• 26 اپریل, 2024

غندوس جھیل

غندوس جھیل
قراقرم کے بھورے پہاڑوں میں زمرد پانیوں کی ایک جھیل

ضلع کھرمنگ کا ایک گاؤں غندوس کے نام سے موسوم ہے۔ یہاں ہمارے ایک دوست پرویز کا آبائی گھر ہے۔ ہم سکردو میں تھے کہ ہمیں پرویز نے اپنے گھر آنے کی دعوت دی۔ اپنے میزبان کی دعوت پر ہم نے غندوس گاؤں کے لیے رخت سفر باندھا۔

یہ دعوت کوئی عام دعوت نہ تھی بلکہ ایک ایسی جھیل تک رسائی کی دعوت تھی جو عوام الناس خصوصاً سیاحوں کی نظروں سے تاحال اوجھل تھی۔ پرویز کے مطابق غندوس گاؤں سے ایک آسان راستہ غندوس کی جھیل تک جاتا تھا۔ ہم کوہ نورد ایسی دعوت ٹھکرانا کفران نعمت تصور کرتے ہیں لہٰذا دو عدد موٹر سائیکلوں پر ہم چار دوست سکردو سے تین گھنٹے کا سفر کرکے غندوس گاؤں میں جا اترے۔ یہ یکم اگست کا ایک خوبصورت دن تھا۔

غندوس گاؤں دریائے سندھ کے کنارے پرسطح سمندر سے تقریباً 8500 فٹ کی بلندی پر واقع ایک سرسبز گاؤں ہے۔ گاؤں میں خوبانی اور سیب کے باغات ہیں۔ یہ گاؤں شاہراہِ کارگل پر سکردو شہر سے 105 کلومیٹر کے فاصلے پر آباد ہے۔

غندوس گاؤں پہنچے تو پرویز نے ہمارا استقبال کیا۔ اس کا بڑا بھائی بابر بھی یہیں موجود تھا۔ ان کے مہمان خانے میں ہم فروکش ہوئے تاکہ طویل سفر کی تھکاوٹ ختم ہوجائے اور پھر جھیل تک پیدل سفر کرسکیں۔ یہ خوبانیوں کا موسم تھا اور ان کے گھر میں ہی ایک بڑ ا درخت زرد رنگ کی خوبانیوں کے بوجھ سے جھکا ہوا تھا۔ پرویز نے خوبانیوں کا ایک بڑ اتھال بھر کر ہمارے سامنے لا رکھا۔ یہ خوبانیوں کی ایک اعلیٰ قسم ہلمان تھی۔ اتنی رسیلی کہ منہ میں رکھتے ہی گھل جاتی تھی۔

گپ شپ کے دوران خوبانیوں کا تھال خالی ہوچکا تھا۔ ہم نے پیدل سفر کے لیے تیاری کی اور غندوس جھیل کی راہ پر سفر کا آغاز کیا۔ پرویز کی راہنمائی میں ہم گھر سے نکلے تو ایک باغ میں داخل ہوئے جو سیب، خوبانی اور اخروٹ کے ملے جلے درختوں پر مشتمل تھا۔ ایک طرف انگور کی بیلیں بھی پھیلی ہوئی تھیں۔ اسے پار کیا تو گاؤں کے مرکزی حصے میں جاپہنچے۔ ہمارے اردگرد ہر طرف پانی کی ندیاں رواں تھیں۔ اہلیان غندوس نے اپنی مدد آپ کے تحت ایسا نظام تیارکیا ہے کہ پانی ہر گھر اور باغ میں بآسانی میسر ہے۔ پانی پہاڑوں کی بلندیوں سے اترتا ہے اور مقامی لوگوں نے کئی ندیاں بنا کر پانی کی فراہمی کا بہترین انتظام کیا ہے۔

گاؤں سے نکلے تو سفر چڑھائی کا ہوگیا۔ بعض مقامات پر بہتے پانی کی وجہ سے چڑھائی پھسلن زدہ تھی۔یکے بعد دیگرے 4 چڑھائیاں چڑھنے کے بعد ہم ایک پتھریلے راستے پر آنکلے جسے مقامی لوگوں نے باقاعدہ طور پرپتھر اور چٹانیں ترتیب سے رکھ کرتیار کیا تھا۔ راستہ اگرچہ چڑھائی مائل تو تھا لیکن اب بہت آسان ہوگیا تھا۔ اس راستے پر جابجا چھوٹی بڑی ندیاں رواں تھیں۔

اب ہم بلندی پر آچکے تھے اور یہاں سے عمیق وادی کا نظارہ نہایت دلفریب تھا۔غندوس گاؤں ایک نخلستان کی طرح دکھتا تھا۔ اس مقام سے دریائے سند ھ کا بہاؤ ایک بل کھاتی رسی کی طرح نظر آرہا تھا۔شاہراہ کارگل سکردو ایک لکیر کی صورت میں نظر آرہی تھی۔ ہم چونکہ بلندی پر آچکے تھے لہٰذا درختوں کا سلسلہ بھی ختم ہوا چاہتا تھا۔ ایک آبشار نما نالے کے پاس سیب کا ایک درخت پھلوں سے لدا ہوا تھا۔ پھل اگرچہ ابھی پوری طرح تیار نہیں تھا لیکن میں نے ایک سیب توڑ کر کھایا تو یہ نہ صرف میٹھا تھا بلکہ رسیلا بھی تھا۔ میں نے زاد راہ کے طور پر چند سیب اپنے پاؤچ میں ڈال لیے۔

اب درختوں کا سلسلہ ختم ہوگیا تھا۔ ہر طرف پہاڑوں کی خشک اور بنجر چٹانیں تھیں جن کی نوکیلی چوٹیاں محو گفتگو فلک تھیں۔ ہم نے ایک مقام پر سفر معطل کیا۔ مشروبات، کھجور اور چاکلیٹ سے بدن کی کم ہوتی توانائیاں بحال کیں۔

راستے میں ایک نالا آیا۔ یہ برساتی نالا تھا جو فی الحال خشک تھا۔ اسے لکڑی کے ایک پل کے ذریعے پار کیا۔ یہ پل لکڑی کا ایک پھٹا تھا جس پر قدم رکھتے ہی یہ کمان کی طرح خم کھا گیا۔ اسے پار کیا تو راستہ بائیں طرف مڑ گیا۔ پتھریلا راستہ ختم ہوگیا۔ ہمارے دائیں بائیں چٹانوں کی دیواریں تھیں اور راستے پر ریت۔یہ ریت چونکہ خشک تھی لہٰذا چلنے میں دشواری پیش آئی لیکن راستہ جلد ہی چھوٹے بڑے پتھروں میں تبدیل ہوگیا۔

کچھ دور ہمیں چٹانوں کے درمیان ایک زمرد نگینہ نظرآیا۔ یہی غندوس جھیل تھی۔ غندوس گاؤں سے جھیل تک کا فاصلہ کم و بیش 4 کلومیٹر ہے جسے ہم نے ایک گھنٹے میں طے کیا۔

غندوس جھیل کا اصل اور علاقائی نام ’’غوراشی ژہو‘‘ ہے۔ جھیل سطح سمندر سے 9850 فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔ ساڑھے تین کلومیٹر لمبائی اور زیادہ سے زیادہ 700 میٹر چوڑائی کے ساتھ یہ ایک بڑی جھیل ہے۔ جھیل پر قراقرم کے بھورے پہاڑ فلک بوس ہیں۔ اس پہاڑوں کے درمیان جھیل کا زمرد پانی ایک دلکش منظر پیش کرتا ہے۔ بلندی سے دیکھیں تو جھیل کی شکل پاکستان کے نقشے سے مشابہت رکھتی ہے۔

ہم نے جھیل پر تین گھنٹے قیام کیا۔ مختلف زاویوں سے جھیل کی عکس بندی کی اور واپس غندوس گاؤں روانہ ہوئے۔ لیکن آدھا راستہ چلنے کے بعد پرویز ہمیں ایک مختلف راستے پر لے گیا۔ میرے استفسار پرپرویز نے بتایا کہ گاؤں کے قریب ایک اور چھوٹی سی جھیل ہے۔ آپ وہ بھی دیکھتے جائیں۔ ہم اس کی راہنمائی میں جھیل پر پہنچے۔ یہ جھیل ’’زونگ ژہو‘‘ کہلاتی ہے۔ زونگ ژہو 100میٹر لمبی اور 30میٹر چوڑی ہے۔ اس کی گہرائی 10 سے 15 فٹ ہے۔

میرا دل چاہا کہ اس جھیل میں تیراکی کی جائے۔ پرویز کو اپنی خواہش سے آگاہ کیا۔ اس نے بخوشی اجازت دے دی۔ میں نے فری سٹائل اور بریسٹ سٹروک کی ایک ایک لینتھ لگائی تو طبیعت میں تازگی عود کر آئی۔ پانی اگرچہ برفیلا تھا لیکن میری اب ان برفیلے پانیوں سے دوستی ہوچکی ہے۔ میرے علاوہ ثمال بھٹی نے تیراکی کی۔ شام کو واپس غندوس گاؤں پہنچے۔ بابر نے چائے کا انتظام کیا ہوا تھا۔ چائے کے دوران ہلکی پھلکی گپ شپ ہوئی۔ ہم نے اپنے میزبانوں کا شکریہ ادا کیا اور رات کو واپس بخیریت سکردو پہنچ گئے۔

(سید ذیشان اقبال)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 25 جنوری 2023

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالی