• 10 مئی, 2025

اللہ تعالیٰ نے اس دنیا کو دارالعمل اور اُخروی زندگی کو دارالجزاء قرار دیا

خاکسار کی برطانیہ میں رہائش کے قریب، پید ل فاصلہ پر عیسائیوں کا ایک بڑا قبرستان (Cemetery) ہے۔ جس کے ایک حصہ میں دو سال سے احمدیوں کا قبرستان جس میں قطعہ موصیان بھی ہے، تشکیل پایا ہے۔ جماعت احمدیہ کے اس قبرستان کے دونوں قطعات کی قبروں پر خاکسار کو اکثر دعا کرنے کا موقع میسر آتا ہے جس سے اپنا آخری انجام آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے اور آخرت کی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔

عیسائیوں کا قبرستان کئی حصوں میں منقسم ہے۔ بنیادی طور پر یہ ان کے دو بڑے فرقوں کیتھولک اور پروٹسٹنٹ کی قبروں پر مشتمل ہے۔ بار بار اس حصہ کو وزٹ کرنے پر خاکسار کے مشاہدہ میں یہ بات آئی کہ ہر دو فرقوں کی قبروں کی بناوٹ اور سجاوٹ میں بہت معمولی فرق ہے لیکن جو بات سانجھی ہے۔ وہ قبروں کو تازہ و مصنوعی یعنی کاغذی پھولوں سے قبروں کو سجانا ہے۔ پھولوں کے گلدستے قبروں پر رکھے عام نظر آتے ہیں۔ بعض قبروں پر پانی کے پیالے اور بعض پر کیمرے و دوربین نظر آئیں گی۔ اس کا یہ مطلب سمجھا جاتا ہے، گویا کہ مردے ہمیں دیکھ سکتے ہیں۔ پھولوں سے سجے گملے اور گلدان آس پاس اور قبروں پر موجود ہوتے ہیں اور ویک اینڈ یا سرکاری تعطیل کے دن لواحقین نئے پھولوں کے گلدستوں کے ساتھ آتے ہیں اور قبروں کی سجاوٹ کر کے سابقہ گملوں میں لگے پھولوں کو پانی دے جاتے ہیں۔ قبر پر با ادب کھڑے ہو کراپنے خیال میں وفات یافتہ کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔

قبروں پر رکھی جانے والی اشیاء کی بات چل رہی ہے۔ وفات پانے والے شخص کے ذوق و شوق کے مطابق قبریں مزین ہوتی ہیں۔ اگر کوئی فٹ بال کا شوقین تھا تو اس کی قبر پر فٹ بال پڑے نظر آئیں گے۔ ایک قبر پر چھوٹے چھوٹے کھلونوں کی طرح کے گھوڑے رکھے دکھائی دئیے۔ پتہ چلا اسے گھڑ سواری کا شوق تھا۔ ایک قبر پرسجاوٹی اشیاء نظر آئیں۔ معلوم ہوا کہ اسے اپنے بیڈ روم میں یہ چیزیں رکھنا بہت پسند تھا۔ صلیب کا نشان یا ان کی دانست میں پری نما فرشتوں کے مجسمے تو عام ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ یہ یہاں اپنے پر پھیلائے ان کی حفاظت کرتے ہیں۔ الغرض بہت عجیب و غریب نظریات دیکھنے اور سننے کو ملتے ہیں۔ ان کی قبریں اکثر چاروں طرف سے پختہ اور بعض تو سنگ مرمر کے ساتھ ڈھکی نظر آئیں گی۔ محنت کرکے ان کو خوبصورت بنایا جاتا ہے۔ یہ سب کچھ دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ آخرت کا خیال ایسے ذہنوں میں کم ہی آتا ہوگا۔

جبکہ اسلام میں قبروں کوسائیڈوں سے ایک اینٹ کا حاشیہ بنایا جاتاہے اور اوپر سے پختہ کرنے کی ممانعت ہے، اوپر سے اکثر جگہ تو مٹی ہی ڈالی جاتی ہے جبکہ بعض جگہوں پر سنگ مرمر کے چپس یا بجری ڈال دیتے ہیں۔ قبروں یا ان کے کتبوں پر نقش ونگار کرنا منع ہے۔ اکثر جگہوں پر مسلم قبرستانوں میں قبریں کچی ہیں۔ ماسوائے ایسی جگہوں کے جہاں سیلابی ریلے کے آنے اور قبروں کو بہا لے جانے کا خدشہ ہو۔ بالخصوص دنیا بھر میں جماعت احمدیہ کے قبرستانون میں قبریں کچی ہوتی ہیں اور ترتیب میں ہوتی ہیں۔ ایک دفعہ لاہور سے وزٹ کرنے والے ایک صحافی نے بہشتی مقبرہ ربوہ کی قبروں کو ترتیب میں دیکھ کر مجھ سے کہا کہ جس جماعت کے مردوں کی قبروں میں اتنی ترتیب اور صفائی ہے، اس کو دیکھ کر یہ خیال کرنا بہت آسان ہو جاتا ہے کہ ان کے زندہ افراد کے رہن سہن اور دینی اقدار کا کیا حال ہو گا؟ یہ تو ایک ضمنی طور پر بات درمیان میں آ گئی۔ تاہم یہ بات مشاہدہ اور تجربہ میں آئی ہے کہ جوزمین سے جُڑے رہنے کا احساس اور خوبصورتی کچی قبروں میں نظر آتی ہے وہ پکی اور پختہ قبروں میں نظر نہیں آتی۔ ہاں قبر کی اصل خوبصورتی تو اس مرحوم کےروحانی مدارج سے ہے جو اس کے اندر مدفون ہے۔ اس کے اس دنیا میں کئے ہوئے اعمال کے مطابق اس کو اجر مل رہا ہوتا ہے۔ انسان کے نیک اعمال کا ذکر مرنے کے بعد اس کے کتبے پر لکھا جاتا ہے۔ایک حکایت بیان کی جاتی ہے کہ کسی نے ایک برگزیدہ شخص سے پوچھا کہ بعث بعد الموت یعنی مرنے کے بعد کی زندگی کا کیا مطلب ہے؟ وہ اس کو قبرستان لے گئے اور فوت شدہ لوگوں کی قبروں کے کتبے پڑھنے کو کہا۔ اس شخص نے تسلیم کیا کہ ہاں مجھے تو ان مرنے والوں کی زندگی کا اب پتہ چلا ہے۔ اس برگزیدہ شخص نے فرمایا کہ بعث بعد الموت کے ایک معنی یہ بھی ہیں۔ اس لئے قبروں پر کتبے لگانےمیں کوئی حرج نہیں کہ ہر کتبہ اس بزرگ کی بلکہ یہ کہنا بجا ہوگا کہ جماعت کی تاریخ ہوتی ہے۔ اس بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’صلحاء کے پہلو میں دفن (ہونا) بھی ایک نعمت ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے متعلق لکھا ہے کہ مرض الموت میں انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہلا بھیجاکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے پہلو میں جو جگہ ہے انہیں دی جاوے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ایثار سے کام لے کر وہ جگہ ان کو دے دی تو فرمایا: ما بقی لی ھَمٌّ بعد ذالک

یعنی اس کے بعد اب مجھے کوئی غم نہیں۔ جبکہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے روضہ میں مدفون ہوں۔ مجاورت بھی خوشحالی کا موجب ہوتی ہے۔ میں اسی کو پسند کرتا ہوں۔ اور یہ بدعت نہیں کہ قبروں پر کتبے لگائے جاویں۔ اس سے عبرت ہوتی ہے اور ہر کتبہ جماعت کی تاریخ ہوتی ہے۔ ہماری نصیحت یہ ہے کہ ایک طرح سے ہر شخص گور کے کنارے ہے۔ کسی کو موت کی اطلاع مِل گئی اور کسی کو اچانک آ جاتی ہے۔ یہ گھر ہے بےبنیاد۔ بہت سے لوگ ہوتے ہیں کہ ان کے گھر بالکل ویران ہو جاتے ہیں۔ ایسے واقعات کو انسان دیکھتا ہے۔ جب تک مٹی ڈالتا ہے دل نرم ہوتا ہے۔ پھر دل سخت ہو جاتا ہے۔ یہ بدقسمتی ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد8 صفحہ286-287 ایڈیشن 1984ء)

حضرت جابرؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں قبروں کو پختہ کرنے، اس پر بیٹھنے اور گنبد بنانے سے منع فرمایا۔

(مسلم کتاب الجنائز)

*ابوہیاج اسدی فرماتے ہیں کہ مجھے حضرت علیؓ نے کہا۔
کیا میں تمہیں اس کام پر مامور نہ کروں جس پر مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مامور کیا تھا اور وہ یہ کہ تم کوئی تصویر یا مجسمہ مٹائے بغیر نہ چھوڑنا اور جو قبر زیادہ اونچی ہو اسے (عام قبروں کے) برابر کردو۔

(صحيح مسلم کتاب الجنائز بَابُ الْأَمْرِ بِتَسْوِيَةِ الْقَبْرِ)

سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی معرکۃالآراء کتاب ’’اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘ اور بعض دیگر مقامات پر بعث بعد الموت پر بہت تفصیل سے روشنی ڈالی ہے اور دیگر مذاہب کے نظریات کو رد کرتے ہوئے مرنے کے بعد انسان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے سلوک کا ذکر فرمایا ہے۔ کیونکہ مسلمانوں میں بھی بعث بعد الموت کے حوالے سے بہت سے ایسے نظریات موجود ہیں۔ جن کا اسلامی تعلیمات کے ساتھ دور و نزدیک کا کوئی تعلق نہیں۔ اس پر بہت سی ضخیم کتب بھی مارکیٹ میں موجود ہیں۔ جیسے موت کے بعد کیا ہوگا؟ قبر کے مناظر، بعث بعد الموت وغیرہ۔ جن میں خطرناک منظر کشی کر کے لوگوں کو قبر کے عذاب سے ڈرایا گیا ہے۔ اور یہ ثابت کیا جاتا ہے کہ یہ سب کچھ قبر میں ظاہری حالت میں ہوگا۔ جبکہ ایسا نہیں ہے۔ اسلام سلامتی کا مذہب ہے اور مومن امن دینے والا ہے۔ اسلام اور امن کا یہ تعلق صرف اس دنیا میں ہی نہیں ہے، آخرت میں بھی ساتھ رہتا ہے۔ اسی لئے جنت میں بھی بلندی درجات کے لیے ربنا اتمم لنا نورنا واغفرلنا کی دعا سکھائی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس دنیا کو دارالعمل اور اُخروی زندگی کو دارالجزاء قرار دیا ہے۔ اور دارالجزاء کاConcept ایک ہسپتال اور ایک جہنم وجنت کا قرار دیا ہے کیونکہ خدا رحیم و غفور ہے۔ اللہ وہ طبیب ہے کہ برے عمل کرنے والوں کو ہسپتال میں رکھ کر علاج کرتا ہے اور صحت یاب ہونے کے بعد اسے ہسپتال سے فارغ کر دیا جاتا ہے۔ یا اگر اسے اس کے بد اعمال کی وجہ سے سزا ہوتی ہے تو اس کی اصلاح کے بعد اسے جہنم سے نکال کر جنت میں داخل کر دیا جاتا ہے۔ اس کو برزخ بھی کہا جاتا ہے۔ اسی لیے کہتے ہیں کہ قبرمیں انسان کے اندر جاتے ہی اس کے اعمال کے پیش نظر اگر اچھے اور نیک ہیں تو دائیں طرف کی کھٹرکی کھل جاتی ہے جس سے تازہ خوشبودار ہوا آنے لگتی ہے اور برے اعمال کی صورت میں بائیں طرف کی کھٹرکی سے گرم ہواؤں کے آنے کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام موت کے بعد انسان کی کیا حالت ہوتی ہے، کے تحت فرماتے ہیں۔
’’موت کے بعد جو کچھ انسان کی حالت ہوتی ہے درحقیقت وہ کوئی نئی حالت نہیں ہوتی بلکہ وہی دنیا کی زندگی کی حالتیں زیادہ صفائی سے کھل جاتی ہیں۔ جو کچھ انسان کے عقائد اور اعمال کی کیفیت صالحہ یا غیر صالحہ ہوتی ہے۔ وہ اس جہان میں مخفی طور پر اس کے اندر ہوتی ہے اور اس کا تریاق یا زہر ایک چھپی ہوئی تاثیر انسانی وجود پر ڈالتا ہے۔ مگر آنے والے جہان میں ایسا نہیں رہے گا بلکہ وہ تمام کیفیات کھلا کھلا اپنا چہرہ دکھلائیں گی۔ اس کا نمونہ عالم خواب میں پایا جاتا ہے کہ انسان کے بدن پر جس قسم کے مواد غالب ہوتے ہیں عالم خواب میں اسی قسم کی جسمانی حالتیں نظر آتی ہیں۔ جب کوئی تیز تپ چڑھنے کو ہوتا ہے تو خواب میں اکثر آگ اور آگ کے شعلے نظر آتے ہیں اور بلغمی تپوں اور ریزش اور زکام کے غلبہ میں انسان اپنے تئیں پانی میں دیکھتا ہے۔ غرض جس طرح کی بیماریوں کے لیے بدن نے تیاری کی ہو وہ کیفیتیں تمثل کے طور پر خواب میں نظر آجاتی ہیں۔ پس خواب کے سلسلہ پر غور کرنے سے ہر ایک انسان سمجھ سکتا ہے کہ عالم ثانی میں بھی یہی سنت اللہ ہے۔۔۔۔۔۔ اور جیسا کہ انسان جو کچھ خواب میں طرح طرح کے تمثلات دیکھتا ہے اور کبھی گمان نہیں کرتا کہ یہ تمثلات ہیں بلکہ انہیں واقعی چیزیں یقین کرتا ہے ایسا ہی اس عالم میں ہو گا بلکہ خدا تمثلات کے ذریعہ سے اپنی نئی قدرت دکھائے گا۔ چونکہ وہ قدرت کامل ہے۔ پس اگر ہم تمثلات کا نام بھی نہ لیں اور یہ کہیں کہ وہ خدا کی قدرت سے ایک نئی پیدائش ہے تو یہ تقریر بہت درست اور واقعی اور صحیح ہے۔ خدا فرماتا ہے۔

فَلَا تَعۡلَمُ نَفۡسٌ مَّاۤ اُخۡفِیَ لَہُمۡ مِّنۡ قُرَّۃِ اَعۡیُن

(السجدہ: 18)

یعنی کوئی نفس نیکی کرنے والا نہیں جانتا کہ وہ کیا کیا نعمتیں ہیں جو اس کے لیے مخفی ہیں۔ سو خدا نے ان تمام نعمتوں کو مخفی قرار دیا جن کا دنیا کی نعمتوں میں نمونہ نہیں۔ یہ تو ظاہر ہے کہ دنیا کی نعمتیں ہم پر مخفی نہیں ہیں اور دودھ اور انار اور انگور کو ہم جانتے ہیں اور ہمیشہ یہ چیزیں کھاتے ہیں تو اس سے معلوم ہوا کہ وہ چیزیں اور ہیں اور ان کو ان چیزوں سے صرف نام کا اشتراک ہے۔ پس جس نے بہشت کو دنیا کی چیزوں کا مجموعہ سمجھا۔ اس نے قرآن شریف کا ایک حرف بھی نہیں سمجھا۔‘‘

(اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد10 صفحہ396-398)

آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے اِذَا مَاتَ الْاِنْسَانُ انْقَطَعَ عَنْہُ عَمَلُہٗ کہ انسان پر موت آ جانے کے بعد اس کے عمل اس سے منقطع ہو جاتے ہیں۔ اسی لیے دنیا کو دارالعمل کہا جاتا ہے۔ شاعر نے اس مضمون کو یوں بیان کیا ہے

عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’جوں جوں انسان بڈھا ہوتا جاتا ہے دین کی طرف بے پروائی کرتا جاتا ہے۔ یہ نفس کا دھوکا اور سخت غلطی ہے جو موت کو دور سمجھتا ہے۔ موت ایک ایسا ضروری امرہے کہ اس سے کسی صورت میں بچ نہیں سکتے اور وہ قریب ہی قریب ہے۔ ہر ایک نیا دن موت کے زیادہ قریب کرتا جاتا ہے۔ میں نے دیکھا ہے کہ بعض آدمی اوائل عمر میں بڑے نرم دل تھے۔ لیکن آخر عمر میں آ کر سخت ہو گئے۔ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ نفس دھوکا دیتا ہے کہ موت ابھی دور ہے۔ حالانکہ بہت قریب ہے۔ موت کو قریب سمجھو تا کہ گناہوں سے بچو۔‘‘

(ملفوظات جلد3 صفحہ94 ایڈیشن 2016ء)

گویا کہ عمل کرنے کا وقت، اس کی زندگی میں ہے اس لیے انسان کو زندگی کے ہر لمحے سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرنی چاہئے۔ ویسے تو انسان کے اَن گنت انفرادی عمل ہیں جو وہ اپنی زندگی میں کرتا ہے جن کی اسے جزاء ملے گی۔ لیکن بعض عمل انسان ایسے کر جاتا ہے جن کا فائدہ معاشرے میں بسنے والے دوسرے لوگوں کو بھی پہنچتا ہے مگر ثواب، عمل کرنے والے کو مل رہا ہوتا ہے۔ ایسے اعمال کو صدقہ جاریہ کہا جاتا ہے۔ یعنی مستقل جاری رہنے والی نیکی۔ گو انسان کے مرنے کے بعد اس کے عمل تو ختم ہو جاتے ہیں مگر ان کی نیکی کا ثواب اور اجر ملتا رہتا ہے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اوپر بیان شدہ حدیث کے اگلے حصہ میں فرمایا کہ گو انسان کے عمل منقطع ہو جاتے ہیں مگر تین عمل جاری رہتے ہیں۔ جیسے کوئی انسان زندگی میں رفاہ عامہ کے لیے مسجد تعمیرکر دے، اسکول یا مدرسہ بنا دے، کنواں لگا دے، جس کے پانی سے ایسے علاقوں کے لوگ مستفیض ہوں جہاں پانی کی کمی ہے یا پانی کڑوا یا گدلا آتا ہے۔ جیسے جماعت احمدیہ میں ہیومینیٹی فرسٹ اور انٹرنیشنل احمدیہ ایسوسی ایشن آف آرکیٹیکچرز اینڈ انجینئرز (IAAAE) کے تحت افریقہ اور نگر پارکرپاکستان کی بے شمار جگہوں میں کنویں، نلکے اورپانی کے جدید Tap لگوا کر جاری رہنے والا صدقہ کیا ہے، حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے برطانیہ کے جلسہ ہائے سالانہ کے خطابات سے پتہ چلتا ہے کہ جماعت نے کئی پس ماندہ علاقوں میں سہولیات مہیا کرکے ماڈل گاؤں بھی بنائے ہیں۔

اسی طرح کسی طالب علم کے لیے مالی امداد یا وظیفہ بھی صدقہ جاریہ کے زمرے میں آتا ہے۔ جس طرح حضرت چوہدری ظفراللہ خان ؓ نے اپنی زندگی میں ایک ٹرسٹ قائم فرمایا تھا جس کے تحت غریبوں، ناداروں اور مستحق طلباء کے لیے رقوم مہیا کی جاتی تھیں۔

دوسرے نمبر پر ایسا علم ہے جو ’’لا ینقطع بہ‘‘ ہو کہ اس کے شاگرد دنیا بھر میں موجود فیض کو آگے پہنچا رہے ہوں۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد خیر کم من تعلم القرآن وعلمہ اسی کے تحت آتا ہے۔ کوئی کتاب لکھ جاتا ہے اور بغیر کسی لالچ کے بچوں کو دینی و دنیاوی تعلیم سے آراستہ کرنا بھی صدقہ جاریہ ہے۔

تیسرے نمبر پر ’’ولد صالح یدعولہ‘‘ کہ انسان اپنے پیچھے ایسی اولاد چھوڑ جائے جس کی تربیت ایسی کی ہو کہ مرحوم کی نیکیوں کو اس کی وفات کے بعد جاری رکھے۔ اس لیے اولاد کی تربیت و اصلاح بہت اہمیت رکھتی ہے۔ حضرت مصلح موعودؓ احمدی خواتین کواپنے بچوں کی تربیت اس طرح کرنے کی تلقین کرتے تھے کہ وہ نماز کی ادائیگی کی طرف توجہ دیتے رہیں۔ ماؤں سے فرمایا کرتے تھے کہ اگر آپ اپنے بچوں کو نمازی بنا جائیں گی تو انہوں نے اگر ظہر کی نماز پڑھی تو کہا جائے گا کہ اس مرحومہ عورت نے بھی ظہر کی نماز پڑھی۔ اگر پسماندگان میں سے کسی بیٹے نے عصر کی نماز ادا کی تو عصر کی نماز کا ثواب اس مرحومہ والدہ کے کھاتے میں لکھا جائے گا۔ علی ہذا القیاس مغرب، عشاء اور فجر کا اولاد کی طرف سے ادا کرنا اس کی والدہ کو ثواب مل رہا ہو گا۔

الغرض اسلامی تعلیمات سے پتہ چلتا ہے کہ قبروں کو پکی کرنے یا خوبصورت بنانے یا نقش و نگار کرنے سے مدفون شخص کو کوئی ثواب نہیں مل رہا ہوتا۔ بلکہ اس کے وہ نیک اعمال ہیں جو آخرت میں اس کے کام آئیں گے۔ اس لیے ہمیں اپنے اعمال کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں۔ ’’یاد رکھو کہ ہماری جماعت اس بات کے لیے نہیں ہے جیسے عام دنیادار زندگی بسر کرتے ہیں۔ نرا زبان سے کہہ دیا کہ ہم اس سلسلہ میں داخل ہیں اور عمل کی ضرورت نہ سمجھی جیسے بد قسمتی سے مسلمانوں کا حال ہے کہ پوچھو تم مسلمان ہو؟ تو کہتے ہیں شکر الحمد للہ۔ مگر نماز نہیں پڑھتے اور شعائر اللہ کی حرمت نہیں کرتے۔ پس میں تم سے یہ نہیں چاہتا کہ صرف زبان سے ہی اقرار کرو اور عمل سے کچھ نہ دکھاؤ یہ نکمی حالت ہے خدا تعالیٰ اس کو پسند نہیں کرتا۔‘‘

(ملفوظات جلد3 صفحہ165 ایڈیشن2016ء)

آ پؑ مزید فرماتے ہیں۔
’’اپنے ایمان کا وزن کرو۔ عمل ایمان کا زیور ہے۔ اگر عملی حالت درست نہیں ہے تو حقیقت میں ایمان بھی نہیں ہے۔ مومن حسین ہوتا ہے۔ جیسے ایک خوبصورت کو معمولی اور ہلکا سا کڑا بھی پہنا دیا جاوے تو وہ اسے زیادہ خوبصورت بنا دیتا ہے۔ اسی طرح پر ایماندار کو عمل اور بھی خوبصورت دکھاتا ہے اور اگر بد عمل ہے تو کچھ بھی نہیں۔ حقیقی ایمان جب انسان کے اندر پیدا ہوتا ہے تو اعمال میں ایک لذت پیدا ہو جاتی ہے۔ اس کی معرفت کی آنکھ کھل جاتی ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد1 صفحہ340 ایڈیشن2016ء)

پس ہماری جماعت کو ان تعلیمات پر عمل کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

(ابو سعید)

پچھلا پڑھیں

یوکرائن سے لٹویا آنے والے پناہ گزینوں کی امداد

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 26 مئی 2022