• 9 مئی, 2024

پاکستان کی سیاست میں قربانی کے بکرے کا کردار

پاکستان کی قومی اسمبلی نے پاکستان کے لیے ایک منشور اور ایک دستور اور ایک آئین بنانے کے لئے1947ء سے قانون سازی شروع کر دی تھی۔ چنانچہ 1948ء میں پاکستان کے لیے پہلا آئین منظور کیا گیا اور دوسرا 1956ء میں اور تیسرا 1974ء میں منظور کیا گیا۔ 1974ءکا آئین جو 1970ء میں قومی اسمبلی کوپیش کیا گیا تھا،میں ایک ترمیم کے ذریعے احمدیہ مسلم جماعت کو غیر مسلم قرار دیا گیا۔

احمدیہ مسلم جماعت نے 1974ء میں پاکستان کی قومی اسمبلی کے پورے ایوان پر مشتمل خصوصی کمیٹی کے سامنے اپنے مسلمان ہونے، اپنے بنیادی عقائد کی وضاحت اورجماعت پر لگائے گئے بے بنیاد الزامات کی تردید کی اور یہ بات واضح کی کہ کوئی قومی اسمبلی اور عدالت کسی شخص کےمذہب کا تعین کرنے کا اختیار نہیں رکھتی۔

ایک اصولی سوال

کیا دنیا کی کوئی اسمبلی فی ذاتہ اس بات کی مجاز ہے کہ

اول:۔ کسی شخص سے یہ بنیادی حق چھین سکے کہ وہ جس مذہب کی طرف چاہے منسوب ہو؟

دوم:۔ یا مذہبی امور میں دخل اندازی کرتے ہوئے اس بات کا فیصلہ کرے کہ کسی جماعت یا فرقے یا فرد کا کیا مذہب ہے؟

ہم ان دونوں سوالات کے جوابات نفی میں دیتے ہیں ہمارے نزدیک رنگ و نسل اور جغرافیائی اور قومی تقسیمات سے قطع نظر انسان کا یہ بنیادی حق ہے کہ وہ جس مذہب کی طرف چاہےمنسوب ہو اور دنیا میں کوئی انسان یا انجمن یا اسمبلی اسے اس بنیادی حق سے محروم نہیں کر سکتے۔اقوام متحدہ کے دستور عمل میں جہاں بنیادی انسانی حقوق کی ضمانت دی گئی ہے وہاں ہر انسان کا یہ بنیادی حق بھی تسلیم کیا گیا ہے کہ وہ جس مذہب کی طرف چاہے منسوب ہو۔

اسی طرح پاکستان کے دستور اساسی میں بھی دفعہ نمبر 20 کے تحت ہر پاکستانی کا یہ بنیادی حق تسلیم کیا گیا ہےاس لئے یہ امر اصولاً طے ہونا چاہیےکہ کیا یہ کمیٹی پاکستان کے دستور اساسی کی رو سے زیر نظر قرار داد پر بحث کی مجاز ہے یا نہیں ؟ (محضر نامہ، صفحہ3-4)

رنگ و نسل اور جغرافیائی اور قومی تقسیمات سے قطع نظر ہر انسان کا یہ بنیادی حق ہے کہ وہ جس مذہب کی طرف چاہے منسوب ہو اور دنیا میں کوئی انسان یا انجمن یا اسمبلی اسے اس بنیادی حق سے محروم نہیں کر سکتی۔ پاکستان کے 1970 کے آئین کی دوسری ترمیم میں یہ کہا گیا ہے کہ

The Second Amendment of Pakistan Constitution 1970 states

a person who does not believe in the absolute and unqualified finality of the Prophethood of Muhammad (peace be upon him), the lasts of the Prophets and claim to be a Prophet, in any sense of the word or any description whatsoever, after Muhammad (peace be upon him), recognizes such a claimant as a Prophet or religious reformer, is not a Muslim all the purposes of the Constitution or law

اینٹی احمدیہ آرڈیننس

جنرل ضیاء الحق کی طرف سے جاری کردہ اینٹی احمدیہ آرڈیننس جس میں احمدیہ مسلم جماعت پر مندرجہ ذیل پا بندیاں لگائی گئی ہیں۔

Ordinance No.XX of 1984 states

Amend the Law to prohibit qadiani group, Lahori group and Ahmadis from indulging in anti-Islamic activities

Part I

1. Cannot call themselves Muslims
2. Referred to their faith as Islam
3. Call their place of worship as Mosque
4. Make the call for pray (adhan)
5. Say Islamic greetings alaikum (peace be on you)
6. Preach or propagate their faith

Part II

Addition of new section 298 B and 298 C act XLV of 1860

298B

Misuse of epithets, descriptions and titles etc reserved for certain holy personages or places

298C

Poses himself as a Muslim, or calls or refers to his faith as Muslims, preaches or propagates his faith, invites others to accept his faith

Any of the above will be punishable by three years of imprisonment and a fine

1970ء کے آئین کی دوسری ترمیم اور 1984ء میں جنرل ضیاء الحق کی طرف سے جاری کردہ اینٹی احمدیہ آرڈیننس کے بعد حکومت پاکستان نے احمدیہ مسلم جماعت کو ایک ایسے مکان میں لا کھڑا کیا جہاں وہ اسلامی تعلیمات پرعمل نہیں کرسکتے جہاں اخبارات میں انہیں نہ صرف غیر مسلم لکھا جاتا ہے بلکہ کافر، قادیانی اور مرزائی کے ناموں سے پکارا جاتا ہے جہاں سوشل بائیکاٹ کرکے مسلمان ہونے کی ترغیب دی جاتی ہے جہاں احمدی نوجوانوں کے لیے تعلیم اور بعد از تعلیم روزگار کے مسائل پیدا ہو چکے ہیں جہاں انہیں اپنے اسلامی تشخص کی حفاظت کے لیے اپنے بچوں کی تربیت گھر پر ہی کرنی پڑتی ہے جہاں قانون نافذ کرنے والے ادارے ان کے اسلامی حقوق ضبط کرتے ہوئے انہیں کم از کم تین سال تک جیل کی سزا سنا سکتے ہیں جہاں یہ سب مسائل ہوں وہاں احمدیہ مسلم جماعت کے سپریم لیڈر ’خلیفۃالمسیح‘ اپنی جماعت کی قیادت کیسے کر سکتے ہیں! ہاں احمدی مسلمان بہتر روزگار کے لیے اپنے معاشرے میں کاروبار کیسے کر سکتے ہیں۔

1970ء میں احمدیہ مسلم جماعت کے ایک وفد نے پاکستان کی قومی اسمبلی کی خصوصی کمیٹی کے سامنے پیش ہو کر اپنا نکتہ نظر بھی بیان کیا ….. پھر 1984ء کے بعد احمدیہ مسلم جماعت کے وکلاء نے ایک مرتبہ پھر معزز عدالتوں کے سامنے اپنے تحفظات مندرجہ بالا قوانین کے حوالے سے بیان کیے۔

البتہ پاکستان میں احمدیہ مسلم جماعت کے خلاف قوانین میں کوئی تبدیلی نہیں آئی 28 مئی 2010ء کا دن احمدیہ مسلم جماعت کی تاریخ میں بہت اہمیت رکھتا ہے جب احمدیہ مسلم جماعت لاہور کی دو جامع مساجد میں جمعہ کے وقت دہشتگردوں نے حملہ کر دیا۔

عین اس وقت جبکہ سینکڑوں احمدی نماز جمعہ کی ادائیگی کیلئے لاہور کی دو بڑی احمدیہ مساجد (دارالذکر (گڑھی شاہو) اور بیت النور (ماڈل ٹاؤن) میں جمع تھے بعض خود کش مسلح دہشت گردوں نے احمدیہ مساجد پر گولیوں اور گرنیڈوں کی اندھا دھن بوچھاڑ اور خودکش بم دھماکوں کے ذریعے حملہ کرکے معصوم اور نہتے نمازیوں کا بے دریغ خون بہایا یہ سفاکانہ کارروائی کئی گھنٹوں تک جاری رہی اس نہایت سفاکانہ اور بہیمانہ حملے کے نتیجے میں 86 احمدی شہید اور متعدد شدید زخمی ہوئے انا للہ و انا الیہ راجعون۔

جماعت احمدیہ کی تاریخ میں اجتماعی شہادت کا یہ سب سے بڑا اور نہایت دردناک واقعہ ہے‘‘

(پیش لفظ: شہدائے لاہور کا ذکر خیر)

ہم احمدی مسلم ہیں پاکستان بنانے والے ہیں

ہمیں غیر مسلم کہنے والو! ہم پاکستان کا ترانہ گانے والے ہیں

ہم قادیان سے ہجرت کرکے ربوہ کو اپنا گھر بنانے والے ہیں

ہمیں غیر مسلم کہنے والو! ہم توحید و رسالت ﷺ پر ایمان لانے والے ہیں۔

(شیراز احمد۔ کینیڈا)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 24 اگست 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ