کبھی تو وصل کبھی ہجر رو برو ٹھہرا
پر عشق دونوں زمانوں میں سرخرو ٹھہرا
محبتوں کا شجر ایسا باثمر نکلا
بہار میں بھی خزاں میں بھی خوبرو ٹھہرا
نہ آب گینوں میں پایا نہ ناز نینوں میں
بس آدمی کا سکوں خود کی جستجو ٹھہرا
رہینِ لفظ نہیں ہے وہ شاعرِ کم گو
کہ جس کا مشغلہ جذبوں سے گفتگو ٹھہرا
ظفر نے جب بھی پڑھا اپنے دل کے نقشے کو
وہ ذرّہ ذرّہِ عالم سا ہو بہو ٹھہرا
(مربی مقبول احمد ظفر مرحوم)