حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی قبولیت دعا کے واقعات پیش ہیں ۔
حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ لکھتے ہیں کہ میر محمد اسحق صاحبؓ کے بچپن کا ایک واقعہ ہے۔ کہ ایک دفعہ وہ سخت بیمار ہوگئے اور حالت بہت تشویشناک ہوگئی اور ڈاکٹروں نے مایوسی کا اظہار کیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان کے متعلق دعا کی تو عین دعا کرتے ہوئے خدا کی طرف سے الہام ہوا کہ ’’سَلَامٌ قَوْلاً مِنْ رَّبِّ رَحِیْم‘‘ یعنی تیری دعا قبول ہوئی اور خدائے رحیم وکریم اس بچے کے متعلق تجھے سلامتی کی بشارت دیتاہے۔ چنانچہ اس کے جلد بعد حضرت میر محمد ا سحٰق صاحبؓ بالکل توقع کے خلاف صحت یاب ہوگئے اور خدا نے اپنے مسیح کے دم سے انہیں شفا عطا فرمائی۔
(سیرت طیبہ صفحہ ۲۸۷،۲۶۸)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کاایک اور زبردست نشان قبولیت دعا کا بیان کرتاہوں ۔کپورتھلہ کے بعض غیر احمدی مخالفوں نے کپورتھلہ کی احمدیہ مسجد پر قبضہ کرکے مقامی احمدیوں کو بے دخل کرنے کی کوشش کی۔ بالآخریہ مقدمہ عدالت میں پہنچا اور کافی دیر تک چلتا رہا۔کپورتھلہ کے بہت سے دوست فکر مند تھے اور گھبرا گھبرا کر حضرت مسیح موعودؑ کی خدمت میں دعا کے لئے عرض کرتے تھے۔حضر ت مسیح موعود علیہ السلام نے ان دوستوں کے فکر اور اخلاص سے متأثر ہو کر ایک دن ان کی درخواست پر غیرت کے ساتھ فرمایا :گھبراؤ نہیں ! اگر مَیں سچا ہوں تو یہ مسجد تمہیں مل کر رہے گی۔ مگر عدالت کی نیت خراب تھی اور جج کا رویہ بدستور مخالفانہ رہا۔ آخر اس نے عدالت میں برملا کہہ دیاکہ ’’تم لوگوں نے نیا مذہب نکالا ہے۔ اب مسجد بھی تمہیں نئی بنانی پڑے گی اور ہم اسی کے مطابق فیصلہ دیں گے‘‘۔ مگر ابھی اس نے فیصلہ لکھا نہیں تھا اور خیال تھاکہ عدالت میں جا کر لکھوں گا۔اس وقت اس نے اپنی کوٹھی کے برآمدہ میں بیٹھ کر نوکر سے بوٹ پہنانے کے لئے کہا۔ نوکر بوٹ پہنا ہی رہا تھاکہ جج پر اچانک دل کا حملہ ہوا اور وہ چند لمحوں میں ہی اس حملہ میں ختم ہوگیا۔اس کی جگہ جو دوسرا جج آیا تو اس نے مسل دیکھ کر احمدیوں کو حق پر پایا اور مسجد احمدیوں کو دلا دی۔
(سیرت طیبہ از حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ صفحہ۱۲۵۔۱۲۶)
(خطبہ جمعہ 13؍ جون 2003ء)