کرسمس کی تاریخ اور پس منظر
لفظ کرسمس قدیم انگریزی کے دو الفاظ Cristes Maesse ’ یعنی the Mass of Christ‘ (مسیح کا جسمانی ظہور) سے مل کر بنا ہے جو کہ 1038 CE میں سب سے پہلے استعمال کئے گئے۔کرسمس دنیا بھر میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے یومِ پیدائش کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس روز گرجاگھروں میں خصوصی عبادت ہوتی ہے، گھروں سڑکوں اور تمام عمارات کو کئی روز پہلے خوبصورت رنگ برنگے قمقموں اور دیگر اشیاء سے سجایا جاتا ہے۔ جگہ جگہ کرسمس ٹری ، جو کہ سدا بہار درخت کے نام سے جانا جاتا ہے ،لگا کر سجایا جاتا ہے۔ یہ درخت ایک مثلث کی طرح نیچے سے چوڑا ہوتا ہے اور اوپر تک ایک باریک نوک کی شکل میں آسمان کی طرف اُٹھتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ اس کے ذریعہ یہ سبق دیا جاتا ہے کہ اس درخت کی طرح مسیح بھی سدا بہار اور ہمیشہ زندہ ہے اس موقع پر گھروں میں تقریبات ہوتی ہیں اور افرادِ خاندان اور دوست احباب مل کر دعوتیں اُڑاتے ہیں۔
کرسمس ، جسے اردو اور عربی میں عید میلاد مسیح کہا جاتا ہے، دنیا بھر میں اب ایک مذہبی تہوار کی بجائے تفریحی اور بڑی بڑی کاروباری کمپنیوں کے لئے زیادہ سے زیادہ مالی منفعت حاصل کرنے والےتہوار کے طور پر منایا جاتا ہے ۔ اگرچہ چند مسیحی مذہبی حلقے دبی دبی زبان میں یہ کہتے ہیں اور ایک دو چرچز کے اوپر کبھی کبھار اس طرح کے بینرز نظر آجاتے ہیں جن پر لکھا ہوتا ہے کہ ’’مسیح کو کرسمس میں واپس لاؤ‘‘۔لیکن اوّل تو یہ احتجاج بہت ہی دھیما اور کمزور ہوتا ہے دوسرا یہ کہ اب یہ بھی آہستہ آہستہ دم توڑتا ہوا نظر آرہا ہے۔ دسمبر کے آخری دس دنوں میں شدید سردی اور برفباری کے باعث ویسے بھی سکولوں میں تعطیلات ہوتی ہیں ۔ لیکن کرسمس کی مذہبی اہمیت ختم کرنے کا سب سے کاری وار یہ کیا گیا ہے کہ اب ان ایام میں دی گئی تعطیلات میں کرسمس کی مبارکباد کی بجائے Season’s Greetings یعنی موسمی مبارکباد دی جاتی ہے اور Happy Holidays کہا جاتا ہے۔ ظلم کی انتہا یہ ہے کہ یہ سلوک صرف کرسمس کے ساتھ کیا جاتا ہے جبکہ انہی ملکوں میں بسنے والے دوسرے مذاہب کے مذہبی تہوار یعنی ہولی دیوالی عید اور ہنوکا وغیرہ انہی ناموں سے منائے جاتے ہیں اور ان کی مذہبی اہمیت اور پس منظر کو اجاگر کیا جاتا ہے۔ اگرچہ ان میں بھی کاروباری کمپنیاں نت نئی اشیاء مارکیٹ میں لا کر ان سے مالی منفعت حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ لوگوں کو زیادہ سے زیادہ خریداری کی طرف مائل کرنے کے لئے اشیاء کی قیمتوں میں نمایاں کمی کردی جاتی ہے اور لوگ ضرورت کی اشیاء مثلًا لباس جوتے و دیگر کی خریداری کے لئے پورا سال ان ایام کا انتظار کرتے ہیں تاکہ اپنے لئے اور افراد خاندان و دوستوں کو تحفے تحائف دینے کے لئے کم قیمت پر خریداری کریں۔ پہلے تو یہ قیمتیں کرسمس یعنی 25 دسمبر تک ہی کم کی جاتی تھیں لیکن اب کرسمس کے بعد باکسنگ ڈے کا اضافہ کیا گیا جس میں قیمتیں مزید کم کردی جاتی ہیں اور یہ بھی صرف ایک دن کے لئے نہیں بلکہ یہ باکسنگ ڈے دسمبر کے اختتام تک جاری رہتا ہے۔ اگرچہ اس میں مذہبی جذبہ نہیں بلکہ زیادہ اشیاء بیچ کر منافع کمانے کی نیت شامل ہوتی ہے لیکن پھر بھی عوام کے لئے ایک سہولت میسر ہوتی ہے۔ برسبیل تذکرہ عرض ہے کہ یورپ امریکہ کینیڈا اور آسٹریلیا میں گراسری سٹورز پر اشیائے خوردونوش کی قیمتیں عید اور ہولی دیوالی پر بھی کم کی جاتی ہیں۔ اس کے برعکس ہمارے ہاں مذہبی جذبہ رکھنے والے مسلمان دکاندار رمضان اور عید کے موقع پر ہر قسم کی اشیاء میں ہوشربا اضافہ کردیتے ہیں جس سے عام آدمی کی پہلے سے دم توڑتی ہوئی قوت خرید قریب المرگ ہوجاتی ہے۔ کاش یہ مسلمان دکاندار غیرمسلموں سے ہی کچھ سیکھ لیں۔
بہرحال! کرسمس کی تاریخ اور پس منظر کی طرف واپس آتے ہیں۔ کیتھولک انسائیکلوپیڈیا new adventکے مطابق بائیبل سے25 دسمبر کے روز مسیح کی پیدائش کا کوئی ثبوت نہیں ملتا کیونکہ اول تو اتنی سردی میں مردم شماری نہیں ہوسکتی تھی دوسرے چرواہوں کا کھلے میدان میں بھیڑ بکریاں چرانا بھی عقل کے خلاف ہے۔مزید لکھا ہے کہ دو ڈھائی سو سال تک چرچ کے بڑے بڑے فادرز اپنی سالگرہ منانا بھی پسند نہیں کرتے تھے بلکہ اس پر سخت تنقید بھی کرتے تھے کہ ولیوں اور شہداء کی سالگرہ یا یوم شہادت منایا جائےچہ جائیکہ وہ مسیح کی پیدائش کا دن مناتے۔چرچ کی تاریخ میں یہ سب باتیں محفوظ ہیں۔اس انسائیکلوپیڈیا میں اعتراف کیا گیا ہے کہ مسیح کی پیدائش کے سال مہینہ اور دن کے متعلق بہت سی مختلف اور متضاد آراء ملتی ہیں جنہیں کسی طور بھی سلجھایا نہیں جاسکتا۔اسکندریہ (مصر) ، یروشلم (فلسطین)، انطاکیہ اور قسطنطنیہ (ترکی)، روم (اٹلی) ، قبرص اور ایشیائے کوچک کے مختلف ملکوں کے حوالوں سے بتایا گیا ہے کہ جب دو ڈھائی صدیوں بعد کرسمس کی تقریبات شروع ہوئیں تو ان تمام علاقوں میں اگست سے لے کر اپریل تک مختلف مہینوں اور دنوں میں انہیں منایا جاتا تھا۔ حوالہ کے لئے دیکھیں newadvent.org under Christmas ۔ موجودہ دور میں بھی مغربی خطے میں کرسمس 25 دسمبر کو جبکہ مشرقی چرچ چھ جنوری کو منایا جاتا ہے۔
انسائیکلوپیڈیا بریٹینکا کے مطابق سب سے پہلے 221 ء میں Sextus Julius Africanus نامی ایک پادری ، جو کہ مؤرخ بھی تھا، نے پچیس دسمبر کو مسیح کی پیدائش کا دن بتایا ۔ اس کے مطابق مریم مسیح سے 25 مارچ کو حاملہ ہوئیں اور ٹھیک نو مہینے بعد پچیس دسمبر کو مسیح پیدا ہوئے۔ لیکن چرچ نے اس تاریخ کو فورًا ہی قبول نہیں کرلیا بلکہ اس کے ایک سو سال بعد 336ء میں روم کے بادشاہ قسطنطین کے عیسائی ہونے کے بعد رائج کیا۔ محققین کے نزدیک اس کی ایک اور وجہ یہ تھی کہ گریکو رومن خدا invicti nati (ناقابل تسخیر بیٹا) کا جنم دن پچیس دسمبر کو تھا۔ چرچ مسیح کو اس دیوتا کے بدلے میں پیش کرنا چاہتا تھا لیکن عوامی جذبات بھی مجروح نہیں کرنا چاہتا تھا لہذا اس دیوتاکے جنم دن کو مسیح کے جنم دن سے بدل دیا گیا۔ کرسمس کے بارے میں سیّدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ سورہ مریم کی تفسیر میں تحریر فرماتے ہیں:
’’اس مقام پر ایک بہت بڑی مشکل پیش آجاتی ہے جس کو حل کرنا ہمارے لئے نہایت ضروری ہے اور وہ یہ ہے کہ عیسائی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ حضرت مسیح ؑ کی پیدائش25دِسمبرکو ہوئی اور لوقا کہتا ہے کہ قیصر اگسطِس نے اُس وقت مردم شماری کا حکم دیا تھا جس کے لئے یوسف اور مریم ناصرہ سے بیت لحم گئے اور وہیں حضرت مسیؑح کی پیدائش ہو ئی ۔ گویا 25 دسمبر کو ۔اُس زمانہ میں جب قیصر اگسطِس کے حکم کے ماتحت یہودکی پہلی مردم شمارہوئی مسیح ؑ بیت لحم میں پیدا ہوئے۔ قرآن بتاتا ہے کہ مسیح اس موسم میں پیدا ہوئے جس میں کھجور پھل دیتی ہے اور کھجور کے زیادہ پھل دینے کا زمانہ دسمبر نہیں ہوتا بلکہ جولائی اگست ہوتا ہے اور پھر جب ہم یہ دیکھیں کہ خدا تعالیٰ نے انہیں ایک چشمے کا بھی پتہ بتایا جہاں وہ اپنے بچے کو نہلا سکتی تھیں اور اپنی صفائی کر سکتی تھیں تو اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ جولائی اگست کا مہینہ تھا ورنہ سخت سردی کے موسم میں چشمہ کے پا نی سے نہانا اور بچے کو بھی غسل دینا خصوصاََ ایک پہاڑ پر اور عرب کے شمال میں عقل کے بالکل خلاف تھا ۔لیکن عیسائی تاریخ یہی کہتی ہے کہ حضرت مسیح ؑ دسمبر میں پیدا ہوئے اور اگر یہ تسلیم کیا جائے کہ حضرت مسیح کی پیدائش دسمبر میں ہوئی تھی تو سوال پیدا ہو تا ہے کہ قرآن تو حضرت مریم سے کہتا کہ ھزی الیک بجذع النخلۃ تساقط علیک رطبا جنیا تو کھجور کے تنہ کو ہلا تجھ پر تازہ کھجوریں گریں گی ۔حالانکہ کھجور اُس وقت بہت کم ہوتی ہے۔کھجور زیادہ تر جولائی اگست میں ہو تی ہے اور مسیح کی پیدائش دسمبر میں ہوئی۔ پس اگریہ درست ہے کہ مسیح دسمبر میں پیدا ہوئے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ قرآن نے کھجور کا کیوں ذکر کیا جبکہ کھجوریں اُس موسم میں ہوتی ہی نہیں ۔اس اعتراض سے ڈر کر ہمارے مفسرین نے یہ لکھ دیا کہ حضرت مریم کھجور کے تنہ کے پاس درد کا سہارا لینے گئی تھیں۔ انہیں خیال آیا کہ مسیح کی پیدائش دسمبر میں بتائی جاتی ہے اور دسمبر میںکھجورکے درخت پر بہت کم پھل لگتا ہے پھر وہ کھجور کے سوکھے درخت کے پاس کیوں گئی تھیں ۔اِس کا جواب اُنہوں نے یہ سوچا کہ وہ درد کا سہار الینے گئی تھیں ۔مگر انہیں یہ خیال نہ آیا کہ ساتھ قرآن نے یہ کہا کہ کھا اور یہ بھی کہا ہے کہ کھجور کے تنہ کو ہلا تو تجھ پر تازہ کھجوریں گرینگی ۔ صرف اس وجہ سے کہ عیسائی بیان اُن کے سامنے تھا کہ مسیح دسمبر میں پیدا ہوئے اوردسمبر میں کھجور کو بہت کم پھل لگتا ہے ۔ انہوں نے یہ معنی کر لئے کہ وہ سہارا لینے کے لئے کھجور کے سوکھے درخت کے پاس گئی تھیں لیکن بعض مفسروں کو فکلی اور تسٰقط علیک رطبا جنیا کا بھی خیال آیا اور انہوں نے لکھا ہے کہ یہ ایک معجزہ تھا ۔حضرت مریم کھجور کے سوکھے درخت کو ہلاتیں تو تازہ بتازہ کھجوریں گرنی شروع ہوجا تی تھیں۔
دوسری مشکل ہمارے سامنے یہ پیش آتی ہے کہ یہ واقعہ یہود یہ میں ہوا ہے ۔قرآن اس موقعہ پر کھجور کا ذکر کرتا ہے اور بائبل کی تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ وہاں زیتون بادام اور انگور ہوتا تھا کھجور کا ذکر نہیں آتا اور پھر عجیب بات یہ ہے کہ دسمبر میں بادام بھی نہیں ہوتا۔ انگور بھی نہیں ہوتا اور زیتون بھی نہیں ہوتا گویا قرآن صرف کھجور کا ذکر کرتا ہے مگر دسمبر میں کھجور بہت کم ہوتی ہے اور تاریخ بائبل یہودیہ میں زیتون ، بادام اور انگور کا تو ذکر کرتی ہے لیکن کھجور کا ذکر نہیں کرتی اور پھر یہ تینوں چیزیں بھی دسمبر میں نہیں ہوتیں ۔اب ہم دیکھتے ہیں کہ کیااس علاقہ میں جسمیں انجیل حضرت مسیح کی پیدائش بتاتی ہے کھجور ہوتی تھی یا نہیں ۔اِس کے متعلق جب ہم بائبل کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ خود بائبل اس بات پر گواہ ہے کہ اُس علاقہ میں کھجور ہو کرتی تھی ۔چنانچہ لکھا ہے ’’ تب موسٰی کے سُسر قینی کی اولاد کھجوروں کے شہر سے بنی یہوداہ کے ساتھ یہوداہ کے بیابان کو جو عراد کے دکھن کی طرف ہے چڑھیں ۔‘‘ (قاضیوں باب ۱آیت ۱۶)۔
عراد جس کا حوالہ میں ذکر آتا ہے بیت لحم سے کوئی سو میل کے فاصلہ پرہے اور چونکہ اس سے شمالی کی طرف کھجوروں کا شہر تھااس سے معلوم ہوتا ہے کہ بیت لحم کے قریب قریب یقینا کھجوریں پائی جاتی تھیں ۔ پھر یہودیہ کا علاقہ جس میں بیت لحم ہے چونکہ عرب سے ملتا ہے اس لئے بھی اُس میں کھجوروں کا پایا جانا بالکل قرین قیاس ہے لیکن اس تحقیق سے الی جذع النخلۃ تک تو بات ٹھیک ہوگئی ۔پتہ لگ گیا کہ اُس علاقہ میں کھجور پائی جاتی تھی لیکن یہ سوال ابھی حل نہیں ہوا کہ قرآن کہتا ہے کہ مسیح جس موسم میں پیدا ہوئے اُس وقت کھجوریں درخت پر لگی ہوئی تھیں اور کھجوریں بھی پختہ تھیں اور کھانے کے قابل تھیں اور عیسائی کہتے ہیں کہ حضرت مسیح دسمبر میں پیدا ہوئے جبکہ کھجوریںبہت کم ہوتی ہیں ۔اس سے لازماً یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ قرآن کریم کے نزدیک حضرت مسیح ؑ کی پیدائش اس موسم میں ہوتی ہے جس میں کھجور لگی ہوئی ہوتی ہے مسیحی تاریخوں سے پتہ لگتا ہے کہ مسیح ۲۵دسمبر کو پیدا ہوا ۔بعض اس کا وقت اپریل بتاتی ہیں ۔مگر دسمبر یا اپریل میں کھجور درخت پر بہت کم ہوتی ہے ۔پس ہمیں اس مسئلہ کی مزید تحقیق کی ضرورت پیش آتی ہے ۔
(تفسیر کبیر جلد پنجم صفحہ 180،179)
سانتاکلاز
کرسمس کا ایک اور دلچسپ کردار سانتاکلاز کا ہے۔ سب لوگ اس بات پر متفق ہیں کہ یہ کردار جدید دور میں کرسمس کا حصہ بنایا گیا۔ اس کی اصل کے بارے میں یونیورسٹی آف مینیٹوبا کینیڈا کے ایک پروفیسر Gerry Bowler کی کتاب Santa Claus: A Biography ایک دلچسپ معلوماتی کتاب ہے۔ اس کتاب اور دیگر ذرائع کے مطابق سانتا کلاز کا اصل نام سینٹ نکولس تھا جو روم کے بادشاہ قسطنطین کے مسیحی ہونے سے کچھ عرصہ قبل موجود تھا اور رومی مظالم کے خلاف آواز بلند کرتے ہوئے مسیحی عقائد کی کھلم کھلا تبلیغ کرتا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ سینٹ نکولس غریب مسیحی لوگوں اور بچوں کی مدد کیا کرتا تھا۔ ابتداء میں چرچ نے اسے کوئی اہمیت نہیں دی لیکن عیسائیت کے امریکہ میں اثر و نفوذ کے بعد جہاں کرسمس کو ایک مذہبی تہوار کی بجائے قومی و معاشرتی میلے کے طور پر اپنایا گیا تو اس میں رنگ بھرنے کے لئے جہاں دیگر ہلاگُلا شامل کیا گیا وہاں سانتاکلاز کو بھی اس کا ایک لازمی جزو بنادیا گیا۔ ابتداء میں سینٹ نکولس کا دن چھ دسمبر کو منایا جاتا تھا لیکن پھر اسے کرسمس کے قریب کردیا گیا تاکہ اِسے مزید پیسے اینٹھنے کا ذریعہ بنادیا جائے۔بچوں کے ذہنوں کو متاثر کرنے کے لئے مغربی دنیا کی سب سے بڑی اور مؤثر پراپیگنڈہ مشینری ہالی وڈ اور ٹیلیویژن پر سانتاکلاز اور کرسمس کے بارے میں فلمیں اور ٹی وی شوز بنائے جاتے ہیں جو کرسمس کے قریب نشر کئے جاتے ہیں۔
(انصر رضا، مشنری ٹورنٹو، کینیڈا)