• 5 مئی, 2024

’’میں تیری تبلیغ کو…‘‘ براعظم آسٹریلیا کے تناظر میں

’’میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاوں گا‘‘
براعظم آسٹریلیا کے تناظر میں

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا یہ الہام انتہائی شان و شوکت کیساتھ پورا ہوا اور اسلام احمدیت کا پیغام زمین کے ہر جغرافیائی کنارہ تک پہنچ گیا۔ اور روز بروز اس کی شان اور جہتو ں میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔

بر اعظم آسٹریلیا کو ہم دنیا کے منفرد کنارے میں اس وجہ سے شمار کر سکتے ہیں کہ وہ جزیرہ کی شکل میں واحد بر اعظم ہونے کے ساتھ ساتھ جنوبی نصف کرہ ارض پر موجود ہونے کے باعث خطِ استوا کے نیچے متعدد دیگر ممالک کے بھی مزید زیریں علاقہ میں واقع ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسے Under-Down کے منفرد نام سے منسوب کیا جاتا ہے۔ آسٹریلیا میں یہاں کے قدیم باشندوں کے آباء و اجداد تقریبا چالیس ہزار سال قبل یہاں آ کر آباد ہوئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آسٹریلیا کے قدیم باشندوں کے بارے میں ارشاد فرمایا ’’ہم اس بات کے قائل نہیں اور نہ ہی اس مسئلہ میں ہم توریت کی پیروی کرتے ہیں کہ چھ سات ہزار سال سے ہی جب آخری آدم پیدا ہوا تھا اس دنیا کا آغاز ہوا ہے۔ اور نہ ہی ہم اس بات کے مدعی ہیں کہ یہ تمام نسلِ انسانی جو اسوقت دنیا کَ مختلف حصوں میں موجود ہے یہ اُسی آخری آدم کی نسل ہے۔ ہم تو اس سے پہلے بھی نسلِ انسانی کے قائل ہیں۔ پس امریکہ اور آسٹریلیا وغیرہ کے لوگوں کے متعلق ہم کچھ نہیں کہہ سکتے کہ وہ اس آخری آدم کی اولاد میں سے ہیں یا کسی دوسرے آدم کی اولاد میں سے ہیں۔ (ملفوظات جلد10، صفحہ432)۔ آسٹریلیا کی زمین کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا الہام کہ ’’میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاوں گا‘‘ ان کی زندگی میں ان ہی کے ہاتھوں عملاً پورا ہوا۔

آسٹریلیا کے حوالے سے اس الہام کے ابتدائی مصداق صحابہ میں مکرم علی بہادر خان صاحبؓ نے 1897 میں ہندوستان میں احمدیت قبول کی اور برسبین آسٹریلیا میں قیام پذیر ہوئے۔ چارلس فرانسس اسیورائیٹ مسلم نام مکرم عبدالحق صاحبؓ نے اکتوبر 1903 میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ملاقات کی اور جنوری 1906 میں بیعت کی۔ انکا تعلق آسٹریلیا کی برٹش ایمپائر لیگ آف آسٹریلیا سے تھا اور اخبار مسلم سن رائز میں (جس کے ایڈیٹر حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ تھے) کے پرچہ 6 اکتوبر 1922 میں انکا تفصیلی تعارف شائع ہوا۔ وہ ہندوستان میں تاجِ برطانیہ کے تحت کمشنر تعینات رہے۔ بعد ازاں امریکہ ہجرت کر گئے۔ اور وہیں فوت ہوئے۔ حضرت صوفی حسن موسیٰ خان صاحبؓ وہ خوش نصیب بزرگ ہیں جن کو آسٹریلیا میں رہتے ہوئے 1903 میں بیعت کرنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد 5 جولائی 1908 کو حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کے ہاتھ پر انکے بیوی اور بچوں نے بھی بیعت کر لی۔

ایک اور اہم شخصیت حضرت پروفیسر کلیمنٹ ریگ صاحبؓ نے 18 مئی 1908 بعد نماز ظہر بمقام لاہور اپنی بیگم صاحبہ کیساتھ حضرت مفتی صادق صاحبؓ کی تحریک اور اور وساطت سے حضرت اقدس علیہ السلام سے تفصیلی ملاقات کی۔ انکا حضور علیہ السلام سے تفصیلی مکالمہ ملفوظات جلد دہم صفحہ 426 تا 438 پر درج ہے۔ انکا تعلق آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ سے تھا اور انھوں نے آسٹریلیا کیلئے بطور بین الاقوامی شہرت یافتہ ماہرِ موسمیات بیش بہا خدمات انجام دیں۔ آسٹریلیا میں انکا قیام کوئینزلینڈ میں ہی رہا اور اپنی عمر کے آخری ایام بروکن ہیڈ میں گذارے۔ بعد ازاں نیوزی لینڈ ہجرت کر گئے اور 10 دسمبر 1922 کو وفات پائی۔

حضرت صوفی حسن موسی خان صاحب کی کاوش سے 1925 تک جو جماعت قائم ہوئی ان میں مکرم علی بہادر خان صاحب آف برسبین متوفی 1955، ان کی اہلیہ مکرمہ مارگریٹ خان صاحبہ متوفی 1948، مکرم محمد بخش صاحبؓ دستی بیعت جنوری 1904، مکرم دولت خان صاحب، مکرم بشیر محمد صاحب آف پرتھ اور مکرم محمد عالم قندھاری صاحب آف ایڈیلیڈ کے کے اسماء شامل ہیں۔ آسٹریلیا جماعت کا تنظیمِ نَو سے قبل پہلا باقاعدہ جلسہ28 دسمبر 1928 کو منعقد ہوا جسکی خبر الفضل 25 جنوری 1929 کو شائع ہوئی۔ اُسوقت مکرم صوفی حسن موسیٰ خان صاحبؓ آسٹریلیا کے آنریری مبلغ تھے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ کے دور میں آسٹریلیا میں جماعت کا باقاعدہ قیام عمل میں آیا۔ اُسوقت پورے براعظم آسٹریلیا میں جماعت کی تجنید 50 احباب کے لگ بھگ تھی۔ مکرم ڈاکٹر اعجاز الحق صاحب کی آسٹریلیا آمد کے وقت مکرم شادی خان صاحب، مکرم عبد الغفار خان صاحب اور مکرم آغا احسان اللہ صاحب موجود تھے اور بعد میں مکرم ڈاکٹر منیر عابد صاحب، مکرم عزیز دین صاحب، مکرم صلاح الدین صاحب، مکرم شمس الدین صاحب، مکرم رانا محمد امجد خان صاحب اور مکرم مظفر احمدی صاحب آسٹریلیا آ گئے۔ بالآخر 17 مارچ 1977 کو جماعت آسٹریلیا میں رجسٹرڈ ہوئی اور ستمبر 1979 میں سڈنی میں جماعت کی تنظیمِ نَو اور اسکا باقاعدہ قیام عمل میں آ گیا۔ آسٹریلیا کی پہلی جماعتی مجلسِ عاملہ میں درج ذیل احباب شامل تھے۔

  1. مکرم ڈاکٹر اعجاز لحق صاحب (صدر)
  2. مکرم شمس الدین خان صاحب (نائب صدر)
  3. مکرم عزیز دین خان صاحب (جنرل سیکرٹری)
  4. مکرم رانا محمد امجد خان صاحب (سیکرٹری مال)

30 ستمبر 1983 بروز جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے مسجد بیت الہدیٰ سڈنی کا سنگِ بنیاد رکھا اور اس مبارک دن کو آسٹریلیا کی تاریخ میں آسٹریلیا کی جغرافیائی دریافت سے کہیں زیادہ اہم اور تاریخی واقعہ قرار دیا۔

خطاب کے بعد مسجد کی محراب کی مجوزہ جگہ پر اپنے دستِ مبارک سے مسجد کا سنگِ بنیاد رکھا۔ اس موقع پر حضرت مولوی محمد حسین صاحبؓ سبز پگڑی والے صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی شریک تھے اور حضرت اقدس کا یہ الہام کہ ’’میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاوں گا‘‘ ایک بار پھر ایک نئی شان سے پورا ہوااور اگلے سال 1984 میں حضورِ انور حضرت خلیفۃ المیح الرابع رحمہ اللہ دوبارہ آسٹریلیا تشریف لائے اور تنظیمِ نَو کے بعد دورِ حاضر کا جماعت آسٹریلیا کا پہلا جلسہ سالانہ منعقد ہوا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کے اس دورے کے بعد 5 جولائی 1985 کو مکرم شکیل احمد منیر صاحب حضوررحکے ارشاد پر بطور پہلے امیر و مشنری انچارج آسٹریلیا تشریف لائے اور بعد ازاں 7 ستمبر 1987 کو جماعت کو بطور احمدیہ مسلم ایسوسی ایشن رجسٹر کروایا گیا اور 15 جولائی 1989 صد سالہ جشنِ تشکر کے موقعہ پر حضرت خلیفۃ المسیح الرابعرحنے مسجد بیت الہدیٰ کا تاریخی افتتاح فرمایا۔ 1991 میں مربی سلسلہ مکرم محمود احمد بنگالی صاحب کی بطور امیر اور مشنری انچارج تقرری ہوئی۔

جماعت احمدیہ آسٹریلیا کی تاریخ میں جلسہ سالانہ 2006 غیر معمولی حیثیت کا حامل تھا۔ جس میں حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے شرکت فرمائی اور اور پھر سال 2013 میں بھی شرکت کے دوران اپنے خطاب میں ارشاد فرمایا:
جماعت احمدیہ آسٹریلیا کی تاریخ میں اب تک یہ سب سے بڑا جلسہ ہے جس میں 4037 احبابِ جماعت شامل ہوئے ہیں۔ خطبہ جمعہ میں حضورِ انور نے دنیا کے کونے کونے میں منعقد ہونے والے جلسہ ہائے سالانہ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کا ثبوت قرار دیتے ہوئے فرمایا ’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے یہ الفاظ کہ اس سلسلہ کی بنیادی اینٹ خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے رکھ دی ہے صرف الفاظ نہیں بلکہ یہ الفاظ ہر نیا دن طلوع ہونے کے ساتھ ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حق میں خدا تعالیٰ کی تائید و نصرت کے نظارے دکھا رہے ہیں۔ لوگ حضرت مسیح موعودؑ کی صداقت کی دلیل مانگتے ہیں اگر آنکھیں بند نہ ہوں اور دل و دماغ پر پردے نہ پڑے ہوں تو آپ علیہ السلام کی صداقت کیلئے جلسوں کے انعقاد جو دنیا کے کونے کونے میں ہو رہے ہیں بہت بڑی دلیل ہیں۔ وہ جلسہ جو صرف 127 سال پہلے صرف قادیان کی ایک چھوٹی سی بستی میں منعقد ہوا آج دنیا کے تمام بر اعظموں میں منعقد ہو رہا ہے‘‘۔

آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے آسٹریلیا جماعت میں 6400 افراد شامل ہیں، جماعتوں کی تعداد 24 ہے اور 10سے زائد مساجد مراکز کا قیام عمل میں لایا جا چکا ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’میں بڑے دعویٰ اور استقلال سے کہتا ہوں کہ میں سچ پر ہوں اور خدا تعالیٰ کے فضل سے اس میدان میں میری ہی فتح ہے۔ اور جہاں تک میں دوربین نظر سے کام لیتا ہوں تمام دنیا اپنی سچائی کے تحت اقدام دیکھتا ہوں اور قریب ہے کہ کہ میں ایک عظیم الشان فتح پاوں کیونکہ میری زبان کی تائید میں ایک اور زبان بول رہی ہے اور میرے ہاتھ کی تقویت کیلئے ایک اور ہاتھ چل رہا ہے جسکو دنیا نہیں دیکھتی مگر میں دیکھ رہا ہوں۔ میرے اندر ایک آسمانی روح بول رہی ہے جو میرے لفظ لفظ اور حرف حرف کو زندگی بخشتی ہے‘‘

(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد3 صفحہ403)

’’میں خاص طور پر خدا تعالیٰ کی اعجاز نمائی کو انشاء پردازی کے وقت بھی اپنی نسبت دیکھتا ہوں کیونکہ جب میں عربی یا اردو میں کوئی عبارت لکھتا ہوں تو میں محسوس کرتا ہوں کہ کوئی اندر سے مجھے تعلیم دے رہا ہے‘‘

(نزول المسیح، روحانی خزائن جلد18 صفحہ434)

’’خدا تعالیٰ نے مجھے بار بار خبر دی ہے کہ وہ مجھے بہت عظمت دے گا اور میری محبت دلوں میں بٹھائے گا اور میرے سلسلہ کو تمام زمین میں پھیلائے گا اور سب فرقوں پر میرے فرقہ کو غالب کرے گا اور میرے فرقہ کے لوگ اِس قدر علم اور معرفت میں کمال حاصل کریں گے کہ اپنی سچائی کے نور اور اپنے دلائل اور نشانوں کے رُو سے سب کا منہ بند کر دیں گے اور ہر ایک قوم اس چشمہ سے پانی پیئے گی اور یہ سلسلہ زور سے بڑھے گا اور پھولے گا یہاں تک کہ زمیں پر محیط ہو جاوے گا۔ بہت سی روکیں پیدا ہونگی اور ابتلا آئینگے مگر خدا سب کو درمیان سے اٹھا دے گا اور اپنے وعدہ کو پورا کرے گا۔ اور خدا نے مجحے مخاطب کر کے فرمایا کہ میں تجھے برکت پر برکت دوںگا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے۔

’’سو اے سننے والو! اِن باتوں کو یاد رکھو۔ اور اِن پیش خبریوں کو اپنے صندوقوں میں محفوظ رکھ لو کہ یہ خدا کا کلام ہے جو ایک دن پورا ہو گا۔ میں اپنے نفس مین کوئی نیکی نہیں دیکھتا اور میں نے وہ کام نہیں کیا جو مجھے کرنا چاہیے تھا اور میں اپنے تئیں صرف ایک نالائق مزدور سمجھتا ہوں۔ یہ محض خدا کا فضل ہے جو میرے شاملِ حال ہوا۔ پس اُس خدائے قادر اور کریم کا ہزار ہزار شکر ہے کہ اِس مشتِ خاک کو اس نے باوجود ان تمام بے ہنریوں کے قبول کیا‘‘

(تجلیاتِ الٰہیہ، روحانی خزائن جلد20 صفحہ410)

اک قطرہ اس کے فضل نے دریا بنا دیا
میں خاک تھا اُسی نے ثریّا بنا دیا
میں تھاغریب وبیکس و گمنام و بے ہنر
کوئی نہ جانتا تھا کہ ہے قادیاں کدھر
اب دیکھتے ہو کیسا رجوعِ جہاں ہوا
اِک مَرجعِ خواص یہی قادیاں ہوا

(محمد امجد خان۔ نمائندہ روزنامہ الفضل آن لائن آسٹریلیا)

پچھلا پڑھیں

کردش ویب سائیٹ کا افتتاح اور دعا کی تحریک

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ