• 26 اپریل, 2024

بنیادی مسائل کے جوابات (قسط 5)

بنیادی مسائل کے جوابات
قسط نمبر 5

سوال:۔ ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں تحریر کیا کہ مجھے یہ معلوم کر کے شدید دھچکا لگا کہ اسلام بر سر پیکار دشمن کی عورتوں کے ساتھ ازدواجی تعلقات قائم کرنے اور ان کو بیچنے کی اجازت دیتا ہے ۔ یہ بات میرے لئے بہت حوصلہ شکن تھی۔ پھر حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی بیعت کے بعد مجھے امید تھی کہ آپ اس بات کی تردید فرمائیں گے اور اسلام کو اس نظریہ سے پاک قرار دیں گے لیکن میں نے ایسا نہیں پایا ۔حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 03 مارچ 2018ء میں اس سوال کا نہایت بصیرت افروز جواب عطاء فرمایا۔ حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے فرمایا:

جواب:۔اصل بات یہ ہے کہ اس مسئلہ کی اچھی طرح وضاحت نہ ہونے کی وجہ سے کئی غلط فہمیاں پیدا ہوجاتی ہیں اور ان غلط فہمیوں کی تردید حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام نے اپنی تحریرات میں فرمائی ہے اور آپ کے خلفاء بھی حسب موقعہ وقتاً فوقتاً اس کی تردید کرتے رہے اور اصل تعلیم بیان فرماتے رہے ہیں ۔

پہلی بات یہ ہے کہ اسلام برسرپیکار دشمن کی عورتوں کے ساتھ صرف اس وجہ سے کہ وہ برسر پیکار ہیں، قطعاً اجازت نہیں دیتا کہ جو بھی دشمن ہے ان کی عورتوں کو پکڑ لاؤ اور اپنی لونڈیاں بنالو۔

اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ جب تک خونریزجنگ نہ ہو تب تک کسی کو قیدی نہیں بنایا جاسکتا۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

مَا کَانَ لِنَبِیٍّ اَنْ یَّکُوْنَ لَہٗ اَسْرٰی حَتّٰی یُثْخِنَ فِیْ الْاَرْضِ تُرِیْدُوْنَ عَرَضَ الدُّنْیَا وَاللّٰہُ یُرِیْدُ الْاٰخِرَۃَ وَاللّٰہُ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ۔ (الانفال: 68)

کسى نبى کیلئے جائز نہىں کہ زمىن مىں خونرىز جنگ کئے بغىر کسی کو قىدى بنائے۔ تم دنىا کى متاع چاہتے ہو جبکہ اللہ آخرت پسند کرتا ہے اور اللہ کامل غلبہ والا (اور) بہت حکمت والا ہے۔

پس جب خونریزجنگ کی شرط لگا دی تو پھر میدان جنگ میں صرف وہی عورتیں قیدی کے طور پر پکڑی جاتی تھیں جو محاربت کیلئے وہاں موجود ہوتی تھیں۔ اس لئے وہ صرف عورتیں نہیں ہوتی تھیں بلکہ حربی دشمن کے طورپر وہاں آئی ہوتی تھیں ۔

علاوہ ازیں جب اس وقت کے جنگی قوانین اور اس زمانہ کے رواج کو دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہےکہ اس زمانہ میں جب جنگ ہوتی تھی تو دونوں فریق ایک دوسرے کے افراد کو خواہ وہ مردہوں یابچے یاعورتیں قیدی کے طور پر غلام اور لونڈی بتا لیتے تھے۔ اس لئے وَجَزَاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِّثْلُهَا (الشوریٰ:41) کے تحت ان کے اپنے ہی قوانین کے تابع جوکہ فریقین کو تسلیم ہوتے تھے، مسلمانوں کا ایسا کرنا کوئی قابل اعتراض امر نہیں ٹھہرتا۔ خصوصاً جب اسے اس زمانہ، ماحول اور علاقہ کے قوانین کے تناظرمیں دیکھا جائے۔ اس زمانہ میں برسرپیکار فریقین اس وقت کے مروجہ قواعد اور دستور کے مطابق ہی جنگ کر رہے ہوتے تھے ۔اور جنگ کے تمام قواعد فریقین پر مکمل طور پر چسپاں ہوتے تھے جس پر دوسرے فریق کو کوئی اعتراض نہ ہوتا تھا۔ یہ امور قابل اعتراض تب ہوتے جب مسلمان ان مسلمہ قواعد سے انحراف کر کے ایسا کرتے۔

اس کے باوجودہ قرآن کریم نے ایک اصولی تعلیم کے ساتھ ان تمام جنگی قواعدکو بھی باندھ دیا۔فرمایا:

فَاعْتَدُوْا عَلَيْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدىٰ عَلَيْكُمْ (البقرۃ:195)

یعنی جوتم پر زیادتی کرے توتم بھی اس پرویسی ہی زیادتی کرو جیسی اس نے تم پر کی ہو۔ پھر فرمایا: فَمَنِ اعْتَدٰى بَعْدَ ذٰلِكَ فَلَهُ عَذَابٌ أَلِيْمٌ (المائدۃ:95)

یعنی جو اس کے بعد حد سے تجاوز کرے گا اس کیلئے دردناک عذاب ہوگا۔

یہ وہ اصولی تعلیم ہے جو تمام سابقہ مذاہب کی تعلیمات پر بھی امتیازی فضیلت رکھتی ہے ۔ بائیبل اور دیگر مذاہب کی کتب مقدسہ میں موجود جنگی تعلیمات کامطالعہ کیاجائے تو ان میں دشمن کو تہس نہس کرکے رکھ دینے کی تعلیم ملتی ہے ۔مردوعورت تو ایک طرف رہے ان کے بچوں ، جانوروں اور گھروں تک کولوٹ لینے، جلا دینے اور ختم کر دینے کے احکامات ان میں ملتے ہیں ۔لیکن قرآن کریم نے ان حالات میں بھی جبکہ فریقین کو اپنے جذبات پرکوئی قابو نہیں رہتا اور دونوں ایک دوسرے کو مارنے کے درپے ہوتے ہیں اور جذبات اتنے مشتعل ہوتے ہیں کہ مارنے کے بعد بھی جذبات سرد نہیں پڑتے اور دشمن کی لاشوں کو پامال کرکے غصہ ٹھنڈا کیا جاتا ہے، ایسی تعلیم دی کہ گویا مونہہ زور گھوڑوں کو لگام ڈالی ہو اور صحابہ ؓ نے اس پرایسا خوبصورت عمل کرکے دکھایا کہ تاریخ ایسے سینکڑوں قابل رشک واقعات سے بھری پڑی ہے ۔

اس زمانہ میں کفار مسلمان عورتوں کو قیدی بنا لیتے اور ان سے بہت ہی ناروا سلوک کرتے ۔ قیدی تو الگ رہے وہ تو مسلمان مقتولوں کی نعشوں کا مُثلہ کرتے ہوئے ان کے ناک کان کاٹ دیتے تھے ۔ ہندہ کا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کاکلیجہ چبانا کون بھول سکتا ہے۔ لیکن ایسے مواقع پر بھی مسلمانوں کو یہ تعلیم دی گئی کہ ہرچندکہ وہ میدان جنگ میں ہیں لیکن پھر بھی کسی عورت اور کسی بچے پر تلوار نہیں اٹھانی اور مُثلہ سے مطلقاً منع فرما کر دشمنوں کی لاشوں کی بھی حرمت قائم فرمائی۔

جہاں تک لونڈیوں کا مسئلہ ہے تواس بارہ میں اس امر کو ہمیشہ پیش نظر رکھنا چاہیئے کہ اسلام کے ابتدائی زمانہ میں جبکہ دشمن اسلام مسلمانوں کو طرح طرح کے ظلموں کا نشانہ بناتے تھے اور اگر کسی غریب مظلوم مسلمان کی عورت ان کے ہاتھ آجاتی تو وہ اسے لونڈی کے طور پر اپنی عورتوں میں داخل کر لیتے تھے۔ چنانچہ جَزَآءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِّثْلُهَا کی قرآنی تعلیم کے مطابق ایسی عورتیں جو اسلام پر حملہ کرنے والے لشکر کے ساتھ ان کی مدد کیلئے آتی تھیں اور اُس زمانہ کے رواج کے مطابق جنگ میں بطور لونڈی کے قید کر لی جاتی تھیں۔ اور پھر دشمن کی یہ عورتیں جب تاوان کی ادائیگی یا مکاتبت کے طریق کو اختیار کر کے آزادی بھی حاصل نہیں کرتی تھیں تو ایسی عورتوں سے نکاح کے بعد ہی ازدواجی تعلقات قائم ہو سکتے تھے۔ لیکن اس نکاح کیلئے اس لونڈی کی رضامندی ضروری نہیں ہوتی تھی۔ اسی طرح ایسی لونڈی سے نکاح کے نتیجہ میں مرد کیلئے چار شادیوں تک کی اجازت پر کوئی فرق نہیں پڑتا تھا یعنی ایک مرد چار شادیوں کے بعد بھی مذکورہ قسم کی لونڈی سے نکاح کر سکتا تھا۔لیکن اگر اس لونڈی کے ہاں بچہ پیدا ہو جاتا تھا تو وہ ام الولد کے طور پر آزاد ہو جاتی تھی۔

علاوہ ازیں اسلام نے لونڈیوں سے حسن سلوک کرنے، ان کی تعلیم وتربیت کا انتظام کرنے اور انہیں آزاد کر دینے کو ثواب کا موجب قرار دیا ہے۔

چنانچہ حضرت ابو موسیٰ اشعری سے روایت ہے:

قَالَ النَّبِيُّ ﷺ أَيُّمَا رَجُلٍ كَانَتْ لَهُ جَارِيَةٌ فَأَدَّبَهَا فَأَحْسَنَ تَأْدِيْبَهَا وَأَعْتَقَهَا وَتَزَوَّجَهَا فَلَهُ أَجْرَانِ۔

(صحیح بخاری کتاب العتق بَابُ العَبْدِ إِذَا أَحْسَنَ عِبَادَةَ رَبِّهِ وَنَصَحَ سَيِّدَهُ)

یعنی نبی کریمﷺنے فرمایا ہے کہ جس شخص کے پاس لونڈی ہو اور وہ اسے نہایت اچھے آداب سکھائے اور پھر اسے آزاد کرکے اس سے شادی کرلے تو اس کو دوہرا ثواب ملے گا۔

رویفع بن ثابت انصاری روایت کرتے ہیں:

سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰهِ ﷺ يَقُوْلُ يَوْمَ حُنَيْنٍ قَالَ لَا يَحِلُّ لِامْرِئٍ يُّؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ أَنْ يَّسْقِيَ مَآءَهُ زَرْعَ غَيْرِهِ۔ يَعْنِي إِتْيَانَ الْحَبَالَى وَلَا يَحِلُّ لِامْرِئٍ يُّؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ أَنْ يَّقَعَ عَلَى امْرَأَةٍ مِّنَ السَّبْيِ حَتّٰى يَسْتَبْرِئَهَا وَلَا يَحِلُّ لِامْرِئٍ يُّؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ أَنْ يَّبِيعَ مَغْنَمًا حَتّٰى يُقْسَمَ۔

(سنن ابی داؤد کتاب النکاح باب فِي وَطْءِ السَّبَايَا)

میں نے رسول اللہ ﷺکو حنین کے دن فرماتے ہوئے سنا کہ جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے اس کیلئے جائز نہیں کہ وہ اپنا پانی کسی اور کی کھیتی میں لگائے۔ یعنی حاملہ عورتوں سے ازدواجی تعلق قائم کرے۔ اور جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے اس کیلئے جائز نہیں کہ قیدی عورت سے وہ صحبت کرے جب تک کہ استبرائے رحم نہ ہوجائے۔ اور جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے اس کیلئے جائز نہیں کہ وہ مال غنیمت کو تقسیم سے پہلے فروخت کرے۔

پس اصولی بات یہی ہے کہ اسلام انسانوں کو لونڈیاں اور غلام بنانے کے حق میں ہر گز نہیں ہے۔ اسلام کے ابتدائی دور میں، اس وقت کے مخصوص حالات میں مجبوراً اس کی وقتی اجازت دی گئی تھی لیکن اسلام نے اور آنحضرت ﷺ نے بڑی حکمت کے ساتھ ان کو بھی آزاد کرنے کی ترغیب دی اور جب تک وہ خود آزادی حاصل نہیں کر لیتے تھے یا انہیں آزاد نہیں کر دیا جاتا تھا، ان سے حسن واحسان کے سلوک کی ہی تاکید فرمائی گئی۔

اورجونہی یہ مخصوص حالات ختم ہوگئے اور ریاستی قوانین نے نئی شکل اختیار کرلی جیساکہ اب مروج ہے تواس کے ساتھ ہی لونڈیاں اور غلام بنانے کا جواز بھی ختم ہوگیا۔ اب اسلامی شریعت کی رو سے لونڈی یاغلام رکھنے کاقطعاً کوئی جواز نہیں ہے۔ بلکہ حکم وعدل حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام نے اب موجودہ حالات میں اس کو حرام قرار دیا ہے۔

سوال:۔ ایک خاتون نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں تحریر کیا کہ جب ہم کہتے ہیں کہ کسی کی نظر لگ گئی یا مظلوم کی بد دعا سے کوئی پریشانی یا تکلیف پہنچی ہے تو کیا یہ سوچ شرک کے زمرہ میں تو نہیں آتی؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 07 مارچ 2018ء میں اس سوال کا درج ذیل جواب عطاء فرمایا۔ حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے فرمایا:

جواب:۔نظر لگنے یا مظلوم کی بد دعا کے اثر ہونے کا شرک کے ساتھ کوئی تعلق نہیں کیونکہ دونوں باتوں میں نتیجہ خدا تعالیٰ کی ذات نکالتی ہے نہ کہ نظر ڈالنے والا یا مظلوم خود کچھ کر تا ہے۔ نظر ڈالنے والے کی طرف سے تو صرف ایک غیر ارادی خواہش کا اظہار ہوتا ہے یا مظلوم کی درد سے ایک آہ اٹھتی ہے جسے خدا تعالیٰ قبول کر کے نتیجہ مترتب فرماتا ہے۔ لہٰذا ہر دو معاملات کا شرک کے ساتھ کوئی تعلق نہیں خصوصاً جبکہ دونوں باتیں احادیث نبویہ ﷺ سے ثابت ہیں۔ چنانچہ احادیث میں آتا ہے کہ حضور ﷺ نے نصیحت فرمائی کہ اِتَّقِ دَعْوَةَ الْمَظْلُوْمِ فَإِنَّهَا لَيْسَ بَيْنَهَا وَبَيْنَ اللّٰهِ حِجَابٌ (صحیح بخاری کتاب المظالم والغصب) یعنی مظلوم کی بد دعا سے ڈرو اس لئے کہ اس کی بد دعا اور اللہ تعالیٰ کے درمیان کوئی رکاوٹ نہیں ہوتی۔ اسی طرح حضور ﷺ نے فرمایا ہے کہ اَلْعَيْنُ حَقٌّ وَنَهٰى عَنْ الْوَشْمِ (صحیح بخاری کتاب الطب) یعنی حضور ﷺ نے فرمایا کہ نظر کا لگ جانا حق ہے نیز آپ ﷺ نے جسم گدوانے سے منع فرمایا۔

سوال:۔ ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں استفسار بھجوایا کہ کیا ایک احمدی مسلمان عورت کیلئے اپنے پاؤں کو پردہ سے باہر رکھنا جائز ہے؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 03 مئی 2018ء میں اس سوال کا درج ذیل جواب عطاء فرمایا۔ حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

جواب:۔قرآن کریم نے جہاں پردہ کے احکامات بیان فرمائے ہیں وہاں پہلے مومن مردوں کو یہ حکم دیا کہ وہ اپنی نظریں نیچی رکھا کریں۔ اس کے بعد مومن عورتوں کیلئے پردہ کے احکامات بیان فرماتے ہوئے انہیں پہلا حکم یہی دیا کہ مومن عورتیں بھی اپنی نظریں نیچی رکھا کریں۔ اور پھر انہیں کہا کہ وہ اپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیاں ڈال لیا کریں اور اپنی زینتیں ظاہر نہ کیا کریں۔اور اپنے پاؤں اس طرح نہ ماریں کہ لوگوں پر وہ ظاہر کر دیا جائے جو عورتیں عموماً اپنی زینت میں سے چھپاتی ہیں۔

پاؤں زمین پر نہ مارنے کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ اگر پاؤں میں کوئی زیور (پازیب وغیرہ) پہنی ہوئی ہے تو اس کی چھنکار سے لوگوں کی توجہ اس خاتون کی طرف ہو سکتی ہے اور غیروں کی نظریں اس پر اٹھ سکتی ہیں جو پردہ کے حکم کے منافی ہے۔

اسی طرح اگر پاؤں پر مہندی یا نیل پالش وغیرہ لگا کر ان کاسنگھار کیا گیا ہے تو ایسے پاؤں غیر مردوں کیلئے کشش کا موجب ہو سکتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ غیرمردوں کی نظریں ایسی عورت پر اٹھیں گی جس سے پردہ کے احکامات کی خلاف ورزی ہو گی۔ لیکن اگر پاؤں پر کسی قسم کا بناؤ سنگھار نہیں کیا گیاتو ایسے پاؤں سے چونکہ کوئی کشش پیدا نہیں ہو سکتی ہے اور نہ ہی بے پردگی کا سوال پیدا ہوتا ہے اس لئے اگر انہیں پردہ میں نہ بھی رکھا جائے تو اس میں کوئی حرج کی بات نہیں۔

احادیث میں بھی پردہ کے بارہ میں مختلف ہدایات ملتی ہیں۔ ایک حدیث میں حضور ﷺ نے عورت کے چہرہ اور ہاتھوں کے علاوہ اس کے جسم کے باقی حصہ کے پردہ کا حکم دیا ہے۔ایک روایت میں ہے کہ حضور ﷺسے پوچھا گیا کہ اگر عورت کے پاس تہ بند نہ ہو تو کیا وہ صرف اوڑھنی اور قمیص میں نماز پڑھ سکتی ہے؟ اس پر حضور ﷺ نے فرمایا کہ بشرطیکہ کہ اس کی قمیض اتنی لمبی ہو کہ اس کے پاؤں کی پشت کو بھی ڈھک دے ۔ایک روایت میں ہے کہ جنگ احد کے موقعہ پر حضرت عائشہؓ اور حضرت ام سلیم ؓ اپنی تہ بند اوپر اٹھا کر پانی کی مشکیں بھر بھر کر لا رہی تھیں اور مردوں کو پانی پلا رہی تھیں۔ راوی کہتے ہیں کہ اس حالت میں ان کے پاؤں کی پازیبیں دکھائی دے رہی تھیں۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام پردہ سے متعلق قرآنی آیات کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’ایماندار عورتوں کو کہہ دے کہ وہ بھی اپنی آنکھوں کو نامحرم مردوں کے دیکھنے سے بچائیں اور اپنے کانوں کو بھی نامحرموں سے بچائیں یعنی ان کی پرشہوت آوازیں نہ سنیں اور اپنے ستر کی جگہ کو پردہ میں رکھیں اور اپنی زینت کے اعضاء کو کسی غیر محرم پر نہ کھولیں اور اپنی اوڑھنی کو اس طرح سر پر لیں کہ گریبان سے ہو کر سر پر آجائے۔ یعنی گریبان اور دونوں کان اور سر اور کنپٹیاں سب چادر کے پردہ میں رہیں اور اپنے پیروں کو زمین پر ناچنے والوں کی طرح نہ ماریں۔‘‘

(اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 341۔342)

شرعی پردہ کو بیان کرتے ہوئے حضور علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’شرعی پردہ یہ ہے کہ چادر کو حلقہ کے طور پر کر کے اپنے سر کے بالوں کاکچھ حصہ پیشانی اور زنخدان کے ساتھ بالکل ڈھانک لیں اور ہر ایک زینت کا مقام ڈھانک لیں۔ مثلاً منہ پر ارد گرد اس طرح پر چادر ہو (اس جگہ انسان کے چہرہ کی شکل دکھا کر جن مقامات پر پردہ نہیں ہے ان کو کھلا رکھ کر باقی پردہ کے نیچے دکھایا گیا ہے) اس قسم کے پردہ کو انگلستان کی عورتیں آسانی سے برداشت کر سکتی ہیں اور اس طرح پر سیر کرنے میں کچھ حرج نہیں آنکھیں کھلی رہتی ہیں۔‘‘

(ریویو آف ریلیجنز جلد 4نمبر1 صفحہ 17جنوری 1905ء)

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ غض بصرکی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس کا مقصد مرد اور عورت کی نگاہوں کو آپس میں ملنے سے بچانا ہے ورنہ جو عورت بھی باہر نکلے گی اس کے پاؤں اور اس کی چال اور اس کا قد اور اس کے ہاتھوں کی حرکت اور ایسی ہی کئی چیزیں مردوں کو نظر آئیں گی۔

(تفسیر کبیر جلد6 صفحہ298)

پس مذکورہ بالانصوص سے ثابت ہوتا ہے کہ عورت کے جسم کا ہر وہ حصہ جو اس کی زینت کے زمرہ میں آتا ہو اور غیر محرم کیلئے کشش کا باعث ہو، عام حالات میں اس کا پردہ کرنا عورت پر لازم ہے۔

سوال:۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ طلباء جامعہ احمدیہ انڈونیشیا کی مؤرخہ6نومبر2020ء کو ہونے والی Virtual ملاقات میں ایک طالبعلم نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکی خدمت اقدس میں عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے انڈونیشن جماعت کو قائم ہوئے 2025ء میں سو سال پورے ہو جائیں گے۔ ہمیں خدا تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کیلئے کیا کرنا چاہیئے؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس کے جواب میں فرمایا:

جواب:۔سو سال پورے ہونے پہ آپ یہ ٹارگٹ رکھیں کہ پانچ سال میں آپ نے کم از کم ایک لاکھ بیعتیں کروانی ہیں۔ اور ہرجو احمدی ہے اس کو آپ نے باجماعت نمازی بنانا ہے۔ ہر احمدی کو باقاعدہ قرآن کریم پڑھنے والا بنانا ہے۔ ہر احمدی کو خلافت سے تعلق رکھنے والا بنانا ہے۔ ہر احمدی کو آنحضرت ﷺ پر درود بھیجنے والا بنانا ہے۔ ٹھیک ہے؟بس یہ کام کر لیں تو بہت کچھ آپ نے کرلیاہے۔

سوال:۔ مؤرخہ 6 نومبر 2020ء کواسی ملاقات میں ایک طالبعلم نے حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت اقدس میں عرض کیا کہ حضور! جب آپ طالبعلم تھے اور آپ کے سامنے کوئی مشکل آ جاتی تھی تو اس وقت آپ کونسی دعائیں کیا کرتے تھے؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس سوال کا جواب عطاء فرماتے ہوئے فرمایا:

جواب:۔کوئی خاص دعا نہیں ہوتی تھی۔ بس میں تو سجدہ میں پڑ جاتا تھا اور اللہ تعالیٰ سے کہتا تھا کہ مسئلہ حل کر دے۔ بس نماز اور سجدہ ۔ نماز میں سجدہ میں اپنی زبان میں دعائیں کریں جو بھی دعائیں کرنی ہیں۔انسان اپنی زبان میں جو دعا کرتا ہےاس میں زیادہ رقت پیدا ہوتی ہے۔ اس لئے باقی دعائیں تو ٹھیک ہے کرنی چاہئیں، درود شریف بھی پڑھنا چاہئیے، استغفار بھی پڑھنا چاہیئے، لاحول بھی پڑھنا چاہیئے۔ استغفار کرتے ہوئے اپنے گناہوں سے معافی بھی مانگنی چاہیئے۔لیکن سب سے زیادہ بہتر طریقہ یہ ہے کہ نماز میں، سجدہ میں دعائیں کرو۔ نفل پڑھو اور نفلوں میں، سنتوں میں، فرض میں اللہ تعالیٰ کے آگے رو کر سجدہ میں اپنی زبان میں دعا کرو۔ اپنی زبان میں جو دعا ہوتی ہے اس میں زیادہ رقت پیدا ہوتی ہےاور اس سے مسئلے حل ہو جاتے ہیں۔

(مرتبہ:۔ ظہیر احمد خان۔انچارج شعبہ ریکارڈ دفتر پی ایس لندن)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 25 جنوری 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 26 جنوری 2021