• 4 مئی, 2024

خلیفہ منتخب ہوتا ہے یا اسے اللہ تعالیٰ بناتا ہے؟

کہا جاتا ہے کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ انسانوں کے چناؤ سے ایک شخص منتخب ہو اور اسے خدا تعالیٰ کا انتخاب قرار دے دیا جائے؟ جسے اللہ تعالیٰ قائم فرماتا ہے اسے انسان تو منتخب نہیں کرتے؟ روحانی منصب تو اللہ تعالیٰ براہِ راست عطا فرماتا ہے۔

یہ جو بات کی جاتی ہے کہ روحانی منصب پر اللہ تعالیٰ براہِ راست کسی کو ما مور فرماتا ہے، یہ بظاہر اور عموماً خلافت ِ راشدہ کے ساتھ نہیں ہے۔ دیکھنا یہ چاہئے کہ اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ ﷺ نے اس بارہ میں کیا ارشاد فرمائے ہیں اور آپؐ کے بعد اللہ تعالیٰ کی منشاء کے مطابق جو خلافت راشدہ قائم ہوئی اس کی طرزکیا تھی؟ وہ کس طرح قائم ہوئی اور اس کا قیام کیوں اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب ہوا؟

قبل اس کے کہ ہم اس کے تفصیلی مطالعہ کی طرف جائیں۔ ایک الٰہی سنّت جو اللہ تعالیٰ مادّی دنیا کے مناظر میں پیش فرماتا ہے، اگر اسے زیر غور لائیں اور اس الٰہی سنّت یا الٰہی تقدیر کے عمل کو سمجھ لیا جائے تو خلافت کے الٰہی نظامِ قیام کی بھی سمجھ آجاتی ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

یَہَبُ لِمَنۡ یَّشَآءُ اِنَاثًا وَّیَہَبُ لِمَنۡ یَّشَآءُ الذُّکُوۡرَ

(الشوری: 50)

ترجمہ: وہ جس کو چاہتاہے بیٹیاں عطا کرتا ہے اور جس کو چاہتا ہے بیٹے عطا کرتا ہے۔

اس کی یہ عطا قابل غور ہے کہ وہ کس طرح اولاد عطا کرتا ہے؟ حالانکہ یہ مادی عطائیں ہیں جو انسان کے اعمال کا نتیجہ ہیں مگر عطا اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کی نہیں ہے۔ اسی طرح یہ بھی دیکھیں کہ اللہ تعالیٰ کس طرح جتا کر پوچھتا ہے کہ

اَفَرَءَیۡتُمۡ مَّا تَحۡرُثُوۡنَ ﴿ؕ۶۴﴾ ءَاَنۡتُمۡ تَزۡرَعُوۡنَہٗۤ اَمۡ نَحۡنُ الزّٰرِعُوۡنَ ﴿۶۵﴾

(الواقعہ: 64-65)

ترجمہ: اس کو تو دیکھو جو تم کھیتی باڑی کرتے ہو۔ کیا یہ تم بوتے ہو یا ہم بونے والے ہیں۔

چنانچہ مادی زندگی اور مادی چیزوں کی یہ مثالیں جب اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے اور ان کو صرف اپنی طرف ہی منسوب کرتا ہے تو کیا روحانی زندگی کے معاملات، قوانین اور رونما ہونے والے واقعات میں اسی سنّتِ الٰہیہ کا کوئی دخل نہیں ہے؟ جو شخص یہ سوال کرتا ہے کہ انسانوں کا منتخب شدہ شخص اللہ تعالیٰ کا خلیفہ کس طرح ہو سکتا ہے، کیا اس کے پاس اپنے اس سوال کے پیش نظر مذکورہ بالا مادی اور دنیوی مثالوں کی تکذیب کا بھی کوئی جواز موجود ہے؟

اسی تسلسل میں روحانی نظام کی مثال بھی ملاحظہ فرمائیں۔ رسول اللہ ﷺ نے غزوۂ بدر میں جب مٹھی بھر کنکریاں دشمن پر پھینکی تھیں۔اس کے بارہ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

وَمَا رَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ رَمٰی

(الانفال: 18)

ترجمہ: وہ کنکریاں تونے نہیں، ہم نے ماری تھیں۔

سوچنے کی بات یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کی پھینکی ہوئی کنکریاں اللہ تعالیٰ نے کس طرح پھینک دیں؟ اسی طرح بیعت کے وقت بیعت کنندگان کے ہاتھ پر رسول اللہ ﷺ کے ہاتھ کو اللہ تعالیٰ اپنا ہاتھ قرار دیتا ہے اور فرماتا ہے

یَدُ اللّٰہِ فَوْقَ اَیْدِیْھِم

(الفتح: 11)

اور پھر وہ یہ بھی فرماتا ہے کہ

مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰہَ

(النساء: 81)

ترجمہ: جو رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کرے گا وہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرے گا۔

یہ سب کچھ کس طرح اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب ہو جاتا ہے۔ یہ سب حقیقتیں سمجھ لی جائیں تو یہ بھی سمجھ آجاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ مومنوں کے انتخاب کو کس طرح اپنا انتخاب قرار دیتے ہوئے فرماتا ہے لَیَسۡتَخۡلِفَنَّہُمۡ ہم ہی انہیں خلیفہ بنائیں گے۔

الغرض یہاں یہ پہلو مدّ نظر رکھنا ضروری ہے کہ بچوں کی پیدائش کا معاملہ ہو یا کھیتی اگانے کا، ان کے لئے صلاحیت کا ہونا ضروری ہے۔ جس طرح ایک بانجھ مرد یا عورت بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے اور سیم زدہ یا بنجر زمین کھیتی اگانے کی صلاحیت نہیں رکھتی اسی طرح نبوّت کے ذریعہ قائم شدہ جماعت جو ایمان اور عملِ صالح کی صلاحیت والی نہیں ہوتی، اس میں اللہ تعالیٰ کی خلافت کا قیام بھی ممکن نہیں ہوتا۔ اس کے منکروں میں اس کا قیام ناممکن ہے۔ قرآن کریم میں یہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ صلاحیّت والے مومنوں میں خلافت قائم کرتا ہے۔

تجزیاتی منظر

اللہ تعالیٰ جب لَیَسۡتَخۡلِفَنَّہُمۡ فِی الۡاَرۡضِ فرماتا ہے تو یہ اس کاوعدہ ہے کہ وہ خود خلافت قائم کرے گا۔ یعنی خلیفہ بنانا اس کا کام ہے، کسی دوسرے ذریعہ سے اس کا قیام ممکن نہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ جب خد اتعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ خلافت وہ خود قائم کرے گا یا وہ خود خلیفہ مقرر فرمائے گا تو اس کا مطلب کیا ہے؟ وہ کس طرح خلیفہ بناتا ہے یاخلافت کا قیام کس طرح خدا تعالیٰ کی طرف منسوب ہوتا ہے؟ اور وہ کون سے عوامل یا وجوہات ہیں جن کی بناء پر ہم اس عقیدہ پر قائم ہو تے ہیں کہ واقعۃً خلیفہ بنانا خدا تعالیٰ کا کام ہے۔ چنانچہ اس پہلو سے جب ہم خدا تعالیٰ کے اس وعدہ کو دیکھتے ہیں تو اس کے حسبِ ذیل رُخ ہمارے سامنے آتے ہیں کہ

1: بحیثیتِ بشر خلیفہ ایک انسان ہوتا ہے اور ہر انسان کو خدا تعالیٰ نے ہی بنایا ہے۔ کائنات اور دنیا کی تمام مخلوقات، مثلاً انسان، حیوان، چرند، پرند، نباتات، جمادات، مٹی، پانی، آگ، ہوا، سورج، چاند، ستارے وغیرہ وغیرہ کی طرح انسان بھی خدا تعالیٰ ہی کی تخلیق ہے۔ لہٰذا خلیفہ بھی ایک انسان ہے جسےخدا تعالیٰ نے عام انسانوں کی طرح بنایا ہے۔ یعنی جسمانی اور بشری تخلیق کے اعتبار سے دیگر انسانوں میں اور اس میں کوئی فرق نہیں ہے۔ اگر یہ سب کچھ ایسا ہے توپھر ہم امتیازی طریق پریہ کیوں کہتے ہیں کہ خلیفہ خدا بناتاہے؟

2: پھر یہ رخ سامنے آتا ہے کہ خلافت ایک منصب ہے۔اس پہلو سے جب ہم تجزیہ کرتے ہیں تومعلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں انسانوں کے مختلف منصب بھی خدا تعالیٰ ہی کی عطا ہوتے ہیں۔ مثلاً قرآنِ کریم میں آتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا: یٰقَوۡمِ اذۡکُرُوۡا نِعۡمَۃَ اللّٰہِ عَلَیۡکُمۡ اِذۡ جَعَلَ فِیۡکُمۡ اَنۡۢبِیَآءَ وَجَعَلَکُمۡ مُّلُوۡکًا (المائدہ: 21)

ترجمہ: اے میری قوم! اپنے اوپر اللہ کی نعمت کو یاد کروجب اس نے تمہارے درمیان انبیاء بنائے اور تمہیں بادشاہ بنایا۔

اور تُؤۡتِی الۡمُلۡکَ مَنۡ تَشَآءُ

(آل عمران: 27)

کہ اللہ جسے چاہتا ہے، فرمانروائی عطا کرتا ہے۔

یہاں اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ بادشاہت بھی خدا تعالیٰ ہی کی عطاہے۔ اسی طرح ہر قسم کی صفات بھی خدا تعالیٰ ہی کی عطاہیں۔ وہی کسی کو انتظامی صلاحیّت اور اختیارات ودیعت کر کے اسے دوسروں کا انتظام و انصرام عطا کرتا ہے۔ عام انسان خدا تعالیٰ کی عطا کردہ صفات کے مدّ نظر اپنے ہر منصب کو محض خدا تعالیٰ کی طرف سے عطا قرار دے کر اس کے فضلوں پر اس کا شکر ادا کرتا ہے۔ مثلاً ایک سائنسدان کہتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے وہ سائنسدان بنا ہے۔ کوئی ڈاکٹر ہو یا افسر، وہ یہی کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے یہ مقام عطا کیا ہے وغیرہ وغیرہ۔ یعنی انسان کوہر خوبی، توفیق اور منصب خدا تعالیٰ ہی عطا کرتا ہے اور ان صفات کی بناء پر اسے کوئی منصب نصیب ہوتا ہے تو وہ خدا تعالیٰ ہی کی عطا ہوتا ہے۔ وہ کسی کو بادشاہ بناکر فرمانروائی عطا کرتا ہے تو کسی کو وزیر بنا دیتا ہے۔ کسی کو اموال میں کثرت عطا کرکے اسے دوسروں پر فضیلت بخشتا ہے تو کسی کو تجارتوں، جائیدادوں اور جاگیروں کا مالک بنا کر اسے معاشرہ میں مالی لحاظ سے بلند مقام نصیب فرماتا ہے۔ قرآنِ کریم کا مطالعہ بتاتا ہے کہ ہر نعمت اور فضیلت جو انسان کو عطا ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ اسے اپنی طرف منسوب کرتا ہے۔ اگراسی طرح خلافت کا قیام خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کیا جاتا ہے تو اس زاویہ سے بھی اس کی انسانوں کے دیگر منصبوں، فضیلتوں اور عطاؤں پر بظاہر کوئی امتیازی حیثیّت معلوم نہیں ہوتی۔ اگر ایسا ہے تو پھر ہم خاص طور پر یہ کیوں کہتے ہیں کہ خلیفہ خدا بناتا ہے؟

3: تیسری صورت یہ ہے کہ اگر خلافت کو ایک صفت قرار دیا جائے۔ اس صورت میں بھی یہی حقیقت سامنے آتی ہے کہ تمام انسانوں کو ہر قسم کی صفات کی عطا بھی اللہ تعالیٰ کی طرف ہی منسوب ہوتی ہے۔ ہر انسان کو اللہ تعالیٰ نے کسی نہ کسی خاص صفت یا وصف سے نوازا ہوتا ہے۔ دنیا میں ایک سے ایک بڑھ کر صفات کا حامل انسان پایا جاتا ہے۔ اگر عملاً ایسا ہے تو پھر ہم خاص طور پر خلیفہ کے لئے یہ کیوں کہتے ہیں کہ اسے خدا تعالیٰ نے بنایا ہے یا قائم کیا ہے؟

یہ تین پہلو ہیں جو اس مسئلہ پر تجزیاتی بحث کے متقاضی ہیں۔ ان کے صحیح اور درست منظر کھل جائیں تو اس اعتقاد، عقیدہ اور ایمان پر تسلّی ہوتی ہے کہ خلافت کو اللہ تعالیٰ ہی قائم فرماتا ہے اور خلیفہ بھی اس کے سوا اور کوئی نہیں بنا سکتا۔

  • جہانتک پہلی بات کا تعلق ہے تو اس پہلو سے خلیفہ بحیثیتِ بشر اِنَّمَاۤ اَنَا بَشَرٌ مِّثۡلُکُمۡ (الکہف: 111) ہی کا مصداق ہے۔ یعنی وہ تخلیق کے لحاظ سے عام انسانوں میں سے ایک انسان ہی ہوتا ہے۔ اور بشریت کے لحاظ سے دیگر انسانوں سے کوئی الگ یا ما فوق البشری حیثیت نہیں رکھتا۔ مگر ایک پہلو سے وہ لازماً ممتاز ہوتا ہے کہ وہ خلیفہ کی حیثیت سے اللہ تعالیٰ کی مرضی اور تائید و نصرت کے ساتھ دیگر برکاتِ الٰہیہ کا مورد ہوتا ہے۔ اس کا یہ امتیاز نبوّت کی نیابت کی وجہ سے ہوتا ہے۔ لہٰذا خلیفہ کا انتخاب اللہ تعالیٰ کا انتخاب قرار پاتا ہے۔

• دوسرے پہلو کا جواب یہ ہے کہ دیگر سب منصب اور فضیلتیں ایسی ہیں جن کو ختم کرنے کا اختیار خود اس شخص کو بھی ہوتا ہے جو اس کا حامل ہے یا پھر دوسرے بھی اس سے وہ منصب یا فضیلت واپس لینے کا اختیار رکھتے ہیں۔ مادی دنیاکے منصبوں میں ایسا ہوتا ہے۔مگر روحانی دنیا میں جب ہم خلافت کو ایک منصب قرار دے کر کہتے ہیں کہ یہ منصب خدا تعالیٰ نبو ّت کے ظل ّ میں اور اس کی نیابت میں اسے عطا کرتا ہے تو اس وجہ سے کوئی دوسرا اس سے یہ منصب واپس لینے کی طاقت نہیں رکھتا۔نہ ہی وہ شخص جسے اللہ تعالیٰ نے خلیفۂ راشد بنایا ہو خود اس عطا کو واپس کر نے کا اختیار رکھتا ہے۔ یہ ایسا اصول ہے جس کو انتہائی واضح رنگ میں حضرت عثمانؓ نے امّت کے سامنے ایک قانون اور اصول کے طور پر پیش فرما یا ہے۔چنانچہ آپؓ نے منافقین کی طرف سے معزولی کے گمراہ کن مطالبہ کو انتہائی استقلال سے ردّ کیا اور فرمایا:

’’مَا کُنتُ لِاَخلِعَ سِربالًا سِربَلَنِیہِ اللّٰہُ تَعَالیٰ‘‘

(تاریخ الطبری ذکرالخبرعن قتل عثمان ؓ۔35ھ)

کہ میں وہ لباس کس طرح اتار سکتا ہوں جو خود اللہ تعالیٰ نے مجھے پہنایا ہے۔ اسی طرح دورِ آخرین میں حضرت حکیم نورالد ّین خلیفۃ المسیح الاوّلؓ نے بھی بڑی تحد ّی کے ساتھ اسی مذکورہ بالا سچائی کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا:
’’مجھے اگر خلیفہ بنایا ہے تو خدا نے بنایا ہے….. خدا کے بنائے ہوئے خلیفہ کو کوئی طاقت معزول نہیں کر سکتی۔

خدا تعالیٰ نے معزول کرنا ہوگا تو مجھے موت دے گا۔ تم اس معاملہ کو خدا کے حوالہ کردو تم معزول کرنے کی طاقت نہیں رکھتے۔‘‘

(الحکم 21 جنوری 1914ء)

پس خلافتِ راشدہ کی یہ ایک ایسی امتیازی خصوصیّت ہے جو اس منصب کو دیگر تمام منصبوں اور فضیلتوں سے اس وجہ سے ممتاز کرتی ہے کہ کوئی اس سے یہ عطا واپس نہیں لے سکتا۔ یہ ایک بنیاد ہے جس کی وجہ سے خلیفہ کا انتخاب اللہ تعالیٰ کا انتخاب قرار پاتا ہے۔

  • جہانتک تیسرے پہلو کاتعلق ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ صفت کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ اپنے قائم کردہ خلیفہ کے اندر اپنی خاص عطا سے وہ صفات رکھ دیتاہے جن کی نشاندہی اس نے بنیادی طور پر آیتِ استخلاف میں کی ہے۔ مثلاً وہ حصارِ ایمان اور اعمالِ صالحہ کی سند ہے۔ وہ تمکنت ِ دین اور استحکامِ اسلام کا ذریعہ ہے۔ وہ امن کی ضمانت ہے۔ وہ عبادت کے قیام اور شرک سے بچاؤ کی سبیل ہے۔ اطاعتِ رسول ؐ، قیام صلوٰۃ، ایتائے زکوٰۃ اور رحمتِ خداوندی کا امین ہے۔وہ باطل کے مقابلہ پر سِپر ہے۔ وغیرہ، وہ علامات ہیں جو آیتِ استخلاف اور اس سے منسلک آیات سے ما خوذ ہیں۔ علاوہ ازیں اس کی دیگر صفات جو مختلف ما ٔخذوں سے معلوم ہوتی ہیں، یہ ہیں کہ وہ انوار و برکاتِ نبوّت کا عکّاس ہے۔ وہ وجہ یکجہتی و اتّحاد ہے۔ وہ مومنوں کا محبوب و مطاع ہے۔ وہ قلوب مومنین پرنزولِ ملائکہ کا سبب ہے۔ وہ تائید ِ خداوندی کا مَورد ہے۔ وہ تجدید دین کا ذمہ دار ہے اور قبولیّت ِ دعا کا وسیلہ ہے وغیرہ۔

اللہ تعالیٰ کی خاص عطا سے یہ ایسی غیر معمولی اور ممتاز صفات ہیں جن سے ایک خلیفۂ راشد متّصف و مزیّن ہوتا ہے، ظاہر ہے کہ یہ صفات نہ انسان اپنی جدو جہد، مجاہدوں اور ریاضتوں سے حاصل کرسکتا ہے اور نہ ہی وہ انہیں خدا تعالیٰ کے سوا کسی اور سرچشمہ سے پا سکتا ہے۔ مثلاً فرشتوں کا بھیجنا صرف اور صرف خدا تعالیٰ کا کام ہے۔ اور وہ نبی کے بعد خلیفۂ راشد کے ذریعہ مومنوں پر اترتے ہیں۔ جیسا کہ جب حضرت عثمانؓ کے خلاف منافق اٹھے تو حضرت عبداللہ بن سلامؓ نے انہیں تنبیہ کی کہ خلافت کا وجود تائیدو عونِ ملائکہ کا سبب ہے۔ فرمایا:
’’اگر تم نے (حضرت عثمانؓ) کو قتل کیا تو وہ تلوار جو اس وقت نیام میں ہے، بے نیام ہوجائے گی اور پھروہ قیامت تک نیام میں نہ جاسکے گی۔ اگر تم نے (حضرت عثمانؓ) کو قتل کیا (اور خلافت کو پامال کرنے کی کوشش کی) تو یاد رکھنا کہ مدینہ جس کو اللہ تعالیٰ کے فرشتے گھیرے ہوئے ہیں وہ مدینہ چھوڑ جائیں گے۔‘‘

(طبری ذکر الخبر عن قتل عثمان بن عفّان۔35ھ)

اسی طرح دعاؤں کا سننا اور انہیں قبولیت کا شرف بخشنا بھی صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کا کام ہے۔ اور وہ خلیفہ ٔراشد کی دعائیں بھی امتیازی طور پر قبول فرماتا ہے اور اس کے وسیلہ سے مومنوں کی دعاؤں کو بھی شرف قبولیّت بخشتا ہے چنانچہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ فرماتے ہیں کہ:
’’اللہ تعالیٰ جب کسی کو منصبِ خلافت پر سرفراز کرتا ہے تو اس کی دعاؤں کی قبولیت بڑھا دیتا ہے کیونکہ اگر اس کی دُعائیں قبول نہ ہوں تو پھر اس کے اپنے انتخاب کی ہتک ہوتی ہے۔‘‘

(منصبِ خلافت، انوار العلوم جلد2 صفحہ32)

اسی طرح خدا تعالیٰ جسے اپنا خلیفہ بناتا ہے اسے ایک اور امتیازی صفت بھی عطا کی جاتی ہے جو بغیر خدا تعالیٰ کے انتخاب،اصطفاء اور اس کی عطاکے ممکن ہی نہیں اور وہ یہ ہے کہ اس کے دل پر حق کی خاص تجلی ہوتی ہے۔اس کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ
’’صوفیاء نے لکھا ہے کہ جو شخص کسی شیخ یا رسول اور نبی کے بعد خلیفہ ہونے والا ہوتا ہے تو سب سے پہلے خدا کی طرف سے اس کے دل میں حق ڈالاجاتا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد10 صفحہ229-230)

علی ہٰذا القیاس بعض خاص صفات میں خلیفہ راشد دیگر افرادامّت سے جو مختلف صفاتِ حسنہ سے متّصف ہوتے ہیں، اللہ تعالیٰ کی جناب سے عطا کردہ الگ شان اور امتیازی مقام رکھتا ہے۔ لیکن یہ ایک الگ بحث ہے اور دنیا میں ایسی نظیریں موجود ہیں کہ غیر نبی کو بعض صلاحیتوں یا صفات میں نبی پر فضیلت ہوسکتی ہے یا غیر خلیفہ کو خلیفۂ راشد پر۔ مگر جزوی فضیلت بہرحال ایک جزوی بات ہے۔اس کی وجہ سے کسی کا نبی یا خلیفہ سے افضل ہونا ثابت نہیں ہوتا۔

خلافت صفاتِ الٰہیہ اور صفاتِ حسنہ کے آئینہ میں

یہ بھی ایک اصولی بات ہے کہ خلیفۂ راشد کی یہ الگ شان اور اس کا یہ امتیازی مقام اس وجہ سے بھی ہے کہ وہ صفات الٰہیہ اور تمام انسانی صفات حسنہ میں اس دَور کے جملہ انسانوں کے مقابل پر ایک جامعیت اور مکمل توازن رکھتا ہے۔صفات حسنہ میں مکمل توازن عطا کرنا سوائے خدا تعالیٰ کی خاص تقدیر کے کسی اور کا کام نہیں ہے۔صفات کا یہ مجموعی توازن اس کے اندر وہ خاصیّت پیدا کردیتاہے کہ وہ دوسروں کی نسبت خدا تعالیٰ کی صفات کے قریب ترین وجود ہو جاتاہے۔پس وہی ہے جو نبوّت کے بعد خدا تعالیٰ کی جملہ صفات کا سب سے زیادہ مظہربن جاتا ہے۔ چنانچہ خدا تعالیٰ کی نظرِ انتخاب اس کو چن لیتی ہے لہٰذا اس کا انتخاب خدائی انتخاب قرار پاتا ہے۔ چنانچہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ فرماتے ہیں:
’’جب کسی کو خدا خلیفہ بناتا ہے تو اسے اپنی صفات بخشتا ہے۔ اگر وہ اسے اپنی صفات نہیں بخشتا تو خدا تعالیٰ کے خلیفہ بنانے کے معنی ہی کیا ہیں۔‘‘

(الفرقان، مئی، جون 1967ء صفحہ37)

جہانتک صفات حسنہ کے اجتماع اور ان میں توازن کی خصوصیّت کا تعلق ہے، حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:
’’جو خلیفہ مقرر کیا جاتا ہے اس میں دیکھا جاتا ہے کہ اس نے کل خیالات کو جمع کرنا ہے۔اس کی مجموعی حیثیت کو دیکھا جاوے۔ ممکن ہے کسی ایک بات میں دوسرا شخص اس سے بڑھ کرہو۔ایک مدرسہ کے ہیڈ ماسٹر کے لئے صرف یہ نہیں دیکھا جاتا کہ وہ پڑھاتا اچھا ہے کہ نہیں یا اعلیٰ ڈگری پاس ہے یا نہیں، ممکن ہے کہ اس کے ماتحت اس سے بھی اعلیٰ ڈگری یافتہ ہوں۔ اس نے انتظام کرنا ہے، افسروں سے معاملہ کرنا ہے،ماتحتوں سے سلوک کرنا ہے،یہ سب باتیں اس میں دیکھی جاویں گی۔ اسی طرح سے خدا کی طرف سے جو خلیفہ ہو گا اس کی مجموعی حیثیت کو دیکھا جاوے گا۔خالد بن ولیدؓ جیسی تلوار کس نے چلائی؟مگر خلیفہ ابوبکرؓ ہوئے۔آج اگر کوئی کہتا ہے کہ یورپ میں میری قلم کی دھاک مچی ہوئی ہے تو وہ خلیفہ نہیں ہو سکتا۔خلیفہ وہی ہے جسے خدا نے بنایا۔ خدا نے جس کو چن لیا اُس کو چن لیا۔ خالد بن ولیدؓ نے 60 آدمیوں کے ہمراہ 60ہزار آدمیوں پر فتح پائی۔ عمرؓ نے ایسا نہیں کیا۔مگر خلیفہ عمر رضی اللہ عنہ ہی ہوئے۔ حضرت عثمانؓ کے وقت میں بڑے جنگی سپہ سالار موجود تھے، ایک سے ایک بڑھ کر جنگی قابلیت رکھنے والا ان میں موجود تھا۔ سارے جہاں کو ا س نے فتح کیا، مگر خلیفہ عثمانؓ ہی ہوئے۔ پھر کوئی تیز مزاج ہوتا ہے، کوئی نرم مزاج، کوئی متواضع، کوئی منکسر المزاج ہوتے ہیں، ہر ایک کے ساتھ سلوک کرنا ہوتا ہے جس کو وہی سمجھتا ہے۔ جس کو معاملات پیش آتے ہیں۔‘‘

(خطباتِ محمود جلد4 صفحہ72-73 بحوالہ خطباتِ مسرور جلد2 صفحہ346-345)

تائید و رضائے الٰہی

اس انتخاب الٰہیہ کا منطقی اور واقعاتی نتیجہ ہے کہ خد ا تعالیٰ اپنے اس انتخاب کو تنہا نہیں رہنے دیتا۔ وہ اس کے ساتھ ہوتا ہے اور علیٰ منہاجِ النبوہ اس کی تائید و نصرت فرماتا ہے۔ اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا امتیازی سلوک ہوتا ہے جس کا اعلان وہ ان الفاظ میں فرماتا ہے کہ

اِنَّا لَنَنصُرُ رُسَلَنَا وَالَّذِینَ اٰمَنُوا فِی الحَیوٰۃِ الدُّنیَا وَیَومَ یَقُومُ الاَشھَادُ۔

(المومن: 52)

ترجمہ: یقینا ہم اپنے رسولوں کی اور ان کی جو ایمان لائے، اس دنیا کی زندگی میں بھی مدد کریں گے اور اس دن بھی جب گواہ کھڑے کئے جائیں گے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ فرماتے ہیں:
’’خدا جسے خلیفہ مقرر کرتا ہے اسے اپنی جناب سے مؤیّد و منصور کرتا ہے۔‘‘

(درس القرآن صفحہ572)

خلیفۂ راشد رسول تو نہیں، مگر خدا تعالیٰ چونکہ اسے ظلّی طور پر انوار و برکاتِ رسالت سے مزیّن کرتا ہے اور اسے نبوّت کے کمالات کا مظہر بناتا ہے۔اس لئے اس کے ساتھ بھی خدا تعالیٰ کا وہی سلوک ہوتا ہے جس کا وعدہ وہ اپنے نبی کے ساتھ کرتاہے۔یہی خلافت علیٰ منہاج النبوہ ہے اوریہ وہ معیار اور کسوٹی ہے جو خدا تعالیٰ کے قائم کردہ خلیفہ کو خالصۃً خداتعالیٰ کا انتخاب ثابت کرتی ہے۔ نبوّت کے ساتھ کئے گئے اس وعدہ کو خدا تعالیٰ اس طرح پورا فرماتا ہے کہ اپنے قائم کردہ خلیفہ کی نبوّت کے اظلال کے طور پرخود تائید و نصرت فرماتا ہے۔ نہ صرف اس خلیفہ پر بلکہ وہ اس پر ایمان رکھنے والے مومنوں پر بھی اپنی تائید و نصرت کا سائبان تان دیتا ہے۔ یہ ایک ایسی الگ اور نمایاں شان ہے جو صرف اور صرف خدا تعالیٰ کے قائم کردہ خلیفہ کو عطا ہوتی ہے۔ اس بناء پر ایسا انتخاب خدا تعالیٰ کا انتخاب قرارپاتا ہے۔ اور حتمی طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ خلیفہ خدا بناتا ہے۔

اس الٰہی انتخاب کی ایک مثال حضرت علیؓ نے بھی فراہم فرمائی۔آپؓ نے امیر معاویہؓ کو اپنی خلافت کی دلیل دیتے ہوئے لکھا:

اِنَّہٗ بَایَعَنِی القَومُ الَّذِینَ بَایَعُوا اَبَا بَکرٍ وَ عُمَرَ وَعُثمَانَ عَلَی مَا بَایَعُوھُم عَلَیہِ

کہ میری بیعت ان لوگوں نے کی ہے جنہوں نے ابوبکرؓ، عمرؓ اور عثمانؓ کی بیعت کی تھی اور انہی بنیادوں اور اصولوں پر کی ہے جن پر ان تینوں کی بیعت کی تھی۔ اور آگے فرمایا:
فَاِنِ اجتَمَعُوا عَلیٰ رَجُلٍ وَّسَمُّوہُ اِمَامًا کَانَ ذٰلِکَ لِلّٰہِ رِضًی کہ یہ ایسے لوگ ہیں کہ اگر کسی ایک شخص کے ہاتھ پر جمع ہوجاتے ہیں اور اسے اپنا امام تسلیم کر لیتے ہیں تو خدا کی رضا اُس (امام) کے شاملِ حال ہوجاتی ہے۔

(نہج البلاغہ مشہدی صفحہ188 من کتابٍ لہٗ اِلیٰ معاویہ و نہج البلاغہ جلد2 صفحہ7 مطبوعہ مصر)

یعنی یہ ایسے لوگ ہیں جو ایمان، اعمالِ صالحہ اور اپنے تقوٰی و طہارت کے لحاظ سے اس معیار پر قائم ہیں کہ خدا تعالیٰ کی مرضی، خدا تعالیٰ کی رضا اور خدا تعالیٰ کی تائیدو نصرت کا وعدہ ان میں پورا ہوتا ہے۔ خدا تعالیٰ کی یہ رضا اس کی طرف سے ان کے انتخاب کی تصدیق ہے۔ ان کے چُنے ہوئے امام کے ساتھ خدا تعالیٰ کی مرضی اوراس کی رضا شاملِ حال ہو جاتی ہے۔

رضا ئے الٰہی وہ امتیازی نشان ہے جسے کوئی شخص اپنی کوشش سے حاصل نہیں کر سکتا۔ لیکن اس سے بھی بڑھ کر وہ تائید و نصرت الٰہی ہے جو خدا تعالیٰ اپنے قائم کردہ خلیفہ کو عطا کرتا ہے۔ یہ وہ موہبت ہے جو خاص طور پر نبوّت کے ساتھ مخصوص ہے۔ خلیفہ ٔراشد چونکہ ظلّی طور پر انوارِ رسالت اور برکاتِ نبو ّت کا حامل ہوتا ہے۔ اس لئے اس کے شاملِ حال بھی اللہ تعالیٰ کے وہی وعدے ہوتے ہیں جو اِن آیات میں بیان فرمائے گئے ہیں کہ

کَتَبَ اللّٰہُ لَاَغلِبَنَّ اَنَا وَ رُسُلِی (المجادلہ: 22) کہ اللہ نے لکھ رکھا ہے کہ ضرور میں اور میرے رسول غالب آئیں گے۔ اور

اِنَّالَنَنصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِینَ اٰمَنُوا…. (المومن: 52) کہ ہم اپنے رسولوں کی اور ان کی جوایمان لائے، اس دنیا کی زندگی میں بھی مدد کریں گے اور اس دن بھی جب گواہ کھڑے کئے جائیں گے۔

دراصل یہی وہ امتیازات ہیں جوخلیفۂ راشد کوہر دوسرے صاحب ِ منصب اور صاحب ِ صفات شخص سے ممتاز کرتے ہیں اور واضح کرتے ہیں کہ خلیفہ خدا بناتاہے۔یہ امتیازی نشان کسی ایسے شخص کو نصیب نہیں ہوتے،جسے خدا تعالیٰ قائم نہیں کرتا خواہ اسے دنیا کی تمام طاقتیں مل کر بھی خلیفہ قرار دے دیں۔جس کے ساتھ خدا تعالیٰ کی اپنی رضا نہ ہو وہ ان لوگوں کے مقرر کردہ ایسے فرد کی تائید کرنے کاکس طرح پابند ہوسکتا ہے۔ چنانچہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’سارا عالَمِ اسلام مل کر زور لگا لے اور خلیفہ بنا کر دکھا دے۔ وہ نہیں بنا سکتے کیونکہ خلیفہ کا تعلق خدا کی پسند سے ہے۔‘‘

(الفضل انٹرنیشنل 2اپریل 1993ء)

اظہارِ تقدیر

خدا تعالیٰ خود خلیفہ بناتا ہے، اس کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ خدا تعالیٰ جس شخص کا برائے خلیفہ انتخاب کرتا ہے، وہ اس کے بارہ میں دنیا میں کئی طریق پر اپنی اس تقدیر کا قبل از وقت اظہار بھی کر دیتا ہے۔پھراس کی اس تقدیر کے آگے کوئی روک نہیں بن سکتا۔ جیسا کہ حضرت ابوبکرؓ کے بارہ میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا تھا کہ آپؐ کا خیال تھا کہ ان کے بارہ میں وصیّت لکھ دیتے مگر اس لئے نہیں لکھی کہ ان کے علاوہ اگربعض لوگ کسی اور کو منتخب کرنا بھی چاہیں گے تو خدا تعالیٰ بھی ان کے اس انتخاب کا انکار کر دے گا اور مومن بھی اس کا انکار کر دیں گے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺپر جس تقدیر کو کھولا تھا وہ بالآخر اسی طرح نافذہو کر رہی۔ اسی طریق پر اللہ تعالیٰ اپنے ہونے والے دیگر خلفاء کے بارہ میں پہلے سے ہی لوگوں کو کئی طریق سے آگا ہ کر دیتا ہے۔

اِس دَور میں جماعت احمدیہ نے خدا تعالیٰ کی اس تقدیر کے بکثرت ایسے جلوے دیکھے ہیں کہ آئندہ ہونے والے خلیفہ کے بارہ میں اس نے کئی لوگوں کو رؤیا و کشوف کے ذریعہ مطلع فرمایا۔ اس کے علاوہ اس کی ایک غیر معمولی تجلّی یہ بھی ہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ نے اپنے بعد قائم ہونے والے خلیفہ کا گو اپنی زندگی کے آخری دَور میں نام بھی تحریر کردیا تھا مگر ایک عرصہ پہلے ایک عجیب طرز پر نشاندہی بھی فرمائی تھی۔ جس کو لازماً اس دَور کے اصحابِ بصیرت تو واضح طور پر سمجھ گئے تھے مگرجن کے لئے ابتلا مقد ّر تھا وہ اپنے ابتلا میں سرگرداں رہے اور اس ’’خاص مصلحت اور خالص بھلائی‘‘ سے فائدہ نہ اٹھا سکے۔وہ واقعہ اس طرح سے ہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ نے 14جنوری 1910ء کو اپنے خطبہ ٔ جمعہ میں تصو ّف کے مضمون کو بیان فرمایا۔اس کے بالکل آخر میں حسب ذیل بات کہہ کے خطبہ ختم فرما دیا کہ
’’ایک نکتہ قابلِ یاد سنائے دیتا ہوں کہ جس کے اظہار سے میں باوجود کوشش کے رُک نہیں سکا۔وہ یہ کہ میں نے حضرت خواجہ سلیمان رحمۃ اللہ علیہ کو دیکھا ہے۔ان کو قرآن شریف سے بڑا تعلق تھا۔ ان کے ساتھ مجھے بہت محبّت ہے۔ 78 برس تک انہوں نے خلافت کی۔ 22برس کی عمر میں وہ خلیفہ ہوئے تھے۔ یہ بات یاد رکھو کہ میں نے کسی خاص مصلحت اور خالص بھلائی کے لئے کہی ہے۔‘‘

(خطباتِ نور صفحہ453 مطبوعہ نظارت اشاعت قادیان ایڈیشن2003ء)

اس میں ’’خاص مصلحت اور خالص بھلائی‘‘ کیا تھی؟ غور فرمائیں۔

1: حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدّین محمود احمدؓ کو قرآن شریف سے بڑا تعلق تھا۔
2: خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کو آپؓ سے محبّت بھی بہت تھی۔ آپؓ کی ولادت با سعادت 12جنوری 1889ء کو ہوئی۔
3: جنوری 1910ء میں اس خطبہ کے وقت آپؓ کی عمر عین22 سال تھی۔ لہٰذا حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کا اپنے خطبہ میں حضرت خواجہ سلیمانؒ کی 22 سال کی عمر کا ذکر کرنا ایک واضح اشارہ تھا۔
4: پھر 78برس تک ان کاخلافت کرنا، ایک حیرت انگیز اظہار تھا جو سوائے خاص مصلحتِ الٰہی اور علمِ الٰہی کے ممکن نہ تھا۔ کیونکہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدّین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے بھی اتنی ہی عمر تک خلافت کی۔ آپؓ کی عمر شمسی لحاظ سے 76سال8ماہ اور 27 دن تھی جبکہ قمری اعتبار سے 78 سال بنتی تھی۔ یہ ایسی بات تھی جو حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ نے 1910ء میں کہی مگر آگے جا کر خدا تعالیٰ نے اسے 1965ء تک حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کو 78 سال عمر دے کر یہ پیش خبری قطعی طور پر پوری تفصیلات کے ساتھ ظاہراور ثابت فرمائی۔ پس یہ صرف اور صرف خدا تعالیٰ کا کام ہے کہ جسے وہ چاہتا ہے اپنا خلیفہ بناتا ہے اور اس نے جس کو خلیفہ قائم کرنا ہوتا ہے، اس کی خوشبو خاص مصلحت اور خالص بھلائی کے لئے چار سو بکھیر دیتا ہے۔

’’خلیفہ خدا تعالیٰ بناتا ہے‘‘ ایک لطیف تمثیل

حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام نے اس بحث کوایک لطیف مثال کے ساتھ واضح فرمایا ہے۔ آپؑ فرماتے ہیں:
’’لکھا ہے کہ ایک بزرگ جب فوت ہوئے تو انہوں نے کہا کہ جب تم مجھے دفن کر چکو تو وہاں ایک سبزچڑیا آئے گی۔ جس کے سر پر وہ چڑیا بیٹھے، وہی میرا خلیفہ ہوگا۔ جب وہ اس کو دفن کر چکے تو اس انتظار میں بیٹھے کہ وہ چڑیا کب آتی ہے اور کس کے سر پر بیٹھتی ہے؟ بڑے بڑے پرانے مرید جو تھے ان کے دل میں خیال گزرا کہ چڑیا ہمارے سر پر بیٹھے گی۔تھوڑی ہی دیر میں ایک چڑیا ظاہر ہوئی اور وہ ایک بقّال (سبزی فروش۔ناقل) کے سر پر آ بیٹھی جو اتّفاق سے شریک جنازہ ہو گیا تھا۔ تب وہ سب حیران ہوئے لیکن اپنے مرشد کے قول کے مطابق اس کو لے گئے اور اس کو اپنے پیر کا خلیفہ بنایا۔‘‘

(ملفوظات جلد8 صفحہ407)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیش فرمودہ یہ مثال خدا تعالیٰ کی خلافت کے قیام کے بارہ میں غیرمعمولی عرفان کے دروازے کھولتی ہے۔ یہ خدا تعالیٰ کا انتخاب ہے جو ایک سبز چڑیا کی مثال میں ظاہر کیا گیا ہے۔یہ چڑیا صرف اس شخص کے سر پر بیٹھتی ہے جو خدا تعالیٰ کے نزدیک اس منصب کا اہل ہوتا ہے۔ایسے موقعوں پر بسا اوقات یہ ہوتا ہے کہ بعض لوگ خود کو اس منصب کا اہل سمجھ رہے ہوتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ ان کے سوا اس جماعت کو چلانے والا کوئی نہیں ہے۔یہ لوگ دراصل خلافت کے بارہ میں ایمان کی بنیادی کڑی کوچھوڑ رہے ہوتے ہیں اور سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ خدا تعالیٰ خلیفہ نہیں بناتا بلکہ وہ خود بہتر سمجھتے ہیں کہ خلیفہ کون ہو یا اسے کیسا ہونا چاہئے۔ اسی طرح بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ لوگ اپنے خیال، علم اور معلومات کے مطابق کسی اور کو اس کا اہل سمجھ رہے ہوتے ہیں اور ان کی نظریں اس پر لگی ہوتی ہیں۔ وہ اپنے دل کی عقیدت و وفا کو اس کے ساتھ وابستہ کر رہے ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان دونوں قسم کے لوگوں کی مرضی پر اپنی مرضی کو نافذ کرتا ہے۔ کیونکہ اس کے نزدیک اس منصب کا اہل کوئی اور ہوتا ہے۔چونکہ یہ خلافت خدا تعالیٰ کی خلافت ہے،اس لئے اس کا قیام خدا تعالیٰ خود اپنے ہاتھ میں رکھتا ہے اور لوگوں کے خیالات کے برعکس اس ’’چڑیا‘‘ کو اس شخص کے سر پر بیٹھنے کا حکم دیتا ہے جو اس کے نزدیک خلافت کے منصب کا حقیقی اہل ہوتاہے۔ چنانچہ اُس جماعت کے بعض لوگوں کے علَی الرّغم وہ ’’چڑیا‘‘ اُس شخص کے سر پر بیٹھ جاتی ہے جو دراصل خدا تعالیٰ کا چنا ہوا خاص شخص اور خلیفہ ہوتا ہے۔ جس کے دل میں وہ حق ڈالتا ہے۔

اس تمثیل کے عملی نظارے

یہ ’’سبز چڑیا‘‘ کیا ہے؟ یہ دراصل خدا تعالیٰ کی مرضی ہے جو انتخاب کرنے والے افراد کے دلوں پر بیٹھتی ہے اور انہیں اس شخص کی طرف مائل کر تی ہے۔ وہ ان کے سروں پر بیٹھتی ہے اور صرف ان کی عقلوں ہی کو قائل نہیں کرتی بلکہ ان کے دلوں کوبھی مائل کرتی ہے کہ وہ خداتعالیٰ کے ارادہ سے ہم آہنگ اپنا ہاتھ اس شخص کے لئے کھڑا کریں جس کو خدا تعالیٰ خود قائم کرنا چاہتاہے۔ اس قانونِ الٰہی کو سمجھاتے ہوئے ہمارے آقا ومولیٰ، سیّد الانبیاء حضرت محمد مصطفی ﷺ بیان فرماتے ہیں:

’’لَقَد ھَمَمتُ أَو أَرَدتُ أَن أُرسِلَ اِئلٰی أَبِی بَکرٍ وَ ابنِہِ وَ أَعھَدَ أَن یَّقُولَ القَآءِلُونَ أَو یَتَمَنَّی المُتَمَنُّونَ ثُمَّ قُلتُ یَأبَی اللّٰہ ُ وَ یَدفَعُ المُؤمِنُونَ‘‘

(بخاری کتاب المرضیٰ باب قول المریض انّی وجع وا رأساہ)

کہ میں نے ایک دفعہ ارادہ کیا تھا کہ ابوبکرؓ اور آپؓ کے بیٹے کو بلاؤں اور خلافت کی وصیّت لکھ دوں تاکہ باتیں بنانے والے باتیں نہ بنا سکیں اور اس کی تمنّا کرنے والے اس کی خواہش نہ کریں۔ پھر میں نے کہاکہ اللہ تعالیٰ لازماً (ابو بکرؓ کے علاوہ کسی بھی دوسرے کا) انکار کر دے گا اور مومن بھی اسے ضرور ردّ کر دیں گے۔

آنحضرتﷺ کا یہ قول اس قانونِ خدا وندی اور عقیدہ اسلام کا روشن ترین اظہار ہے کہ خلیفہ خدا بناتا ہے۔ یہ ’’چڑیا‘‘ اسی کے سر پر بیٹھتی ہے جس پر بیٹھنے کا خد اتعالیٰ اسے حکم دیتا ہے۔ آنحضرت ﷺ کے بعداسی مرضی ٔ خدا کے مطابق حضرت ابوبکرؓ بھی خلیفہ بنے اور آپؓ کے بعد دیگر خلفاءؓ بھی۔ پھر دَورِ آخرین میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت میں خلافت علیٰ منہاج النبو ّۃ قائم ہوئی تو ہر خلیفہ کا انتخاب اسی قانون خداوندی کے مطابق عمل میں آیا۔

دَور آخرین میں اس کی ایک غیر معمولی مثال جو اس قانون الٰہی کوعملی رنگ میں روشن کرتی ہے، یہ ہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کی وفات کے بعدجماعت میں سب سے بڑا سوال خلیفۂ ثانی کے انتخاب کا تھا۔ اس وقت یہ مسئلہ پیدا ہوا کہ مولوی محمد علی صاحب (جو بعد میں لاہوری جماعت کے امیر بنے) یہ کوشش کر نے لگے کہ فی الحال جماعت کسی ایک خلیفہ کے ہاتھ پر جمع نہ ہوبلکہ کچھ عرصہ انتظار کر لیا جائے اور جب جماعت اچھی طرح سوچ لے تو پھر اس بارہ میں کوئی اقدام کیا جائے۔ اس بارہ میں وہ اپنے بعض ساتھیوں کے ہمراہ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کی علالت کے ایّام میں ہی تگ ودَو کرتے رہے تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی قائم کردہ صدرانجمن احمدیہ کے سیکرٹری ہونے کی وجہ سے انجمن کو جماعت کا نگران بنانے کی کوشش میں تھے۔چونکہ وہ صدر انجمن کے سیکرٹری تھے اس لئے ظاہر تھا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کی وفات کے بعد وہ خود ہی جماعت کے نگران متصور ہوں گے۔ یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیان فرمودہ تمثیل کے آئینہ میں ’’بڑے بڑے پرانے مرید جو تھے ان کے دل میں خیال گزرا کہ چڑیا ہمارے سر پر بیٹھے گی۔‘‘ لیکن حالات ایسے ہو گئے تھے کہ انہیں یقین ہو چکاتھا کہ اگر یہ فیصلہ اب ہوا تو یہ چڑیا ان کے سر پر نہیں بیٹھے گی۔ اس لئے انہوں نے یہ ترکیب سوچی کہ خلیفہ کے انتخاب کو معرضِ تاخیر میں ڈال کر کسی طرح ’’چڑیا‘‘ کو قابو کرنا چاہئے۔ مگر یہ حقیقت ان سے اوجھل رہی کہ خدا تعالیٰ کے کاموں پر کسی کو اختیار نہیں ہو سکتا۔ اس کی مرضی کو کوئی قابو نہیں کر سکتا۔ چنانچہ اکابر صحابہؓ، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اہلِ بیت اورجماعت کی اکثریت،سب اس عقیدہ کے حامل تھے کہ جلد از جلد خلیفہ کا انتخاب ہو اور سنّت کے مطابق خدا تعالیٰ کا قائم کردہ خلیفہ ہی حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کی نماز جنازہ پڑھائے اور جماعت دوبارہ اسلام کے قانون کے مطابق ایک ہاتھ پر جمع ہو۔ اس ماحول اور ان واقعات کا ذکر کرتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ بیان فرماتے ہیں:
’’ظہر کے بعد میں نے اپنے تمام رشتہ داروں کو جمع کیا اور ان سے اختلاف کے متعلق مشورہ طلب کیا۔ بعض نے رائے دی کہ جن عقائد کو ہم حق سمجھتے ہیں، ان کی اشاعت کے لئے ہمیں پوری طرح کوشش کرنی چاہئے۔اور ضرور ہے کہ ایسا آدمی خلیفہ ہو جس سے ہمارے عقائد متفق ہوں۔ مگر میں نے سب کو سمجھایا کہ اصل بات جس کا اس وقت ہمیں خیال کرنا چاہئے وہ اتفاق ہے۔ خلیفہ کا ہونا ہمارے نزدیک مذہباً ضروری ہے۔ پس

  • اگر وہ لوگ اس امر کو تسلیم کر لیں تو پھر مناسب یہی ہے کہ اوّل تو عام رائے لی جاوے۔

اگر اس سے وہ اختلاف کریں تو کسی ایسے آدمی پر اتفاق کر لیا جائے جو دونوں فریق کے نزدیک بے تعلق ہو۔
اور اگریہ بھی قبول نہ کریں تو ان لوگوں میں سے کسی کے ہاتھ پر بیعت کر لی جاوے اور میرے اصرار پر حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے تمام اہلِ بیت نے اس بات کو تسلیم کر لیا۔یہ فیصلہ کر کے میں اپنے ذہن میں خوش تھا کہ اب اختلاف سے جماعت محفوظ رہے گی۔ مگر خدا تعالیٰ کو کچھ اور ہی منظور تھا۔۔۔‘‘

’’میں باہر آیا تو مولوی محمد علی صاحب کا رقعہ مجھے ملا کہ کل والی گفتگو کے متعلق ہم پھر گفتگو کرنا چاہتے ہیں۔میں نے ان کو بلوا لیا۔ اس و قت میرے پاس مولوی سیّد محمداحسن صاحب، خان محمد علی صاحب اور ڈاکٹر خلیفہ رشید الدّین صاحب موجود تھے۔ مولوی صاحب بھی اپنے بعض احباب سمیت وہاں آگئے اورپھر کل کی بات شروع ہوئی۔ میں نے پھر اس امر پر زور دیا کہ خلافت کے متعلق آپ بحث نہ کریں۔ صرف ا س امر پر گفتگو ہو کہ خلیفہ کون ہو۔ اور وہ اس بات پر مصر تھے کہ نہیں۔ ابھی کچھ بھی نہ ہو۔کچھ عرصہ تک انتظار کیا جاوے۔ سب جماعت غور کرے کہ کیا کرنا چاہئے۔پھر جو متفقہ فیصلہ ہو اس پر عمل کیا جاوے۔ میرا جواب وہی کل والا تھا اور پھرمیں نے ان کو یہ بھی کہا کہ اگر پھر بھی اختلاف ہی رہے تو کیا ہو گا۔ اگر کثرت رائے سے فیصلہ ہونا ہے تو ابھی کیوں کثرت رائے پر فیصلہ نہ ہو۔………….. اس وقت جماعت کو تفرقہ سے بچانے کی فکر ہونی چاہئے۔ جب سلسلہ گفتگو کسی طرح ختم ہوتا نظر نہ آیا اور باہر بہت شور ہونے لگا اور جماعت کے حاضر الوقت اصحاب اس قدر جوش میں آگئے کہ دروازہ توڑے جانے کا خطرہ ہو گیااور لوگوں نے زور دیا کہ اب ہم زیادہ صبر نہیں کر سکتے۔ آپ لوگ کسی امر کو طے نہیں کرتے اور جماعت اس وقت بغیر کسی رئیس کے ہے۔تو میں نے مولوی محمد علی صاحب سے کہاکہ بہتر ہے کہ باہر چل کرجو لوگ موجود ہیں ان سے مشورہ لے لیا جائے۔ا س پر مولوی محمد علی صاحب کے منہ سے بے اختیار نکل گیا کہ آپ یہ بات اس لئے کہتے ہیں کہ آپ جانتے ہیں کہ وہ لوگ کسے منتخب کریں گے۔

اس پر میں نے ان سے کہا کہ نہیں میں تو فیصلہ کر چکا ہوں کہ آپ لوگوں میں سے کسی کے ہاتھ پر بیعت کر لوں۔ مگر اس پر بھی انہوں نے یہی جواب دیا کہ نہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ ان لوگوں کی کیا رائے ہے یعنی وہ آپ کو خلیفہ مقرر کریں گے۔اس پر میں اتفاق سے مایوس ہو گیا اور میں نے سمجھ لیا کہ خدا تعالیٰ کا منشا کچھ اور ہے۔ کیونکہ باوجود اس فیصلہ کے جو میں اپنے دل میں کر چکا تھا میں نے دیکھا کہ یہ لوگ صلح کی طرف نہیں آتے اور مولوی محمد علی صاحب کی مخالفت خلافت سے بوجہ خلافت کے نہیں بلکہ اس لئے ہے کہ ان کے خیال میں جماعت کے لوگ کسی اور کو خلیفہ بنانے پر آمادہ تھے۔‘‘

(حیات نور صفحہ728 تا 730 مطبوعہ1963ء پنجاب پریس وطن بلڈنگ لاہور)

یہ واقعہ تاریخ اسلام کا ایک اہم ترین واقعہ ہے جو واقعاتی لحاظ سے ایک ناقابلِ تردید اور قطعی ثبوت مہیّا کرتا ہے کہ خلیفہ خدا بناتا ہے۔

حضرت مصلح موعودؓ نے اس واقعہ کی تفصیل ’’خلافتِ راشدہ‘‘ (انوار العلوم جلد15 صفحہ497تا 501) میں اور اپنی تصنیف ’’اختلافاتِ سلسلہ کی تاریخ کے صحیح حالات‘‘ (صفحہ122تا 124 مطبوعہ الشرکۃ الاسلامیہ ربوہ) اور اپنے درس القرآن میں بھی بیان فرمائی ہے۔

مولوی محمد علی صاحب جو حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کی زندگی میں ہی جماعت کے انتظام و انصرام اوراختیارو اقتدار کو اپنے ہاتھ میں لینے کی سر توڑ کوشش کرتے رہے تھے اور ایک مہم کے طور پر اپنے اخبار ’’پیغام‘‘ کے ذریعہ اور اشتہارات اور ٹریکٹوں کی اشاعت کے ساتھ مسلسل جد ّو جہد میں تھے کہ کسی طرح خلیفہ ٔ وقت انجمن کے تحت ہو جائے۔ یعنی وہ ان کے دفتر کے ماتحت ہو اور اصل اقتدار انجمن کایعنی ان کا اپنا ہو۔ اسی کے لئے وہ خلافت ِ ثانیہ کے انتخاب میں تا خیر کے لئے کوشاں تھے تاکہ جماعت کچھ عرصہ تک انجمن کے انتظام کے تحت رہنے کی عادی ہو جائے گی تو پھر خلیفہ کے انتخاب کی ضرورت نہ رہے گی۔ لہٰذا جماعت پران کا اقتدارقائم ہو جائے گا۔لیکن خدا تعالیٰ کی غالب تقدیر کے تحت یہ ہوا کہ عین اس وقت جب حضرت صاحبزادہ مرزا محمود احمد صاحب (خلیفۃ المسیح الثانیؓ) ان کو خلیفہ بن جانے اور خود ان کے ہاتھ پر بیعت کرنے کی پیشکش کرتے ہیں تو وہی مولوی محمد علی صاحب اس پیشکش کو قبول کرنے سے انکار کر دیتے ہیں۔ حالانکہ یہی اُن کے لئے نادر موقع تھا کہ اگر وہ حضرت صاحبزادہ صاحب کی اس پیشکش کو قبول کر لیتے تو انہیں ان کے خوابوں کی تعبیراور جدّوجہد کی منزل مل جاتی اور وہ جماعت احمدیہ کے امام بن جاتے۔ لیکن ایک حتمی اور فیصلہ کن گھڑی میں مولوی محمد علی صاحب کا جماعت کا امام بننے سے پہلو تہی کر جانا خدا تعالیٰ کے اس تصرّف کی پختہ ترین دلیل ہے کہ خدا تعالیٰ جس کو چاہتا ہے خود خلیفہ بناتا ہے۔ اور وہ ’’سبز چڑیا‘‘ اسی کے سر پر بیٹھتی ہے جس پر بیٹھنے کا اسے اذن ہوتا ہے۔اس کے برعکس جسے اللہ تعالیٰ اس کا اہل نہیں سمجھتا، لوگ سرتوڑ کوشش بھی کریں تو بھی سرِلب لائے ہوئے پیالہ کواس کے منہ سے نہیں لگا سکتے۔

الٰہی انتخاب کے منظر

سوال یہ تھا کہ انسانوں کا منتخب کردہ شخص خدا تعالیٰ کی طرف کس طرح منسوب ہوتا ہے؟ اسے خدا تعالیٰ کا انتخاب کیونکر قرار دیا جاتا ہے؟

اس کا بنیادی اور تفصیلی جواب تو اوپر دیا جا چکا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ’’لَیَسۡتَخۡلِفَنَّہُمۡ‘‘ میں اس انتخاب کو اپنی طرف منسوب کیا ہے۔ اسی طرح خلافت کے لئے رسول اللہ ﷺ کی حضرت ابوبکرؓ کے بارہ میں پیشگوئی کرنے کے سلسلہ میں ارشاد کہ اللہ تعالیٰ بھی ابوبکرؓ کے علاوہ کسی اور شخص کا انکار کر دے گا اور مومن بھی انکار کر دیں گے۔ نیز حضرت علیؓ نے جو خط امیر معاویہ کو لکھا، اس میں انہوں نے منطقی اور واقعاتی دلیل یہ دی کہ جن لوگوں نے میری بیعت کی ہے یہ وہ لوگ ہیں کہ جب یہ کسی شخص کے ساتھ کھڑے ہو جائیں اور اسے اپنا امام مان لیں تو رضائے باری تعالیٰ اس شخص کے شاملِ حال ہو جاتی ہے۔ یہ دلائل ناقابلِ تردید ہیں اور یہی خلافت کے قیام کے لئے انسانوں کے ووٹوں کے عمل کو اللہ تعالیٰ کی مرضی اور تقدیر ہونے کے پُر از یقین ثبوت مہیّا کرتے ہیں۔

اس تقدیر کے عملی مناظر کیا ہیں؟ ان کا جائزہ لیں تو یہ حقیقت مدّ نظر رکھنی چاہئے کہ رسول اللہ ﷺ کے بعد خلافتِ راشدہ کے قیام اور ان چار خلفائے راشدہ کی خلافت کے برحق ہونے سے کوئی شخص انکار نہیں کرتا نہ کر سکتا ہے۔ لیکن وہ چار خلفاءؓ کس طرح خلیفہ بنے اور ان کا انتخاب کس طرح الٰہی انتخاب کہلایا؟ وہ مناظر یہ ہیں:

1: حضرت ابوبکرؓ پہلے خلیفۂ راشد اس طرح خلیفہ بنے کہ انصار کے ایک چھپّر میں وہ اس رائے پر متفق تھے کہ رسول اللہ ﷺ کے بعد مسلمانوں کا امیر انصار میں سے ہو گا۔ وہاں حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ اور حضرت ابوعبیدہ بن الجرّاحؓ تشریف لے جاتے ہیں اور تھوڑی سی گفتگو اور حضرت عمرؓ کی مختصر سی تقریر کے بعد سب نے حضرت ابوبکرؓ کی بطور خلیفۃ الرسولؐ و امیر المؤمنین بیعت کر لیتے ہیں۔ اسی طرح آپؓ پہلے خلیفۂ راشد ہو گئے۔ آپؓ کے اس انتخاب کو اللہ تعالیٰ کا انتخاب اور اس کی رضا و مرضی قرار دیا گیا۔

یہ سوال اٹھانے والے بھی اس انتخاب کو الٰہی انتخاب ہی قراردیتے ہیں۔ اس الٰہی انتخاب سے وہ انکار کرتے ہیں نہ کر سکتے ہیں۔

2: دوسرے راشد خلیفہ حضرت عمرؓ تھے۔ ان کا انتخاب بلکہ ایک پہلو سے نامزدگی اس طرح ہوئی کہ حضرت ابوبکرؓ نے اپنی مرض الموت میں چند صحابہؓ سے مشورہ کیا اور حضرت عمرؓ کو اپنے بعد خلیفہ مقرر فرما دیا۔ آپؓ کا یہ عمل یا حضرت عمرؓ کی خلافت الٰہی انتخاب اور الٰہی رضا و مرضی قرار پائی۔ اس خلافت کے برحق اور الٰہی ہونے سے سوال کرنے والے نہ انکار کرتے ہیں نہ کر سکتے ہیں۔

3: حضرت عثمانؓ تیسرے خلیفۂ راشد تھے۔ ان کا انتخاب چھ افراد کی کمیٹی نے کیا جو حضرت عمرؓ نے ترتیب دی تھی۔ اس کمیٹی کا انتخاب اللہ تعالیٰ کا انتخاب قرار پایا۔ اس خلافت کے برحق اور الٰہی ہونے سے سوال کرنے والے نہ انکار کر تے ہیں نہ کر سکتے ہیں۔

4: چوتھے خلیفۂ راشد حضرت علیؓ تھے۔ حضرت عثمانؓ کی شہادت کے بعد صحابہؓ اور مومنینِ مدینہ نے حضرت علیؓ سے خلیفۃ الرسولؐ اور امیر المؤمنین بننے پر اصرار کیا مگر آپؓ نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ آپؓ امیر کی بجائے وزیر بننا زیادہ پسند کرتے ہیں۔ وہ لوگ سوچ و بچار کر کے دوبارہ آپؓ کے پاس آئے اور پُر زور اصرار کیا اور ایک طرح کی زبردستی سے آپؓ کی بیعت کر لی اور آپؓ خلیفۂ راشد قرار پا گئے۔ اور آپؓ کی خلافت الٰہی انتخاب کے تحت قائم شدہ خلافت قرار پائی۔ اس انتخاب کے الٰہی انتخاب ہونے سے کوئی شخص انکار نہیں کرتا نہ کر سکتا ہے۔

اس کے بعد وہ خلافت ہے جس کے آخری زمانہ میں قیام کی خبر رسول اللہ ﷺ نے خلافت علیٰ منہاج النبو ّۃ کے نام سے دی تھی۔ یعنی یہ خلافت بھی اسی طرح خلافتِ راشدہ ہوگی جس طرح پہلے دور میں خلافت نبو ّت کے معیار پرتھی۔ چنانچہ اس دور میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد بھی خلافت کا قیام اسی طریق اور منظر میں ہوا جس طرح حضرت ابوبکرؓ کی خلافت کا قیام ہوا تھا۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وصال کے بعد بغیر کسی استثناء کے سب افرادِ جماعت نے متفق ہو کرحضرت مولوی حکیم نور الد ّینؓ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا خلیفہ اور امیر المؤمنین تسلیم کیا اور آپؓ کی بیعت کی۔

انتخابِ خلافت پر سوال اٹھانے والے اس خلافت کو برحق خلافت تسلیم کرتے ہیں۔ کوئی اس کا انکار نہیں کرتا نہ کر سکتا ہے۔

خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کی وفات کے بعد جو حالات پیدا ہوئے ان کا کچھ ذکر اوپر کی سطروں میں گزر چکا ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ کی مرضی اس طرح حضرت صاحبزاہ مرزا بشیر الدین محمود احمدؓ کے حق میں ظاہر ہوئی کہ آپؓ مسجد میں تشریف لے گئے تو وہاں پر بکثرت موجود تمام لوگوں نے آپؓ کو خلیفۃ المسیح اور امیر المؤمنین قرار دے کرآپؓ کی بیعت کر لی۔

پھر ایک لمبا زمانہ گزرنے کے بعد جماعت کی چار سُو ترقی کے پیش نظر ضرورت سمجھی گئی کہ انتخابِ خلافت کے نظام کواس طرح منظّم اور منضبط طریق پر قائم کرنا چاہئے کہ کسی فتنہ کا دخل نہ رہے اور وعدہ الٰہی کے مطابق جماعت میں خلافت ہمیشہ قائم رہے۔ چنانچہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے 1956ء میں اللہ تعالیٰ کی منشاء کے مطابق ’’انتخاب خلافت کمیٹی‘‘ تشکیل فرمائی۔ اس میں جماعت کے مرکزی دفاتر کے سربراہ، اکابر مبلغین کرام اور جماعتوں کے سرکردہ افراد و غیرہ شامل فرمائے۔ یہ ایک بڑی کمیٹی ہے جو ایمان و عملِ صالح، نیکی، تقوی، خشیت اللہ، ایثار اور خدمت ِاسلام میں نمایاں حیثیت کے حامل ہیں۔ آیتِ استخلاف کے آئینہ میں دیکھا جائے تواس سے بہتر کمیٹی ممکن نہیں ہے۔ آپؓ نے اس کی تشکیل فرمائی اور اعلان فرمایا:
’’جب بھی انتخابِ خلافت کا وقت آئے اور مقررہ طریق کے مطابق جو بھی خلیفہ چُنا جائے مَیں اس کو ابھی سے بشارت دیتا ہوں کہ اگر اس قانون کے ماتحت وہ چُنا جائے گا تو اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ ہوگا اور جو بھی اس کے مقابل کھڑا ہوگا وہ بڑا ہو یا چھوٹا ذلیل کیا جائے گا اور تباہ کیا جائے گا کیونکہ ایسا خلیفہ صرف اس لئے کھڑا ہوگا کہ حضرت مسیحِ موعود علیہ الصلوٰۃ والسّلام اور محمد رسول اللہﷺ کی اس ہدایت کو پورا کرے کہ خلافتِ اسلامیہ ہمیشہ قائم رہے‘‘

(خلافتِ حقّہ اسلامیہ صفحہ17)

پھر فرمایا:
’’پس مَیں ایسے شخص کو جس کو خدا تعالیٰ خلیفہ ثالث بنائے ابھی سے بشارت دیتا ہوں کہ اگر وہ خدا تعالیٰ پر ایمان لا کر کھڑا ہوجائے گا تو….. اگر دنیا کی حکومتیں بھی اس سے ٹکّر لیں گی تو وہ ریزہ ریزہ ہوجائیں گی۔‘‘

(خلافتِ حقّہ اسلامیہ صفحہ18)

حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے اس اعلان کی صداقت ہم نے اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کی ہے کہ اس خلافت علیٰ منہاج النبوّۃ سے جو حکومت ٹکرائی، اللہ تعالیٰ نے اس کے پرخچے اڑا دئیے۔ یہ اس کمیٹی کے برحق اور اس کے ذریعہ منتخبہ خلافت کے الٰہی خلافت ہونے کا ناقابلِ تردید ثبوت ہے جس کی تائید میں اللہ تعالیٰ کی فعلی شہادت کھڑی ہے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی وفات کے بعد خلافتِ ثالثہ کا انتخاب عمل میں آیا اور آپؒ کے بعد خلافتِ رابعہ اور خلافتِ خامسہ کا انتخاب ہوا

دنیا میں ہر سُوجماعت کی بڑھتی ہوئی تعداد اور وسعت کے پیش نظر بعد میں آیتِ استخلاف میں مذکورہ اصولوں کے تحت اس کمیٹی میں ترمیم بھی ہوئی۔ مگر یہ قطعی بات ہے کہ اس کمیٹی سے بہتر کوئی اور کمیٹی نہیں ہو سکتی جو منشاء و رضائے الٰہیہ کے عین مطابق ہو۔ یہ انتخاب اگر خدا تعالیٰ کی مرضی کے مطابق قرار نہیں پاتا تو پہلی تمام خلافتوں کے انتخاب اوّل طور پرہدفِ اعتراض ٹھہرتے ہیں۔ دوسری طرف اللہ تعالیٰ کی فعلی شہادت یہ ہے کہ ان انتخابوں کے ذریعہ منتخب خلفاء کی وہ خود تائیدو نصرت فرماتا ہے۔ اس نے آیتِ استخلاف میں مذکورہ خلافت حقّہ سے وعدوں کوان کے ساتھ اسی طرح پورا فرمایا جس طرح اس نے پہلی خلافتوں کے ساتھ پورا فرمایا تھا۔ چنانچہ اس کا منطقی اور شرعی نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ انتخاب خلافت کمیٹی شریعت اور منشائے الٰہیہ کے عین مطابق ہے اور اسی کے ذریعہ منتخب ہونے والے خلیفہ کا انتخاب الٰہی انتخاب ہے۔

تعجب اس بات پر ہے کہ اس انتخاب سے پہلے پانچ خلفاء کے انتخابوں پر کوئی سوال نہیں اٹھاتا نہ اٹھا سکتا ہے مگر اسی منہاج، معیار اور اسی طرز پر خلافت ِ ثانیہ اور اس کے بعد کی خلافتوں کے انتخاب کو ہدف اعتراض بنایا جاتا ہے۔حالانکہ انتخاب خلافت کمیٹی پہلے انتخابوں کی نسبت زیادہ منظم، منضبط اور قوی طریق مہیّا کرتی ہے۔پس اس کے ذریعہ انتخاب اگر نشانۂ اعتراض ہوسکتا ہے تو پہلی خلافتوں کے انتخاب بدرجہ اَولیٰ اعتراضات کا مَورد بنتے ہیں۔

الغرض یہ اعتراض کہ انسانوں کا انتخاب کس طرح الٰہی انتخاب کہلاتا ہے، ایسا سوال ہے کہ جس کا جواب خود دورِ اوّل اور دورِ آخر کی علیٰ منہاج النبوۃ راشدہ خلافتوں کے انتخاب مہیّا کرتے ہیں۔ فالحمد للّٰہ ربّ العٰلمین۔

حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ خلیفہ، اللہ تعالیٰ ہی بناتا ہے۔ اگر بندوں پر اس کو چھوڑا جاتا تو جو بھی بندوں کی نگاہ میں افضل ہوتا اسے ہی وہ اپنا خلیفہ بنا لیتے۔ لیکن خلیفہ خود اللہ تعالیٰ بناتا ہے اور اس کے انتخاب میں کوئی نقص نہیں۔ وہ اپنے ایک کمزور بندے کو چنتا ہے جسے وہ بہت حقیر سمجھتے ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ اس کو چن کر اس پر اپنی عظمت اور جلال کا ایک جلوہ کرتا ہے اور جو کچھ وہ تھا اور جو کچھ اس کا تھا اس میں سے وہ کچھ بھی باقی نہیں رہنے دیتا اور خدا تعالیٰ کی عظمت اور جلال کے سامنے کلی طور پر فنا اور بے نفسی کا لبادہ وہ پہن لیتا ہے۔‘‘

(الفضل ربوہ 17مارچ 1967ء)

(ہادی علی چوہدری۔ نائب امیر کینیڈا)

پچھلا پڑھیں

یوکرائن سے لٹویا آنے والے پناہ گزینوں کی امداد

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 26 مئی 2022