• 20 اپریل, 2024

انسان کى تو کوئى حىثىت ہى نہىں ہے

انسان کى تو کوئى حىثىت ہى نہىں ہے۔ کس بات کى اکڑ فوں ہے۔ بعض لوگ کنوىں کے مىنڈک ہوتے ہىں، اپنے دائرہ سے باہر نکلنا نہىں چاہتے۔ اوروہىں بىٹھے سمجھ رہے ہوتے ہىں کہ ہم بڑى چىزہىں۔ اس کى مثال اس وقت مَىں اىک چھوٹے سے چھوٹے دائرے کى دىتاہوں ، جو اىک گھرىلومعاشرے کا دائرہ ہے، آپ کے گھر کا ماحول ہے۔ بعض مرد اپنے گھر مىں اپنے بىوى بچوں کے ساتھ اىسا ظالمانہ سلوک کررہے ہوتے ہىں کہ روح کانپ جاتى ہے۔بعض بچىاں لکھتى ہىں کہ ہم بچپن سے اپنى بلوغت کى عمر کو پہنچ چکى ہىں اور اب ہم سے برداشت نہىں ہوتا۔ہمارے باپ نے ہمارى ماں کے ساتھ اور ہمارے ساتھ ہمىشہ ظلم کا روىہ رکھاہے۔باپ کے گھر مىں داخل ہوتے ہى ہم سہم کر اپنے کمروں مىں چلے جاتے ہىں ۔کبھى باپ کے سامنے ہمارى ماں نے ىاہم نے کوئى بات کہہ دى جو اس کى طبىعت کے خلاف ہوتو اىسا ظالم باپ ہے کہ سب کى شامت آجاتى ہے۔ تو ىہ تکبر ہى ہے جس نے اىسے باپوں کو اس انتہا تک پہنچا دىاہے اور اکثر اىسے لوگوں نے اپناروىہّ باہر اىسا رکھا ہوتاہے، بڑا اچھا روىہ ہوتا ہے ان کا اور لوگ باہر سمجھ رہے ہوتے ہىں کہ ان جىسا شرىف انسان ہى کوئى نہىں ہے۔ اور باہر کى گواہى ان کے حق مىں ہوتى ہے۔بعض اىسے بھى ہوتے ہىں جو گھرکے اندر اور باہر اىک جىسا روىہ اپنائے ہوئے ہوتے ہىں ان کا تو ظاہر ہو جاتاہے سب کچھ۔ تو اىسے بدخُلق اور متکبر لوگوں کے بچے بھى، خاص طورپر لڑکے جب جوا ن ہوتے ہىں تو ا س ظلم کے ردّعمل کے طورپر جو انہوں نے ان بچوں کى ماں ىا بہن ىا ان سے خود کىاہوتاہے، اىسے بچے پھر باپوں کے سامنے کھڑے ہوجاتے ہىں ۔اور پھر اىک وقت مىں جا کر جب باپ اپنى کمزور ى کى عمر کو پہنچتاہے تو اس سے خاص طورپر بدلے لىتے ہىں ۔ تو اس طرح اىسے متکبرانہ ذہن کے مالکوں کى اپنے دائرہ اختىار مىں مثالىں ملتى رہتى ہىں ۔مختلف دائرے ہىں معاشرے کے۔اىک گھر کا دائرہ اور اس سے باہر ماحول کا دائرہ۔ اپنے اپنے دائرے مىں اگر جائزہ لىں تو تکبىر کى ىہ مثالىں آپ کو ملتى چلى جائىں گى۔

پھر اس کى انتہااس دائرے کى اس صورت مىں نظر آتى ہے جہاں بعض قومىں اور ملک اور حکومتىں اپنے تکبر کى وجہ سے ہر اىک کو اپنے سے نىچ سمجھ رہى ہوتى ہىں ۔ اورغرىب قوموں کو، غرىب ملکوں کو اپنى جوتى کى نوک پر رکھا ہوتاہے۔اورآج دنىا مىں فساد کى بہت بڑى وجہ ىہى ہے۔ اگر ىہ تکبر ختم ہو جائے تو دنىا سے فساد بھى مٹ جائے۔ لىکن ان متکبر قوموں کو بھى، حکومتوں کو بھى پتہ نہىں ہے کہ اللہ تعالىٰ جب تکبر کرنے والوں کے غرور اورتکبر کو توڑتاہے تو ان کا پھر کچھ بھى پتہ نہىں لگتا کہ وہ کہاں گئے۔

اللہ تعالىٰ قرآ ن شرىف مىں فرماتا ہے: وَ لَا تُصَعِّرۡ خَدَّکَ لِلنَّاسِ وَ لَا تَمۡشِ فِى الۡاَرۡضِ مَرَحًا ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَا ىُحِبُّ کُلَّ مُخۡتَالٍ فَخُوۡرٍ (لقمان 19)۔ اس کا ترجمہ ىہ ہے: اور (نخوت سے) انسانوں کے لئے اپنے گال نہ پُھلا اور زمىن مىں ىونہى اکڑتے ہوئے نہ پھر۔ اللہ کسى تکبر کرنے والے (اور) فخرومباہات کرنے والے کو پسند نہىں کرتا۔

جىساکہ اس آىت سے بھى ظاہر ہے اللہ تعالىٰ ہمىں فرمارہاہے کہ ىونہى تکبر کرتے ہوئے نہ پھرو۔ اپنے گال پھلاکر، اىک خاص انداز ہوتاہے تکبرکرنے والوں کا اور گردن اکڑا کر پھرنا اللہ تعالىٰ کو بالکل پسند نہىں۔بعض لوگوں کى عادت ہوتى ہے کہ اپنے سے کم درجہ والوں کے سامنے اکڑ دکھا رہے ہوتے ہىں اور اپنے سے اوپر والے کے سامنے بچھتے چلے جاتے ہىں۔ تو اىسے لوگوں مىں منافقت کى برائى بھى ظاہر ہو رہى ہوتى ہے۔تو ىہ تکبر جوہے بہت سى اخلاقى برائىوں کا باعث بن جاتاہے اورنىکى مىں ترقى کے راستے آہستہ آہستہ بالکل بند ہو جاتے ہىں۔ اورپھر دىن سے بھى دورہوجاتے ہىں ، نظام جماعت سے بھى دور ہو جاتے ہىں ۔اور جىسے جىسے ان کا تکبر بڑھتاہے وىسے وىسے وہ اللہ اور رسول کے قرب سے، اس کے فضلوں سے بھى دور چلے جاتے ہىں۔

(خطبہ جمعہ 29 اگست 2003ء بحوالہ الاسلام وىب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 23 اکتوبر 2021

اگلا پڑھیں

چھوٹی مگر سبق آموز بات