• 25 اپریل, 2024

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی کتاب ’’اَلْھُدیٰ‘‘ میں بادشاہوں اور مختلف طبقوں کو مخاطب کر کے توجہ دلائی ہے…

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:۔
پھر آگے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ’’اگر یہ متقی ہوتے تو کیونکر ممکن تھا کہ ان کے دشمن ان پر غالب کئے جاتے۔ بلکہ جب انہوں نے دعا اور عبادت کو چھوڑ دیا تب خدانے بھی ان کی کچھ پروا نہ کی…‘‘۔ فرمایا ’’…خدا کا عہد توڑنے اور قرآن کی حدود کی بے عزتی کرنے کے سبب سے خطرناک حادثے ان پر نازل ہو رہے ہیں۔ اور بہت سے شہر ان کے ہاتھوں سے نکل گئے ہیں …‘‘۔ فرمایا ’’…یہ سب خدا تعالیٰ کی طرف سے سزااور گرفت ہے…‘‘۔ فرماتے ہیں ’’… دشمنوں نے انہیں رسوا نہیں کیا بلکہ خدانے کیا۔ اس لئے کہ خدا کی آنکھوں کے سامنے انہوں نے بے فرمانیاں کیں سو اس نے انہیں دکھایا جو دکھایا اور انہیں آفات میں چھوڑ دیا اور نہ بچایا اور ان کے وزیر بددیانت اور خائن ہیں …‘‘۔

پھر آپ نے اس کی تفصیل بیان فرمائی کہ ان کے جتنے وزیر اور مشیر ہیں وہ اپنے وزیر اور مشیر ہونے کا حق ادا نہیں کر رہے بلکہ بد دیانتی میں ان سے بھی آگے بڑھ گئے ہیں اور بددیانتی کی طرف ان لوگوں کو لے کر جا رہے ہیں۔ آگے لکھتے ہیں کہ ’’یورپ کے اخبار انہیں سست اور نالائق لکھتے ہیں‘‘۔ (الہدیٰ والتبصرۃلمن یریٰ، روحانی خزائن جلد 18صفحہ 287 تا 289) (اور آج بھی یہ حقیقت ہے)۔ پھر آپ فرماتے ہیں ’’… مردوں کی خُوبُو اُن میں رہی ہی نہیں …‘‘۔ ’’…نماز کی پابندی نہیں کرتے اور خواہشیں ان کی راہ میں چٹان اور روک بن گئی ہیں اور اگر نماز پڑھیں بھی تو عورتوں کی طرح گھر میں پڑھتے ہیں اور متقیوں کی طرح مسجدوں میں حاضر نہیں ہوتے…‘‘۔

(الھدی والتبصرۃلمن یری۔ روحانی خزائن جلد18۔ صفحہ287 تا292۔ کمپیوٹرائزڈ ایڈیشن)

پھر فرمایا: ’’اور وعظ کی کوئی بات سن نہیں سکتے۔ جھٹ کبر اور نخوت کی عزت انہیں جوش دلاتی ہے اور غضب اور غیرت میں نیلے پیلے ہوجاتے ہیں۔ اور اُن کے نزدیک بڑا مکرم وہ ہوتا ہے جو ان کا حال انہیں خوبصورت کرکے دکھائے اور ان کی اور ان کے اعمال کی تعریف کرے…‘‘۔ یعنی صرف خوشامدی ان کو پسند ہے۔ پھر فرمایا کہ ’’… جب خدا نے ان کا فسق و فجور اور ظلم اور جھوٹ اور اِترانا اور ناشکرگزاری دیکھی۔ اُن پر ایسے لوگوں کو مسلّط کیا جو اُن کی دیواروں کو پھاندتے اور ہر بلند جگہ پر چڑھ جاتے ہیں اور ان کے باپ دادوں کی ملکیت پر قبضہ کرتے ہیں اور ہرریاست کو دباتے چلے جاتے ہیں۔ اور یہ سب کچھ ہونے والا تھا اور تم قرآن میں یہ باتیں پڑھتے ہو اور سوچتے نہیں …‘‘۔ جیسا کہ مَیں نے کہا معیشت کی صورت میں اب مسلمانوں کی ہر چیز غیروں کے قبضے میں ہے۔ پھر آپ فرماتے ہیں کہ’’… سو جبکہ انہوں نے دِلوں کا تقویٰ بدل دیا خدا نے ان کے امورِ دنیا کو بدل دیا۔ اور اس لئے بھی کہ وہ گناہوں پر دلیر تھے۔ اور خدا تعالیٰ کسی قوم کی حالت کو نہیں بدلتاجب تک وہ اپنی اندرونی حالت کو آپ نہ بدل لیں اور نہ ہی ان پر رحم کیا جاتا ہے۔ بلکہ خدااُن گھروں پر لعنت کرتاہے اور اُن شہروں پر جن میں لوگ بدکاری اور جرم کریں۔ اور بدکاری کے گھروں پر فرشتے اتر کر کہتے ہیں اے گھر خداتجھے ویران کرے‘‘۔

(الھدی والتبصرۃلمن یری۔ روحانی خزائن جلد 18۔ صفحہ292 تا294۔ کمپیوٹرائزڈ ایڈیشن)

فرمایا ’’… بادشاہان نصاریٰ کو مت کوسو‘‘ (لوگوں کو فرماتے ہیں کہ غیروں کو مت کوسو کہ تمہیں تکلیفیں پہنچا رہے ہیں) ’’سو بادشاہانِ نصاریٰ کو مت کوسو اور جو کچھ تمہیں ان کے ہاتھوں سے پہنچا ہے اسے مت یاد کرو۔ اوبدکارو!خود اپنے آپ کو ملامت کرو۔ کیا تم میری باتیں سنتے ہو۔ نہیں نہیں تم تومنہ بناتے اور گالیاں دیتے ہو۔ اور تمہیں سننے والے کان اور سمجھنے والے دل تو ملے ہی نہیں اور تمہیں اتنی فرصت ہی کہاں کہ کھانے پینے سے عقل کی طرف آؤاور خُم مَے سے الگ ہو کر خدا کی طرف دھیان کرو اور تم میں سوچنے والے جوان ہی کہاں ہیں۔ کیا تم دشمنوں کو کوستے ہو اور تمہیں جو کچھ پہنچاہے اپنی بدکرداریوں کی وجہ سے پہنچاہے‘‘۔

(ایضاً صفحہ 295)

پھر آپ نے عوام کو بھی مخاطب کر کے فرمایا، جو آج کل ہڑتالیں کر رہے ہیں کہ:
’’سنو تم اگر نیکوکار ہوتے تو بادشاہ بھی تمہارے لئے صالح بنائے جاتے‘‘ (تم نیک ہوتے تو بادشاہ بھی نیک ہوتے)۔ ’’اس لئے کہ متقیوں کے لئے خدا تعالیٰ کی ایسی ہی سنت ہے۔ اور مسلمان بادشاہوں کی مدح سرائی سے باز آؤ اور اگر اُن کے خیر خواہ ہو تو اُن کے لئے استغفار پڑھو…‘‘۔

فرمایا: ’’…خدانے انہیں تمہارے حق میں سازوسامان اور تمہیں ان کے آلات بنایا ہے۔ سواگر مخلص ہوتو تقویٰ اور نیکی پر ایک دوسرے کے مددگار بن جاؤ۔ اور انہیں ان کی بدکرداریوں پر آگاہ کرواور لغویات پر انہیں اطلاع دو اگر تم منافق نہیں۔ واللہ وہ اپنی رعیت کے حقوق ادا نہیں کرتے…‘‘۔ (فرمایا کہ سمجھانا بالکل ٹھیک ہے، ضروری ہے۔ جائز ہے کہ بادشاہ کے سامنے حق بات کہنی چاہئے۔)

فرماتے ہیں کہ ’’… قسم بخدا ان کے دل پہاڑوں کے پتھروں سے بھی زیادہ سخت ہیں …… وہ کبھی خدا کے حضور گڑگڑاتے نہیں۔ ان فعلوں اور عملوں سے ثابت ہوگیا کہ انہوں نے خدا کو ناراض کرکے گمراہی کے طریق اختیار کئے ہیں اور خود قاتل زہر کھا کر رعیت کو بھی اس میں شامل کر لیا ہے سو ان کے لئے وبال سے دوحصے ہیں …‘‘۔

فرمایا ’’…سو اے متکلمو! تم میں کوئی ایسا ہے جوانہیں ان عادات کے نتیجوں پر آگاہ کرے۔ اس لئے کہ ان لوگوں نے ناپاک خواہشوں کے پیچھے اپنا دین کھو دیا ہے اور تمام احوال میں اَحْوَل بن گئے ہیں‘‘ (یعنی ان کی نظریں ٹیڑھی ہو گئی ہیں۔ بھینگے ہو گئے ہیں) فرمایا ’’بلکہ میرے نزدیک تو وہ بالکل اندھے ہیں۔ مَیں تمہیں یہ نہیں کہتا کہ تم ان کی اطاعت کو چھوڑ کر ان سے جنگ و جدال کرو‘‘۔ (بڑا واضح فرمایا۔ مَیں یہ نہیں کہتا کہ تم ان کی اطاعت کو چھوڑ کر ان سے جنگ و جدال کرو۔ کلمہ حق کہو۔ جنگ کے لئے اجازت نہیں ہے۔ اور پھر دعا ہے۔ دعا کی طرف پہلے توجہ دلائی۔ استغفار کی طرف توجہ دلائی) ’’مَیں یہ نہیں کہتا کہ تم ان کی اطاعت کو چھوڑ کر ان سے جنگ و جدال کرو۔ بلکہ خدا سے ان کی بہتری مانگو تاکہ وہ باز آ جائیں۔ اور یہ تو ان سے امیدنہ رکھو کہ وہ اصلاح کرسکیں گے ان باتوں کی جنہیں دجال کے ہاتھوں نے بگاڑدیاہے یا وہ اس قدر تباہی اور پریشانی کے بعد ملّت کی حالت کو درست کر لیں گے۔ اور تم جانتے ہو کہ ہر میدان کے لئے خاص خاص مرد ہوا کرتے ہیں اور کیا ممکن ہے کہ مُردہ دوسروں کو زندہ کر سکے یا گمراہ دوسروں کو ہدایت دے۔ …… تو پھر ان سے کیا اُمید رکھ سکتے ہو۔ ہمیں تو امیدنہیں کہ وہ سنورجائیں جب تک انہیں موت ہی آکر بیدار نہ کرے۔ ہاں وعظ و پند کرنے کا ہمیں حکم ہے…‘‘۔ (نصیحت کرنے کا حکم ہے وہ کرتے چلے جا رہے ہیں)۔

فرمایا ’’… ان میں فراست کی قوت اور اصولِ مُلک داری کا علم نہیں۔ انہوں نے چاہاکہ اپنے عیسائی پڑوسیوں کی مکاریوں کو سیکھیں لیکن باریک فریبوں اور بچاؤ کی تدبیروں میں ان تک پہنچ نہ سکے۔ سو وہ اس مرغ کی مانند ہیں جس نے پرواز میں کرگس بنناچاہا…‘‘۔

فرمایا کہ ’’… عیسائیوں کے مقابل جو کچھ انہیں تقوی اللہ کے متعلق تعلیم ملی تھی اس سے تو منہ پھیر لیا اور اپنے مخالفوں کی طرح وہ چالاکیاں اور داؤبھی پورے نہ سیکھے اور مسلمان بادشاہوں کی نسبت خدا تعالیٰ وعدہ کر چکا ہے کہ جب تک متقی نہ بنیں گے ان کی کبھی مددنہ کرے گا اور اس نے ایسا ہی چاہا ہے کہ نصاریٰ کو ان کے مکر میں کامیاب کردے جبکہ مومنوں نے اُسے ناراض کیاہے…‘‘۔

(خطبہ جمعہ 15؍ اپریل 2011ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 24 اپریل 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 26 اپریل 2021