• 1 مئی, 2024

ایک مسلمان کو کیسا ہونا چاہئے

اسلام کی حقیقت کیا ہے اور ایک مسلمان کو کیسا ہونا چاہئے اور ایک مسلمان کو خدا تعالیٰ کا قرب کس معیار تک پہنچاتا ہے، آپ فرماتے ہیں کہ
’’اسلام کی حقیقت یہ ہے کہ اپنی گردن خدا کے آگے قربانی کے بکرے کی طرح رکھ دینا۔ اور اپنے تمام ارادوں سے کھوئے جانا اور خدا کے ارادہ اور رضاء میں محو ہو جانا۔ اور خدا میں گُم ہو کر ایک موت اپنے پروارد کر لینا اور اس کی محبت ذاتی سے پورا رنگ حاصل کر کے محض محبت کے جوش سے اس کی اطاعت کرنا نہ کسی اور بناء پر۔ اور ایسی آنکھیں حاصل کرنا جو محض اس کے ساتھ دیکھتی ہوں۔ اور ایسے کان حاصل کرنا جو محض اس کے ساتھ سنتے ہوں۔ اور ایسا دل پیدا کرنا جو سراسر اس کی طرف جھکا ہوا ہو۔ اور ایسی زبان حاصل کرنا جو اس کے بلائے بولتی ہو۔ یہ وہ مقام ہے جس پر تمام سلوک ختم ہو جاتے ہیں اور انسانی قویٰ اپنے ذمہ کا تمام کام کر چکتے ہیں۔ …‘‘ (سلوک کا مطلب یہ ہے کہ انسان خدا تعالیٰ کو پانے کے لئے کوشش کر کے ہر قسم کی مشکلات میں سے بھی گزرے اور خدا تعالیٰ کو حاصل کرنے کی کوشش کرے۔)

پھر فرمایا: ’’… اور پورے طور پر انسان کی نفسانیت پر موت وارد ہو جاتی ہے تب خدا تعالیٰ کی رحمت اپنے زندہ کلام اور چمکتے ہوئے نوروں کے ساتھ دوبارہ اُس کو زندگی بخشتی ہے اور وہ خدا کے لذیذ کلام سے مشرف ہوتا ہے اور وہ دقیق در دقیق نور جس کو عقلیں دریافت نہیں کر سکتیں اور آنکھیں اس کی کُنہ تک نہیں پہنچتیں وہ خود انسان کے دل سے نزدیک ہو جاتا ہے۔ جیسا کہ خدا فرماتا ہے۔ نَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ (ق: 17)۔ یعنی ہم اس کی شاہ رگ سے بھی زیادہ اُس سے نزدیک ہیں۔ پس ایسا ہی وہ اپنے قرب سے فانی انسان کو مشرف کرتا ہے۔ تب وہ وقت آتا ہے کہ نابینائی دُور ہوکر آنکھیں روشن ہو جاتی ہیں اور انسان اپنے خدا کو اُن نئی آنکھوں سے دیکھتا ہے۔ اور اُس کی آواز سنتا ہے اور اس کی نُور کی چادر کے اندر اپنے تئیں لپٹا ہوا پاتا ہے۔ تب مذہب کی غرض ختم ہو جاتی ہے اور انسان اپنے خدا کے مشاہدہ سے سفلی زندگی کا گندہ چولہ اپنے وجود پر سے پھینک دیتا ہے۔ …‘‘ (جو گندی زندگی ہے، گندہ چولہ ہے، اس گندگی کا، دنیاوی چیزوں کا جو لباس پہنا ہوا ہے، وہ انسان پھینک دیتا ہے۔ جب اُسے اللہ تعالیٰ کا اتنا قرب حاصل ہو جائے۔) ’’… اور ایک نور کا پیراہن پہن لیتا ہے۔ …‘‘ (ایک نیا لباس پہنتا ہے جو نور ہوتا ہے) ’’… اور نہ صرف وعدہ کے طور پر اور نہ فقط آخرت کے انتظار میں خدا کے دیدار اور بہشت کا منتظر رہتا ہے بلکہ اسی جگہ اور اِسی دنیا میں دیدار اور گفتار اور جنت کی نعمتوں کو پا لیتا ہے۔‘‘

(لیکچر لاہور، روحانی خزائن جلد20 صفحہ160۔161)

(خطبہ جمعہ2؍ مئی 2014ء بحوالہ الاسلام)

پچھلا پڑھیں

حضور ایدہ اللہ کا لائیو خطاب

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 26 جون 2021