• 25 اپریل, 2024

سچائی ایک ایسی چیز ہے جو نبی کے سچا ہونے کے لئے اور تبلیغ کے لئے ایک بہت بڑا ذریعہ ہے

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے اللہ تعالیٰ اس کو پورا فرماتا چلا جا رہا ہے۔ یہ جلسے کرتے ہیں جلوس نکالتے ہیں ظلم کرتے ہیں۔ اب سات ستمبر کے حوالے سے پاکستان میں جلسے ہوئے، ربوہ میں بھی جلسہ ہوا۔ بڑے بڑے علماء، جو ان کے چوٹی کے علماء آتے ہیں، آئے اور جلسوں کا نام رکھا ہوتا ہے ’تاجدارِ ختمِ نبوت کانفرنس‘، اور وہاں سوائے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو گالیاں دینے کے جماعت کے خلاف یاوہ گوئی کرنے کے اور کچھ نہیں ہو رہا ہوتا۔ ساری رات اسی طرح کی بیہودہ گوئی کرتے چلے جاتے ہیں اور پھر اللہ اور رسول کے نام پر۔ تو بہرحال یہ تو ان کا حال ہے لیکن اُس کے باوجود اللہ تعالیٰ کی تقدیر چل رہی ہے اور جماعت کے قدم آگے سے آگے بڑھتے چلے جارہے ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ کی یہ تقدیر نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ اگر اپنے وعدوں کو پورا نہ کرے اور اُس کے بھیجے ہوئے غالب نہ آئیں تو پھر اللہ تعالیٰ تو نعوذ باللہ اپنے وعدوں میں غلط ثابت ہو اور دین پر سے انبیاء پر سے خدا تعالیٰ پر سے دنیا کا ایمان اُٹھ جائے۔ پس اللہ تعالیٰ تو اس ایمان کو قائم رکھنے کے لئے نیک فطرتوں کے ایمانوں کو بڑھانے کے لئے ایسے نظارے دکھاتا ہے جو ہر لمحہ اُن کے ایمان میں تقویت کا باعث بنتے ہیں۔ کچھ پرانے قصوں میں سچائی کے واقعات بیان کر کے اپنے ماننے والوں کے ایمان کو مضبوط کرتے ہیں، کچھ تازہ واقعات بیان کر کے اپنے دین کے بانی اور ان کے سچے ہونے کے واقعات سے متاثر کرتے ہیں اور اُس کے ماننے والے متاثر ہوتے ہیں، کچھ کو اللہ تعالیٰ اپنے بھیجے ہوئے کی سچائی کے بارے میں اطلاع دے کر رہنمائی فرماتا ہے۔ بہر حال مختصر یہ کہ اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے کی سچائی اور صدق ہی اُسے اپنے وقت میں، اپنی زندگی میں یعنی اُس نبی کی زندگی میں اُس فرستادے کی زندگی میں لوگوں کی توجہ کھینچنے کا ذریعہ بناتا ہے اور کچھ بعد میں دین کی ترقیات دیکھ کر، ماننے والوں کے عمل دیکھ کر، اُس جماعت کو دیکھ کر جو اُس نبی کے ساتھ جُڑی ہوتی ہے، خدا کی طرف سے رہنمائی پاکر ہدایت پاتے ہیں۔ بہر حال جب ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی پر غور کرتے ہیں تو آپ کو لوگ، اُس زمانے کے کفار بھی صدوق و امین کے نام سے ہی جانتے تھے۔

(السیرۃ النبویۃ لابن ہشام، حدیث بنیان الکعبۃ… صفحہ155، ما دار بین رسول اللہﷺ وبین رؤساء قریش صفحہ 224 دارالکتب العلمیۃ بیروت 2001ء)

یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی ہی تھی کہ جب آپ نے اپنے عزیزوں اور مکّہ کے سرداروں کو جمع کر کے کہا کہ اگر مَیں تمہیں کہوں کہ اس ٹیلے کے پیچھے ایک فوج چھپی ہوئی ہے جو تمہیں نظر نہیں آ رہی تو کیا یقین کر لو گے۔ جو بظاہر ناممکن بات تھی کہ اُس کے پیچھے کوئی فوج چھپی ہو یہ ہو نہیں سکتا کہ نظر نہ آئے۔ لیکن اس کے باوجود سب نے یک زبان ہو کر کہا کہ اے محمد! (صلی اللہ علیہ وسلم) تُو نے کبھی جھوٹ نہیں بولا اس لئے ہم یقین کر لیں گے۔

(صحیح بخاری کتاب التفسیر، سورۃ تبت یدا ابی لہب باب 1/1 حدیث نمبر 4971)

پھر آپ نے اُن لوگوں کو تبلیغ کی۔ لیکن یہ دنیا دار لوگ تھے۔ جو پتھر دل تھے اُن پر تو اس کا کوئی اثر نہیں ہوا، اُن کے انجام بھی بد ہوئے، کچھ بعد میں مسلمان ہوئے۔

تو بہر حال انبیاء اپنی سچائی سے ہی دنیا کو اپنی طرف بلانے کے لئے قائل کرتے ہیں۔ قرآنِ کریم نے بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تبلیغ کے ذکر کو بیان فرماتے ہوئے قرآنِ کریم میں آپ کے یہ الفاظ محفوظ فرمائے ہیں کہ فَقَدْ لَبِثْتُ فِیْکُمْ عُمُراً مِّن قَبْلِہِ أَفَلاَ تَعْقِلُونَ (سورۃ یونس: 17) یعنی پس میں اس سے پہلے بھی تمہارے درمیان ایک عمر گزار چکا ہوں کیا تم عقل نہیں کرتے۔ یہ وہ دلیل ہے جو نبوت کی سچائی اور خدا تعالیٰ کی طرف سے بھیجے جانے کے متعلق دی کہ مَیں نے ایک عمر تمہارے درمیان گزاری ہے کبھی جھوٹ نہیں بولا اب بوڑھا ہونے کو آیا ہوں تو کیا اب جھوٹ بولوں گا اور وہ بھی خدا تعالیٰ پر؟ جس نے جھوٹ کو شرک کے برابر قرار دیا ہے اور یہ بھی میری تعلیم میں درج ہے۔ اور مَیں تو آیا ہی توحید کے قیام کے لئے ہوں۔ پس یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جواب تھا۔ پس انبیاء کی تبلیغ کا بہت بڑا ذریعہ اور ہتھیار اُن کی سچائی کا اظہار ہوتا ہے۔ اُن کی زندگی کے ہر پہلو میں سچائی کی چمک ہوتی ہے جس کا حوالہ دے کر وہ اپنی تبلیغ کرتے ہیں اپنا پیغام پہنچاتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھی یہ الہام ہوا کہ وَلَقَدْ لَبِثْتُ فِیْکُمْ عُمُرًا مِّنْ قَبْلِہٖ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ اور مَیں ایک عمر تک تم میں رہتا رہا ہوں کیا تم کو عقل نہیں۔ اس بارے میں ’’نزول المسیح‘‘ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’قریباً 1884ء میں اللہ تعالیٰ نے مجھے اس وحی سے مشرف فرمایا کہ وَلَقَدْ لَبِثْتُ فِیْکُمْ عُمُراً مِّن قَبْلِہِ أَفَلاَ تَعْقِلُونَ۔ اور اس میں عالم الغیب خدا نے اس بات کی طرف اشارہ کیا تھا کہ کوئی مخالف کبھی تیری سوانح پر کوئی داغ نہیں لگا سکے گا۔ چنانچہ اس وقت تک جو میری عمر قریباً 65 سال ہے (جب آپ نے یہ لکھا فرمایا کہ میری عمر پینسٹھ سال ہے) کوئی شخص دُور یا نزدیک رہنے والا ہماری گزشتہ سوانح پر کسی قسم کا کوئی داغ ثابت نہیں کرسکتا بلکہ گزشتہ زندگی کی پاکیزگی کی گواہی اللہ تعالیٰ نے خود مخالفین سے بھی دلوائی ہے جیسا کہ مولوی محمد حسین صاحب نے نہایت پُرزور الفاظ میں اپنے رسالہ اشاعۃ السنۃ میں کئی بار ہماری اور ہمارے خاندان کی تعریف کی ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ اس شخص کی نسبت اور اس کے خاندان کی نسبت مجھ سے زیادہ کوئی واقف نہیں اور پھر انصاف کی پابندی سے بقدر اپنی واقفیت کے تعریفیں کی ہیں۔ پس ایک ایسا مخالف جو تکفیر کی بنیاد کا بانی ہے پیشگوئی وَلَقَدْ لَبِثْتُ فِیْکُمْ کا مصدق ہے‘‘۔

(نزول المسیح، روحانی خزائن جلد18 صفحہ590)

پس سچائی ایک ایسی چیز ہے جو نبی کے سچا ہونے کے لئے اور تبلیغ کے لئے ایک بہت بڑا ذریعہ ہے، تبھی تو اللہ تعالیٰ بھی اپنے انبیاء کی اس بات کو کہ مَیں ایک عمر تک تم میں رہا ہوں کبھی جھوٹ نہیں بولا کیا اب بولوں گا، اس بات کو اپنے پیاروں کی ایک بہت بڑی خاصیت اور صفت کے طور پر پیش فرماتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بارے میں یہ اقتباس بھی جو پڑھا ہے، آپ نے سنا۔ جب آپ کی سیرت پر دشمن بھی داغ نہیں لگا سکے تو سچائی جو سیرت کا سب سے اعلیٰ وصف ہے اس کے بارے میں کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ نعوذ باللہ آپ جھوٹے ہیں۔ آجکل کے مولوی یا جو بھی اعتراض کرنے والے ہیں جو مرضی کہتے رہیں۔ ہاں منہ سے بَک بَک کرتے ہیں کرتے رہیں لیکن کسی بات کو ثابت نہیں کر سکے۔ اور آج بھی جو لوگ نیک نیت ہیں اور نیک نیت ہو کر خدا تعالیٰ سے ہدایت اور مدد مانگتے ہیں، اللہ تعالیٰ اُن پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سچائی ثابت فرماتا ہے۔

ابھی گزشتہ جمعہ پر مَیں نے بعض واقعات بیان کئے تھے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سچائی کی تصدیق فرمائی جن لوگوں نے خالص ہو کر نیک نیت ہو کر اللہ تعالیٰ سے مدد اور دعا مانگی۔ پس یہ سچائی ہے جس کو انبیاء لے کر آتے ہیں جس کا اظہاراُن کی زندگی کے ہر پہلو سے ہوتا ہے اور یہ سچائی ہی ہے جس کو ہم نے (جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ماننے والے ہیں ) دنیا پر ظاہر کرنا ہے۔ کیونکہ انبیاء کے ماننے والوں کا بھی کام ہے کہ جس نبی کو وہ مانتے ہیں اُس کی سچائی کے بارے میں بھی دنیا کو بتائیں۔ اُنہیں بھی ہدایت کے راستوں کی طرف لائیں اور اس زمانے میں اسلام ہی وہ آخری مذہب ہے جو سب سچائیوں کا مرکز ہے۔ یہی وہ واحد مذہب ہے جو اپنی تعلیم کو اصلی حالت میں پیش کرتا ہے۔ یہی وہ واحد مذہب ہے جس میں ابھی تک خدا تعالیٰ کی کتاب اپنی اصل حالت میں موجود ہے اور ان شاء اللہ قیامت تک موجود رہے گی۔ یہ قرآنِ کریم کا دعویٰ ہے جو سچائی اور ہدایت کا سرچشمہ ہے۔ باقی سب مذہبی کتب میں کہانیوں اور قصوں اور جھوٹ کی ملونی ہوچکی ہے۔ پس اس سچائی سے دنیا کو روشناس کروانا ایک مسلمان کا فرض ہے۔ لیکن مسلمانوں کی اکثریت تو خود غلط کاموں میں پڑی ہوئی ہے جیسا کہ پہلے بھی میں نے بیان کیا وہ کسی کو سچائی کا کیا راستہ دکھائیں گے۔

ایک موقع پر غیروں کے ساتھ ایک مجلس ہو رہی تھی۔ اکثریت عیسائی تھے، اکثریت کیا بلکہ تمام ہی عیسائی تھے۔ تو یہی باتیں ہو رہی تھیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام یہ پیغام لے کر آئے ہیں اور تمام دنیا کے لئے پیغام ہے، مسلمانوں کے لئے بھی ہے، عیسائیوں کے لئے بھی ہے اور ان شاء اللہ تعالیٰ جو نیک فطرت ہیں وہ آپ کے ہاتھ پر جمع ہوں گے، چاہے وہ عیسائی ہوں یا ہندو ہوں یا کوئی ہو۔ تو اُس عیسائی نے ایک بات کی غالباً کسی یونیورسٹی کا پروفیسر تھا لیکن مذہب سے اُس کا کافی تعلق تھا۔ مجھے کہنے لگا پہلے مسلمانوں کی اصلاح کر لیں پھر ہماری عیسائیوں کی اصلاح کریں۔ تو بہر حال اُس کو جواب تو میں نے اُس وقت دیا لیکن یہ حقیقت ہے کہ مسلمانوں کی اصلاح ہونا ضروری ہے اور مسلمانوں کی وجہ سے ہی بعض دفعہ شرمندگی اُٹھانی پڑتی ہے۔ لیکن بہرحال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام تو اس لئے آئے تھے تا کہ مسلمانوں کی بھی اصلاح کریں اور مسلمانوں کے لئے ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی حکم فرمایا تھا کہ جب وہ امام مہدی آئے تو تم اُس کوماننا، چاہے برف کی سِلوں پر جا کر ماننا پڑے۔

(سنن ابن ماجہ کتاب الفتن باب خروج المہدی حدیث نمبر 4084)

(خطبہ جمعہ 9؍ ستمبر 2011ء)

پچھلا پڑھیں

حضور ایدہ اللہ کا لائیو خطاب

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 26 جون 2021