دبستانِ حیات
قسط نہم
انسان اور بیماری کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔اگر ہم اپنے ماحول میں دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے ۔دنیا کا ہر انسان کسی نہ کسی ظاہری یا باطنی بیماری میں مبتلا ہے۔کئی لوگ تو دیکھنے میں بھی بیمار نظر آتے ہیں لیکن بعض لوگ بظاہر سرخ و سفید اورموٹےتازےنظر آتے ہیں۔لیکن اندرون خانہ وہ بہت سی بیماریوں کا شکار ہوتے ہیں۔در حقیقت اکثرلوگ بیمار ہوتے ہیں لیکن انکی بیماری کی شکل اور کیفیت جدا جدا ہوتی ہے۔
یہ سال 2001 کی بات ہے۔ پہلی بار مجھے دل کی تکلیف ہوئی۔ان دنوں میں ،میں سینیگال میں تھا۔اس کے بعد 2004ء میں حضور انور نے ازراہ شفقت مجھے پاکستان جاکر مکرم ڈاکٹر نوری صاحب سے علاج کرانے کا ارشاد فرمایا۔مکرم ڈاکٹرصاحب اس دور میں فضل عمر اسپتال ربوہ کے علاوہ راولپنڈی میں بھی طبی خدمات سرانجام بجالارہے تھے۔
مکرم ڈاکٹر صاحب نے راولپنڈی حاضر ہونے کا ارشاد فرمایا۔ وہاں اینجوگرام کیا گیا۔جس میں مجھے بتایا گیا کہ میری بیماری اس قدر خطرناک صورت حال اختیار کرچکی ہے کہ اب اس کا کوئی علاج نہیں ہے۔ اس کی پیچیدگی کی وجہ سے ہم اینجو پلاسٹی بھی نہیں کرسکتے۔ اب آپ دوائیاں لیتے رہیں۔ڈاکٹر صاحب نےحضور انور کی خدمت میں بھی اطلاع کردی۔جس کے بعد میں واپس لندن آگیا۔
حضور انور نے میری صحت کے پیش نظر میری تقرری انگلستان میں کردی۔لیکن ویزہ کے حصول کی خاطر واپس سینیگال چلاگیا۔
کچھ عرصہ کے بعد پھر لندن میں دل کی تکلیف ہوئی، اسپتال لے جایا گیا۔پھر ڈاکٹر صاحبان نے مکرم نوری صاحب کی طرح بیماری کی پیچیدگی کی وجہ سے کسی قسم کی سرجری سے اجتناب کیا۔
کچھ عرصہ کے بعد سینیگال کی روانگی کا پروگرام تھا۔حضور انور کی خدمت میں ملاقات کے لئے حاضر ہوا۔حضور انور نے فرمایا ۔کیا پروگرام ہے میں نے عرض کی ،حضور سینیگال جارہا ہوں۔فرمایا۔ کچھ اور رک جائیں۔میں نے عرض کی حضور کافی دیر سے مشن خالی ہے۔اس لئے واپس جانا چاہتا ہوں۔فرمایا روانگی کی تاریخ آگے کرلیں۔میں نے عرض کی حضور ٹکٹ کی تاریخ اب آگے کرنا ممکن نہیں ہے۔فرمایا ٹھیک ہے ،جائیں۔لیکن اپنے آپ کو تھکانا نہیں ہے۔میں اپنی جگہ سے اٹھا اور دروازہ کی جانب چل پڑا۔آپ نے مجھےآواز دی اور فرمایا۔کیا میں نے آپ کو اَلیس اللہ کی انگوٹھی دی ہے۔میں نے عرض کی حضور انور بہت سے تبرکات ملے ہیں لیکن انگوٹھی نہیں ملی۔فرمایا ادھر آئیں ،دراز میں سے ایک انگوٹھی نکالی ۔اس پر ہاتھ پھیرا اور مجھے پہنادی۔بعد ازاں میری اہلیہ کو بھی ایک انگوٹھی دی اورفرمایا۔آپ بھی لے لیں ۔آپ بھی مربی کی بیوی ہیں۔
میں نے اس سارے واقعہ کو صرف ایک محبت اور شفقت تصور کیا۔میری فلائٹ اگلے روز شام کو تھی جس کے لئے مجھے ظہر کے بعد گھر سے روانہ ہونا تھا۔اس روز دوپہر سے قبل میرے سینہ اور بائیں بازو میں درد شروع ہوگئی ،یہ دل کی تکلیف تھی۔ایمبولینس بلائی گئی۔ڈاکٹرز نے بتایا یہ ایک بہت شدید دل کا حملہ تھا۔
اب حضور انور سے ملاقات یادآگئی کہ خداتعالیٰ کےخلیفہ اپنی روحانی بصیرت سے مجھ ناسمجھ کو انتباہ فرمارہے تھے۔
اس پر ایک دوست نے تبصرہ کرتے ہوئے بڑی خوبصورت بات کی۔ کہ انگوٹھی دینے میں یہی پیغام تھا۔ کہ جاؤ تمہارا رب ہی رکھوالا ہے۔
اس کے بعد کئی مراحل آئے۔آخر سرجری بھی ہوگئی۔اس بیماری کو اب سولہ سال ہوگئے ہیں۔ اس دوران چھ دفعہ اینجو پلاسٹی بھی ہوتی رہی۔ یہ سب کچھ ایک معجزہ سے کم نہیں ہے۔
سال 2012 میں گردے ناکارہ ہوگئے۔اس طرح ڈیالیسز شروع ہوگئے۔جو عرصہ آٹھ سال سے جاری ہیں۔
اسپتال میں روز وشب
خاکسار ہارٹ سرجری کے سلسلہ میں اسپتال میں زیر علاج تھا۔انگلستان میں کسی بھی اہم سرجری کے لئے بسا اوقات کئی کئی روز تک انتظار کرنا پڑتا ہے۔کیونکہ روزانہ ہی ایمرجنسی کیس آجاتے ہیں ۔جنہیں فوری فوقیت دی جاتی ہے۔میرے کمرے میں میرے علاوہ پانچ اور مریض بھی تھے۔زیادہ تر انگریز دوست تھے۔
انگریز مریض اسپتال میں بھی نارمل زندگی گزارتے۔صبح اٹھتے،نہا دھو کر مناسب لباس زیب تن کرکے اخبارات،ٹی وی یا ،کتب بینی میں مصروف ہو جاتے ہیں ۔کھانا ہمیشہ ہی باقاعدہ کرسی پر بیٹھ کر کھاتے ہیں۔اکثر اوقات آپس میں خوش گپیوں میں لگے رہتے۔حالانکہ ہمارے معاشرہ کے برعکس انہیں ملنے والے عزیز واقارب صرف ہفتہ،اتوار کو ہی آتے تھے۔اس کے باوجود انہیں مسکراتے ہوئے ہی دیکھاہے۔
ہمیں بچپن سے چونکہ بستر پر چوکڑی مار کر بیٹھنے کی عادت ہے اور اسی میں استراحت محسوس کرتے ہیں۔اس لئے میں اکثر اوقات بیڈ پر چوکڑی مار کر بیٹھ جاتا اور بہت سے ممکنہ کام سر انجام دے لیتا۔
انگریز مریض میرے بیٹھنے کےاس انداز پر بڑے حیران ہوتے۔آخر ایک دن ایک مریض نے پوچھ ہی لیا۔مسٹر احمد کیاآپ اس طرح بیٹھ کر یوگا کرتے ہیں؟
مایوسی گناہ ہے
میرےکمرہ میں ایک سری لنکا کے دوست بھی تھے۔جن کی عمر پچاس کے لگ بھگ ہو گی۔ہر لمحہ ان کے چہرہ پر اداسی اور پریشانی کے بادل چھایا رہتے۔نہ بروقت لباس بدلتے۔ان کےعزیز انہیں شام کے وقت ملنے آجایا کرتے تھے۔
ایک دن میں ان کے پاس گیا۔ان کا حال احوال پوچھا۔انہوں نے اپنی بیماری کا حال بتایا ۔کہنے لگے ایک دن کار پر کسی عزیز کو ملنے جارہاتھا۔ اچانک مجھے محسوس ہوا کہ میری کار کی بریک نے کام کرنا چھوڑ دیا ہے۔لیکن بعد میں احساس ہوا کہ میرا پاؤں کام نہیں کررہا ہے۔میں نے بڑی احتیاط سے کار سڑک کے ایک جانب پارک کی۔یہاں آکر معلوم ہوا کہ مجھے تو سٹروک ہوگیا ہے جس کی وجہ سے میرا پاؤں مفلوج ہو چکا ہے۔ اہل خانہ سے رابطہ کیا ،انہوں نے فوری طور پر ہسپتال پہنچا دیا۔اس لئے میں کافی دنوں سے اسپتال میں اپنی مجوزہ سرجری کے لئے اپنی باری کا انتظار کررہا ہوں۔
اس سے بات چیت کا سلسلہ چلتا رہا۔اس نے بتایا کہ اس کے دو بیٹے ہیں جودونوں برسر روزگار ہیں۔جن کے لندن میں اپنے ذاتی مکان ہیں۔بیوی بھی کسی دفتر میں ملازمت کررہی ہے۔
نیز بتایا کہ میں نے اپنے گھر میں بعض ضروری اضافے کرنے ہیں۔جس کے لئے میں نے بنک سے قرض اپلائی کیا ہوا تھا ۔اب وہ رقم تو مجھےمل گئی ہے لیکن اتفاق سے اب میں بیمار ہو گیا ہوں اور کئیِ روز سے ہسپتال میں ہوں۔اب وہ رقم میرے لئے خاصی پریشانی کا سبب بن گئی ہے۔
میں نے اسے بتایا،ذرا تصور کرو۔جس طرح آپ کو کار چلاتے ہوئے بھر پور ٹریفک میں سٹروک ہوا تھا۔لگتا ہے اللہ تعالیٰ نے تمہیں بچا لیا ہے۔اس صور ت حال میں تو بہت کچھ ہو سکتا تھا۔تمہیں تو خدا کا شکر اداکرنا چاہیےجس نے تمہیں نئیِ زندگی بخشی ہے۔
پیسوں کا کیا ہے اور مل جائیں گے۔تمہارے بیٹوں کے اپنے مکان ہیں۔بیوی بھی کمارہی ہے۔ذرا اپنے ماحول میں تو دیکھو یہاں توکئی لوگ ایک کمرے کو ترس رہے ہیں ۔تمہاری یہ مصنوعی پریشانی تمہارے صحت مند ہونے میں ایک روک بنی ہوئی ہے۔اٹھو بس فریش ہو جاؤ۔کپڑے بدلو پھر اسپتال کے ریسٹورنٹ میں جا کر چائے پیتے ہیں۔اس نے میری بات بخوشی مان لی۔میں نے محسوس کیا کہ اس کے بعد اس کی حالت میں تیزی سے صحت مند تبدیلی پیدا ہوئی۔جس کی وجہ سے وہ صاحب اور اس کے اہل خانہ کے ساتھ میرے بہت دوستانہ تعلقات بن گئے۔
مریض کی حوصلہ شکنی نہ کریں
ہمارے معاشرہ میں جب کوئی بیمار ہوتا ہے۔خاص طور پر بڑی بوڑھیاں اپنے اپنے انداز میں بڑے دلچسپ خیالات کا اظہار کرتی ہیں۔۔ہائے بیٹا تمہارا رنگ تو پیلا زرد ہو گیا ہے۔ہائےتمہاری آنکھیں کس طرح اندر دھنس گئی ہیں۔تم تو ہڈیوں کا ڈھانچہ بن گئے ہو۔محبت اور ہمدردی کے اظہار کے لئے قسم قسم کے مایوس کن اور دل شکن کلمات ان کی زبان سے نشتر بن کے نکلتے ہیں۔جو بےچارے مریض کی ہمت بندھانے کی بجائے اس کی بیماری میں اضافہ کا سبب بنتے ہیں۔
موت کا فرشتہ
بسااوقات تو بعض لوگوں کے رویہ کی وجہ سے ان کے بارے میں عوام الناس میں منفی تاثر بھی سر زدعام ہو جاتا ہے۔اسی قسم کی ایک بڑھیا سرگودھا کے ایک گاؤں میں رہتی تھیں۔ان کے بارے میں مشہور ہو گیا تھا۔جس بیمار کے گھر وہ تیمارداری کے لئے جاتی ہیں۔وہ مریض جلد ہی دنیا سے رخصت ہوجاتا ہے۔ایک دفعہ اس بڑھیا کا ایک بھتیجا سخت بیمار ہوگیا۔کا فی علاج کیا مگر ا فاقہ نہ ہوا۔اس بڑھیاکو بھی خبر ہو ئی کہ فلاں عزیز بیمار ہے۔چلو بیمار پرسی کر آؤں۔جب وہ بڑھیا ان کے گاؤں میں پہنچی۔کسی نے اس نوجوان کو بھی بتادیا کہ آپ کی پھوپھی تیمار داری کے لئے تمہارےگھرآرہی ہے۔مریض نوجوان میں نہ جانے کہاں سے اتنی طاقت آگئی۔ فوراًاٹھا اور گھر کے پچھواڑے سے دیوار پھلانگ کر بھاگ گیا۔
بیمار پرسی کا معصومانہ انداز
میں سکول میں تدریسی خدمات سر انجام دیا کرتا تھا۔ایک دفعہ میں خاصا بیمار ہوگیا۔جس کی وجہ کافی دن سکول نہ جاسکا۔اس دوران حسب دستور،میرے کئی ملنے والے عزیز واقارب ،یار دوست اور بعض طلبہ بھی میری عیادت کے لئے تشریف لاتے رہے۔ ہمارے ہاں حسب عادت ہر آنے والا اپنی عقل و سوچ کے مطابق حال احوال پوچھنے کے بعد اپنے طبی مشورے اور کئی قسم کی ہدایات اور احتیاطوں سے ضرورنوازتا ہے۔
ایک روز میرا ایک شاگرد بھی میری بیمارپرسی کے لئے آیا۔ بیمار پرسی کی۔پھر کہنے لگا۔ چند ماہ قبل میرے بڑے بھائی کو بھی یہی بیماری لگی تھی ۔وہ بے چارہ توایک ہفتہ کے اندر ہی فوت ہوگیا تھا۔اس طالب علم کا انداز ایسا معصومانہ تھا کہ آپ سوائے صبر کے کچھ بھی نہیں کہہ سکتے۔
مثبت اور منفی انداز فکر
آدھا گلاس خالی ہے یا آدھا گلاس بھرا ہوا۔مطلب تو ایک ہی ہوتا ہے۔مگر انداز بیان میں بہت فرق آجاتا ہے۔ جب مجھے ڈاکٹرز نے بتایا کہ اب آپ کے ڈیالیسز شروع ہونے والے ہیں۔اس خبر پربظاہر تو میں نارمل ہی تھا۔لیکن میرے دل میں بے شمار وساوس پیدا ہو گئے۔اور ساتھ ہی مجھے نفسیاتی طور پر کمزوری کا احساس پیدا ہونا شروع ہوگیا۔ میرے محلہ میں دو دوست اس موذی مرض کا شکار تھے۔ ان سے علیک سلیک تھی۔لیکن اس بیماری کے حوالے سےکبھی تفصیل سے بات چیت نہیں ہوئی تھی۔یہ دوست ہفتہ میں تین بار قریبی ہسپتال میں ڈیالیسز کے لئے جایا کرتے تھے۔ان سے معلومات کے لئے رابطہ قائم کیا۔تاکہ اس بیماری کے بارے میں کچھ تفاصیل حاصل کروں۔
ایک دوست کے ساتھ ملاقات ہوئی ۔بات چیت ہوئی۔اسے اپنی بیماری کے بارے میں بتایا۔اس کے چہرہ پر سخت پریشانی ہویدا ہو گئی۔اس نے مجھے اس موذی بیماری کی کیفیات کے بارے میں بہت ڈرایا۔اس کی بیان کردہ تفاصیل کے ہر جملہ پر مجھے اپنا دل ڈوبتا ہوا محسوس ہورہا تھا۔ بڑی ہی مایوسی کی حالت میں گھر واپس آیا۔اب تو چلنا بھی دشوار محسوس ہورہا تھا۔شام کھانا پیش کیا گیا۔لیکن بھوک کا کہیں نام و نشان نہ تھا۔اہل خانہ کے اصرار پر چند لقمے زہر مار کئے۔رات بھر بہت سارے پریشان کن خیالات دل ودماغ پر چھائے رہے۔
اگلے روزمسجد میں دوسرے مریض دوست سے ملاقات ہوگئی ۔وہ کہنے لگا۔آپ پریشان نہ ہوں۔آجکل تو اس بیماری کے علاج کے سلسلہ میں بہت ساری سہولیات پیدا ہو گئی ہیں۔آپ بالکل فکر نہ کریں۔جونہی آپ کا ڈیا لسز شروع ہوگا۔آپ بالکل ٹھیک ہو جائیں گے۔آپ کی رنگت ٹھیک ہوجائے گی اورپاؤں اور چہرہ کی سوجن ان شاء اللہ ٹھیک ہو جائے گی۔ آپ بالکل فکر نہ کریں۔آپ دیکھ لیں میں بالکل ٹھیک ہوں اورنارمل زندگی بسر کررہا ہوں۔بس آپ اپنے رویہ کو بدلیں اورصحت مند خوراک لیں اور بیماری کے حوالے سےمثبت سوچ پیدا کرلیں ۔میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ سب ٹھیک ہو جائے گا۔
کہنے لگے۔آپ مجھے بتائیں۔دنیا میں کون ہے جو یہ کہہ سکے کہ مکمل صحت مند ہوں ۔ہر کوئی کسی نہ کسی مرض کا شکار ہے۔ہمیں اگریہ تکلیف ہے توباقی لوگوں کی بیماریاں بھی مختلف ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں اب بیماری لگ تو گئی ہے۔اب اس سے مقابلہ ہے۔اس کو اپنے اوپر سوار نہیں ہونے دینا ہے بلکہ اس کو دبا کر رکھنا ہے۔اس محترم دوست کی باتوں نے میری ہمت بڑھادی اور میں اپنے آپ کو بہتر محسوس کرنے لگا۔کہتے ہیں۔ سر چوہدری ظفراللہ خان صاحب کو اوائل جوانی میں ہی شوگر ہوگئی تھی۔اس پر ایک دوست کہنے لگے۔دراصل شوگر کو چوہدری صاحب ہوگئےتھے۔کیونکہ چوہدری صاحب نے باوجود شوگر کے مریض ہونے کےایک بہت فعال اور لمبی زندگی پائی ہے۔
بہادر خاتون
مجھے بتایا گیا کہ ہفتہ میں تین روز ڈیالیسز ہونگے۔ہر سیشن کا دورانیہ چار گھنٹے اورپانچ منٹ ہوتا ہے۔اس کے علاوہ آمد ورفت اور اپنی باری کے انتظار میں کم از کم دو گھنٹے لگ جاتے ہیں۔ڈاکٹر صاحب کی ہدایت پر مجھے ایک ڈیا لیسز سنٹر میں بھیج دیا گیا۔میرے وارڈ میں چار مریض تھے۔یہ سارے مریض کا فی عرصہ سے ڈیالیسز کرا رہے تھے۔اس لئے اس میدان میں کافی صاحب تجربہ تھے۔ان مریضوں سے علیک سلیک ہو ئی۔ہر نووارد کی طرح مجھے بھی بہت سے سوالات کے جوابات درکار تھے۔
میرے بیڈ کےقریب ہی ایک انگریز خاتون جس کی عمر پینسٹھ سال کے قریب تھی۔اس نے بتایا کہ وہ ایک قریبی شہر میں کسی دفتر میں پراجیکٹ مینیجر ہے۔ پہلے پہر آفس میں کام کرتی ہے۔شام کو ڈیالسز کے لئے آتی ہے اور پھر رات بارہ بجے اپنے گھراپنی کارخود چلا کر جاتی ہے۔
میرے لئے اس کی باتیں عجیب تھیں۔اس نے بتایا کہ میرا ایک ہی بیٹا ہے جو یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہے۔میں تو یہ سب کچھ اسی کے لئےکررہی ہوں کیونکہ میں اپنے بیٹے کو ایک بیمار ماں نہیں دینا چاہتی۔
اس بہادر خاتون کی باتوں نے مجھ پر بہت اثر کیا۔میں نے سوچا یہ خاتون جو مجھ سے عمر میں بڑی ہیں اور عرصہ بارہ سال سے ڈیالیسز کرارہی ہیں۔لیکن اس نے ہمت نہیں ہاری اور حالات کا مردانہ وار مقابلہ کررہی ہے۔میں تو ایک مرد ہوں اور میں ایک مایوسی کی زندگی گزاررہا ہوں۔اسی وقت میں نے فیصلہ کرلیا کہ جو بھی ہو میں سارے اپنے کام خود ہی کروں گا۔اگلے روز میں نے اپنی گاڑی جو میری بیماری کے باعث کافی دنوں سے پارک تھی۔اس کونکالا اور دوستوں کو ملنے چل نکلا۔اہل خانہ نے کافی مخالفت کی۔بہت ڈرایا۔لیکن بفضلہ تعالی عرصہ آٹھ سال سے کار چلا رہا ہوں۔ اپنے سارے کام خود انجام دیتا ہوں اور یہ بیماری کبھی بھی میرے لئے روک نہیں بنی ہے۔
بیماری سے ہارنا نہیں
بیماری ایک ناگہانی آفت کی طرح آتی ہے اور گھر کے سارے سکون کو تہہ وبالا کردیتی ہے۔ایک کنبہ میں فردواحد کے بیمار ہونے سارے اہل خانہ کے طرز عمل میں تبدیلی آجاتی ہے۔مریض کی دیکھ بھال کرنا،اس کی ضروریات کا خیال رکھنا وغیرہ، اب اس سے کس طرح نمٹا جائے۔
اپنے تجربہ کی بنا پر چند باتیں پیش خدمت ہیں۔
اسپتال میں ہفتہ میں تین بار جاتا ہوں جہاں چھ گھنٹے لگ جاتے ہیں۔جن میں سے پانچ گھنٹے تک مسلسل بیڈپر دراز رہنا پڑتا ہے۔اسپتال سے واپس آکر کم از کم تین گھنٹے آرام کرتا ہوں۔اس کے بعد تازہ دم ہوکر دیگر مصروفیات زندگی میں لگ جاتا ہوں۔ روزانہ پیدل یا گاڑی پر باہر نکل جاتا ہوں۔
مضمون نویسی
اس دوران میں اپنے لیپ ٹاپ کے ذریعہ مختلف پروگرام دیکھتا ہوں۔
اس دوران میں مضامین لکھتا رہتا ہوں جو مختلف اخبارات ورسائل کی زینت بنتے رہتے ہیں۔جس سے افادہ عام کے علاوہ مجھے بھی قلبی تسکین ہوتی ہے۔
میں نے اللہ کے فضل سے ڈیالیسز کے عمل کے دوران چند کتب بھی تصنیف کی ہیں۔
خدمتِ دین کو اک فضل الہی جانو
قرآنی ارشاد کے مطابق خدمت دین سے انسان کی عمر بڑھتی ہے۔میں بھی اللہ کے فضل کسی نہ کسی رنگ میں خدمت دین کے لئے کمر بستہ رہتا ہوں۔مختلف شعبوں میں خدمت کی توفیق مل جاتی ہے۔
تراجم، تقاریر، سوال وجواب، مضامین اور کلاسز وغیرہ ذالک فضل اللہ۔
اے آزمانے والے یہ نسخہ بھی آزما
بیماری کے ابتدائی عرصہ میں خاصا کمزور ہوگیاتھا۔ایک روز مجھے کسی طرح علم ہوا کہ ہمارے محلہ میں کونسل کے کچھ زرعی پلاٹس ہیں جو درخواست دینے پر مل سکتے ہیں۔میں نے فوری رابطہ کیا اور مجھے اتفاق سے ایک پلاٹ مل گیا۔میں نے عزیزوں کے تعاون سے اسے تیار کرلیا۔جس میں ،میں نےایک کمرہ بنالیا اور کھیتی باڑی کا کام شروع کردیا۔ابتدا میں پندرہ بیس منٹ میں تھک جاتا تھا۔پھر آہستہ آہستہ جسم مضبوط ہوتا چلا گا۔اس کے بعد میں نے بسا اوقات لگاتار کئی کئی گھنٹے کام کرنا شروع کردیا ۔جس کے نتیجہ میں بفضل تعالیٰ ایک صحت مند زندگی گزارنی شروع کردی۔الحمدللہ
میں نے یہاں سبزیاں ،پھول دار ،اورپھل دار پودے وغیرہ بھی لگائے ہوئے ہیں۔فارغ اوقات میں وہاں جا کر کام کرتا ہوں۔کتابیں پڑھتا ہوں۔جماعتی کام بھی کرلیتا ہوں۔ میرے عزیزوں کے علاوہ دوست احباب بھی آجاتے ہیں۔یہاں کا ماحول بہت ہی صحت مند ہوتا ہے۔
یہاں سے ملنےوالی سبزیاں،پھل اور پھول دوستوں میں تقسیم کردیتا ہوں جس سے بڑی خوشی اور تسکین خاطر ہوتی ہے۔اس زمین کے ٹکڑے نے مجھے ایک نئی زندگی بخش دی ہے۔
سپین میں تبلیغ۔۔خلافت ایک معجزہ ہے
اس بیماری کے باوجود حضرت امیرالمؤمنین ایدہ اللہ نے خاکسار کو ارشاد فرمایا کہ سپین میں جاکر تبلیغ کروں۔ بظاہر یہ ایک بہت ہی مشکل امر تھا۔کیونکہ ڈیا لیسزایک لمبا طریق کار ہوتا ہے۔جہاں بھی جانا مقصود ہو۔وہاں کے اسپتالوں سے رابطہ کرکے ایک ماہ قبل منظوری لینی پڑتی ہے۔جو ایک خاصا مشکل کام ہوتا ہے۔ بہت ساری مشکلات درپیش تھیں۔
حضور انور کی رہنمائی اور دعا سے سارے مسئلے حل ہوتے گئے۔مجھ جیسے کمزور اور بیمار آدمی کواللہ کے فضل سے اس کی توفیق ملی۔تقریبا دو سال سے سپین میں کام جاری ہے۔سپین کے ہر بڑے شہر میں جاکر تبلیغ کی سعادت ملی ہے۔ہر سفر میں اللہ تعالی کی تائید ونصرت کے نظارے نظرآتے ہیں۔
شیریں ثمرات
سب سے بڑی بات یہ کہ اللہ تعالی کے فضل سے اٹھائیس افریقن بھائی مل گئے جو احمدی تھے لیکن ان کا جماعت سے رابطہ نہ تھا۔جو اب اللہ کے فضل سے جماعت سے رابطہ میں ہیں۔
اس کے علاوہ تیس نئی بیعتیں بھی ہوئیں۔الحمدللہ
ایں سعادت بزور بازو نیست گر نہ بخشد خدائے بخشندہ
(منور احمد خورشید ۔واقفِ زندگی)