• 26 اپریل, 2024

والہانہ محبت

حضرت خلىفۃ المسىح الخامس اىدہ اللہ تعالىٰ بنصرہ العزىز فرماتے ہىں:
حضرت مولوى محب الرحمٰن  صاحب بىان فرماتے ہىں کہ: مَىں حضرت والد صاحب کے ہمراہ ننانوے (1899ء مىں) قادىان گىا۔ بٹالہ سے یکّے پر سوار ہو کر ہم قادىان پہنچے، جس وقت ىکّہ مہمان خانے کے دروازے پر پہنچا تو والد صاحب ىکّہ پر سے کود کر بھاگتے ہوئے چلے گئے۔ یکّے والے نے اسباب باہر نکالا (سامان نکالا) اور مَىں وہاں حىران کھڑا تھا کہ والد صاحب خلافِ عادت اس طرح کود کر بھاگ گئے ہىں۔ کىا وجہ ہے؟ تھوڑے عرصے مىں حافظ حامد على صاحب باہر آئے اور انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ ىہ اسباب مىاں حبىب الرحمٰن  صاحب کا ہے؟ مجھ سے ہاں مىں جواب سن کر وہ اسباب مہمان خانے مىں لے گئے اور مَىں بھى ساتھ چلا گىا۔ کچھ دىر کے بعد والد صاحب واپس تشرىف لے آئے۔ اگلے روز صبح کو بعدنماز فجر والد صاحب مجھے اپنے ہمراہ حضرت مسىح موعود علىہ الصلوٰۃ والسلام کے مکان پر لے گئے۔ کمرے کے دروازے پر پہنچنے پر حضرت صاحب نے دروازہ خود کھولا۔ ہم اندر کمرے مىں داخل ہوئے جو بىت الفکر کے ساتھ والا کمرہ ہے۔ حضرت مسىح موعود علىہ الصلوٰۃ والسلام تخت پوش پر جس کے سامنے اىک مىز رکھى تھى اور اس پر بہت سارى کتابىں تھىں، وہاں تشرىف فرما ہوئے۔ ہم دونوں اىک چارپائى پر بىٹھ گئے جو قرىب مىں ہى تھى۔ والد صاحب نے حضرت مسىح موعود علىہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ بہت دىر تک باتىں کىں۔ اس کے بعد والد صاحب نے عرض کىا کہ مىں محب الرحمٰن  کو بىعت کے لئے لاىا ہوں۔ آپؑ نے فرماىا اس کى تو بىعت ہى ہے۔ (ىعنى باپ نے کرلى تو اُس کے ساتھ ہى بچے بھى شامل ہو گئے، اس لئے بىعت تو پہلے ہى ہے) والد صاحب نے عرض کىا کہ مَىں چاہتا ہوں کہ بىعت کر لے تو دعاؤں مىں شامل ہو جائے گا۔ فرماىا اچھا آج شام کو بىعت لے لىں گے۔ چنانچہ اُس دن شام کوبعدنماز مغرب خاکسار نے اور بھى بہت دوستوں کے ساتھ بىعت کى۔ بىعت کرنے کے بعد پھر اىک نىا احساس پىدا ہوا ہے۔ کہتے ہىں اُس وقت مَىں سمجھا کہ والد اُس روز جس دن ہم پہنچے تھے، یکّے سے والہانہ طرىق پر اتر کر حضرت مسىح موعود علىہ الصلوٰۃ والسلام سے ملنے ہى گئے تھے۔ ىہى وجہ تھى۔ ىہ عشق و محبت تھا جس نے انہىں بے چىن کىا اور اترتے ہى سىدھے حضور کى خدمت مىں حاضر ہو گئے۔ والدصاحب کا معمول تھا کہ قادىان پہنچتے ہى پہلے حضرت مسىح موعود علىہ الصلوٰۃ والسلام کى خدمت مىں حاضر ہوا کرتے اور روزمرہ صبح کے وقت بھى علىحدگى مىں حاضر خدمت ہوتے تھے۔

(ماخوذ ازرجسٹر رواىات صحابہؓ غىر مطبوعہ جلد9 صفحہ84-85 رواىت مولوى محب الرحمٰن صاحبؓ)

حضرت حاجى محمد موسىٰ صاحبؓ بىان کرتے ہىں کہ: اىک دفعہ مىرے لڑکے عبدالمجىدنے جس کى عمر اس وقت قرىباً چار برس کى تھى۔ اس بات پر اصرار کىا کہ مىں نے حضرت صاحب کو چمٹ کر ىعنى ’’جپھى‘‘ ڈال کر ملنا ہے۔ اُس نے مغرب کے وقت سے لے کر صبح تک ىہ ضد جارى رکھى اور ہمىں رات کو بہت تنگ کىا۔ صبح اُٹھ کر پہلى گاڑى مىں اُسے لے کر بٹالہ پہنچا اور وہاں سے ٹانگے پر ہم قادىان گئے اور جاتے ہى حضرت صاحب کى خدمت مىں ىہ پىغام بھىجا کہ عبدالمجىد آپ کو ملنا چاہتا ہے۔ گلے ملنا چاہتا ہے ىا ’’جپھى‘‘ ڈالنا چاہتا ہے۔ (چھوٹا سا بچہ ہى تھا۔ چار سال عمر تھى) حضورؑ اس موقع پر باہر تشرىف لائے اور عبدالمجىد آپ کى ٹانگوں کو چمٹ گىا اور اس طرح اُس نے ملاقات کى اور پھر وہ چار سال کا بچہ کہنے لگا کہ ’’ہن ٹھنڈ پے گئى اے۔‘‘

(ماخوذ ازرجسٹر رواىات صحابہؓ غىر مطبوعہ رجسٹر نمبر11 صفحہ12 رواىت حضرت حاجى محمد موسىٰ صاحبؓ)

حضرت مىاں عبدالغفار صاحب جرّاحؓ بىان کرتے ہىں کہ: اىک دفعہ کا ذکر ہے کہ حضرت صاحب سىڑھىوں سے تشرىف لائے اور احمدىہ چوک مىں آ کر کھڑے ہو گئے۔ مجھے ىاد ہے کہ حضور نے اپنى سوٹى کمر کے ساتھ لگا کر اُس پر ٹىک لگائى۔ مَىں اُس وقت حضرت خلىفہ اول کے شفاخانے پر کھڑا تھا۔ مَىں نے حضور کو دىکھ کر اپنے والد صاحب کو کہا کہ بابا! حضرت صاحب آ گئے۔ والد صاحب نے کہا: اونچے مت بولو۔ لوگ آواز سن کر دوڑ آئىں گے اور جمگھٹا ہو جائے گا اور ہمىں حضور کى باتىں سننے کا لطف نہىں آئے گا۔ (ىہ بھى عشق و محبت کى باتىں ہىں کہ ہمارے درمىان اور حضرت مسىح موعود علىہ الصلوٰۃ والسلام کے درمىان اور لوگ حائل نہ ہو جائىں ىا زىادہ لوگ نہ آ جائىں، ىا اتنے لوگ پہلے ہى اکٹھے ہو جائىں کہ ہم اُن تک پہنچ نہ سکىں)۔ چنانچہ کہتے ہىں وہ اٹھے۔ حضور سے مصافحہ کىا۔ حضرت صاحب نے مىرے والد صاحب کو کہا کہ مىاں غلام رسول! کوئى امرتسر کى باتىں بتائىے۔ والد صاحب نے کہا کہ حضور! لوگ درمىان مىں اور باتىں شروع کر دىتے ہىں۔ (جب مَىں غرىب آدمى بولنا شروع کروں گاتو اَور لوگ آ جائىں گے۔ دوسرى باتىں شروع کر دىں گے۔ مىرى باتىں بىچ مىں رہ جائىں گى) حضرت مسىح موعود علىہ الصلوٰۃ والسلام نے فرماىا کہ آج تمہارى ہى بات ہو گى اور کسى کى نہىں ہو گى۔ حضور اُس دن جس طرف محلہ دارالانوار ہے، سىر کے لئے تشرىف لے گئے، جہاں اب حضرت صاحب کى کوٹھى بھى ہے۔ جب وہاں پہنچے تو خواجہ کمال الدىن صاحب کے سسر خلىفہ رجب الدىن صاحب نے کشمىرى زبان مىں کہا کہ اب خاموش ہو جاؤ۔ ہم نے بھى باتىں کرنى ہىں۔ حضور علىہ السلام نے فرماىا کہ آج مىاں غلام رسول کى بات ہو گى اور کسى کى نہىں ہو گى۔ اُن کو بھى چپ کرا دىا اور باتىں مُلّانوں کے متعلق ہوتى رہى تھىں۔ مجھے ىاد ہے کہ والد صاحب نے سناىا کہ مىں حضور کے ساتھ امرتسر کے اىک مُلّاں کى بات کر رہا تھا کہ اُس نے مجھے کہا کہ تم مرزا صاحب کو چھوڑ دو۔ ہم تمہىں بہت سا روپىہ جمع کر دىں گے۔ مگر مَىں نے کہا (سوچ ہے ناں، انہوں نے جواب دىا) کہ فلاں سوداگر نے اىک عورت رکھى ہوئى ہے مگر وہ اُس عورت کو نہىں چھوڑ سکتا تو مَىں خدا کے نبى کو کىسے چھوڑ سکتا ہوں؟۔

(ماخوذ از رجسٹر رواىات صحا بہؓ غىر مطبوعہ رجسٹر نمبر11 صفحہ39-40۔ رواىت حضرت مىاں عبدالغفار صاحب جراح ؓ)

(ىعنى دنىا دار اپنے دنىاوى عشق کى خاطر دنىا بھى برباد کر رہا ہے اور آخرت بھى برباد کر رہا ہے۔ بدنامى بھى ہو رہى ہے تو مَىں تو خدا کى محبت کى خاطر خدا کے نبى کے تعلق اور عشق مىں گرفتار ہوں، اس کو کس طرح چھوڑ دوں۔ اسى سے تو مىرى دنىا بھى سنورنى ہے اور مىرى آخرت بھى سنورنى ہے)۔

(خطبہ جمعہ 11؍مئى 2012ء بحوالہ الاسلام وىب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

خلاصہ خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 22؍ اکتوبر 2021ء

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 25 اکتوبر 2021