حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث ہے۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’تم میں نبوت قائم رہے گی جب تک اللہ چاہے گا۔ پھر وہ اس کو اُٹھا لے گا اور خلافت علی منہاج نبوت قائم ہو گی۔ پھر اللہ تعالیٰ جب چاہے گا، اس نعمت کو بھی اُٹھا لے گا۔ پھر اُس کی تقدیر کے مطابق ایذا رساں بادشاہت قائم ہو گی جس سے لوگ دل گرفتہ ہوں گے اور تنگی محسوس کریں گے۔ پھر جب یہ دَور ختم ہو گا تو اُس کی دوسری تقدیر کے مطابق اس سے بڑھ کر جابر بادشاہت قائم ہو گی۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کا رحم جوش میں آئے گا اور اس ظلم و ستم کے دَور کو ختم کر دے گا۔ اس کے بعد پھر خلافت علیٰ منہاج نبوت قائم ہو گی اور یہ فرما کر آپ خاموش ہو گئے۔‘‘
(مسند احمد بن حنبل جلد6 صفحہ285 حدیث النعمان بن بشیر، حدیث نمبر18596 عالم الکتب بیروت لبنان1998)
پس پہلے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نبوت کے بارے میں فرمایا، پھر خلافتِ راشدہ کے قیام کا ذکر فرمایا جو منہاج نبوت پر (یعنی نبوت کے طریق پر) آگے بڑھتے چلے جانے والی ہو گی۔ اور دنیا نے دیکھا کہ پہلی چار خلافتیں جو خلافتِ راشدہ کہلاتی ہیں، کس طرح دنیا کی جاہ و حشمت سے دُور اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کو ہر آن سامنے رکھتے ہوئے خالصۃً لِلّٰہ امورِ خلافت سرانجام دیتی رہیں۔ پھر کس طرح حرف بہ حرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ بات پوری ہوئی جس میں بعض دوروں میں کم ایذا رساں اور بعض میں زیادہ ایذا رساں بادشاہت مسلمانوں میں نظر آتی ہے۔ تو خلافتِ راشدہ کے بعد یہ بادشاہت قائم ہوئی۔ یہ بات بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری ہوئی۔ ظلم و جبر جو ہے وہ بھی تاریخ پڑھیں تو ہمیں ان بادشاہتوں میں دیکھنے میں نظر آتا ہے۔ بادشاہت کا دین سے زیادہ دنیا کی طرف رجحان تھا۔ پھر آپؐ نے فرمایا کہ جس طرح ہمیشہ ہوتا آیا ہے، اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر رحم کرتا ہے۔ ایک تاریک دَور کے بعد پھر اللہ تعالیٰ کا رحم جوش میں آئے گا اور ظلم و ستم کا دَور ختم ہو گا اور پھر خلافت علیٰ منہاج نبوت قائم ہوگی اور اس کے بعد آپؐ خاموش ہو گئے جیسا کہ حدیث میں ہے۔
اس حدیث پر غور کر کے ہر انسان دیکھ سکتا ہے کہ خلافتِ راشدہ کے بارے میں بھی آپ کی پیشگوئی پوری ہوئی۔ پھر کم ایذا رساں بادشاہت اور پھر اس کے بعد جابر بادشاہت کے بارے میں بھی آپ کی پیشگوئی پوری ہوئی۔ تو پھر اس کے آخری حصے کے بارے میں باوجود سب نشانیاں پوری ہو جانے اور باوجود خداتعالیٰ کے بھی اس اعلان کے کہ وَاٰخَرِیْنَ مِنْھُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ (الجمعہ: 4) اور آخرین میں سے بھی، یعنی آخرین میں ایک دوسری قوم میں بھی وہ اُسے بھیجے گا جو ابھی ان سے نہیں ملی۔ یعنی خلافت علیٰ منہاج نبوت کے سامان اللہ تعالیٰ پھر پیدا فرمائے گا۔ فرماتا ہے وَھُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ (الجمعہ: 4)۔ اور وہ غالب اور حکمت والا ہے۔ پس جب اللہ تعالیٰ کی حکمتِ بالغہ نے یہ فیصلہ فرمایا، جب اُس کی رحمت نے جوش مارا، تو اُس نے ملوکیت سے مسلمانوں کی رہائی کے سامان فرمائے اور ایسا کیا کہ خلافت علیٰ منہاج نبوت قائم فرمائے۔
پس ہم احمدی خوش قسمت ہیں کہ جہاں ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کی، حدیث کی پیشگوئی کے پہلے حصے کی تصدیق کرتے ہیں، اُس پر ایمان لاتے ہیں اور اُس کو پورا ہوتا ہوا سمجھتے ہیں، وہاں ہم اُس کے آخری حصے پر بھی ایمان لاتے ہیں۔ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بات پر یقین کامل رکھتے ہیں کہ یہ بات پوری ہوئی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک اور حدیث ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فرمان اٰخَرِیْنَ مِنْھُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ (الجمعہ: 4)۔ کہ آخرین میں سے بھی لوگ ہوں گے جو پہلوں سے ملنے والے ہیں، جو ابھی اُن سے ملے نہیں، اس پر ایمان رکھتے ہوئے زمانے کے حالات اور تمام نشانیوں کو ہم پورا ہوتا دیکھتے ہوئے آنے والے مسیح موعود اور مہدی موعود پر بھی ایمان لاتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ایک حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’نَبِیُّ اللّٰہ‘‘ کہہ کر فرمایا۔ (صحیح مسلم کتاب الفتن باب ماجاء فی ذکر الدجال، حدیث نمبر7373) پھر فرمایا میرے اور مسیح کے درمیان کوئی نبی نہیں (المعجم الصغیر للطبرانی جلد1 صفحہ257 باب العین من اسمہ عیسیٰ دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان 1983ء)۔ پھر اٰخَرِیْنَ مِنْھُمْ کی آیت کے مطابق اللہ تعالیٰ نے آخری زمانے میں مبعوث ہونے والے کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مبعوث ہونا قرار دیا۔ گویا آنے والا مسیح موعود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں فنا ہو کر، آپ کے ظل کے طور پر مبعوث ہو کر نبوت کا مقام پائے گا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تشریح میں حضرت سلمان فارسیؓ کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر یہ بھی فرمایا کہ آنے والا ان لوگوں میں سے ہو گا، غیر عربوں میں سے ہوگا۔ ایمان کے غائب ہونے اور ثریا پر چلے جانے کی نشانی بھی بتا دی جس کو یہ تمام علماء تسلیم بھی کرتے ہیں کہ اُس زمانے میں جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دعویٰ فرمایا، مسلمانوں کی ایمانی حالت انتہائی کمزور تھی، گویا ایمان زمین سے اُٹھ گیا تھا۔
(صحیح بخاری کتاب التفسیر تفسیر سورة الجمعہ باب قولہ وآخرین منھم … حدیث نمبر4897)
پس یہ نشانی یا نشانوں کا پورا ہونا بھی دیکھتے ہیں اور یہ نشانوں کا پورا ہونا بتاتا ہے کہ آنے والا مسیح موعود یقینا وقت پر آیا۔ یہاں یہ بھی وضاحت کر دوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام خاتم الخلفاء ہونے کی حیثیت سے اُس خلافت کی انتہا تک پہنچے جو منہاج نبوت کا اعلیٰ ترین معیار تھا یا آپ اُس مقام پر فائز ہوئے جو منہاج نبوت کا اعلیٰ ترین معیار تھا۔ اور مسیح موعود ہونے کی حیثیت سے اور اللہ تعالیٰ کے فرمان اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں فنا ہونے کی وجہ سے ظلّی نبی بھی بنے اور یوں خلافت کا جو نظام آپ کے ذریعے سے، آپ کے طریق پر آگے چلا وہ دراصل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی منہاج پر قائم ہے جس کا کام قرآنِ کریم کی شریعت کو مسلمانوں میں جاری کرنا۔ قرآنِ کریم کی تعلیم کے مطابق حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کے حق ادا کرنے کی کوشش کرنا اور کروانا۔ سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا رہنما بنا کر اس پر عمل کرنا اور جماعت کو اس کے مطابق تلقین کرنا اور عمل کرواناہے۔
(خطبہ جمعہ 24؍مئی 2013ء)