• 18 اپریل, 2024

دین کو دنیا پر مقدّم رکھنا چاہئے

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
’’یہ یاد رکھنا چاہیے کہ انسان کی زندگی کا کچھ اعتبار نہیں۔ اگر کوئی شخص خدا تعالیٰ پر ایمان رکھے اور پھر قرآن کریم پر غور کرے کہ خدا تعالیٰ نے کیا کچھ قرآن مجید میں فرمایا ہے تو وہ شخص دیوانہ وار دنیا کو چھوڑ کر خدا تعالیٰ کا ہو جائے۔ یہ بالکل سچ کہا گیا ہے کہ دنیا روزے چند عاقبت با خداوند۔ اب خدا تعالیٰ کے کلام سے ظاہر ہوتا ہے کہ جو شخص خدا تعالیٰ کی طرف سے آنا چاہتا ہے اور فی الواقعہ اس کا دل ایسا نہیں کہ اس نے دین کو دنیا پر مقدم کیا ہو تو وہ خدا تعالیٰ کے نزدیک قابل سزا ٹھہرتا ہے۔ ہم اس دنیا میں دیکھتے ہیں کہ اس کے مقاصد حاصل کرنے کے لئے جب تک کافی حصہ اپنا ان کی طلب میں خرچ نہ کر دیں، وہ مقاصد حاصل ہونے ناممکن ہیں۔ مثلاً اگر طبیب ایک دوائی اور اس کی ایک مقدار مقرر کر دے اور ایک بیمار وہ مقدار دوائی کی تو نہیں کھاتا بلکہ تھوڑا حصہ اس دوائی کا استعمال کرتا ہے تو اس کو کیا فائدہ اس سے ہوگا؟ ایک شخص پیاسا ہے تو ممکن نہیں کہ ایک قطرہ پانی سے اس کی پیاس دور ہو سکے۔اسی طرح جو شخص بھوکا ہے وہ ایک لقمہ سے سیر نہیں ہو سکتا۔ اسی طرح خدا تعالیٰ یا اس کے رسولؐ پر زبانی ایمان لے آنا یا ایک ظاہری رسم کے طور پر بیعت کر لینا بالکل بےسود ہے۔ جب تک انسان پوری طاقت سے خدا تعالیٰ کی راہ میں نہ لگ جاوے۔ نفس کی خیر خواہی اسی میں ہے کہ انسان پورے طور پر وہ حصہ لے جو روحانی زندگی کے لیے ضروری ہے۔صرف یہ خیال کہ میں مسلمان ہوں کافی نہیں۔

میں نصیحت کرتا ہوں کہ آپ نے جو تعلق مجھ سے پیدا کیا ہے (خدا تعالیٰ اس میں برکت ڈالے) اس کو بڑھانے اور مضبوط کرنے کی فکر میں ہر وقت لگے رہیں۔ لیکن یاد رہے کہ صرف اقرار ہی کافی نہیں جب تک عملی رنگ سے اپنے آپ کو رنگین نہ کیا جاوے۔اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے اَحَسِبَ النَّاسُ اَنۡ یُّتۡرَکُوۡۤا اَنۡ یَّقُوۡلُوۡۤا اٰمَنَّا وَ ہُمۡ لَا یُفۡتَنُوۡنَ (العنکبوت:3) یعنی کیا انسانوں نے گمان کر لیا ہے کہ ہم آمنّا ہی کہہ کر چھٹکارا پالیں گے اور کیا وہ آزمائش میں نہ ڈالے جائیں گے۔سو اصل مطلب یہ ہے کہ یہ آزمائش اسی لیے ہے کہ خدا تعالیٰ دیکھنا چاہتا ہے کہ آیا ایمان لانے والے نے دین کو ابھی دنیا پر مقدم کیا ہے یا نہیں؟ آج کل اس زمانہ میں جب لوگ خد اتعالیٰ کی راہ کو اپنے مصالح کے خلاف پاتے ہیں یا بعض جگہ حکام سے ان کو کچھ خطرہ ہوتا ہے تو وہ خد اکی راہ سے انکار کر بیٹھتے ہیں۔ ایسے لوگ بے ایمان ہیں۔ وہ نہیں جانتے کہ فی الواقعہ خد اہی احکم الحاکمین ہے۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ خدا تعالیٰ کی راہ بہت دشوارگزار ہے اور یہ بالکل سچ ہے کہ جب تک انسان خدا تعالیٰ کی راہ میں اپنی کھال اپنے ہاتھ سے نہ اُتارلے تب تک وہ خدا تعالیٰ کی نگاہ میں مقبول نہیں ہوتا۔ ہمارے نزدیک بھی ایک بے وفا نوکر کسی قدر و منزلت کے قابل نہیں ہوتا۔ جو نوکر صدق اور وفا نہیں دکھلاتا وہ کبھی قبولیت نہیں پاتا۔ اسی طرح جنابالہٰی میں وہ شخص پرلے درجہ کا بےادب ہے جو چند روزہ دنیوی منافع پر نگاہ رکھ کر خدا تعالیٰ کو چھوڑتا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد چہارم صفحہ 22)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 25 فروری 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 26 فروری 2020