اس جگہ ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ بھلا یہ کیونکر معلوم ہوکہ وہ گفتار جو انسان سنتا ہے واقعی خداکا کلام ہے کسی اور کا نہیں؟
سو اس کے لئے یادرکھنا چاہئے کہ خداتعالیٰ کے کلام کے ساتھ خدائی طاقت، جبروت اور عظمت ہوتی ہے۔ جس طرح تم لوگ ایک معمولی انسان اور بادشاہ کے کلام میں فرق کر سکتے ہو اسی طرح اس احکم الحاکمین کے کلام میں بھی شوکت وسطوتِ سلطانی ہوتی ہے جس سے شناخت ہوسکتی ہے کہ واقعی یہ کلام بجزخدائے عزّوجل کے اور کسی کا نہیں ۔
ملہمین کی علامات
دوسرا بڑا بھاری نشان اس شناخت اورتمیز کا یہ ہوتا ہے کہ جس انسان سے خداتعالیٰ کلام کرتا ہے وہ خالی نہیں ہوتا بلکہ اس میں بھی خدائی شان جلوہ گر ہوتی ہے اوروہ بھی ایک گونہ خدائی صفات کا مظہر اورجلو ہ گاہ ہوتا ہے ۔ اس میں وہ لوازم پائے جاتے ہیں ۔اس میں ایک خاص امتیاز ہوتا ہے ۔علوم غیبی جو سفلی خیالات کے انسانوں کے وہم وگمان میں بھی نہیں آسکتے وہ ان کو عطا کئے جاتے ہیں ۔ اس کی دعائیں قبول کرکے اس کو اطلاع دی جاتی ہے اور اس کے کاروبار میں خاص نصرت اور مدد کی جاتی ہے اورجس طرح خداسب پر غالب ہے اور اس کو کوئی جیت نہیں سکتا اسی طرح انجامکار وہ بھی غالب اور ہر طرح سے مظفر ومنصور اورکامیاب وبامراد ہوجاتے ہیں ۔
غرض یہ نشان ہوتے ہیں جن کے ذریعہ سے عقلمند انسان کو ضرورتاً ماننا ہی پڑتا ہے کہ خدابھی ضرور ہے۔ ہمیں ایسے لوگوں سے بھی گفتگو اور ملاقات کا اتفاق ہوا ہے جو مصنوعات سےصانع کو پہچاننے اور شناخت کرنے کی راہ اختیار کرتے ہیں اور اس طریق کو ہم نے آزمایا بھی ہے۔مگر یاد رکھو کہ یہ راہ ٹھیک نہیں، ادھوری ہے۔
(ملفوظات جلد 5 صفحہ 592۔ 593ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)