• 11 مئی, 2025

اللہ کی عافیت کے حصار میں رہنے والے خوش نصیب

خاکسار آج علی الصبح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عربی الہام

’’اِنِّیْ حِمیَ الرَّ حْمٰن‘‘ یعنی میں خدا کی باڑ ہوں پر اداریہ لکھ کر فارغ ہوا تو اس حوالے سے بہت سا مواداگلے آرٹیکل میں جگہ پانے کے لئے میری سوچوں میں موجیں مارتا پھر رہا تھا اور مجھے بار بار اداریہ میں جگہ دینے کے لئے اپنی طرف متوجہ کر رہا تھا۔ مگر طوالت سے بچتے ہوئے اس اہم موضوع پر قلم اٹھانے کے لئے خاکسار کے سامنے دو راستے تھے۔ اوّل یہ کہ میں اس بقیہ مواد کو مندرجہ بالا الہام ’’میں خدا کی باڑ ہوں‘‘ کی دوسری قسط بنا کر ہدیہ قارئین کروں یا وہ تمام الفاظ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے متعلق استعمال فرمائے اور خدا کی باڑوالے اداریہ میں ان کا ذکر ہو چکا ہے، ان میں سے کسی ایک کا انتخاب کر کے اور اس کو عنوان بنا کر بقیہ مواد کو اس میں سمو دوں ۔ سو خاکسار نے دوسری آپشن (Option) پر عمل کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود ؑ کے شعر کا ایک حصہ ’’میں عافیت کا ہوں حصار‘‘ کو عنوان بنا کر اللہ سے مدد طلب کرتے ہوئے اور درود شریف رَبِّ اشۡرَحۡ لِیۡ صَدۡرِی کی دُعا مانگتے ہوئے اور یَفْقَہُوْا قَوْلِیْ کی آرزو لئے اس اہم موضوع کے میدان میں قدم رکھنے جا رہا ہوں۔

گر قبول افتد زہے عز و شرف

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں۔

صدق سے میری طرف آؤ اسی میں خیر ہے
ہیں درندے ہر طرف، میں عافیت کا ہوں حصار

قبل اس کے کہ میں ذہن میں کروٹیں لینے والے خیالات کو ترتیب دوں، ضروری سمجھتا ہوں کہ میں اپنے پیارے قارئین کو ساتھ رکھنے کے لئے ان تمام القابات، بلند مرتبہ رتبے اور ان الفاظ کو ایک بار پھر قرطاس ابیض پر لے آؤں جن کا ذکر خدا کی باڑ میں کر آیا ہوں۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے متعلق فرماتے ہیں کہ اِنِّیْ حِمیَ الرَّ حْمٰن یعنی خدا کی باڑ ہوں، حصن حصین (مضبوط قلعہ)، کشتی نوحؑ (اس زمانہ کے نوح یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کشتی، جیسے فرمایا:
(نوحؑ کی کشتی میں جو بیٹھے وہی ہو رستگار) ہوں، الدّار

(اِنِّی ْ اُحَا فِظُ کُلَّ مَنْ فِی الدَّارِ) روحانی گھر، عافیت کا ہوں میں حصار، پشتی دیوار دیں ہوں (یعنی دین کے ارد گرد حفاظت کی دیوار ہوں)، مامن اسلام (مذہب اسلام کے امن کی جگہ ہوں) باثمر شاخ ہوں، اور خدا تعالیٰ خود اس باغ کا باغبان ہے۔

آغاز پر عافیت اور حصار کے لغوی معنی جاننا ضروری ہیں۔ عافیت کے معنوں میں لکھا ہے۔ آسودگی، امن و سلامتی، نیکی، بھلائی، خیریت، صحت، تحفظ، سالمیت، یہ لفظ خیر کا مترادف ہے۔

اور لفظ حصار کے تحت لکھا ہے۔ قلعہ، محفوظ احاطہ، چار دیواری فصیل اور پناہ گاہ۔ تو اگر ان سب مطالب کو اکٹھا کر کے دیکھا جائے تو عافیت کے حصار کے معنی یہ ہوں گے کہ خیر و سلامتی، امن و سالمیت کی فصیل اور چار دیواری میں محفوظ۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :
’’میں اس زمانے کا حصن حصین ہوں جو میرے میں داخل ہو گا وہ چوروں اور درندوں اور قزاقوں سے اپنی جان بچائے گا مگر جو شخص میری دیوار وں سے دور رہنا چاہتا ہے ہر طرف سے اس کو موت در پیش ہے اور اس کی لاش بھی سلامت نہیں رہے گی۔‘‘

(فتح اسلام، روحانی خزائن جلد3 صفحہ34)

حضرت مسیح موعود ؑ کے ان الفاظ کو سامنے رکھتے ہوئے اگر ساری دنیا میں پھیلی ہوئی بد امنی، لڑائی جھگڑوں، قتل و غارت اور ایک دوسرے کی دشمنی میں پھنسے ہوئے عالمی ماحول کا جائزہ لیں۔ تو دشمنی خواہ ملکوں کی ملکوں کے ساتھ ہو، خواہ سیاسی پارٹیوں کی ایک دوسرے سے ہو خواہ مذہبی جماعتوں کا آپس میں ویراور تنازعہ ہو اور خواہ معاشرہ میں انفرادی طور پر ایک انسان کی دوسرے انسان سے دشمنی ہو ۔ ہر طرف مادہ پرستی اور نفسا نفسی کا عالم نظر آتا ہے۔ آئے دن دشمن پارٹیوں، جماعتوں اور انسانوں کا قتل و غارت ہوتا ہے۔ کہیں مزاحمت ہوتے دکھائی دیتی ہے، کہیں اسٹرائیک اور کہیں ہنگامہ آرائی، جلاؤ گھیراؤ اور توڑ پھوڑ ہو رہی ہے جس میں کچھ آدمی مر جاتے ہیں اور وہ ان مردوں کی میتوں کو لے کر گلی کوچوں میں بیٹھ جاتے ہیں اور سرِ بازار لاشوں کی سیاست کرتے ہیں۔

جماعت احمدیہ کی 132سالہ تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ جماعت کے افراد نے اپنی مخالفت کے جواب میں اور کسی کے تکلیف پہنچانے پر کبھی احتجاج نہیں کیا، احتجاج کیا بھی تو اپنے خدا کے سامنے۔ میدانوں، بازاروں، محلوں میں نہیں بلکہ سجدہ گاہوں میں، راتوں کو اٹھ کر اپنی جبینیں اللہ کے حضورتر کیں اور اللہ کے حضور متٰی نصر اللہ کی آواز بلند کی۔ ہم تو اتنے خوش قسمت ہیں کہ ہمیں صبر و استقامت کے اسلامی طریق کی دربارِ خلافت سے تلقین ہوتی رہی اور ابھی بھی ہو رہی ہے اور آئندہ بھی ان شاء اللّٰہ ہوتی رہے گی۔ احمدیوں کو تو مخالفین نےگالیاں دیں تشدد کیا، اور بے گناہ معصوم احمدیوں کو شہیدبھی کیا لیکن کسی احتجاج اور اسٹرائیک میں کسی احمدی کا قتل یہاں تک کہ زخمی بھی نہ ہونا دراصل اس بات کا آئینہ دار ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے جانشین خلفاء ان تمام افراد جماعت کے لئے عافیت کا حصار ثابت ہوتے رہے ہیں۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :
’’جو شخص میری تعلیم پر پورا پورا عمل کرتا ہے وہ اس میرے گھر میں داخل ہو جاتا ہے جس کی نسبت خدا تعالیٰ کی کلام میں یہ وعدہ ہے اِنِّی اُحَا فِظُ کُلَّ مَنْ فِی الدَّارِ۔ یعنی ہر ایک جو تیرے گھر کی چار دیوار کے اندر ہے میں اُس کو بچاؤں گا۔ اس جگہ یہ نہیں سمجھنا چاہئیے کہ وہی لوگ میرے گھر کے اندر ہیں جو میرے اس خاک و خشت کے گھر میں بود و باش رکھتے ہیں بلکہ وہ لوگ بھی جو میری پوری پیروی کرتے ہیں میرے روحانی گھر میں داخل ہیں۔‘‘

(کشتی نوح، روحانی خزائن جلد19 صفحہ10)

اس روحانی گھر میں داخل ہونے والے کو امن و آشتی اور سکون قلب ملتا ہے۔ ہمیں تو اس پاک جماعت میں داخل ہو کر کسی چیز کا فکر ہی نہیں ہے۔ کیونکہ امن و سکون کے الہٰی وعدے ہیں، اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو 28 اپریل 1904ء کو الہام ہوا کہ ’’امن است در مکان محبت سرائے ما‘‘ یعنی ہمارا مکان جو ہماری محبت سرائے ہے اس میں ہر طرح سے امن ہے۔ اس حقیقت سے ہم بہت اچھی طرح آشکار ہیں کہ اللہ کے فرشتے ہمارے لئے حفاظت کاکام کرتے ہیں۔ ہم کتنے خوش قسمت ہیں کہ اللہ کی عافیت کے حصار میں ہیں۔ تصدیق کے لئے درج ذیل اقتباس ملاحظہ فرمائیں۔

حضرت مسیح موعود ؑ فرماتے ہیں :
ایک مرتبہ رات کو میں نے خواب میں دیکھا کہ میں پہرہ کے لئے پھرتا ہوں۔ جب میں چند قدم گیا تو ایک شخص مجھے ملا اور اُس نے کہا آگے فرشتوں کا پہرہ ہے یعنی تمہارے پہرہ کی کچھ ضرورت نہیں ، تمہاری فرودگاہ کے اردگرد فرشتے پہرہ دے رہے ہیں ۔ پھربعد اس کے یہ الہام ہوا :۔

’’امن است در مقامِ محبت سرائے ما‘‘

(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد22 صفحہ315)

اس حوالہ سے تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی بھی تھی کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ میری امت ہلاک نہیں ہو سکتی جس کے شروع پر میں ہوں اور مسیح و مہدی اس کے آخر پر ہوں۔

اوپر بیان شدہ جن گھروں، دیواروں، فصیلوں کا ذکر ہواہے یہ مادی نہیں اس سے روحانی گھر مراد ہیں۔ روحانی چار دیواری اور روحانی فصیلیں مراد ہیں۔ اور شرط یہ ہے کہ ہر وہ شخص عورت یا مرد جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی فصیل اور چار دیواری میں پناہ لیتا ہے وہ ظاہری بیعت اور اطاعت کی ظاہری حرکتوں سے ہی نہیں بلکہ روحانی معنوں میں مکمل اطاعت، خلوص اور محبت کے ساتھ اپنے دلوں میں پائی جانے والی خواہشات کے بر عکس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خواہشات اور ارشادات و فرمودات پر قدم مارنے سے ہوتا ہے۔ کیونکہ روحانی دنیا کا یہ قاعدہ کلیہ ہے کہ روحانی نجات وہی پاتے ہیں جو الٰہی فرستادوں کی آواز پر سمعنا و اطعنا کا نعرہ بلند کرتے ہیں قرآن کریم میں قصص الانبیاء کا مطالعہ کر یں تو پتہ چلتا ہے کہ ان انبیاء کے تمام مخالفین کابد انجام ہوا۔ کوئی غرق ہوا۔ کسی پر طوفان آیا اور کسی کا ناگہانی حادثہ کی وجہ سے نام و نشان مٹا دیا گیا، ان کی بستی انہی پر الٹا دی گئی۔

ایسا کیوں نہ ہوتا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے ۔ کہ اللہ تعالی کہتا ہے کہ
مَنْ عَادَ لِیْ وَلِیًّا فَقَدْ اَذَنْتُہ بِالحَرب کہ جو شخص میرے بھیجے ہوئے ولی اور فرستادہ کے مقابلے میں آتا ہے دراصل وہ مجھ سے مقابلہ کرتا ہے۔ اس طے شدہ اصول کے مطابق جو شخص بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقابل پر آیا ناکام و نامراد اور نیست و نابوداور پارہ پارہ کر دیا گیا خواہ وہ دنیا کی مضبوط ترین سرکاری حفاظت میں ہی کیوں نہ ہو

؎خدا اڑا دے گا خاک ان کی، کرے گا رسوائے عام کہنا

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں۔
’’ان سب باتوں کے بعد پھر میں کہتا ہوں کہ یہ مت خیال کرو کہ ہم نے ظاہری طور پر بیعت کر لی ہے ظاہر کچھ چیز نہیں خدا تمہارے دلوں کو دیکھتا ہے اور اُسی کے موافق تم سے معاملہ کرے گا دیکھو میں یہ کہہ کر فرض تبلیغ سے سبکدوش ہوتا ہوں کہ گناہ ایک زہر ہے اُس کو مت کھاؤ۔ خدا کی نافرمانی ایک گندی موت ہے اس سے بچو دعا کرو تا تمہیں طاقت ملے جو شخص دعا کے وقت خدا کو ہر ایک بات پر قادر نہیں سمجھتا بجز وعدہ کی مستثنیات کے وہ میری جماعت میں سے نہیں۔ جو شخص جھوٹ اور فریب کو نہیں چھوڑتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے ۔ جو شخص دنیا کے لالچ میں پھنسا ہوا ہے اور آخرت کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے جو شخص در حقیقت دین کو دنیا پر مقدم نہیں رکھتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے جو شخص پورے طور ہر ایک بدی اور ہر ایک بد عملی سے یعنی شراب سے قمار بازی سے بد نظری سے اور خیانت سے، رشوت سے اور ہر ایک ناجائز تصرّف سے توبہ نہیں کرتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے۔ جو شخص پنجگانہ نماز کا التزام نہیں کرتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے۔ جو شخص دعا میں لگا نہیں رہتا اور انکسار سے خدا کو یاد نہیں کرتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے۔ جو شخص بد رفیق کو نہیں چھوڑتا جو اس پر بد اثر ڈالتا ہے وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے۔ جو شخص اپنے ماں باپ کی عزت نہیں کرتا اور امور معرفہ میں جو خلاف قرآن نہیں ہیں اُن کی بات کو نہیں مانتا اور ان کی تعہّد خدمت سے لاپرواہ ہے وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے جو شخص اپنی اہلیہ اور ا ُس کے اقارب سے نرمی اور احسان کے ساتھ معاشرت نہیں کرتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے۔ جو شخص اپنے ہمسایہ کو ادنٰی سے ادنٰی خیر سے بھی محروم رکھتا ہے وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے جو شخص نہیں چاہتا کہ اپنے قصور وار کا گناہ بخشے اور کینہ پرور آدمی ہے وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے ہر ایک مرد جو بیوی سے یا بیوی خاوند سے خیانت سے پیش آتی ہے وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے جو شخص اُس عہد کو جو اُس نے بیعت کے وقت کیا تھا کسی پہلو سے توڑتا ہے وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے جو شخص مجھے فی الواقع مسیح موعود و مہدی معہود نہیں سمجھتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے اور جو شخص امور معرفہ میں میری اطاعت کرنے کے لئے طیار نہیں ہے وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے اور جو شخص مخالفوں کی جماعت میں بیٹھتا ہے اور ہاں میں ہاں ملاتا ہے وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے۔ ہر ایک زانی، فاسق، شرابی، خونی، چور، قمار باز، خائن، مرتشی، غاصب، ظالم، دروغ گو، جعل ساز اور ان کا ہم نشین اور اپنے بھائیوں اور بہنوں پر تہمتیں لگانے والا جو اپنے افعال شنیعہ سے توبہ نہیں کرتا اور خراب مجلسوں کو نہیں چھوڑتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے۔ یہ سب زہریں ہیں تم ان زہروں کو کھا کر کسی طرح بچ نہیں سکتے اور تاریکی اور روشنی ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتی۔‘‘

(کشتی نوح، روحانی خزائن جلد19 صفحہ19-18)

اندرونی دشمن

یہ تو میں نے ظاہری دشمن کی بات کی ہے۔ ہم پر ایک ایسا دشمن بھی پوری طاقت اور توانائی کے ساتھ ہمہ وقت حملہ آور ہے اور جس سے بچاؤ کے طریق بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفاء کرام قرآن و حدیث کی روشنی میں بتاتے چلے آ رہے ہیں۔ اور وہ ہیں اخلاقی برائیوں سے اجتناب۔ اس حوالہ سے بھی ہم اپنے آپ کو عافیت کے حصار میں محسوس کرتے ہیں۔ اور دشمن برملا اس بات کا اظہار کرتا دکھائی دیتا ہے کہ ’’ہے تو ہم سے اچھا مگر کیا کریں کہ ہے قادیانی‘‘۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو تسلیم کر کے اور خلفاء کے بتائے ہوئے طریق پر عمل کر کے ہم آقا و مولیٰ سیدنا حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم تسلیم کرتے ہوئے زیادہ قریب ہیں دوسروں کی نسبت اور پُر سکون زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ورنہ تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام تمام قوموں کو وارننگ دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ
’’اے یورپ! تو بھی امن میں نہیں اور اے ایشیا! تو بھی محفوظ نہیں۔ اور اے جزائر کے رہنے والو! کوئی مصنوعی خدا تمہاری مدد نہیں کرے گا۔ میں شہروں کو گرتے دیکھتا ہوں اور آبادیوں کو ویران پاتا ہوں۔ وہ واحد یگانہ ایک مدت تک خاموش رہا اور اُس کی آنکھوں کے سامنے مکروہ کام کئے گئے اور وہ چپ رہا مگر اب وہ ہیبت کے ساتھ اپنا چہرہ دکھلائے گا جس کے کان سننے کے ہوں سنے کہ وہ وقت دور نہیں۔ میں نے کوشش کی کہ خدا کی امان کے نیچے سب کو جمع کروں پر ضرور تھا کہ تقدیر کے نوشتے پورے ہوتے۔ میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اس ملک کی نوبت بھی قریب آتی جاتی ہے نوح کا زمانہ تمہاری آنکھوں کے سامنے آجائے گا اور لوط کی زمین کا واقعہ تم بچشم خود دیکھ لو گے مگر خدا غضب میں دھیما ہے توبہ کرو تا تم پر رحم کیا جائے جو خدا کو چھوڑتا ہے وہ ایک کیڑا ہے نہ کہ آدمی جو اُس سے نہیں ڈرتا وہ مردہ ہے کہ نہ زندہ۔‘‘

(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد22 صفحہ269)

زمانے کے امام کی فوج میں شمولیت کا اعزاز

ہمارے جان سے پیارے آقا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ ہم کو خوشخبری دیتے ہوئے فرماتے ہیں
’’ایک بات ہمیں ہمیشہ یاد رکھنی چاہئے کہ بیرونی شیطان کو شکست دینے کے لئے جو اندرونی شیطان ہے اس کو بھی زیر کرنا ہو گا۔ کیونکہ ہماری فتح مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ جڑنے کی وجہ سے ظاہری اسباب سے نہیں ہونی بلکہ دعاؤں سے ہونی ہے اور دعاؤں کی قبولیت کے لئے اپنے آپ کو خداتعالیٰ کی رضا کے مطابق چلنے والا بنانے کی ضرورت ہے اور اس کے لئے نفس کا جہاد بھی بہت ضروری ہے۔‘‘

(خطبہ جمعہ 6مارچ 2009ء)

اللہ تعالی ہم تمام احمدیوں کو حضرت مسیح موعودؑ اور خلفاء کے توسط سے ہمیشہ اپنی حصار میں رکھے۔ آمین

(ابو سعید)

پچھلا پڑھیں

ریفریشر کورس ناظمینِ اعلیٰ مجلس انصار اللہ کینیا کا انعقاد

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 26 فروری 2022