• 12 مئی, 2024

خلاصہ خطبہ جمعتہ المبارک مؤرخہ 24؍دسمبر 2021ء

خلاصہ خطبہ جمعتہ المبارک

امیر المؤمنین سیدنا حضرت خلیفتہ المسیحِ الخامس ایّدہ الله تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مؤرخہ 24؍دسمبر 2021ء بمقام مسجد مبارک، اسلام آباد؍ٹلفورڈ یوکے

کفّار مکّہ کو دوسرے لوگوں کی نسبت رسولِ کریمؐ سے فطرتًا زیادہ بُغض اور عداوت تھی کیونکہ وہ دیکھتے تھے کہ آپؐ ہی کی تعلیم کی وجہ سے لوگوں میں شرک کی مخالفت پھیلتی جاتی ہے، وہ جانتے تھے کہ اگر وہ آپؐ کو قتل کر دیں تو باقی جماعت خود بخود پراگندہ ہو جائے گی، اِس لیئے بہ نسبت دوسروں کے وہ آنحضرتؐ کو زیادہ دکھ دیتے اور چاہتے کہ کسی طرح آپؐ اپنے دعاوی سے باز آ جائیں۔

کفار مکّہ نے آنحضرتؐ کے قتل کرنے کا اِرادہ کیا تو الله جلّ شانہ نے اپنے اِس پاک نبیؐ کو اِس بدّ اِرادہ کی خبر دے دی اور مکّہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کر جانے کا حکم فرمایا اور پھر بہ فتح و نصرت واپس آنے کی بشارت دی، بُدھ کا روز اور دوپہر کا وقت اور سخت گرمی کے دن تھے جب یہ ابتلاء منجانب الله ظاہر ہؤا۔

آنحضرتؐ نے فرمایاکہ ابوبکرؓ مجھے ہجرت کی اجازت مِل گئی ۔ حضرت ابوبکرؓ نےبے ساختہ عرض کیا یارسول اللهؐ! آپؐ کی رفاقت یعنی مَیں بھی آپؐ کے ساتھ ہوں گا؟ رسول اللهؐ نےفرمایا! ہاں۔۔۔ اِس پر حضرت ابوبکرؓ خوشی سے رو پڑے، حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ اِس دن پہلی بار مجھے معلوم ہؤا کہ خوشی سے بھی کوئی روتا ہے۔

نبیٔ اکرمؐ ۔۔۔ یُوں مخاطب ہوئے کہ بخدا اَے مکّہ! تُو الله کی زمین میں سے مجھے سب سے زیادہ محبوب ہے اور تُو الله کی زمین میں سے الله کو بھی سب سے زیادہ محبوب ہے اور اگر تیرے باشندے مجھے زبردستی نہ نکالتے تو مَیں کبھی بھی نہ نکلتا۔

حضرت ابوبکرؓ بیان کرتے ہیں کہ مَیں اُن کے پاؤں بھی دیکھ رہا تھا اور خدا کی قسم! اگر اُن میں سے کوئی ایک بھی اندر جھانک کر دیکھ لیتا تو ہم پکڑے جاتے لیکن خطرہ اور مصیبت کی اِس گھڑی میں یہ دو اکیلے نہیں تھے بلکہ تیسرا اُن کے ساتھ وہ خدا تھا کہ جس کے قبضۂ قدرت میں زمین و آسمان ہیں اور جو قادرِ مُطلق تھا ۔

حضورِ انور ایّدہ الله تعالیٰ بنصرہ العزیز نے تشہّد، تعوّذ اور سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کے بعد ارشاد فرمایا! حضرت ابوبکر صدّیقؓ کا ذکر چل رہا ہے۔بیعتِ عقبہ ثانیہ کے ذکر میں لکھا ہے کہ بیعتِ عقبۂ ثانیہ کے موقع پر نبیٔ کریمؐ کے ہمراہ حضرت ابوبکرؓ اور حضرت علیؓ اور نبیٔ کریم ؐ کے چچا حضرت عبّاسؓ تھے۔ حضرت عبّاسؓ جو کہ اِس تقریب اور میٹنگ کے گویا منتظمِ اعلیٰ تھے اُنہوں نے حضرت علیؓ کو ایک گھاٹی پر بطور پہرہ دار کھڑا کیا اور ایک دوسری گھاٹی پر حضرت ابوبکرؓ کو اُنہوں نے پہرہ اور حفاظت کے لیئے کھڑا کیا تھا۔

نبیٔ اکرمؐ کی ہجرتِ مدینہ میں حضرت ابوبکرؓ کی مصاحبت کا ذکر

پھر نبیٔ اکرمؐ کی ہجرتِ مدینہ جب ہوئی ہے اُس میں حضرت ابوبکر صدّیقؓ کی مصاحبت کا ذکر ہے۔ لکھا ہے کہ کفّار مکّہ کا مکّہ میں مقیم مسلمانوں پر ظلم و ستم مسلسل بڑھتا جا رہا تھا کہ اِسی دوران آنحضرتؐ کو ایک خواب دکھایا گیا جس میں مسلمانوں کو وہ جگہ دکھائی گئی جدھر اب ہجرت کرنا تھی وہ جگہ شور زمین والی کھجوروں میں گھری ہوئی تھی لیکن اُس کا نام نہ دکھایا گیا تھا اور نہ بتایا گیا تھا البتّہ اِس کا جغرافیہ اور نقشہ دیکھتے ہوئے آنحضرتؐ نے خود اجتہاد فرماتے ہوئے فرمایا کہ ہجر یا یمامہ ہو گی، جیسا کہ صحیح بخاری کی ایک روایت میں ذکر ملتا ہے، جس کے مطابق آپؐ نے فرمایا!

فَذَھَبَ وَھَلِیْ اِلٰی اَنَّھَا الْیَمَامَةُ اَوْ ھَجَرُ فَاِذَا ھِیَ الْمَدِیْنَةُ یَثْرِبُ

کہ میرا خیال اِس طرف گیا کہ یہ جگہ یمامہ یا ہجر ہے مگر کیا دیکھتا ہوں کہ وہ تویثرب شہر ہے۔

یمامہ بھی یمن کا ایک مشہور شہر ہے اور ہجر جو ہے اسلام کی متعدد بستیاں عرب خطہ میں پائی جاتی تھیں، بحرین کا ایک شہر اور بحرین کا ایک حصہ بھی ہجر کہلاتا تھا۔بہرحال کچھ ہی عرصہ بعد حالات ایک رُخ پر ہونے لگے اور مدینہ کے سعادت مند انصار نے اسلام قبول کرنا شروع کیا تو القائے ربّانی سے آپؐ پر منکشف ہؤا کہ وہ سرزمین تو یثرب کی سرزمین تھی جو بعد میں مدینہ کے نام سے مشہور ہونے والی تھی۔

آنحضرتؐ نے اپنے اجتہاد سے پیشگوئی کا محلّ و مصداق سمجھا تھا وہ غلط نکلا

حضرت اقدس مسیحِ موعود علیہ الصّلوۃ والسّلام نے نبیٔ کریمؐ کے اِس اجتہاد کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا۔ وہ حدیث جس کے یہ الفاظ ہیں کہ ذَھَبَ وَھَلِیْ اِلٰی اَنَّھَا الْیَمَامَةُ اَوِ الْھَجَرُ فَاِذَا ھِیَ الْمَدِیْنَةُ یَثْرِبُ صاف صاف ظاہر کر رہی ہے کہ جو کچھ آنحضرتؐ نے اپنے اجتہاد سے پیشگوئی کا محلّ و مصداق سمجھا تھا وہ غلط نکلا چنانچہ آنحضرتؐ نے مکّہ کے مظلوم اور ستم رسیدہ صابر مسلمانوں کو مدینہ کی طرف ہجرت کرنے کی اجازت و رہنمائی فرما دی، جس پر مکّہ کے مسلمانوں نے مدینہ کی طرف ہجرت شروع کر دی۔

بیعتِ عقبۂ ثانیہ کے بعد ہجرت بھی تیزی آ گئی

 دوسری طرف بیعتِ عقبۂ ثانیہ کے بعد اِس ہجرت میں بھی تیزی آ گئی اور گھروں کے گھر اور محلوں کے محلے خالی ہونے لگے، اِس صورتحال نے مکّہ کے ظالم سرداروں کو مزید اشتعال دلا دیا اور وہ غصہ سے تلملانے لگے۔ جس پر اُنہوں نے ایک اور قدم اُٹھایا کہ اِن مظلوموں کو ہجرت کرنے سے بھی روکا جانے لگا اور ظلم و ستم کے نِت نئے طریقے نکالے جانے لگے۔ کبھی شوہر کو تو جانے دیا لیکن اُس کی بیوی اور بچے کو اُس سے چھین لیا گیا، کبھی کسی سے سرمایہ اور مال و دولت اِس بہانے ہتھیا لی گئی کہ یہ تو تُو نے ہمارے شہر مکّہ میں کمائی تھی اگر یہاں سے جانا ہے تو یہ ساری دولت ہمیں دے کر جاؤ، کبھی ماں کی ممتا کا واسطہ دے کر روک لیا کہ اپنی ماں سے ملتے جاؤ اور پھر راستہ میں ہی اُن کو رسیوں سے باندھ کر کوٹھریوں میں ڈال دیا۔ لیکن دولتِ ایمان سے مالا مال اور دینِ اسلام کی محبّت میں سر شعار صبر وشکر کرنے والی مؤمنوں کی جماعت دیوانہ وار مدینہ کی طرف مسلسل ہجرت کرتی چلی گئی۔

جلدی نہ کرو ممکن ہے الله تمہارے لیئے ایک ساتھی کا انتظام فرما دے

بہرحال جب مکّہ کم و بیش ہر اُس مسلمان سے خالی ہو گیا جو ہجرت کر سکتا تھا وہ ہجرت کر گیا، اب کچھ انتہائی کمزور اور بے بس مسلمان ہی پیچھے رہ گئے تھے جن کا ذکر قرآنِ کریم نے یُوں کیا ہے کہ اِلَّا الۡمُسۡتَضۡعَفِیۡنَ مِنَ الرِّجَالِ وَ النِّسَآءِ وَ الۡوِلۡدَانِ لَا یَسۡتَطِیۡعُوۡنَ حِیۡلَةً وَّ لَا یَھْتَدُوۡنَ سَبِیۡلًا (النّسآء: 99) سوائے اُن مَردوں اور عورتوں اور بچوں کے جنہیں کمزور بنا دیا گیا تھا، جن کو کوئی حیلہ میسر نہیں تھا اور نہ ہی وہ (نکلنے) کی کوئی راہ پاتے تھے۔اِن کے علاوہ آنحضرتؐ ابھی تک مدینہ میں ہی اِذنِ خداوندی کا انتظار فرما رہے تھے، حضرت علیؓ بھی مکّہ میں ہی تھے کہ البتّہ حضرت ابوبکر صدّیقؓ ہجرت کی اجازت طلب کرنے حاضرِ خدمت ہوئےتو ارشاد ہؤا کہ ٹھہر جاؤ! مجھے اُمّید ہے کہ مجھے بھی اجازت دی جائے گی یا ایک روایت کے مطابق آپؐ نے فرمایا کہ تم جلدی نہ کرو ممکن ہے الله تمہارے لیئے ایک ساتھی کا انتظام فرما دے۔ اِس پر حضرت ابوبکرؓ نے عرض کیا، یا رسول اللهؐ!میرے ماں باپ آپؐ پر قربان کیا آپؐ کو بھی ہجرت کی اجازت مل جائے گی؟ گویا ہجرت کی وجہ سےنبیٔ اکرمؐ سے جدائی کا غم جاتا رہا، حضرت ابوبکرؐ یہ نویدِ مسرّت سُن کر واپس لَوٹ کرآئے اور ہجرت کا اِرادہ ملتوی کر دیا، البتّہ اُنہوں نے حکیمانہ انداز میں دو اُونٹنیاں خریدیں جنہیں خاص طور پر کھلا کھلا کر ہجرت کے انجانے سفر کے لیئے تیار کرنے لگے۔

آپؓ ابھی ٹھہریں، اُمّید ہے کہ مجھے اجازت مل جائے

اِن باتوں کا تذکرہ کرتے ہوئے حضرت المصلح الموعودؓ بیان فرماتے ہیں کہ رسولِ کریمؐ اور آپؐ کے ساتھیوں نے ہجرت کی تیاری شروع کی، ایک کے بعد ایک خاندان مکّہ سے غائب ہونا شروع ہؤا، اب وہ لوگ بھی جو خدا تعالیٰ کی بادشاہت کا انتظار کر رہے تھے دلیر ہو گئے۔ بعض دفعہ ایک ہی رات میں مکّہ کی ایک پوری گلی کے مکانوں کو تالے لگ جاتے تھے اور صبح کے وقت جب شہر کے لوگ گلی کو خاموش پاتے تو دریافت کرنے پر اُنہیں معلوم ہوتا کہ اِس گلی کے تمام رہنے والے مدینہ کو ہجرت کر گئے ہیں اور اسلام کے اِس گہرے اثر کو دیکھ کر جو اندر ہی اندر مکّہ کے لوگوں میں پھیل رہا تھا وہ حیران رہ جاتے تھے۔ آخر مکّہ مسلمانوں سے خالی ہو گیا، صرف چند غلام اور خود رسول اللهؐ، حضرت ابوبکرؓ اور حضرت علیؓ مکّہ میں رہ گئے۔پھر آپؓ بیان فرماتے ہیں کہ کفّار مکّہ کو دوسرے لوگوں کی نسبت رسولِ کریمؐ سے فطرتًا زیادہ بُغض ا و ر عداوت تھی کیونکہ وہ دیکھتے تھے کہ آپؐ ہی کی تعلیم کی وجہ سے لوگوں میں شرک کی مخالفت پھیلتی جاتی ہے، وہ جانتے تھے کہ اگر وہ آپؐ کو قتل کر دیں تو باقی جماعت خود بخود پراگندہ ہو جائے گی۔ اِس لیئے بہ نسبت دوسروں کے وہ آنحضرتؐ کو زیادہ دکھ دیتے اور چاہتے کہ کسی طرح آپؐ اپنے دعاوی سے باز آ جائیں لیکن باوجود اِن مشکلات کے آپؐ نے صحابہؓ کو تو ہجرت کا حکم دے دیا مگر خود اُن دکھوں اور تکلیفوں کے باوجود مکّہ سے ہجرت نہ کیونکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی اِذن نہ ہؤا تھا۔ چنانچہ جب حضرت ابوبکرؓ نے پوچھا کہ مَیں ہجرت کر جاؤں تو آپؐ نے جواب دیا!عَلٰی رِسْلِكَ فَاِنِّیْ اَرْجُوْ اَنْ یُؤْذَنَ لِیْ کہ آپؓ ابھی ٹھہریں، اُمّید ہے کہ مجھے اجازت مل جائے ۔

دارالنّدوہ میں کفّار نبیٔ کریمؐ کے خلاف خفیہ مشورے کرنے کے لیئے اکٹھے ہوئے

دارالنّدوہ میں کفّار نبیٔ کریمؐ کے خلاف خفیہ مشورے کرنے کے لیئے اکٹھے ہوئے، اِس کے بارہ میں لکھا ہے کہ رؤسائے مکّہ اب اِس بات پر سخت غصہ میں تھے اور پیچ و تاب کھا رہے تھے کہ مسلمان اِن کے ہاتھ سے بچ کر نکل گئے ہیں۔ اِس پر اب وہ دارالنّدوہ میں جمع ہوئے۔ علامہ ابنِ اسحٰق ؒکہتے ہیں کہ جب قریش نے دیکھا کہ نبیٔ کریم ؐ کے ساتھ ایک گروہ کچھ اصحابؓ مل گئے ہیں جو نہ مکّہ کے مسلمانوں سے ہیں اور نہ ہی اُن کے علاقہ کے ہیں نیز قریش نے دیکھا کہ آپؐ کے صحابہؓ اُن لوگوں کی طرف ہجرت کر کے نکل رہے ہیں تو قریش نے جان لیا کہ وہ ایک امن کی جگہ پڑاؤ کر رہے ہیں اور اُنہیں اُن لوگوں یعنی اہلِ مدینہ کی جانب سے مکمل تحفظ فراہم ہو گیا ہے تو اُنہیں خدشہ ہؤا کہ رسولِ کریمؐ ہجرت کر کے اُن کی طرف نہ چلے جائیں اور قریش نے جان لیا کہ وہ لوگ قریش کے ساتھ جنگ کے لیئے اکٹھے ہو رہے ہیں چنانچہ وہ آپؐ کے لیئے دارالنّدوہ میں جمع ہوئے۔ یہ قُصئی بن کلاب کا وہ گھر تھا کہ قریش کا جو بھی فیصلہ ہوتا تھا وہ اِسی میں ہوتا تھا جب بھی اُنہیں آپؐ کے بارہ میں خدشہ محسوس ہوتا تو لوگ یہاں مشورہ کے لیئے آیا کرتے تھے۔

ایک اور روایت میں ہے کہ حضرت عبدالله ؓ بن عبّاسؓ نے بیان کیا کہ جب وہ لوگ اِس کے لیئے جمع ہوئے اور اُنہوں نے عہدو پیمان کیا کہ وہ دارلنّدوہ میں داخل ہوں گےتاکہ وہ رسول اللهؐ کے بارہ میں مشاورت کریں ، جس روز کا اُنہوں نے عہد و پیمان کیا تھا اُس دن وہ لوگ گئے اور وہ دن یوم الزّحمہ کہلاتا ہے۔ اُن کے سامنے ایک بُوڑھے اور عمر رسیدہ شخص کی ہَیت میں ابلیس ظاہر ہؤا۔حضورِ انور ایّدہ الله تعالیٰ بنصرہ العزیز نے تصریح فرمائی کہ یہاں مطلب یہ ہے کہ ایسا انسان تھا، ابلیس صفت انسان تھا۔بہرحال جس نے چادر اوڑھی ہوئی تھی اور دارالنّدوہ کے دروازہ پر کھڑا ہؤا(وہ لوگ جانتے نہیں تھے اُسے) جب اُن لوگوں نے اُسے دروازہ پر کھڑےدیکھا تو اُنہوں نے کہا کہ یہ بُوڑھا شخص کون ہے؟ اُس شخص نے کہا کہ مَیں اہلِ نجد میں سے ایک بُوڑھا شخص ہوں اور اُس نے کہا کہ مَیں نے وہ بات سُن لی ہے جس کاتم نے عہد وپیمان کیا تھا، پس تمہارے پاس مَیں اِس لیئے آیا ہوں تاکہ وہ سُن لے کہ تم لوگ کیا کہتے ہو، اُمّید ہے تمہیں اِس سے کوئی نہ کوئی رائے یا بھلائی مِل جائے گی(اُس نے کہا اپنے بارہ میں)۔ اُن لوگوں نے کہا! ٹھیک ہے اندر آ جاؤ، وہ اُن لوگوں کے ساتھ اندر داخل ہو گیا۔ وہاں قریش کے سرداران کی ایک بڑی جماعت شریک تھی جن کے نمایاں ناموں میں عُتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ، ابوسفیان بن حرب، طُعَیْمہ بن عدی اور بعض لوگ تھے ابوجہل بن ہشام، حجاج کے دو بیٹے اور بہت سارے لوگ تھے، اِس کے علاوہ کچھ سردار بھی تھے جن کا شمار قریش سے نہیں ہوتاتھا۔ جب سب لوگ جمع ہو گئے اور تجاویز دینے کا وقت آیا تو ایک شخص نے تجویز پیش کی کہ اُسے یعنی محمد (صلی اﷲ علیہ وسلم) کو لوہے کی بیڑیوں میں جکڑ کر قید کر دو اَور باہر سے دروازہ بند کر دو پھر اُس پر اِسی موت کے آنے کا انتظار کرو جو اِس سے پہلے اِس جیسے دو شُعراء پر آ چکی ہے۔ مثلًا زُہیر اور نابغہ اور دیگر شُعراء جو پہلے گزر چکے ہیں (یعنی انجام کا انتظار کرو جس طرح اِس سے پہلے دو شاعروں زُہیر اور نابغہ وغیرہ کا ہو چکا ہے یعنی موت اِن کا خاتمہ کر دے تو جیسے اُن کو موت آئی تھی،آپؐ کے لیئے بھی یہیplan کیا گیا) اِس پر اُس بوُڑھے نجدی نے کہا! نہیں۔ الله کی قسم ، میرے نزدیک یہ رائے تمہارے لیئے مناسب نہیں ہے، والله! اگر تم لوگوں نے اُسے قید کر دیا تو اُس کی خبر بند دراوزہ سے باہر نکل کر اُس کے ساتھیوں تک ضرور پہنچ جائے گی پھر کچھ بعید نہیں کہ وہ لوگ تم پر دھاوا بول کر اِس شخص کو تمہارے قبضہ سے نکال کر لے جائیں۔ پھر اِس کی مدد سے اپنی تعداد بڑھا کر تمہیں مغلوب کر لیں لہٰذا کوئی اور تجویز سوچو۔اِس پر ایک شخص نے یہ تجویز دی کہ ہم اِس شخص کو اپنے درمیان سے نکال دیں اور اپنے شہر سے جلاء وطن کر دیں پھر ہمیں اِس سے کوئی واسطہ نہیں کہ وہ کہاں جا تا ہے اور کہاں رہتا ہے جب وہ ہم سے غائب ہو جائے گا اور ہم اُس سے فارغ ہو جائیں گےتو ہمارا معاملہ ٹھیک ہو جائے گا اور ہم پہلی جیسی حالت میں رہنے لگیں گے۔اِس پر بُوڑھے نجدی نے کہاکہ نہیں، الله کی قسم! یہ رائے بھی ٹھیک نہیں۔ تم دیکھتے نہیں کہ اِس شخص کی بات کتنی عمدہ اور بول کتنے میٹھے ہیں اور جو کچھ لاتا ہے اُس کے ذریعہ کس طرح لوگوں کے دلوں کو مغلوب کر لیتا ہے۔ الله کی قسم! اگر تم نے ایسا کیا تو تم لوگ امن میں نہیں رہو گے کہ وہ عرب کے کسی قبیلہ میں اُترے اور اپنی باتوں سے اُن پر غلبہ حاصل کرے اور اُس کی پیروی کرنے لگیں وہ لوگ اورپھر اِن کے ساتھ مِل کر تمہاری طرف پیش قدمی کریں اور تمہیں تمہارے ہی شہر میں روندھ ڈالیں اور تمہارے معاملات تمہارے ہاتھوں سے لے لیں اور پھر جیسا چاہے تم سے سلوک کریں لہٰذا اِس کے علاوہ کوئی اور تجویز سوچو۔

رائے ہے تو بس اِس شخص کی، باقی سب فضول باتیں ہیں

اِس پر ابوجہل نے کہا! میری رائے تو یہ ہے کہ قریش کے ہر قبیلہ سے ایک، ایک نَو عمر مضبوط اور حسب و نسب والا جوان چُنا جائے اور اُن میں سے ہر ایک کے ہاتھ میں تیز کاٹنے والی تلوار دے دی جائے پھر وہ لوگ اِس یعنی محمد (صلی اﷲ علیہ وسلم) کا قصد کریں اور ایک شخص کے حملہ کرنے کی طرح اِس پر حملہ کیا جائے اور اُسے قتل کر دیں، یُوں ہمیں اِس شخص سے راحت مِل جائے گی۔ اِس طرح قتل کرنے کا نتیجہ یہ ہو گا کہ اِس شخص کا کون سارے قبائل میں منقسم ہو جائے گا اور بنو عبد مناف سارے قبیلوں سے جنگ نہ کر سکیں گےلہٰذا دیّت لینے پر راضی ہو جائیں گےاور ہم دیّت ادا کر دیں گے۔ اِس پر بُوڑھے نجدی نے کہا! رائے ہے تو بس اِس شخص کی، باقی سب فضول باتیں ہیں۔ غرض اِس رائے پر سب اتفاق کرتے ہوئے چلے گئے۔دوسری طرف الله تعالیٰ نے آنحضرتؐ کو اِس ساری صورتحال سے آگاہ فرما دیا جیسا کہ وہ فرماتا ہے۔

وَ اِذۡ یَمۡکُرُ بِکَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا لِیُثۡبِتُوۡکَ اَوۡ یَقۡتُلُوۡکَ اَوۡ یُخۡرِجُوۡکَ ؕ وَ یَمۡکُرُوۡنَ وَ یَمۡکُرُ اللّٰہُ ؕ وَ اللّٰہُ خَیۡرُ الۡمٰکِرِیۡنَ (الانفال: 31)

 اور (یاد کرو) جب وہ لوگ جو کافر ہوئےتیرے متعلق سازشیں کر رہے تھے تاکہ (تجھے ایک ہی جگہ) پابند کر دیں یا تجھے قتل کر دیں یا تجھے (وطن سے) نکال دیں اور وہ مکر میں مصروف تھے اور الله بھی اِن کے مکر کو توڑ کر رہا تھا اور الله مکر کرنے والوں میں سب سے بہتر ہے۔

 اور ساتھ ہی جبرائیلؑ کے ذریعہ آنحضرتؐ کو ہجرت کی اجازت دے دی۔

کفار مکّہ نے آنحضرتؐ کے قتل کرنے کا اِرادہ کیا تو الله جلّ شانہ نے اپنے پاک نبیؐ کو اِس بدّ اِرادہ کی خبر دے دی

حضرت مسیحِ موعود ؑ فرماتے ہیں کہ کفار مکّہ نے آنحضرتؐ کے قتل کرنے کا اِرادہ کیا تو الله جلّ شانہ نے اپنے اِس پاک نبیؐ کو اِس بدّ اِرادہ کی خبر دے دی اور مکّہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کر جانے کاحکم فرمایا اور پھر بہ فتح و نصرت واپس آنے کی بشارت دی۔ بُدھ کا روز اور دوپہر کا وقت اور سخت گرمی کے دن تھے جب یہ ابتلاء منجانب الله ظاہر ہؤا۔

اِس دن پہلی بار مجھے معلوم ہؤا کہ خوشی سے بھی کوئی روتا ہے

ہجرت کی اجازت ملنے پر آنحضرتؐ پوری احتیاط کے ساتھ حضرت ابوبکرؓ کے گھر عین دوپہر کے وقت یعنی اُس وقت تشریف لے گئے کہ جس وقت میں مکّہ کے باشندے عمومًا اپنے گھروں میں ہی رہتے ہیں اور ایک دوسرے کی طرف آنا جانا نہیں ہوتا اور مزید احتیاط یہ بھی کی کہ شدید گرمی بھی تھی چنانچہ اپنا چہرہ اور سَر وغیرہ بھی کپڑے سے ڈھانپے رکھا۔ جب آپؐ حضرت ابوبکرؓ کے گھر کے قریب پہنچے تو کسی نے بتایا اور طبرابی اور فتح الباری کی روایت کے مطابق حضرت اسماءؓ نے کہا کہ نبیٔ اکرمؐ تشریف لاتے ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔ حضرت ابوبکرؓ کہنے لگے، میرے ماں باپ آپؐ پر قربان!الله کی قسم نبیؐ جو اِس گھڑی میں ہمارے پاس تشریف لائے ہیں اِس کی وجہ کوئی خاص بات ہے جو پیش آئی ہے اور ساتھ ہی حضرت ابوبکرؓ گھبرا کر تیزی سے فدایانہ انداز میں باہر نکلے اور جب نبیٔ اکرمؐ اندر تشریف لائے تو کمرہ میں حضرت عائشہؓ اور حضرت اسماءؓ تھیں۔آنحضرتؐ نے حضرت ابوبکرؓ سے فرمایا کہ تمہارے پاس جو لوگ ہیں اِن کو باہر بھیج دو ، جس پر حضرت ابوبکرؓ نے عرض کیا کہ حضورؐ صرف یہی میری دو بیٹیاں ہیں، اِس وقت یہاں ہیں اور کوئی نہیں ہے۔ یا ایک روایت کے مطابق عرض کیا، یا رسول اللهؐ! صرف آپؐ کے گھر کے لوگ ہی یہاں ہیں اور کوئی نہیں۔ چنانچہ آنحضرتؐ نے فرمایاکہ ابوبکرؓ مجھے ہجرت کی اجازت مِل گئی ۔ حضرت ابوبکرؓ نےبے ساختہ عرض کیا یارسول اللهؐ! آپؐ کی رفاقت یعنی مَیں بھی آپؐ کے ساتھ ہوں گا؟ رسول اللهؐ نےفرمایا! ہاں۔۔۔ اِس پر حضرت ابوبکرؓ خوشی سے رو پڑے۔ حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ اِس دن پہلی بار مجھے معلوم ہؤا کہ خوشی سے بھی کوئی روتا ہے۔

ہجرت کی ساری منصوبہ بندی اور لائحۂ عمل

اِس کے بعد وہاں ہجرت کی ساری منصوبہ بندی اور لائحۂ عمل تیار کیا گیا، حضرت ابوبکرؓ نے عرض کیا کہ یا رسول اللهؐ! اِسی غرض کے لیئے مَیں نے دو اونٹنیاں خریدی ہوئی تھیں اِن میں سے ایک آپؐ لے لیں۔ آپؐ فرمایا! قیمت دے کر لوں گا اور آپؐ نے جب قیمت دینے پر اصرار کیا تو حضرت ابوبکرؓ کے لیئے اِس کے سواء کوئی چارہ نہ رہا کہ دو اونٹنیاں حضرت ابوبکرؓ نے آٹھ سَو دِرہم میں خریدی تھیں اور چار سَور دِرہم میں ایک اونٹنی نبیٔ کریمؐ نے خریدی یا ایک روایت کے مطابق نبیٔ اکرمؐ نے یہ اونٹنی آٹھ سَو دِرہم میں خریدی تھی پھر یہ طے کیا گیا کہ پہلی منزل غارِ ثور ہو گی اور تین دن وہیں قیام کرنا ہو گا اور یہ بھی طے ہؤا کہ کسی ایسے ماہر کو لیا جائے جو مکّہ کے چاروں طرف کےتمام معروف اور غیر معروف صحرائی راستوں سے واقف ہو۔ اِس کے لیئے عبدالله بن اُریقِط سے بات ہوئی یہ اگر چہ مشرک تھا لیکن شریف النّفس اور ذمّہ دار اور دیانت دار شخص تھا۔ سیرت نگار اِس کے بارہ میں کہتے ہیں کہ یہ مسلمان نہیں ہؤا تھا تاہم ایک روایت کے مطابق اِس نے بعد میں اسلام قبول کر لیا تھا۔ بہرحال اِس کے حوالہ تین اونٹنیاں کی گئیں اور طے کیا گیا کہ وہ ٹھیک تین دن بعد غازِ ثور پر علی الصبح چلا آئے، حضرت عبداللهؓ بن ابوبکرؓ جو ایک ہوشیار نوجوان تھے اِن کے سپرد یہ ڈیوٹی لگائی گئی کہ وہ روزانہ مکّہ کی مجالس میں گھوم پھر کر جائزہ لیں گے کہ کیا کچھ ہو رہا ہے اور پھر رات کو غارِ ثور پہنچ کر ساری رپورٹنگ کریں گے۔ حضرت ابوبکرؓ کے ایک دانا اور ذمّہ دار غلام عامر بن فُہیرہ کے سپرد یہ ڈیوٹی ہوئی کہ وہ اپنی بکریاں غارِ ثور کے ارد گرد ہی چَرائے گا اور رات کے وقت وہ دودھ دینے والی بکریوں کا تازہ دودھ فراہم کرے گا اور پھرمکّہ سے نکلنے کا وقت طے کرنے کے بعد آنحضرتؐ جلد ہی حضرت ابوبکرؓ کےگھر سے واپس اپنے گھر تشریف لے آئے۔ یہاں آکر آپؐ نے حضرت علیؓ کو اپنی ہجرت کے پروگرام سے آگاہ کرتے ہوئے اُن کے سپرد ایک جانثارانہ کام یہ کیا کہ آج رات وہ حضورؐ کے بسترِ مبارک پر وہ ہی سبز یا ایک روایت کے مطابق سُرخ رنگ کی حزرمی چادر اوڑھ کر سوئیں گے جو نبیٔ اکرمؐ خود لے کر سویا کرتے تھے اور اپنے اِس جانثار فدائی خادم کو خدائی تائید و نصرت کی یقین دہانی کراتے ہوئے کہا(آپؐ نے) کہ فکر نہ کرنا اور بڑے آرام سے میرے بستر پر سوئے رہنا، دشمن تمہارا بال بھی بیکا نہیں کر سکتا نیز صادق و امین رسولِ خداؐ کو چونکہ اَہلیانِ مکّہ کی دی ہوئی امانتوں کا بھی فکر اور ذمّہ داری کا احساس تھا ، اِس لیئے فرمایا کہ وہ لوگوں کو امانتیں واپس کرتے ہوئے میرے پیچھے آ جائیں۔۔۔ چنانچہ حضرت علیؓ تین دن مکّہ میں ٹھہرے یہاں تک کہ آپؓ نے رسول اللهؐ کی طرف سے لوگوں کو امانتیں واپس کر دیں، جب آپؓ اِس سے فارغ ہو گئے تو آپؓ بھی رسولِ کریمؐ سے قباء میں جا مِلے۔

آپؐ اِن کے سروں پر خاک ڈالتے ہوئے اُن کے سامنے سے نکل گئے

اِس کے بعد آنحضرتؐ اپنے گھر سے باہر تشریف لائےجبکہ کفّارِ مکّہ کے چُنیدہ بہادر، اِن کی آنکھوں میں گویا خون اُترا ہؤا تھا، وہ تلواریں ہاتھ میں لیئے عین نبیٔ کریمؐ کے گھر کے باہر چاق و چوبند پہرہ دے رہے تھے کہ کب رات گہری ہو اور ہم دھاوا بول کر ایک ہی وار میں رسولِ اکرمؐ کا گویا کام تمام کر دیں۔ اور ابو جہل جو کہ گویا اُن کو سرغنہ تھا بڑے تکبّر اور تمسخر سے یہ کہہ رہا تھا کہ محمد(صلی اﷲ علیہ وسلم) یہ کہتا ہے کہ اگر تم اُس کے معاملہ میں اُس کی پیروی کرو گے تو تم عرب و عجم کے بادشاہ بن جاؤ گےپھر تم اپنی موت کے بعد اُٹھائے جاؤ گے کہ تمہارے لیئے اُردن کے باغات کی مانند باغات بنائے جائیں گے اور اگر تم ایسا نہیں کرو گےتو تمہارے درمیان قتل و غارت گری ہو گی۔آپؐ باہر نکلے اور فرمایا! ہاں۔ ایسے ہی مَیں کہتا ہوں اور سورۂ یٰسٓکی یہ آیات پڑھتے ہوئے۔۔۔ اِس ضمن میں حضورِ انور ایّدہ الله تعالیٰ بنصرہ العزیز نےسورۂ یٰسٓکی آیات 2 تا 10 بمعہ ترجمہ پیش کرنے کے بعد مزید بیان فرمایا کہ آپؐ اِن کے سروں پر خاک ڈالتے ہوئے اُن کے سامنےسے نکل گئے لیکن خدا کی قدرت کہ آپؐ جاتے ہوئے کسی کو بھی دکھائی نہ دیئے بلکہ وہ لوگ گاہے بگاہے اندر جھانک کر دیکھ لیتے اور اطمنان کر لیتے کہ محمد(صلی اﷲ علیہ وسلم) اپنے بستر پر ہی ہیں۔اِس واقعہ کا تذکرہ بیان فرمودہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحِبؓ از سیر ت خاتم النّبّین بھی پیش کیا گیا۔

عشق است کہ ایں کار بصد صدق کناند

حضرت مسیحِ موعودؑ نے اِس کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ جب آنحضرتؐ ایک ناگہانی طور پر اپنے قدیمی شہر کو چھوڑنے لگے اور مخالفین نے مار ڈالنے کی نیّت سے چاروں طرف سے اِس مبارک گھر کو گھیر لیا تب ایک جانی عزیز جس کا وجود محبّت اور ایمان سے خمیر کیا گیا تھا جانبازی کے طور پر آنحضرتؐ کے بستر پر بااشارۂ نبویؐ اِس غرض سے مُنہ چھپا کر لیٹ رہا کہ تا مخالفوں کے جاسوس آنحضرتؐ کے نکل جانے کی کچھ تفتیش نہ کریں اور اِسی کو رسول اللهؐ سمجھ کر قتل کرنے کے لیئے ٹھہرے رہیں۔

کس بہر کسے سر ند ہد جان نہ فشاند
عشق است کہ ایں کار بصد صدق کناند

یعنی کوئی شخص کسی دوسرے کے لیئے سَر نہیں دیتا، نہ ہی جان چھڑکتا ہے ۔ یہ عشق ہے جو یہ کام انسان سے بصَد صدق کرواتا ہے۔

کس وقت آنحضرتؐ اپنے گھر سے نکلے ، روایات میں اختلاف

حضور ِ انور ایّدہ الله تعالیٰ بنصرہ العزیز نے بیان فرمایا ! کس وقت آنحضرتؐ اپنے گھر سے نکلے اِس بارہ میں جو روا یات میں اختلاف ہے اُس کا ذکر کرتا ہوں۔ ایک روایت میں ذکر ہے کہ آپؐ رات کی آخری تہائی میں گھر سے باہر تشریف لائے تھے چنانچہ محمد حسین ہیکل لکھتے ہیں کہ رات کی آخری تہائی میں حضرت محمدؐ مشرکین کی غفلت کی وجہ سے حضرت ابوبکرؓ کے گھر کی طرف نکلےاور وہاں سے دونوں گھر کے پچھلے دروازہ سے نکل کر جنوب میں غارِ ثور کی طرف چل پڑے۔ ایک روایت میں یہ ذکر ہے کہ آپؐ آدھی رات کے وقت نکلے چنانچہ دلائل النّبوۃ میں لکھا ہے کہ رسول اللهؐ اور حضرت ابوبکرؓ آدھی رات کے وقت غارِ ثور کی طرف روانہ ہوئے تھے۔ مدارج النّبوۃ میں لکھا ہے کہ جب حضورِ اکرمؐ نے اِرادہ فرمایا کہ صبح کے وقت ہجرت کر جائیں تو شام ہی کو حضرت علی مرتضیٰ کرم الله وجہہ سے فرمایا! آج رات تم یہیں سونا تاکہ مشرکین شک و شُبہ میں مبتلا ہو کر حقیقتِ حال سے باخبر نہ ہو ں۔ حضرت مرزا بشیر احمدصاحِبؓ نےجو لکھا ہے وہ ہے کہ نبیٔ کریمؐ اوّل شب اپنے گھر سے نکلے تھے۔۔۔حضرت المصلح الموعودؓ نے جو روایات سے لے کے فرمایا ہے جو وہ یہ ہے کہ ۔۔۔ آپؐ رات کی تاریکی میں ہجرت کے اِرادہ سے اپنے گھر سے باہر نکل رہے تھے۔۔۔حضرت اقدس مسیحِ موعود علیہ الصّلوٰۃ والسّلام کے مطابق نبیٔ کریمؐ صبح کے وقت گھر سے نکلے تھے۔۔۔ حضور ِ انور ایّدہ الله تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اِس تناظر میں ارشاد فرمایا! بہرحال مختلف روایتیں لیکن نتیجہ یہی ہے کہ پتا نہیں لگا کفّار کو۔

مختلف روایات کہ اپنے گھر سے نکل کر نبیٔ اکرمؐ کس طرف تشریف لے گئے

ایک روایت سے یہ تأثر ملتا ہے کہ آنحضرتؐ اپنے گھر سے نکلے ہوں گے اور حضرت ابوبکرؓ اپنے گھر سے اور راستہ میں کسی ایک جگہ پر دونوں اکٹھے ہو کر غارِ ثور کی طرف چل پڑے۔ ایک روایت میں ہے کہ نبیٔ اکرمؐ اپنے گھر سے غارِ ثور کی طرف نکلے اور کچھ دیر بعد حضرت ابوبکرؓ آپؐ کے گھر پہنچے تو حضرت علیؓ نے اُنہیں فرمایا کہ وہ تو جا چکے ہیں اور غارِ ثور کی طرف تشریف لے جا رہے ہیں، اِس لیئے آپؓ بھی اُن کے پیچھے پیچھے چلے جائیں۔ چنانچہ حضرت ابوبکرؓ نبیٔ اکرمؐ کے پیچھے چلے گئے۔ حضور ِ انور ایّدہ الله تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مؤخر الذکر روایت کی بابت ارشاد فرمایا! بہر حال یہ روایت تو بہت کمزور لگتی ہے، اِس سے یہ تأثر ملتا ہے کہ گویا نبیٔ اکرمؐ حضرت ابوبکرؓ کا انتظار فرماتے رہے اور وہ late ہو گئے اور حضرت ابوبکرؓ کو یہ بھی علم نہیں کہ نبیٔ اکرمؐ کدھر گئے ہوں گے اور سب کچھ حضرت علیؓ اب اُنہیں بتا رہے ہیں۔ ہجرت جیسا اہم ترین رازدارانہ سفر اور حضرت ابوبکرؓ جیسا فہیم اور ذمّہ دار شخص اِس طرح کی لاپرواہی کا مرتکب ہو، یہ نہیں ممکن ہو سکتا۔ اِس لیئے اِس روایت کی نسبت دوسری روایت جو زیادہ تر کتب میں موجود ہے وہ زیادہ درست اور قرینِ قیاس معلوم ہوتی ہے کیونکہ اِس کے مطابق آنحضرتؐ اپنے گھر سے نکل کر سیدھے حضرت ابوبکرؓ کے گھر تشریف لے گئے اور وہاں سے حضرت ابوبکرؓ کے ساتھ غارِ ثور کی طرف روانہ ہوئے۔

ذَاتُ النِّطَاقَیْنِ

اِس موقع پر حضرت ابوبکرؓ کی دو با وفاء بہادر بیٹیوں حضرت عائشہؓ اور حضرت اسماءؓ نے سفر کے لیئے کھانا بھی جلدی جلدی تیار کر دیا تھا جس میں بُھنی ہوئی بکری کا گوشت بھی تھا۔ حالات کی نزاکت اور جلدی میں کھانے کا برتن جو چمڑے کا تھا باندھنے کو کچھ نہ ملا تو حضرت اسماءؓ نے اپنا نِطاق یعنی کمربند کھولا اور اِس کے دو حصے کیئے اور کھانا باندھا، ایک سے توشہ دان اور دوسرے سے مشکیزہ کا مُنہ باندھ دیا۔ نبیٔ اکرمؐ جو شحفاء کے اِن لمحات کو بغور دیکھ رہے تھے فرمانے لگے کہ اَے اسماءؓ! الله تمہارے اِس نِطاق کے بدلہ میں تمہیں جنّت میں دو نِطاق عطاء کرے گا(یعنی کہ وہ کمر بند جو باندھا ہؤا تھا کپڑا کمر پے)۔ آنحضرتؐ کے اِس ارشاد کی وجہ سے بعد میں حضرت اسماءؓ کو ذَاتُ النِّطَاقَیْنِ کہا جانے لگا۔

سفرِ ہجرت میں نبیٔ کریمؐ کا ورودِ اَدعیاء

ہجرت کے اِس سفر میں نبیٔ کریمؐ زیرِ لب اِس آیت کا وِرد فرماتے ہوئے چلے جا رہے تھے۔ وَ قُلۡ رَّبِّ اَدۡخِلۡنِیۡ مُدۡخَلَ صِدۡقٍ وَّ اَخۡرِجۡنِیۡ مُخۡرَجَ صِدۡقٍ وَّ اجۡعَلۡ لِّیۡ مِنۡ لَّدُنۡكَ سُلۡطٰنًا نَّصِیۡرًا (بنیٓ اسرآءیل: 81) اور تُو کہہ اَے میرے ربّ! مجھے اِس طرح داخل کر کہ میرا داخل ہونا سچائی کے ساتھ ہو اَور مجھے اِس طرح نکال کہ میرا نکلناسچائی کے ساتھ ہو اَور اپنی جناب سے میرے لیئے طاقتور مددگار عطاء کر۔ اور ایسا ہی اِس دعا کا بھی ذکر ملتا ہے۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْ خَلَقَنِیْ وَ لَمْ اَكُ شَیْئًا اَللّٰھُمَّ اَعِنِّیْ عَلَی حَوْلِ الدُّنْیَا و َبَوَائِقَ الدَّهْرِ وَمَصَائِبَ الْلِّيَالِیْ وَالْاَيَّامِ اَللّٰھُمَّ الصْحَبْنِیْ فِیْ سَفَرِیْ وَ اخْلُفْنِیْ وَ اَھْلِیْ وَ بَارِكْ لِیْ فِیْ مَا رَزَقْتَنِیْ وَلَكَ فَذَ لِّلْنِیْ وَ عَلَی صَالِح خَلْقِیْ فَقَوِّمْنِیْ وَ اِلَی رَبِّ فَحَبِّبْنِیْ وَ اِلَی النَّاسِ فَلَا تَکِلْنِیْ اَنْتَ رَبُّ الْمُسْتَضْعَفِیْنَ وَ اَنْتَ رَبِّیْ اَعُوْذْ بِوَجْھِكَ الْکَرِیْمِ الَّذِیْ اَشْرَقَتْ لَهٗ سَمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ وَکُشِفَتْ بِهِ الظُّلُمَاتُ وَ صُلَحُ عَلَیْهِ اَمْرُ الْاَوَّلِیْنَ وَ الْاٰخِرِیْنَ اَنْ یَّحِلَّ بِهِ غَضَبُكَ اَوْ یَنْزِلَ اِلَیَّ سُخْتُكَ اَعُوْذُبِكَ مِنْ زَوَالِ نِعْمَتِكَ وَ فُجَاَۃِ نِقْمَتِكَ وَ تُحَوِّلُ عَاقِبَتِكَ وَ جَمِیْعِ سُخْتِكَ لَكَ الْعُتْبٰی خَیْرَ مَا اسْتَطَعْتُ وَ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِكَ ؛ تمام تعریفیں الله کے لیئے جس نے مجھے پیدا کیا اور مَیں کچھ بھی نہیں تھا۔ اَے الله! دنیا کے خوف پر اور زمانہ کے مصائب پر اور رات اور دن کے مصائب پر میری مدد فرما۔ اَے الله! میرے سفر میں تُو میرا ساتھی ہو جا اور میرے اہل میں میرا قائمقام ہو جا اَور جو تُو نے مجھے دیا ہے اُس میں میرے لیئے برکت رکھ دے اور مجھے اپنے ہی تابع کر دے اور میری عمدہ تخلیق پر مجھے مضبوط کر دے اور میرے ربّ کا مجھے محبوب بنا دے اور مجھے لوگوں کے سپرد نہ کرنا۔ تُو کمزوروں کا ربّ ہے اور تُو میرا بھی ربّ ہے تیرا وجہہ کریم جس سے آسمانوں و زمین روشن ہوئے اور جس سے اندھیرے چھٹ گئے اور جس سے پہلے اور بعد میں آنے والوں کا معاملہ درست ہو گیا مَیں اِس کی پناہ میں آتا ہوں اِس بات سے کہ مجھ پر تیرا غضب اُترے یا مجھ پر تیری ناراضگی نازل ہو۔ مَیں تیری پناہ میں آتا ہوں تیری نعمت کے زائل ہونے سے اور تیرے انتقام کے اچانک آنے سے اور تیری آخری فیصلہ کے میرے بارہ میں بدل جانے سے(شرح زرقانی میں تَحَوُّلِ عَاقِبَتِكَ کی جگہ تَحَوُّلِ عَافِیَتِكَ کے الفاظ بھی آئے ہیں اِس کا مطلب ہے کہ تیری عطاء کردہ عافیت کے جاتے رہنے سے) اور تیری ہر قسم کی ناراضگی سے۔ تیری ہی رضا مندی ہی ہے ہر اِس بھلائی میں جو مَیں کر سکا نہ گناہ سے بچنے کا کوئی حِیلہ ہے اور نہ ہی نیکی کرنے کی کوئی طاقت ہے مگر تیرے ہی ذریعہ۔

اگر تیرے باشندے مجھے زبردستی نہ نکالتے تو مَیں کبھی بھی نہ نکلتا

خانۂ کعبہ کے پیچھے سے گزرتے ہوئے نبیٔ اکرمؐ نے مکّہ کی طرف اپنا رُخ مبارک فرمایا اور اِس بستی سے یُوں مخاطب ہوئے کہ بخدا اَے مکّہ! تُو الله کی زمین میں سے مجھے سب سے زیادہ محبوب ہے اور تُو الله کی زمین میں سے الله کو بھی سب سے زیادہ محبوب ہے اور اگر تیرے باشندے مجھے زبردستی نہ نکالتے تو مَیں کبھی بھی نہ نکلتا۔

آپؐ ہر طرف سے محفوظ و مامون رہیں

امام بیقہیؒ نے لکھا ہے کہ غازِ ثور کے سفر کے دوران حضرت ابوبکرؓ کبھی آنحضرتؐ کے آگے چلتے، کبھی پیچھے اور کبھی آپؐ کے دائیں ہو جاتے اور کبھی بائیں۔ نبیٔ اکرمؐ نے پوچھا تو عرض کرنے لگے کہ یا رسول اللهؐ! مجھے خیال آتا ہے کوئی سامنے سے نہ آ رہا ہو تو مَیں آپؐ کے آگے ہو جاتا ہوں اور جب اندیشہ ہوتا ہے کوئی پیچھے سے حملہ نہ کر دے تو آپؐ کے پیچھے ہو جاتا ہوں اور کبھی دائیں اور کبھی بائیں کہ آپؐ ہر طرف سے محفوظ و مامون رہیں۔

حضرت ابوبکرؓ اِس ڈر سے کہ اگر کوئی حرکت کی تو نبیٔ اکرمؐ کے آرام میں خلل واقع ہو گاجُنبش نہ فرماتے

ایک روایت کے مطابق غارِ ثور تک پہنچتے پہنچتے اِس پہاڑی سفر میں نبیٔ کریمؐ کے قدمِ مبارک زخمی بھی ہو گئے اور ایک روایت کے مطابق راستہ میں ایک پتھر سے ٹھوکر لگنے سے پاؤں مبارک زخمی ہو گیا تھا۔جب غازِ ثور تک پہنچے تو حضرت ابوبکرؓ نے رسولِ کریمؐ سے عرض کیا کہ آپؐ ابھی یہاں ٹھہریں پہلے مجھے اندر جانے دیں تاکہ مَیں اچھی طرح غار کو صاف کر لوں اور کوئی خطرہ کی چیز ہو تو میرا اِس سے سامنا ہو۔ چنانچہ وہ اندر گئے اور غار کو صاف کیا جو بھی سوراخ اور بِل وغیرہ تھے اُن کو اپنے کپڑے سے بند کیا پھر رسول اللهؐ کو اندر آنے کی دعوت دی۔ کہتے ہیں کہ نبیٔ اکرمؐ حضرت ابوبکرؓ کی رَان پر سَر رکھ کر لیٹ گئے اور ایک سوراخ جس کے لیئے کپڑا نہ تھا یا شاید اُس وقت نظر نہ آیا ہو اُس پر حضرت ابوبکرؓ نے اپنا پاؤں رکھ دیا۔ روایت میں ہے کہ اِسی سوراخ سے کوئی بچّھو یا سانپ وغیرہ ڈستا رہا لیکن حضرت ابوبکرؓ اِس ڈر سے کہ اگر کوئی حرکت کی تو نبیٔ اکرمؐ کے آرام میں خلل واقع ہو گاجُنبش نہ فرماتے یہاں تک کہ نبیٔ اکرمؐ نے جب آنکھ کھولی تو حضرت ابوبکرؓ کے چہرہ کی بدلی ہوئی رنگت کو دیکھ کر پوچھا کہ کیا ماجرا ہے؟ تو اُنہوں نے ساری بات بتائی ، آنحضرتؐ نے اپنا لعابِ مبارک وہاں لگایا اور پاؤں ایسا تھا اِس کے بعد جیسے کچھ ہؤا ہی نہیں۔

دوسری طرف قریشِ مکّہ جو کہ نبیٔ اکرمؐ کے گھر کا محاصرہ کیئے ہوئے تھے

دوسری طرف قریشِ مکّہ جو کہ نبیٔ اکرمؐ کے گھر کا محاصرہ کیئے ہوئے تھے اُن کو دیکھ کر ایک شخص نے گزرتے ہوئے پوچھا کہ یہاں کیوں کھڑے ہو؟اُنہوں نے بتایا تو وہ کہنے لگا آدمی کہ مَیں نے تو محمد (صلی اﷲ علیہ وسلم) کو گلیوں سے گزرتے ہوئے دیکھا ہے تو اُنہوں نے اِس شخص کا مذاق اُڑاتے ہوئے کہاکہ وہ تو اندر اپنے بستر پر ہیں اور ہم مسلسل اُن پر نظر رکھے ہوئے ہیں پھر رات گئے اپنے پہلے سے طے کیئے منصوبہ کے مطابق جب وہ ایک دَم سے اندر گئے اور چادر کھینچ کر سوئے ہوئے شخص کو دیکھا تو کیا دیکھتے ہیں کہ وہ تو حضرت علیؓ ہیں، اُن سے پوچھا کہ محمد(صلی اﷲ علیہ وسلم) کہاں ہیں تو اُنہوں نے کہا کہ مجھے معلوم نہیں۔ اِس پر مشرکین نے آپؓ کو ڈانٹ ڈپٹ کی اور زدو کوب کیا اور کچھ دیر مبحوس رکھنے کے بعد آپؓ کو چھوڑ دیا بہرحال وہاں سے غیض و غضب کی حالت میں ۔۔۔واپس چلے آئے اور مکّہ کی گلی گلی اور گھر گھر آپؐ کی تلاش کرنے لگے۔۔۔ مکّہ کی چھان بین سے ناکام فارغ ہوئے تو ماہر کھوجی مکّہ کی چاروں طرف روانہ کر دیئے۔

جتنی بھی اُس کی مہارت کی داد دی جائے وہ کم ہے

رئیسِ مکّہ اُمیّہ بن خلف ، وہ خود ایک ماہر کھوجی کو لے کر اپنے ساتھیوں سمیت ایک طرف نکلا اوراِس میں کوئی شک نہیں کہ یہ کھوجی سوراغ رساں واقعی ماہر تھا جتنی بھی اُس کی مہارت کی داد دی جائے وہ کم ہے کیونکہ یہ وہ واحد کھوجی تھا کہ جو نبیٔ اکرمؐ کے قدموں کے ایک، ایک نشان کو کھوج کر عین غارِ ثور کے دہانے تک جا پہنچا اور کہنے لگا کہ محمد (صلی اﷲ علیہ وسلم) کے قدموں کے نشان بس یہاں تک ہیں اِس کے آگے نہیں جاتے۔ علامہ بلاذری نے اِس کھوجی کا نام علقمہ بن کُرز بیان کیا ہے اور لکھا ہے کہ فتحٔ مکّہ کے موقع پر اِس نے اسلام قبول کر لیا تھا۔

خدا کی قسم! اگر اُن میں سے کوئی ایک بھی اندر جھانک کر دیکھ لیتا تو ہم پکڑے جاتے

غارِ ثور کے مُنہ پر کھڑے یہ لوگ باتیں کر رہے تھے اور دو ہجرت کرنے والے عین اِسی غار میں نہ صرف اندر چھپے ہوئے تھے ، اِن لوگوں کی باتیں سُن رہے تھے بلکہ حضرت ابوبکرؓ بیان کرتے ہیں کہ مَیں اُن کے پاؤں بھی دیکھ رہا تھا اور خدا کی قسم! اگر اُن میں سے کوئی ایک بھی اندر جھانک کر دیکھ لیتا تو ہم پکڑے جاتے لیکن خطرہ اور مصیبت کی اِس گھڑی میں یہ دو اکیلے نہیں تھے بلکہ تیسرا اُن کے ساتھ وہ خدا تھا کہ جس کے قبضۂ قدرت میں زمین و آسمان ہیں اور جو قادرِمُطلق تھا اُس نے ایک طرف تو سُراغ رسانوں کے آنے سے قبل ہی وہاں اپنی معجزانہ قدرت سے ایک درخت اُگا دیا، مکڑے کو بھیج کر غار کے مُنہ پر ایک جالا بُن دیا اور کبوتروں کے ایک جوڑے کو بھیجا کہ وہاں اپنا گھونسلہ بنا کر انڈے بھی دے دیں ۔

اِس کا ذکر اِن شاء الله! آئندہ ہو گا

خطبۂ ثانیہ سے قبل حضورِ انور ایّدہ الله تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ارشاد فرمایا کہ بہرحال اِس کے بعد خدا تعالیٰ کس طرح آنحضرتؐ کی تسلی فرماتا ہے یا الله تعالیٰ کے حکم سے آپؐ نے حضرت ابوبکرؓ کو کس طرح تسلی دی، یہ ساری باتیں دیکھنے کے بعد اِس کا ذکر اِن شاء الله! آئندہ ہو گا۔

(خاکسار قمر احمد ظفر۔ نما ئندہ روزنامہ الفضل آن لائن جرمنی)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 25 دسمبر 2021

اگلا پڑھیں

کاش ہم بھی منائیں جلسہ