• 12 جولائی, 2025

فضل اور رحمت کے دائرے

فضل اور رحمت کے دائرے
قارئین الفضل آن لائن کے لئے ایک خصوصی تحریر

راقم الحروف برادرم مکرم حنیف احمد محمود صاحب مدیر الفضل آن لائن کا ممنون ہے جنہوں نے فضل و رحمت کے لطیف فرق کے حوالہ سےخامہ فرسائی کی دعوت کوئی چھ ماہ قبل دی تھی اور تعمیل حکم میں قرآن و حدیث اور لغت کے حوالہ جات کی جستجو بھی شروع کردی تھی۔ مگر شاید مضمون کی تکمیل کے لئے اللہ تعالی کا وہ فضل و رحمت اس وقت میسر نہ ہوسکا جتنا رمضان کے رحمتوں اور برکتوں والے مہینہ میں نصیب ہے لہذا جناب مدیر محترم کی فرمائش پر تاخیر کی معذرت کے ساتھ یہ مضمون ہدیہ قارئین ہے۔

خواستگار دعا: ایچ ایم طارق

قادیان دار الامان میں دارالمسیح کے پاکیزہ ماحول کی یہ کیسی سہانی اور دلگداز یاد ہے کہ حضرت مسیح موعود ؑ گھر تشریف لاتے ہیں اور اپنی مبشر اولاد میں سے دو کم سن مگر عظیم الشان بچوں کو محو گفتگو پا کر توجہ فرماتے ہیں۔آپ کی آنکھ کا تارامحمود اور پیارا بشیر بحث کر رہے ہیں کہ علم اچھا ہے یا دولت؟ آپ کس شان استغناء اور دلربائی سے فرماتے ہیں کہ ’’بیٹا! نہ علم اچھا نہ دولت۔ خدا کا فضل اچھا‘‘

’’اس طرح حضرت مسیح موعودؑ نے اپنے چھوٹے سے بیٹے کے دماغ میں شروع سے یہ خیال ڈال دیا کہ اگر خدا کا فضل نہ ہو تو علم اور دولت کسی کام کے نہیں کیونکہ اس علم اور دولت سے اگر برے کام کرنے لگ جائیں تو یہ برے بن جاتے ہیں۔‘‘

(حضرت مصلح موعود ؓ از صاحبزادی امۃ القدوس صاحبہ صفحہ 5)

پھرخدا کی شان دیکھو کہ مسیح و مہدیؑ کی اس مبشر اولاد میں سے بڑے صاحبزادہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحبؓ خدائے رحمان کےفضل و رحمت کا نشان بن کر پیشگوئی مصلح موعود کے مصداق ٹھہرے تو دوسرے صاحبزادے حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے بھی خدائے رحیم کی رحمتوں سے حصہ پاکر قمر الانبیاء کا خطاب پایا

اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعودؑ کی بطور بروز آخرین میں ظہور کی خبردے کر فرمایا:

ذٰلِکَ فَضۡلُ اللّٰہِ یُؤۡتِیۡہِ مَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَاللّٰہُ ذُو الۡفَضۡلِ الۡعَظِیۡمِ

(الجمعہ: 5)

کہ یہ اللہ کا فضل ہے وہ جسے چاہتا ہے عطا فرماتا ہے اور اللہ بہت بڑے فضل والا ہے۔

گویا یہاں اسلام کی نشاةثانیہ کے عظیم الشان روحانی انعام کو ’’فضل‘‘ سے تعبیر فرمایا۔

مگر رحمتوں اور فضلوں کی اصل برسات کا زمانہ توخود ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ کاوہ بابرکت دور تھا جب صحرائے عرب پر فضل و رحمت کی موسلادھار بارش ہوئی اور اس بنجرسر زمین کی آبیاری الہٰی شریعت سے کرکےایک امی قوم کو دنیا کا معلم بنا دیا گیا۔یہ حیرت انگیز انقلاب بھی اللہ تعالیٰ کا فضل عظیم ہی تو تھا۔ چنانچہ ارشادباری ہوا:

وَ اَنۡزَلَ اللّٰہُ عَلَیۡکَ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَۃَ وَ عَلَّمَکَ مَا لَمۡ تَکُنۡ تَعۡلَمُ ؕ وَ کَانَ فَضۡلُ اللّٰہِ عَلَیۡکَ عَظِیۡمًا

(النساء: 114)

یعنی اور اللہ نے تجھ پر کتاب اور حکمت اتاری ہے اور تجھے وہ کچھ سکھایا ہے جو تو نہیں جانتا تھا اور تجھ پر اللہ کا فضل بہت بڑا ہے۔

حضرت مسیح موعودؑ نے کیا خوب فرمایا:

امی ودر علم وحکمت بے نظیر
زیں چہ باشد حجتی روشن ترے

یعنی آنحضرتﷺ پڑھے لکھے نہ تھے مگر علم وحکمت میں آپ جیسا کوئی نہیں ہوا(آپﷺ کی سچائی کی)اس سے زیادہ روشن دلیل اور کیا ہوسکتی ہے۔

پس وحی نبوت کا نزول بصورت قرآن ہو یا خود حضرت خاتم الانبیاء کا ظہور ان کا سرچشمہ اللہ تعالیٰ کی صفت رحمت اور فضل ہی ہیں۔ جن سے بنی نوع انسان کی دائمی مسرت اور فلاح و بہبودمقصود ہے چنانچہ نزول قرآن کو بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے تعبیر کرتے ہوئے فرمایا:

قُلۡ بِفَضۡلِ اللّٰہِ وَبِرَحۡمَتِہٖ فَبِذٰلِکَ فَلۡیَفۡرَحُوۡا ؕ ہُوَ خَیۡرٌ مِّمَّا یَجۡمَعُوۡنَ

(یونس: 59)

یعنی تو کہہ دے کہ (قرآن )محض اللہ کے فضل اور اس کی رحمت سے ہے۔ پس اس پر چاہئے کہ وہ بہت خوش ہوں۔ وہ اس سے بہتر ہے جو وہ جمع کرتے ہیں۔

یہاں بھی فضل رحمت پہ مقدم ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے رَحۡمَۃً لِّلۡعٰلَمِیۡنَؐ کو جب خَاتَمَ النَّبِیّٖنَ، مُبَشِّرًا وَّنَذِیۡرًا اور سِرَاجًا مُّنِیۡرًا بنا کر مبعوث فرمایا تو اسے بھی مومنوں کے لئےفضل کبیر قرار دیا۔فرمایا:

وَ بَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ بِاَنَّ لَهُمْ مِّنَ اللّٰهِ فَضْلًا كَبِیْرًا

(الاحزاب: 48)

اور مومنوں کو خوشخبری دیدے کہ (یہ) ان کے لئے اللہ کی طرف سے بہت بڑا فضل ہے۔

یہاں یہ سوال بھی اہم ہے کہ رحمت و فضل کے دائروں کی وسعت کیاہے، کہاں پر یہ دائرے باہم ملتے اور کہاں جدا ہوتے ہیں؟

لغت سے اس سوال کا جواب تلاش کیاجائے توفضل اور رحمت کی باہمی نسبت کافی حد تک واضح ہوجاتی ہے۔ چنانچہ فضل نقص کی ضد ہے اور اس کے معنے زائد چیز یا انعام کے ہیں۔ اسی طرح ایسا احسان جو بغیر کسی سبب اور بدلہ کے ہو اسے بھی فضل کہتے ہیں

(تاج العروس جز3 صفحہ17)

اس لحاظ سے فضل کا لفظ اللہ تعالیٰ کی صفت رحمان کے زیادہ قریب اور اس کےتابع ہے جس میں بلا مبادلہ اور بلا استحقاق رحم کا مضمون غالب ہوتا ہے جبکہ لفظ رحمت رحم مادر سے مشتق اور قرابت کے لئے استعارہ ہے اور رحمت سے مرادایسی نرمی وملائمت کا پایاجاناہےجس کے نتیجہ میں کوئی احسان کیا جائے۔تاہم جب یہ اللہ تعالیٰ کی ذات کے لئے استعمال ہوتواس سے مراد محض احسان ہی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی صفت رحیم کا مطلب رحم کے حقدار کو اس کے کام کی اچھی جزا دینا ہے

(بحر محیط مصنف علامہ ابوحیان اندلسی صفحہ 27،17)

اسی طرح لکھاہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفت رحمان بَر وزن فعلان رحم پر غلبہ کے معنے دلالت کرتی ہے جو کسی حق کے بغیر بھی رحم فرماتا ہے اور تمام بنی نوع انسان پر حاوی ہوتا ہے جبکہ صفت رحم مومنوں سے خاص ہے جس میں استحقاق کے مطابق سلوک کا مفہوم ہے۔۔۔ رحمان کی صفت کا تعلق دنیا سے اور رحم کا آخرت سے ہےیعنی رحمانیت اور فضل کی وسعت اہل دنیا پر بھی جاری ہے جبکہ رحیمیت کا آخرت میں جزا سے زیادہ تعلق ہے۔

(تفسیرفتح البیان مؤلفہ نوب صدیق حسن خان صفحہ25 مطبع الصدیقی بھوپال)

اس کی مزید تائید اس امر سے بھی ہو تی ہے کہ نبی کریمؐ نے مسجد میں داخل ہونے کی جو دعا سکھائی اس میں رحمت کے دروازے کھلنے کی التجاء ہے جبکہ مسجد سے نکلتے وقت فضل کے دروازے کھل جانے کی دعا ہےتاکہ نماز کی برکات دنیوی افضال کی صورت میں بھی ظاہر ہوں۔ نماز جمعہ کی ادائیگی کے بعد بھی حکم الہی ہے کہ پھرزمین میں پھیل جاؤ اور اللہ کا فضل تلاش کرو (الجمعہ: 10) اس ’’فضل‘‘ میں بھی دنیوی برکات کے حصول کی طرف اشارہ ہے جو انسان کی طبعی اور بنیادی ضرورت ہے اسی طرح فریضئہ حج کی ادائیگی کے بعد فرمایا کہ تم پر کوئی گنا ہ نہیں کہ تم اپنے رب کا فضل چاہو (سورہ بقرہ آیت197،198) یعنی تکمیل حج کےبعد بھی کاروبار دنیا میں مصروف ہونے کی۔ رخصت عطا فرمائی ہے۔

فضل کے لئےاحسان کا لفظ بھی استعمال کیاجاتا ہے

حضرت مسیح موعودؑ یہ مضمون بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’پس یہ کس قدر احسان ہے کہ قویٰ سے کام لینے کے لئے اس نے ان ضروری سامانوں کو پہلے سے مہیا کردیا۔اور پھر یہ کس قدر اس کی رحمت ہے کہ اس نے ایسے قوی دیے ہیں اور ان میں بالقوہ ایسی استعدادات رکھ دی ہیں جو انسان کی تکمیل اور وصول الی الغایۃ کے لئے از بس ضروری ہیں۔دماغ میں،اعصاب میں،عروق میں،ایسے خواص رکھے ہیں کہ انسان ان سے کام لیتا ہے اور ان کی تکمیل کرسکتا ہےاس لئے کہ قوتوں کی تکمیل کاسامان ساتھ ہی پیدا کردیا ہے۔ یہ تو اندرونی نظام کاحال ہے کہ ہر ایک قوت اس منشاء اور مفاد سے پوری مناسبت رکھتی ہے جس میں انسان کی فلاح ہےاور بیرونی طور پر بھی ایسا ہی انتظام رکھا ہے کہ ہر شخص جس قسم کا حرفہ رکھتا ہے اس کے مناسب حال ادویات و آلات قبل از وجود مہیا کر رکھے ہیں۔ مثلا اگر کوئی جوتا بنانے والا ہے تو اس کو چمڑا اور دھاگا نہ ملے تو وہ کہاں سے لائے اورکیونکر اپنے حرفہ کی تکمیل کرے اسی طرح درزی کو اگر کپڑا نہ ملے تو کیونکر سیئے۔ اسی طرح ہر متنفس کا حال ہے طبیب کیسا ہی حاذق اور عالم ہو لیکن اگر ادویہ نہ ہو ں تو وہ کیا کر سکتا ہے بڑی سوچ اور فکر سے ایک نسخہ لکھ کردے گا لیکن بازار میں دوا نہ ملے تو کیا کرے گا۔ کس قدر خدا کا فضل ہے کہ ایک طرف تو اس نے علم دیا ہے اور دوسری طرف نباتات، جمادات، حیوانات جو مریضوں کے مناسب حال تھے پیدا کر دیے ہیں اور ان میں قسم قسم کے خواص رکھے ہیں جو ہر زمانہ میں نااندیشیدہ ضروریات کے کام آسکتے ہیں۔ غرض خدا تعالیٰ نے کوئی چیز بھی غیر مفید پیدا نہیں کی۔ کتب میں لکھا ہے کہ اگر کسی کا پیشاب بند ہو جائے تو بعض وقت جوں کو احلیل میں دینے سے پیشاب جاری ہوجاتا ہے۔ انسان ان اشیا کی مدد سے کہاں تک فائدہ اٹھاتا ہے کوئی اندازہ کر سکتا ہے ہرگز نہیں بلکہ کسی کے تصور میں نہیں آ سکتا پھر چوتھی بات پاداش محنت ہےاس کے لئے بھی خدا کا فضل درکار ہے۔مثلا انسان کس قدر محنت و مشقت سے زراعت کرتا ہےاگر خدا تعالیٰ کی مدد اس کے ساتھ نہ ہو تو کیونکر اپنے گھر میں غلہ لاسکے۔اسی کے فضل وکرم سے اپنے وقت پر ہر ایک چیز ہوتی ہے۔چنانچہ اب قریب تھا کہ اس خشک سالی میں لوگ ہلاک ہوجاتے مگر خدا نے اپنے فضل سے بارش کردی اور بہت سے حصہ مخلوق کو سنبھال لیا‘‘

(روئداد جلسہ دعا، روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 601-602)

رسالت بھی خدا کا فضل اور انعام ہے۔ پس نبوت و خلافت کے نتیجہ میں ایمان اور اسلام کی نعمت کا عطا ہونا اور خدا تعالیٰ کے مامور یا اس کے خلیفہ کی جماعت سے وابستہ ہوجانا بھی اللہ کا خاص فضل اور اس کی رحمت کی برکت سے ہی نصیب ہوتا ہے۔ عرب کے بادیہ نشینوں کو مخاطب کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَاعْلَمُوا أَنَّ فِيكُمْ رَسُولَ اللّٰهِ لَوْ يُطِيعُكُمْ فِي كَثِيرٍ مِنَ الْأَمْرِ لَعَنِتُّمْ وَلَكِنَّ اللّٰهَ حَبَّبَ إِلَيْكُمُ الْإِيمَانَ وَزَيَّنَهُ فِي قُلُوبِكُمْ وَكَرَّهَ إِلَيْكُمُ الْكُفْرَ وَالْفُسُوقَ وَالْعِصْيَانَ أُولٰئِكَ هُمُ الرَّاشِدُونَ۔ فَضْلًا مِنَ اللّٰهِ وَنِعْمَةً وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ (الحجرات 8-9) ترجمہ: ’’اور جان لو کہ تم مىں اللہ کا رسول موجود ہے اگر وہ تمہارى اکثر باتىں مان لے تو تم ضرور تکلىف مىں مبتلا ہوجاؤ لىکن اللہ نے تمہارے لئے اىمان کو محبوب بنا دىا ہے اور اسے تمہارے دلوں مىں سجا دىا ہے اور تمہارے لئے کفر اور بداعمالى اور نافرمانى سے سخت کراہت پىدا کردى ہے ىہى وہ لوگ ہىں جو ہداىت ىافتہ ہىں۔ اللہ کى طرف سے ىہ اىک بڑے فضل اور نعمت کے طور پر ہے اور اللہ دائمى علم رکھنے والا اوربہت حکمت والا ہے‘‘

اس زمانہ میں دیکھیں تو جماعت احمدیہ پربھی اللہ تعالیٰ کا غیرمعمولی فضل اور احسان ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اس مسیح و مہدی کے ماننے کی توفیق دیں جس کا چودہ سو سال سے انتظار تھا پھر اس کی خلافت کی نعمت سے وابستہ کرکے اسلام کی ترقی اور غلبے کے نظارے دیکھنے نصیب فرمائے۔

قرآن شریف میں فضل ورحم کی حقیقت پر غور کرتے ہوئے یہ مسئلہ بھی حل ہوجاتا ہےکہ نبوت کسب ہے یا موہبت؟ یعنی عمل سے نبوت ملتی ہے یافضل سے؟ اس بارہ میں یاد رکھنا چاہئے کہ بےشک نبوت اللہ تعالیٰ کی عطا ہے اور اس کے فضل کے نتیجہ میں ہی ملتی ہےمگر یہ کسب وعمل کے بغیر بھی نہیں ہوتی جیسا کہ فرمایا كُلُّ نفْسٍ بِمَا كَسَبَتْ رَهِينَةٌ (المدثر: 39) ہر شخص اپنے اعمال کا رھین منت ہے۔اور علم بھی محنت کے بغیر حاصل نہیں ہوتا لیکن ہمارے نبی پاکﷺ کو علم لدنی خاص فضل الہی سے نصیب ہوگیا۔ آپ ﷺ ایک امی محض تھے جن کے بارہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَمَا كُنْتَ تَتْلُو مِنْ قَبْلِهِ مِنْ كِتَابٍ وَلَا تَخُطُّهُ بِيَمِينِكَ إِذًا لَارْتَابَ الْمُبْطِلُونَ (العنكبوت: 49) ترجمہ: ’’اور تُو اس سے پہلے کوئى کتاب نہىں پڑھتا تھا اور نہ تُو اپنے داہنے ہاتھ سے اُسے لکھتا تھا اگر اىسا ہوتا تو جھٹلانے والے تىرے بارہ مىں ضرور شک مىں پڑ جاتے‘‘ یعنی نزول قرآن سے پہلے نہ تورسول کریمؐ کوئی کتاب پڑھ سکتے تھے اور نہ ہی لکھنا پڑھنا جانتے تھے۔ دوسری جگہ فرمایا مَا كُنْتَ تَدْرِي مَا الْكِتَابُ وَلَا الْإِيمَانُ (الشورى: 53) آپؐ یہ بھی نہ جانتے تھےکہ کتاب و ایمان کیا چیز ہے مگر جب علیم وخبیر خدا نے رسول اللہ پر کلام الہی کا نزول فرمایا تو اس کےفضل عظیم سے آپﷺ کو تمام ضروری علوم سکھا دیے گئے۔ جیسا کہ فرمایا: وَاَنۡزَلَ اللّٰہُ عَلَیۡکَ الۡکِتٰبَ وَالۡحِکۡمَۃَ وَعَلَّمَکَ مَا لَمۡ تَکُنۡ تَعۡلَمُ ؕ وَکَانَ فَضۡلُ اللّٰہِ عَلَیۡکَ عَظِیۡمًا (النساء: 114) یعنی اور اللہ نے تجھ پر کتاب اور حکمت اتارے ہىں اور تجھے وہ کچھ سکھاىا ہے جو تو نہىں جانتا تھا اور تجھ پر اللہ کا فضل بہت بڑا ہے۔

قرآن شریف میں رسول اللہﷺ کے امتیوں کےلئے اعلی روحانی انعامات نبوت،صدیقیت،شہادت اور صالحیت حاصل کرنے کی شرط اطاعت رسول قرار دے کر کھول دیا کہ عمل بھی حصول نبوت میں کارآمدتو ہےمگر یہ سب فضل کے بغیر نہیں جیسا کہ فرمایا وَمَنۡ یُّطِعِ اللّٰہَ وَالرَّسُوۡلَ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمَ اللّٰہُ عَلَیۡہِمۡ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَالصِّدِّیۡقِیۡنَ وَالشُّہَدَآءِ وَالصّٰلِحِیۡنَ ۚ وَحَسُنَ اُولٰٓئِکَ رَفِیۡقًا (النساء: 70) یعنی اور جو بھى اللہ کى اور اِس رسول کى اطاعت کرے تو ىہى وہ لوگ ہىں جو اُن لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے انعام کىا ہے (ىعنى) نبىوں مىں سے، صدىقوں مىں سے، شہىدوں مىں سے اور صالحىن مىں سے اور ىہ بہت ہى اچھے ساتھى ہىںاس بیان کے بعد ذٰلِكَ الْفَضْلُ مِنَ اللّٰهِ وَكَفٰى بِاللّٰهِ عَلِيمًا (النساء: 71) مگر حصول نبوت کی بنیادی شرط اللہ تعالیٰ کا فضل ہی ہے۔ اس آیت کریمہ میں رسول کریمﷺ کی پیروی کی برکت سے جن چار مراتب کا ذکر ہےاسی کی تاثیر سے حضرت ابوبکرؓ نےصدیق کا مقام پایا تو حضرت عمرؓ،عثمانؓ اور علیؓ نے شہید کا مرتبہ حاصل کیا۔ ضرور تھا کہ آپﷺ کی پیروی کی برکت سے امتی نبی بھی پیدا ہوتا۔ یہ معجزہ رسولﷺ کی قوت قدسیہ کی برکت سے چودہ سوسال بعد ظہور میں آیا جب حضرت مرزا غلام احمد قادیانی ؑ نے آپﷺ کی کامل اتباع کی برکت اور خدا کے فضل سے یہ مقام پایا۔

چنانچہ آپؑ فرماتے ہیں ’’میں نے محض خدا کے فضل سے نہ اپنے کسی ہنر سےاس نعمت سے کامل حصہ پایا ہے جو مجھ سے پہلےنبیوں اور رسولوں اور خدا کے برگزیدوں کو دی گئی تھی۔اور میرے لئے اس نعمت کا پانا ممکن نہ تھا اگر اپنے سید رسل فخرالانبیاء اور خیرالوری حضرت محمدمصطفیﷺکے راہوں کی پیروی نہ کرتا۔ سو میں نے جو کچھ پایا اس پیروی سے پایا‘‘ (حقیقةالوحی صفحہ127) یہ امر بھی ذہن نشین رہےکہ رسول اللہﷺ کی کامل پیروی کیلئے قلب سلیم کا عطا ہونا محض خدا کا فضل ہی ہوتا ہے۔

حضرت مسیح موعودؑ نے اپنے ایک شعر میں یہی مضمون بیان فرمایاہے۔

یہ سراسر فضل واحساں ہے کہ میں آیا پسند
ورنہ درگہ میں تری کچھ کم نہ تھے خدمت گزار

قُلۡ اِنَّ الۡفَضۡلَ بِیَدِ اللّٰہِ ۚ یُؤۡتِیۡہِ مَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَاللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیۡمٌ﴿ۚۙ۷۴﴾ یَّخۡتَصُّ بِرَحۡمَتِہٖ مَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَاللّٰہُ ذُو الۡفَضۡلِ الۡعَظِیۡمِ ﴿۷۵﴾ (آل عمران: 74-75) یعنی ىقىناً فضل اللہ کے ہاتھ مىں ہے وہ اسے جس کو چاہتا ہے دىتا ہے اور اللہ بہت وسعت بخشنے والا (اور) دائمى علم رکھنے والا ہے وہ اپنى رحمت کے لئے جس کو چاہے خاص کر لىتا ہے اور اللہ بہت بڑے فضل والا ہے۔یہاں من یشاء کے دونوں معنی قابل غورہیں۔اگرمن سے مراد وہ شخص ہو جو یشاء کا فاعل ہے تو مفہوم یہ ہوگا کہ فضل اور رحمت کی طلب بھی سعی وعمل کے ذریعہ ضروری ہےاور اگر یشاء کا فاعل اللہ تعالیٰ کی ذات اور مَنْ اس کا مفعول ہوتو مطلب یہ ہوگا کہ اللہ کی ذات غنی ہے ضروری نہیں کہ اس کی عطا طلب کے نتیجہ میں ہوبلکہ وہ بدوں فضل الہی کے ممکن نہیں۔ جیسا کہ حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں

پر مجھے تو نے ہی اپنے ہاتھ سے ظاہر کیا
میں نے کب مانگا تھا یہ تیرا ہی ہے سب برگ وبار

یہی حال انعام خلافت کا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل خاص سے جسے چاہے عطا فرمادیتا ہے۔ فضل الہی انسان کے عمل سے زیادہ اس کے قلب سلیم یعنی دل کی نیت اور خلوص کی بنا پرعطا ہوتا ہے جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکرؓاسلام کے خلیفہ اول کے بارہ میں فرمایا:
إِنَّ أَبَا بَكْرٍ لَمْ يَفْضُلْكُمْ بِكَثْرَةِ صَلَاةٍ وَلَا صِيَامٍ، وَلَكِنْ بِشَيْءٍ وَقَرَ فِي قَلْبِهِ (بحر الفوائد المشهور بمعاني الأخبار، جزءاول صفحہ279) یعنی ابوبکرؓ کی فضیلت تم پر زیادہ نماز روزہ کی وجہ سے نہیں بلکہ ایک ایسی چیز ہے جو ان کے دل میں گڑچکی ہے (یعنی محبت رسولﷺ)۔ قرآن شریف میں بھی اللہ تعالیٰ یہ مضمون بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے وَلَوۡلَا فَضۡلُ اللّٰہِ عَلَیۡکُمۡ وَرَحۡمَتُہٗ مَا زَکٰی مِنۡکُمۡ مِّنۡ اَحَدٍ اَبَدًا ۙ وَّلٰکِنَّ اللّٰہَ یُزَکِّیۡ مَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَاللّٰہُ سَمِیۡعٌ عَلِیۡمٌ (النور: 22) ترجمہ: اور اگر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت تم پر نہ ہوتے تو تم میں سے کوئی ایک بھی کبھی پاک نہ ہو سکتا۔ لیکن اللہ جسے چاہتا ہے پاک کر دیتا ہے۔ اور اللہ بہت سننے والا (اور) دائمی علم رکھنے والا ہے۔

پھر خلفاء میں سے بھی جسے اللہ تعالیٰ چاہےاپنے فضل خاص سے اور تقدیر کے مطابق اس کے دور میں زیادہ ترقیات عطا فرماتاہےجیسے رسول کریمؐ نے رؤیا میں دیکھا کہ آپﷺنے ایک کنویں سے ڈول کے ذریعے پانی کھینچا پھر ابوبکر ؓ آئے اور انہوں نے کوئی دو ڈول کمزوری سےکھینچے پھرجب حضرت عمر ؓ آئے تو ڈول بڑا ہوگیااور انہوں نےایک بہادر جوانمرد کی طرح سےبڑی قوت سے پانی کھینچ کر ایک دنیا کو سیراب کیا (بخاری باب مناقب عمربن الخطاب حدیث نمبر3682) چنانچہ حضرت ابوبکرؓ کے بعد حضرت عمرؓ خلیفہ ہوئے تو آنحضرتﷺ کی رؤیا کے مطابق آپؓ کے دور میں قیصر وکسرٰی پر عظیم الشان فتوحات نصیب ہوئیں۔ حضرت علیؓ نے ان فتوحات کو خلافت کی برکت قرار دیتے ہوئے کیا خوب فرمایا ’’اس دین کو فتح نہ کثرت لشکر سے ہوئی اور نہ قلت لشکرسے شکست ہوئی بلکہ یہ اللہ کا دین ہے جسے اس نے خود غالب کیا اور یہ خود اسی کا لشکر ہے جسے اس نے عزت وقوت دی اور یہ دین وہاں پہنچا جہاں اسے پہنچنا تھا۔ خدا کا یہ وعدہ تھا کہ وہ (خلافت کے ذریعہ دین کو) غلبہ دے گا۔ پھر آپؓ نے آیت استخلاف پڑھی۔ (نہج البلاغہ مطبوعہ مصر قسم سوم صفحہ383)

حضرت علیؓ نے یہ راز خوب سمجھا کہ یہ برکات دراصل تو آنحضرتﷺ کی ذات بابرکات کی ہیں جو ان کے جانشین حضرت عمرؓ کے زمانے میں خداتعالیٰ نے مقدر فرمادیں۔ گویا یہ سب اللہ کے فضل اور رحمت کا نتیجہ تھا۔

ظاہری فتوحات کے علاوہ باطنی فتوحات بھی اللہ کے فضل کے نتیجہ میں عطا ہوتاہے۔ اس زمانہ میں حضرت بانی جماعت احمدیہ کو اللہ تعالیٰ نے یہ روحانی علوم اور قرآن کی حقیقی تفسیر کا ملکہ عطافرمایا اور یہ روحانی خزانے آپؑ نے اپنی کتابوں میں لٹائے۔ پھر پیشگوئی مصلح موعودبھی اس زمانہ میں خدا کے فضل کے نتیجہ میں علوم ظاہری وباطنی عطاہونے پر شاہد ہے جس کے مطابق حضرت مسیح موعودؑ کو ایک ایسے مبشرعمر پانے والے فرزند کی خبر دی گئی جو علوم ظاہری و باطنی سے پر ہوگااور کلام اللہ کا مرتبہ اس کے ذریعے سے ظاہر ہوگا حالانکہ بظاہر آپؑ کے بیٹے حضرت مرزا بشیرالدین رضی اللہ عنہ کی صحت اس قابل نہ تھی اورآپ کئی بیماریوں کے شکار تھےمگر اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے فضل خاص سے قرآن کا علم دیا۔ چنانچہ حضورؓ خود فرماتے ہیں ’’پھر میں وہ شخص تھا جسے علوم ظاہری میں سے کوئی علم حاصل نہیں تھا۔ مگر خدا نے اپنے فضل سے فرشتوں کو میری تعلیم کیلئے بھجوایا اور مجھے قرآن کے ان مطالب سے آگاہ فرمایاجو کسی انسان کے واہمہ اور گمان میں بھی نہیں آسکتے۔ ۔۔میں ساری دنیا کو چیلنج کرتا ہوں کہ اگر اس دنیا کےپردہ پر کوئی شخص ایساہےکہ جو یہ دعوی کرتا ہوکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے اسے قرآن سکھایا گیا ہے تو میں ہر وقت اس سے مقابلہ کرنے کے لئےتیا ر ہوں لیکن میں جانتا ہوں آج دنیا کے پردہ پہ سوائے میرے اور کوئی شخص نہیں جسے خدا کی طرف سے قرآن کریم کا علم عطا فرمایا گیا ہو‘‘

(الموعود،انوار العلوم جلد نمبر 17صفحہ 646)

حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ کی زندگی سے فضل کاایک خاص تعلق نظرآتاہےجیسا کہ پیشگوئی میں تھاکہ اسکے ساتھ فضل ہے جو اس کے آنے کے ساتھ آئیگا۔حضورؓ کی عام زندگی میں بھی فضل و رحم کے عطا ہونے کی پیشگی خبر آپؓ کو دی گئی تھی۔

آپؓ فرماتے ہیں میں نے رؤیا دیکھا کہ میں ایک پہاڑی سے دوسری پہاڑی پر جانا چاہتا ہوں ایک فرشتہ آیا اور مجھ سے کہنے لگا کہ تمہیں پتہ ہے یہ رستہ بڑا خطرناک ہے اس میں بڑے مصائب اور ڈراؤنے نظارے ہیں ایسا نہ ہو تم ان سے متاثر ہو جاؤ اور منزل پر پہنچنے سے رہ جاؤ اور پھر کہا کہ میں تمہیں ایسا طریقہ بتاؤ جس سے تم محفوظ رہو میں نے کہا ہاں بتاؤ اس پر اس نے کہا کہ بہت سے بیان نظارے ہوں گے مگر تم ادھر ادھر نہ دیکھنا اور نہ ان کی طرف متوجہ ہونابلکہ ’’خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ،خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ‘‘ کہتے ہوئے سیدھے چلے جانا۔۔۔ چنانچہ میں جب چلا تو میں نے دیکھا کہ نہایت اندھیرا اور گھنا جنگل ہے اور ڈر اور خوف کے بہت سے سامان جمع تھے اور جنگل بالکل سنسان تھا جب میں ایک خاص مقام پر پہنچا جو بہت ہی بھیانک تھا تو بعض لوگ آئے اور مجھے تنگ کرنا شروع کیا تب مجھے معا خیال آیا کہ فرشتے نے مجھے کہا تھا کہ ’’خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ‘‘ کہتے چلے جانا اس پر میں نے بلند آواز سے یہ فقرہ کہنا شروع کیا اور وہ لوگ چلے گئے اس کے بعد پھر پہلے سے بھی خطرناک راستہ آیا اور پہلے سے بھی زیادہ بھیانک شکلیں نظر آنے لگیں حتی کہ بعض سر کٹے ہوئے جن کے ساتھ دھڑ نہ تھےہوا میں معلق میرے سامنے آئے اور طرح طرح کی شکلیں بناتے اور منہ چڑاتے اور چھیڑتے۔ مجھے غصہ آتا لیکن معا فرشتہ کی نصیحت یاد آجاتی اور میں پہلے سے بلند آواز سے ’’خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ‘‘ کہنے لگتا اور پھر وہ نظارہ بدل جاتا یہاں تک کہ سب بلائیں دور ہوگئیں اور میں منزل مقصود پر خیریت سے پہنچ

(الفضل 4جولائی 1916ء صفحہ 11)

’’خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ‘‘ کے الفاظ میں دراصل اللہ تعالیٰ کی معیت کا ہی ذکر ہے چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے غار ثور میں اللہ تعالیٰ سے علم پاکرحضرت ابوبکرؓ کویہ تسلی دی کہ فکر نہ کریں’’اللہ کی معیت ہمیں حاصل ہے‘‘

(التوبہ: 40)

تاریخ انبیاء کے مطابق ہمیشہ ہی دشمنوں کے مقابل خدا کے نبیوں کو یہ معیت حاصل رہی۔ فرعون نے جب حضرت موسی علیہ السلام کا تعاقب کیااور ساتھی گھبرائے تو انہوں نے بھی ساتھیوں کو تسلی دیتے ہوئے کہاکہ ’’میرا رب میرے ساتھ ہے جو میری رہنمائی فرمائے گا‘‘ (الشعراء: 63) اس زمانہ کے مامور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی الہام ہوا ’’انی معک یا مسرور‘‘ اے مسرور میں تیرے ساتھ ہوں۔ یہ الہام دیگر خلفاء سلسلہ کی طرح ہمارے اس زمانہ میں حضرت مسیح موعودؑکے اسم بامسمی جانشین حضرت مرزا مسرور احمد کے حق میں بھی خوب پورا ہو رہا ہے۔گزشتہ دو دہائیوں سے ہم خدا تعالیٰ کی غیر معمولی معیت اس کے بے شمار فضلوں اور رحمتوں کے ساتھ آپ کی شامل حال دیکھ رہے ہیں۔

دراصل اللہ کے فضل خاص کاموردعوام الناس میں سےوہ خاص لوگ بھی ہوتے ہیں جو ایمان لانے کے بعد تقوی اختیار کرتے ہیں۔جس پراللہ تعالیٰ انہیں دوسروں کے مقابلے میں اپنے فضل خاص سے نوازتے ہوئے نورانی تجلیات اور مغفرت عطافرماتا ہے اور یہ سب کرامات خاص فضل کے نتیجے میں حاصل ہوتی ہیں جیسا کہ فرمایا یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنۡ تَتَّقُوا اللّٰہَ یَجۡعَلۡ لَّکُمۡ فُرۡقَانًا وَّیُکَفِّرۡ عَنۡکُمۡ سَیِّاٰتِکُمۡ وَیَغۡفِرۡ لَکُمۡ ؕ وَاللّٰہُ ذُو الۡفَضۡلِ الۡعَظِیۡمِ (الانفال: 30) یعنی اے لوگو جو اىمان لائے ہو! اگر تم اللہ سے ڈرو تو وہ تمہارے لئے اىک امتىازى نشان بنادے گا اور تم سے تمہارى برائىاں دور کر دے گا اور تمہىں بخش دے گا اور اللہ فضل عظىم کا مالک ہے۔

اس نور باطنی کا اظہار بعض دفعہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس دنیا میں بھی ہوجاتا ہے۔ احادیث میں صحابہ کے ایسے حیرت انگیز واقعات موجودہیں جو خاص فضل الہی کا نشان تھے۔ حضرت عمرو بن طفیل رضی اللہ عنہ اسلام قبول کرکے واپس اپنی قوم میں جانے لگے تو نبی پاکؐ نے آپ کےلئے دعا کی ’’اے اللہ! اسے کوئی نشان عطا کر‘‘ حضرت عمر وبن طفیل کہتے ہیں کہ جب میں اس گھاٹی پر پہنچا جہاں سے ہمارے شہرکی آبادی کا آغاز ہوتا ہے تو میری آنکھوں کے درمیان پیشانی پر ایک چراغ جیسی روشنی محسوس ہونے لگی۔ پھرآپ کی دعاسے روشنی کایہ نشان چابک کے سرے پر ظاہر ہوگیا۔ اورلوگ میری اس روشنی کو چابک پر ایک لٹکتے چراغ کی طرح دیکھ رہے تھے‘‘

(الاصابہ فی تمییز الصحابہ لابن حجر جلد3 صفحہ266)

اسی طرح مدینہ منورہ کا واقعہ ہےکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دو اصحاب حضرت عباد بن بشرؓ اور حضرت اسید بن حضیرؓ نے خداکے اس فضل سےحصہ پایا۔ وہ ایک تاریک رات میں آپﷺکے پاس سےاپنے گھروں کولوٹے۔ اچانک دونوں اصحاب کے پاس روشن چراغ جیسی کوئی چیز ان کے آگے آگے روشنی کرنے لگی پھرجب وہ دونوں اصحاب ایک دوسرے سے جدا ہوئے تو ہر ایک کے ساتھ ایک ایک چراغ رہ گیا جو ان کے گھر تک ساتھ رہا۔

(صحیح بخاری باب ادخال البعیر فی المسجد)

پس قلب سلیم کا عطاہونا، تقوی کا حصول اور دیگر اخلاق فاضلہ کی توفیق بھی اللہ تعالیٰ کے خاص فضل سے نصیب ہوتی ہے۔

قرآن کریم سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے مورد اسکے معصوم وفاشعار صابر و شاکر بندے بھی ہوتےہیں جیسے ام المؤمنین حضرت عائشہؓ ہوئیں۔ چنانچہ واقعہ افک میں منافقین کی طرف سے حضرت عائشہؓ پر الزام لگایا گیا تو انہوں نے کمال معصومیت سے صبر کااعلی نمونہ دکھایا۔ چنانچہ واقعہ افک میں حضرت عائشہؓ کی براءت بیان کرکے فرمایا وَلَوۡلَا فَضۡلُ اللّٰہِ عَلَیۡکُمۡ وَرَحۡمَتُہٗ وَاَنَّ اللّٰہَ رَءُوۡفٌ رَّحِیۡمٌ (النور: 21) تم پر اللہ کا فضل اور رحمت نہ ہوتی اور یہ نہ ہوتا کہ اللہ بہت نرمی کا سلوک اور بار بار رحم کرنے والا ہے تو تم اس احسان کے مورد نہ بنتے۔ گویا عفت، صبر، توکل علی اللہ، الزام سے براءت اور عزت یہ سب خدا کے فضل اور رحم کا نتیجہ تھا۔

انسانی زندگی کابنیادی مقصد اللہ کی رضا، عبادت اور اس کی جنت کا حصول بھی سعی عمل کے علاوہ اس کے خاص فضل کا مرہون منت ہے۔ جنت کے بارہ میں فرمایا لَا یَذُوۡقُوۡنَ فِیۡہَا الۡمَوۡتَ اِلَّا الۡمَوۡتَۃَ الۡاُوۡلٰیۚ وَوَقٰہُمۡ عَذَابَ الۡجَحِیۡمِ ﴿ۙ۵۷﴾ فَضۡلًا مِّنۡ رَّبِّکَ ؕ ذٰلِکَ ہُوَ الۡفَوۡزُ الۡعَظِیۡمُ ﴿۵۸﴾ (الدخان: 57-58) ترجمہ: ’’وہ اس (جنت) مىں پہلى موت کے علاوہ کسى اور موت کا مزا نہىں چکھىں گے اور وہ انہىں جہنّم کے عذاب سے بچائے گا۔ ىہ تىرے ربّ کى طرف سے فضل کے طور پر ہوگا ىہى بہت بڑى کامىابى ہے۔‘‘ دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے جنت کے لئےانتہائی کوشش کرنے کا بھی حکم دیا ہے مگر ساتھ ہی بتایا کہ یہ خدا کی مغفرت اور فضل سے ملتی ہے سَابِقُوا إِلَى مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا كَعَرْضِ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ أُعِدَّتْ لِلَّذِينَ آمَنُوا بِاللّٰهِ وَرُسُلِهِ ذَلِكَ فَضْلُ اللّٰهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ وَاللّٰهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ (الحديد: 22) ترجمہ: ’’اپنے ربّ کى مغفرت کى طرف اىک دوسرے سے آگے بڑھو اور اس جنت کى طرف بھى جس کى وسعت آسمان اور زمىن کى وسعت کى طرح ہے جو اُن لوگوں کے لئے تىار کى گئى ہے جو اللہ اور اس کے رسولوں پر اىمان لاتے ہىں ىہ اللہ کا فضل ہے وہ اِس کو جسے چاہتا ہے دىتا ہے اور اللہ عظىم فضل والا ہے‘‘

فضل ورحم کا تعلق صفات الہیہ رحمان، رحیم اور مالک یوم الدین سے بیان کرتے ہوئے حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
’’قرآن شریف کی اصطلاح کی روسے خداتعالیٰ کانام رحمان اس وجہ سے ہےکہ اس نے ہر ایک جاندار کو جن میں انسان بھی داخل ہے اس کےمناسب حال صورت اور سیرت بخشی یعنی جس طرز کی زندگی اس کے لئے ارادہ کی گئی اس زندگی کے مناسب حال جن قوتوں اور طاقتوں کی ضرورت تھی یا جس قسم کی بناوٹ جسم اور اعضاء کی حاجت تھی وہ سب اس کو عطا کئے اور پھراس کی بقا کے لئے جن جن چیزوں کی ضرورت تھی وہ اس کےلئے مہیا کیں۔ پرندوں کےلئے پرندوں کے مناسب حال اور چرندوں کےلئے چرندوں کے مناسب حال اور انسان کےلئے انسان کے مناسب حال طاقتیں عنایت کیں اور صرف یہی نہیں بلکہ ان چیزوں کے وجود سے ہزار ہا برس پہلے بوجہ اپنی صفت رحمانیت کے اجرام سماوی وارضی کو پیدا کیا تا وہ ان چیزوں کے وجود کی محافظ ہوں پس اس تحقیق سے ثابت ہوا کہ خداتعالیٰ کی رحمانیت میں کسی کے عمل کا دخل نہیں بلکہ وہ رحمت ِمحض ہے جس کی بنیاد ان چیزوں کے وجود سے پہلے ڈالی گئی۔ ہاں انسان کو خداتعالیٰ کی رحمانیت سے سب سے زیادہ حصہ ہےکیونکہ ہر ایک اس کی کامیابی کے لئے قربان ہورہی ہے اس لئے انسان کو یاد دلایا گیا کہ تمہارا خدا رحمان ہے۔

تیسری خوبی خداتعالیٰ کی جو تیسرے درجہ کا احسان ہے رحیمیت ہے جس کو سورۃ فاتحہ میں الرحیم کے فقرہ میں بیان کیاگیاہےاور قرآن شریف کی اصطلاح کی رو سے خدا تعالیٰ رحیم اس حالت میں کہلاتا ہے جبکہ لوگوں کی دعا اور تضرع اور اعمال صالحہ کو قبول فرماکر آفات اور بلاؤں اور تضییع اعمال سے ان کو محفوظ رکھتا ہے یہ احسان دوسرے لفظوں میں فیض خاص سے موسوم ہے اور صرف انسان کی نوع سے مخصوص ہے دوسری چیزوں کو خدا نے دعا اور تضرع اور اعمال صالحہ کا ملکہ نہیں دیا مگر انسان کو دیا ہے انسان حیوان ناطق ہے اور اپنی نطق کے ساتھ بھی خدا تعالیٰ کا فیض پا سکتا ہے دوسری چیزوں کو نطق عطا نہیں ہوا پس اس جگہ سے ظاہر ہے کہ انسان کا دعا کرنا اس کی انسانیت کا ایک خاصہ ہے جو اس کی فطرت میں رکھا گیا ہے اور جس طرح خدا تعالیٰ کی صفت ربوبیت اور رحمانیت سے فیض حاصل ہوتا ہے اسی طرح صفت رحیمیت سے بھی ایک فیض حاصل ہوتا ہے صرف فرق یہ ہے کہ ربوبیت اور رحمانیت کی صفتیں دعا کو نہیں چاہتی کیونکہ وہ دونوں صفات انسان سے خصوصیت نہیں رکھتیں اور تمام پرند چرند کو اپنے فیض سے مستفیض کر رہی ہیں بلکہ صفت ربوبیت تو تمام حیوانات اور نباتات اور جمادات اور اجرام ارضی اور سماوی کو فیض رساں ہیں اور کوئی چیز اس کے فیض سے باہر نہیں برخلاف صفت رحیمیت کے کہ وہ انسان کے لئے ایک خلعت خاصہ ہے اور اگر انسان ہو کر اس صفت سے فائدہ نہ اٹھائے تو گویا ایسا انسان حیوانات بلکہ جمادات کے برابر ہے جب کہ خدا تعالیٰ نے فیض رسانی کی چار صفت اپنی ذات میں رکھی ہیں اور رحیمیت کو جو انسان کی دعا کو چاہتی ہے خاص انسان کے لیے مقرر فرمایا ہے پس اس سے ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ میں ایک قسم کا وہ فیض ہے جو دعا کرنے سے وابستہ ہے اور بغیر دعا کے کسی طرح مل نہیں سکتا۔۔۔۔ حقیقت یہ ہے کہ دعا پر ضرور فیض نازل ہوتا ہے جو ہمیں نجات بخشتا ہے اسی کا نام فیض رحیمیت ہے جس سے انسان ترقی کرتا جاتا ہےاسی فیض سے انسان ولایت کے مقام تک پہنچتا ہے اور خدا تعالیٰ پر ایسا یقین دلاتا ہے کہ گویا آنکھوں سے دیکھ لیتا ہے مسئلہ شفاعت بھی صفت رحیمیت کی بناء پر ہے خدا تعالیٰ کی رحیمیت نے ہی تقاضا کیا کہ اچھے آدمی برے آدمیوں کی شفاعت کریں۔

چوتھا احسان خدا تعالیٰ کا جو قسمیں چہارم کی خوبی ہے جس کو فیضان اخص سے موسوم کر سکتے ہیں مالکیت یوم الدین ہے جس کو سورۃ فاتحہ میں فقرہ مالک یوم الدین میں بیان فرمایا گیا ہے اور اس میں اور صفت رحیمیت میں یہ فرق ہے کہ رحیمیت میں دعا اور عبادت کے ذریعے سے کامیابی کا استحقاق قائم ہوتا ہے اور صفت مالکیت یوم الدین کے ذریعے سے وہ ثمرہ عطا کیا جاتا ہے اس کی ایسی ہی مثال ہے کہ جیسے ایک انسان گورنمنٹ کا ایک قانون یاد کرنے میں محنت اور جدوجہد کرکے امتحان دے اور پھر اس میں پاس ہو جائے۔ پس رحیمیت کے اثر سے کسی کامیابی کے لئے استحقاق پیدا ہو جانا پاس ہو جانے سے مشابہ ہے اور پھر وہ چیز یا وہ مرتبہ میسر آجانا جس کے لیے پاس ہوا تھا اس حالت سے مشابہ انسان کے فیض پانے کی وہ حالت ہے جو پرتوہ صفت مالکیت یوم الدین سے حاصل ہوتی ہے ان دونوں صفتوں رحیمیت اور مالکیت یوم الدین میں یہ اشارہ ہے کہ فیض رحیمیت خدا تعالیٰ کے رحم سے حاصل ہوتا ہے اور فیض مالکیت یوم الدین خدا تعالیٰ کے فضل سے حاصل ہوتا ہے اور مالکیت یوم الدین اگرچہ وسیع اور کامل طور پر عالم معاد میں متجلی ہوگی مگر اس عالم میں بھی اس عالم کے دائرہ کے موافق یہ چاروں صفاتی تجلی کر رہی ہیں۔ ربوبیت عام طور پر ایک فیض کی بنا ڈالتی ہے اور رحمانیت اس فیض کو جانداروں میں کھلے طور پر دکھلاتی ہے اور رحیمیت ظاہر کرتی ہے کہ خط میں ممتد فیض کا انسان پر جاکر ختم ہو جاتا ہے اور انسان وہ جانور ہے جو فیض کو نہ صرف حال سے بلکہ منہ سے مانگتا ہے اور مالکیت یوم الدین فیض کا آخری ثمرہ بخشتی ہے

(ایام الصلح، روحانی خزائن جلد14 صفحہ243تا251)

الحمدللہ کے ہم نے اپنی زندگیوں میں رمضان کا ایک اور بابرکت مہینہ پایا ہے جو خدا کے فضل و رحمت کے حصول کے لیے بہت عمدہ مہینہ ہے جیسا کہ حدیث نبویؐ میں ہے کہ رمضان میں رحمت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں (صحیح مسلم کتاب الصوم) پھر یہ مغفرت و بخشش کا مہینہ بھی ہے کہ جسے عطا ہو جائے اس کے لئےبھی فضل کے دروازے کھولے گئے۔ چنانچہ رسول کریم نے ایسے شخص کو خوش نصیب قرار دیا اور فرمایا کہ بڑا بد نصیب ہے وہ شخص جس نے رمضان پایا اور بخشا نہ گیا (سنن ترمذی کتاب الدعوات) اسی طرح رمضان کی برکات کے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اس کا پہلا عشرہ رحمت دوسرا مغفرت اور تیسرا آگ سے نجات ہے (صحیح ابن خزیمہ باب فضائل شھر رمضان) اور نجات بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت اور فضل کے بغیر ممکن نہیں رسول کریم ﷺ نے ایک موقع پہ اپنے اصحاب سے فرمایا ایک دوسرے کے قریب ہوجاؤ اور سیدھے ہوجاؤ اور جان لو کہ تم میں کوئی بھی ہرگز اپنے عمل سے نجات نہیں پائے گا عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ کیا آپ بھی اپنے بہترین اعمال کے ذریعہ سے نجات نہیں پائیں گے آپ ﷺ نے فرمایا مجھے بھی محض عملوں سے نجات نہیں ملے گی إِلَّا أَنْ يَتَغَمَّدَنِيَ اللّٰهُ بِرَحْمَةٍ مِنْهُ وَفَضْلٍ سوائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ اپنی خاص رحمت اور فضل کی چادر میں ڈھانپ لے

(صحیح مسلم کتاب صفةالقیامةوالجنةوالنارباب لن یدخل الجنة بعملہ بل برحمة وفضل)

پس رمضان میں خاص طور پراللہ تعالیٰ سے اس کے فضل و رحم کے طلبگار اور امیدوار ہونا چاہئے حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے اپنی ہجرت سے پہلے 1983ء کے رمضان میں جماعت کو ایک فیصلہ کن رمضان بنانے کی ایسی مؤثر تلقین فرمائی تھی جو آج بھی قلب و روح کوگرما رہی اور ایک نئی تازگی عطا کرتی ہےاس میں بھی آپ نے دعاؤں کے ذریعہ خدا کے فضل اور رحمت کے دروازے کھلنے کی امید کی ہے۔ہمارے موجودہ امام بھی بارہا فرماچکے ہیں کہ ’’مجھے یاد ہے خلافت رابعہ میں جب میں ربوہ میں تھا تو خلیفہ رابعؒ نے مجھے ناظر اعلی مقرر کر دیا تھا پاکستان کے حالات کے متعلق اس وقت دعا کی، حالانکہ اس وقت حالات آجکل کے حالات کے عشرعشیر بھی نہیں تھے،کوئی نسبت بھی نہیں تھی تو خواب میں مجھے یہ آواز آئی کہ اگر سو فیصد پاکستانی احمدی خالص ہوکراللہ تعالیٰ کے آگے جھک جائیں تو ان حالات کا خاتمہ چند راتوں کی دعاؤں سے ہوسکتا ہے‘‘

(خطبہ جمعہ 7؍اکتوبر 2011ء)

حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ نے فرمایاتھا:
’’اے احمدی! اس رمضان کو فیصلہ کن رمضان بنا دو۔ اس الہی جہاد کے لئے تیار ہو جاؤ مگر تمہارے لیے کوئی دنیا کا ہتھیار نہیں ہے دنیا کے تیروں کا مقابلہ تم نے دعاؤں کے تیروں سے کرنا ہے یہ لڑائی فیصلہ کن ہوگی لیکن گلیوں اور بازاروں میں نہیں صحنوں اور میدانوں میں نہیں بلکہ مسجدوں میں اس کا فیصلہ ہونے والا ہے راتوں کو اٹھ اٹھ کر اپنی عبادت کے میدانوں کو گرم کرو اور اس زور سے اپنے خدا کے حضور آہ و بکا کرو کہ آسمان پر عرش کے کنگرے بھی ہلنے لگیں۔متی نصراللہ کا شور بلندکردو۔ خدا کے حضورگریہ وزاری کرتے ہوئے اپنے سینے کے زخم پیش کرو، اپنے چاک گریبان اپنے رب کو دکھاؤ اور کہو کہ اے خدا!

قوم کے ظلم سے تنگ آکے میرے پیارے آج
شور محشر ترے کوچہ میں مچایا ہم نے

پس اس زور کا شور مچاؤ اور اس قوت کے ساتھ متی نصراللہ کی آواز بلند کرو کہ آسمان سے فضل اور رحمت کے دروازے کھلنے لگیں اور ہر دروازے سے یہ آواز آئے اَلا اِنَّ نَصرَاللہ قَرِیب، اَلا اِنَّ نَصرَاللہ قَرِیب، اَلا اِنَّ نَصرَاللہ قَرِیب سنو سنو! کہ اللہ کی مدد قریب ہے اے سننے والو سنو! کہ خدا کی مدد قریب ہے مجھے پکارنے والو سنو! کہ خدا کی مدد قریب ہے اور وہ پہنچنے والی ہے۔

(خطبات طاہر جلد2 صفحہ349 خطبہ جمعہ 24جون 1983ء)

ہمارے پیارےامام سیدنا حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
’’پس آئیں اور آج اپنی دعاؤں سے اللہ تعالیٰ کے عرش کے پائے ہلانے کی کوشش کریں۔ ہم میں سے ہر ایک خالص ہوکر اللہ تعالیٰ کے آگے جھک جائے تاکہ اللہ تعالیٰ کی رحمت جو یقینا ہمارے لئے جوش میں ہے پہلے سے بڑھ کر جوش میں آئےاور ہمیں ان ظالموں سے نجات دلوائے۔ اگر سو فیصد میں انقلاب پیدا نہیں ہوتا تو ہمارے میں سے اکثریت میں اگر یہ انقلاب پیدا ہو جائے تو ان شاءاللہ ہم پہلے سے بڑھ کر فتوحات کے نظارے دیکھیں گے۔

(خطبہ جمعہ 7؍اکتوبر 2011ء)

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اس بابرکت مہینہ میں بھی اور اس کے بعد بھی اپنے فضل و رحم سے وافر حصہ عطا فرمائے۔ آمین

(علّامہ ایچ ایم طارق)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 25 اپریل 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ