التواریخ صفحہ 175) امامؑ کا جب یہ جواب عمر بن سعد کو پہنچا، اس نے کہا: ’’امیدوار ہوں کہ خدا مجھے محاربہ و مقاتلہ امام حسینؑ سے نجات دے۔‘‘ پس اس نے ایک خط ابن زیاد کو لکھا اور اس میں سب حقیقت حال درج کی۔ اور معلوم ہوتا ہے کہ اس نے امام کے واپس مدینہ کو تشریف لے جانے کی سفارش بھی کی تھی۔ اس موقعہ پر علامہ مجلسی لکھتے ہیں کہ: ’’وہ شقی راضی ہوا کہ امام حسینؑ چلے جائیں۔ مگر شمر ذی الجوشن حرامی نے ابن زیاد کو پشیمان کیا۔‘‘ پس عمر بن سعد کو خط لکھا کہ حضرت سے کہو، معہ اصحاب بیعت کریں۔ جب یہ خط اس کو پہنچا ا س نے امام حسینؑ سے وہ مضمون نہ کہلا بھیجا، ا س لئے کہ جانتا تھا حضرت بیعت یزید پر راضی نہ ہوں گے۔
(دیکھو جلاء العیون صفحہ 458)
جب کہ امامؑ کربلا میں خیمہ زن ہوگئے تو مؤرخ ناسخ التواریخ لکھتا ہے کہ ایک عراقی مکہ کو جا رہا تھا۔ دیکھا کہ خیمہ کے باہر امامؑ کرسی پر بیٹھے ہیں اور خطوط کا مطالعہ فرمارہے ہیں۔ جب اس نے وجہ اس بے کسی اور بے وطنی کی دریافت کی تو امام نے فرمایا کہ: بنی امیّہ نے مجھے قتل کی دھمکی دی اور کوفہ والوں نے مجھے بلایا ۔ دیکھو یہ ان کے خطوط ہیں۔ حالانکہ میرے قاتل یہی ہیں۔ لیکن جب انہوں نے اس امر کا ارتکاب کیا اور پردہ محرمات کو چاک کیا، خداوند کریم اُن پر ایک ایسے آدمی کو مقرر کرے گا کہ وہ سب کو قتل کردے گا اور وہ قوم بلقیس سے بھی زیادہ ذلیل ہو جائیں گے۔ اصل عبارت ناسخ یہ ہے:‘‘بنی امیّہ مرا بیم قتل دادند۔ ومردم کوفہ مرا دعوت نمودند اینک مکاتیب ایشان است و حال آنکہ کشندہ من ایشان اند لکن گاہے کہ مرتکب این معنی شد ند و پردہ محرمات و محظورات را چاک کردند۔ خداوند بر ایشاں مے گمارد کسے را کہ ہمگناں را بقتل رساند۔ و ایشاں را خوارتر از قوم بلقیس گرداند۔ (صفحہ159)
روایت مذکورہ سے ظاہر ہے کہ خود حضرت سید الشہداء علیہ السلام اپنے قتل کا باعث کوفیوں کی دعوت کو قرار دیتے ہیں اور خاکسار راقم کا بھی یہی اعتقاد ہے۔ یزید کی طرف سے کوئی حکم قتل ابن زیاد کو نہیں دیا گیا۔ جیسا کہ بروایت ناسخ التواریخ وغیرہ کتب شیعہ میں لکھا ہےکہ جب ایک شخص زجر بن قیس نے دمشق میں اہلبیت کرام کے پہنچنے پر یزید کو فتح معرکہ کربلا کی جا کر خوشخبری سنائی تو یزید دیر تک حیران و خاموش رہا۔ پھر کہا اگر حسینؑ سے سوائے قتل کے بیعت لیتے تو میں زیادہ راضی ہوتا اور اگر میں آپ ان کے پاس ہوتا تو ان سے درگزر کرتا۔ اصل الفاظ یہ ہیں:یزید لختے سرفروداشت و سخن نہ کرد و پس سربرآورد و گفت قد کنت ارضی من طاعتکم بدون قتل الحسینؑ اما لو کنت صاحب لعفوت عنہ اگر من حاضر بودم حسین را معفومیداشتم۔ صفحہ 269
بالغ نظر ناظرین کو اسی قدر اختصار سے معلوم ہو جائے گا کہ ایک عاجز ہیچمدان خادم حسینؑ نے اپنے مخدوم امام حسینؑ مظلوم کے کوائف شہادت کی تحقیق میں کہاں تک سچے معلومات بہم پہنچائے ہیں۔ رسالہ تحقیقی واقعات میں اسی قسم کی تحقیق و تنقید ہے۔ اگر یہ مفید خدمت ہے تو خدا مجھ کو توفیق دے کہ اس رسالہ کی تالیف سے جلدی فارغ البال ہوں۔ اس رسالہ تحقیق سے میری ہر گز یہ غرض نہیں ہے کہ کسی فریق کی دل آزاری ہو بلکہ محض اظہار امر حق مقصود ہے۔ اور بس خداوند کریم ہم کو حق اور باطل میں تمیز کر نے کی توفیق دے۔ آمین۔
والسلام علیٰ من اتبع الہدٰی
خاکسار خادم حسینؑ خادم بھیروی احمدی
(مرسلہ :طاہر محمود مبشر صاحب استاد جامعہ احمدیہ برطانیہ)
(حضرت شیخ خادم حسین صاحب خادمؓ)